کہانی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ’یہودی‘ آپا جان کی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-09-2025
کہانی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ’یہودی‘ آپا جان کی
کہانی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ’یہودی‘ آپا جان کی

 



منصور الدین فریدی ۔ نئی دہلی 

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار 

یہ مصرعہ  دراصل  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک قبرستان ’گلشن فردوس ‘ کی اس قبر پر صادق آتا ہے،جو نہ صرف جامعہ ملیہ بلکہ شاید ہندوستان کے مسلم قبرستانوں میں کسی یہودی  کی واحد قبر ہے۔جس کے سرہانے یعنی اس کے کتبے پر درج ہے گرڈا فلپس بورن ۔ یہ قبرستان تنگ گلیوں سے گزرنے کے بعد آتا ہے۔ جس کے صدر دروازے پر گلشن فردوس کا سائن بورڈ نصب ہے ۔ یہ قبرایک یہودی خاتون کی ہے ،جنہیں  کبھی جامعہ ملیہ میں ’آپا جان‘ کہا جاتا تھاکیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دس سال  اس تعلیمی ادارے کے لیے وقف کردئیے تھے ۔آج وہ اپنی خواہش کے سبب گلشن فردوس کی آخری آرام گاہ میں تو ہیں مگر انہیں نہ کوئی جانتا ہے اور نہ پہچانتا ہے ۔حالانکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مرکزی دفتر میں ان  کی تصویر دیوار پرضرور نظر آتی ہے ۔تاریخ میں انہیں جامعہ ملیہ کی خاتون اول کہا جاتا ہے کیونکہ اس ادارے  سے جڑنے والی وہ پہلی خاتون تھیں 

گرڈا فلپس بورن  دراصل جامعہ ملیہ  کے لیے زندگی وقف کرنے والوں کی فہرست میں شامل رہیں۔جنہوں نے دوسری جنگ عظیم سے قبل جرمنی سے کوچ اور ہندوستان کا رخ کیا ۔ جامعہ ملیہ کا حصہ بنیں لیکن ہندوستان چونکہ اس جنگ میں جرمنی کا حریف تھا اس لیے برطانوی حکومت نے انہیں جاسوس ہونے کے شک میں سلاخوں کے پیچھے بھی ڈال دیا گیا مگر یہ آپا جان تھیں جنہوں نے جیل سے باہر آنے کے بعد  مرتے دم تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کی خدمت کی۔جو جرمنی میں نازیوں کے عروج کے سبب  ہندوستان آئی تھیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے کچھ اس طرح جڑ گئی تھیں کہ جسم اور روح کا رشتہ بن گیا تھا ۔ فلپس بورن کے بارے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ پر پرانی تاریخی کتابوں میں ذکر موجود ہے لیکن ایک یہودی خاتون کی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے محبت اور خدمت کے بارے میں سب سے تفصیلی خراج عقیدت مرحومہ صغرا مہدی نے ایک کتاب ’ بچوں کی آپا جان‘میں پیش کیا ہے۔

جامعہ ملیہ پر جان نچھاور کرنے والی ’آپا جان‘ کی قبر 


کون تھیں وہ ؟

 دراصل 1895 میں شمالی جرمنی کے خوشحال تجارتی قصبے کیل میں پیدا ہونے والی فلپس بورن کے والد اور چچا کا کپڑے اور ریڈی میڈ ملبوسات کا کاروبار تھا۔ خاندان ’’اسیمی لیٹڈ یہودی‘‘ کہلاتا تھا، یعنی مذہب کے کھلے نشان نہیں اپناتے تھے۔ بعد ازاں جب یہ خاندان برلن منتقل ہوا تو گرڈا نے اوپیرا اور تھیٹر میں دلچسپی لی اور 1912/13 میں اسکول مکمل کیا، کیونکہ اس وقت خواتین کو کالج میں داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ ان کا مقصد ایک پیشہ ور اوپیرا گلوکارہ بننا تھا، اس لیے 1908 میں برلن اسٹرن کنزرویٹری میں داخلہ لیا۔ بطور اوپیرا سنگر وہ موسیقاروں اور فنکاروں سے جڑی تھیں۔ اپنے پارٹنر کے ذریعے، جو البرٹ آئن سٹائن کے ساتھ کام کرتے تھے، سائنسدانوں سے بھی تعلق رکھتی تھیں۔ وہ یہودی فلسفی مارٹن بوبر اور ادیب فرانز کافکا کی دوست تھیں۔ وہ اپنے ہندوستانی ساتھیوں کو کنسرٹس، اوپیرا، ڈراموں، آرٹ نمائشوں اور اسکولوں میں لے جایا کرتی تھیں

