افغانستان میں طالبان: شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-08-2021
افغانستان،طالبان اور اسلام
افغانستان،طالبان اور اسلام

 

 

awazurdu

پروفیسر اخترالواسع

افغانستان میں طالبان کی بیس سال بعد واپسی نے سب کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔

اگرچہ یہ بات طالبان اور ان کے حامی بار بار دنیا کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اب پرانے طالبان نہیں ہیں اور یہ جتانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں کہ انہوں نے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے، کسی سے انتقام نہیں لیا جائے گا اور پرانی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا-

لیکن امریکی اور ناٹو کی افواج کے انخلاء اور کابل سمیت زیادہ تر علاقوں پر اپنے قبضے کے بعد ایک باضابطہ اور باقاعدہ حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی وہ جس طرح لوگوں کے ساتھ پیش آ رہے ہیں اس سے آنے والے دنوں میں کسی بہتری کی امید کم ہی نظر آتی ہے۔

کچھ بھی ہو، افغانستان کے امور کا کوئی بھی تجزیہ کرنے سے پہلے یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ زمین کی طرح افغانستان کی سیاست بھی پیچیدہ اور سنگلاخ ہے۔

افغانستان کو تاراج کرتے ہوئے وہاں سے آگے گزر جانا تو آسان ہو سکتا ہے لیکن افغانستان پر اقتدار قائم رکھ پانا ہمیشہ مشکل رہا ہے۔

ماضی قریب میں ایک صدی قبل برطانیہ عظمیٰ کا استعمار رہا ہو، بیسویں صدی عیسوی کے نصف ثانی میں سابق سوویت یونین جیسی سپر پاور رہی ہو یا اکیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ، سب کو افغانستان میں افغانوں کے ہاتھوں منہ کی کھانی پڑی ہے اور سبھی بڑے ہی بے آبرو ہوکرافغانستان کی سرزمین سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔

اس لیے دنیا کے کسی بھی ملک کو افغانستان کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دیتے وقت ان حقائق کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ افغان راستہ تو دے سکتے ہیں لیکن غلامی برداشت نہیں کرسکتے۔

طالبان نے قبائلی عصبیتوں کو شریعت کا لبادہ اوڑھا کر اسلام اور مسلمانوں کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔

وہ کون سی شریعت اسلامی ہے جس میں اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ بہتر سلوک نہ کرنے کو کہا گیا ہے؟

اللہ کے آخری رسول سراپا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل رحمت پر کھڑے ہوکر اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں کیا تمام انسانوں کو ایک اللہ کے بندے اور ایک آدمؑ کی اولاد قرار دے کر ہر انسانی تفریق کو نہیں مٹا دیا تھا؟

کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا تھا کہ عورتیں تمہارے پاس خدا کی امانت ہیں؟

کیا نبی امی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ علم حاصل کرنا فرض ہے ہر مسلمان مرد پر اور ہر مسلمان عورت پر؟

کیا آپؐ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر قبر تک؟

اگر یہ سب صحیح ہے تو پھر کس بنیاد پر لڑکیوں کو حصول تعلیم سے روکا جا سکتا ہے؟

کیا یہ سچائی نہیں کہ قرآن کریم میں جہاں اور جتنے اوصاف اللہ نے مردوں کے بتائے ہیں وہیں ساتھ ساتھ وہی اوصاف عورتوں کے بھی بتائے ہیں؟

عورت اور مرد کو قرآن میں اللہ رب العزت نے ایک دوسرے کے لئے لباس قرار دیا ہے۔ صنفی مساوات کا اس سے بہتر اور بلیغ استعارہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ مکہ مکرمہ میں اپنے زمانے کی بہت بڑی ایکسپورٹر اور امپورٹر نہیں تھیں جن کا سامان تجارت یمن سے شام اور شام سے یمن تک درآمد اور برآمد کیا جاتا تھا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم سے شادی کے بعد اور خاص طور پر نبی ؐ اکرم کی بعثت کے بعد بھی انہیں اللہ اور اس کے رسول نے اس سے نہیں روکا؟ کیا یہ صحیح نہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ہمیں ایک تہائی شریعت ملی ہے؟

کیا حضرت عائشہؓ امت کی ماں ہونے کے ساتھ ہماری پہلی معلمہ بھی نہیں تھیں؟

کیا قرآن کریم کی مصحف کے طور پر امانت دار ام المومنین حضرت حفصہؓ نہیں تھیں؟ اسی طرح ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کی فہم و فراست اور سیاسی تدبر سے کون انکار کر سکتا ہے؟

کیا سیدہ زینبؓ نے امام حسینؓ اور ان کے رفقاء کی شہادت کے بعد جس طرح لٹے پٹے خاندانِ رسالت کی شیرازہ بندی کی، اس کی ناموس کی حفاظت کی، اس سے انکار کیا جا سکتا ہے؟ اگر خاندان رسالت کی اپنی نیک بی بیوں اور اُمت کی ماؤں کے لئے جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے جائز رکھا وہ اُمت کی بیٹیوں کے لئے کس طرح ناجائز ہو سکتا ہے؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتح مکہ کی حیثیت سے بلدالامین میں پہنچے تو امن و امان کے قیام کو آپ نے اولین ترجیح دی۔ لوگوں سے پرانے ظلموں کا کوئی انتقام نہیں لیا بلکہ جب اپنے قافلے میں شریک کسی کی یہ آواز سنی کہ ”آج کا دن انتقام کا دن ہے۔

“ تو آپ نے اس کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ نہیں ”آج کا دن رحمت کا دن ہے۔ عفو در گزر کا دن ہے۔“ کیا یہ صحیح نہیں کہ آپ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ محبت کا سلوک کیا؟ شریعت یہ ہے وہ نہیں جس کا خوف طالبان پیدا کر رہے ہیں۔

بامیان میں مہاتما بدھ کے سینکڑوں سال پرانے مجسمے توڑنا اور بدھسٹ دنیا کو اسلام اور مسلمانوں کا حلیف بنا دینا، قندھار میں انڈین ایئر لائنس کے طیارے کو اغوا کرکے اس کو سیاسی بلیک میلنگ کا ہتھیار بنانا، ان کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟

اسی طرح وہ ممالک جن میں ہندوستان بھی شامل ہے اور جس نے نئے افغانستان کی تعمیر میں غیرمعمولی وسائل صرف کئے ہیں، اس سب کا نیک نیتی کے ساتھ اعتراف ہونا چاہیے کیوں کہ یہ تمام تعمیری سرگرمیاں کسی ایک شخص یا حکمراں خاندان کی بہبود کے لئے نہیں بلکہ عام افغانیوں کے لئے کی گئی تھیں۔

اب افغانستان میں مل جل کر ایک ایسی حکومت بنے جس میں سب افغانی بلا جنسی تفریق کے شریک ہوں، سیاسی اغراض کے لئے مذہب کا استحصال نہ ہو اور وہ افغانستان جس کا خواب کبھی امیر امان اللہ یا ظاہر شاہ نے دیکھا تھا وہ دنیا کے نقشے پر ابھر کر آئے۔

طالبان کو ایک بات بخوبی سمجھنی چاہیے کہ دنیا بھر کے مسلمان غیر مسلم اکثریتی معاشروں میں اپنے لئے بحیثیت مذہبی اقلیت جو آزادیاں، حقوق اور مراعات چاہتے ہیں وہ مسلم اکثریتی ملکوں اور معاشروں میں غیرمسلم اقلیتوں کو پہلے سے دیں تاکہ دنیا کے سامنے ایک مثال اور نظیر سامنے آ سکے۔

(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)