کیسے شروع ہوا یہ رشتہ

  گرڈا فلپس بورن کے ہندوستان سے جڑنے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا رخ کرنے کا سبب  ہندوستان کے تین دوستوں سے ملاقات بتائی جاتی ہے ۔ جو کوئی معمولی نوجوان نہیں بلکہ  ڈاکٹر ذاکر حسین ، عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب تھے۔یہ ملاقات برلن کی ایک محل میں ہوئی تھی ۔ یہودی جرمن خاتون اور تین ہندوستانی مسلم نوجوانوں کی بظاہر ایک اتفاقی ملاقات نے نہ صرف اس خاتون کی زندگی بلکہ کسی حد تک جامعہ کے ارتقا کو بھی بدل ڈالا۔ 1920 کی دہائی میں سہاسنی چیٹوپادھیائے (سروجنی نائیڈو کی چھوٹی بہن) اور ان کے شوہر اے سی این نئمبیار کے گھر ایک پارٹی میں گرڈا فلپس بورن کی ملاقات تین ہندوستانی نوجوانوں سے ہوئی۔ جوسب کے سب پڑھے لکھے، انگلینڈ یا جرمنی میں تعلیم یافتہ، لیکن اپنے ملک کو آزاد کرنے اور اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کے مثالی جذبے سے سرشار تھے ۔ان میں ڈاکٹر ذاکر حسین، جو حیدرآباد کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم پائی تھی اور برلن میں اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کر رہے تھے تاکہ سیکھا ہوا علم جامعہ میں لا سکیں۔ دوسرے عابد حسین تھے،جنہوں نے جرمنی سے تعلیم میں ڈاکٹریٹ کیا تھا۔ تیسرے محمد مجیب آکسفورڈ سے تاریخ میں بی اے کر چکے تھے اور برلن میں طباعت کے عملی طریقے سیکھ رہے تھے۔

جرمنی کو الوداع

1926 میں جب ان کے دوست واپس جامعہ ملیہ  چلے گئے تو گرڈا فلپس بورن تنہائی محسوس کرنے لگیں۔ ان کی والدہ وفات پا چکی تھیں، والد کا کاروبار ختم ہو گیا تھا، بہن بھائی اپنی زندگیوں میں مصروف تھے۔ انہوں نے ایک یہودی پارٹنر سے شادی اور امریکہ منتقل ہونے سے انکار کر دیا۔ وہ زیادہ باغی تھیں اور سماجی تجربات اور یوٹوپیائی وعدوں کی طرف کھنچتی تھیں۔اسی جذبے نے انہیں فلسطین پہنچایا، لیکن جلد ہی وہ صیہونی تحریک کے سیاسی رجحانات سے بددل ہو گئیں۔ اس وقت جر منی کے حالات اس دوران تیزی کے ساتھ بدل رہے تھے اور نازیوں کا عروج  ہورہا تھا،۔فلپس بورن بھی دیکھ رہی تھیں کہ جرمنی پر نازی ازم کا عروج ہونے والا تھا، ان کا سیاسی شعور بہت پختہ تھا، انہوں نے اچانک اپنے دوستوں کے پاس ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کو ٹیلی گرام  دیا ۔جس کے بعد ممبئی پہنچ گئیں ۔جبکہ  یکم جنوری 1933 کے دن جامعہ ملیہ میں قدم رکھا تھا۔ اس دوران دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کے خطوط سے اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا جرمنی چھوڑ دینے کا فیصلہ کس قدر درست تھا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قبرستان ’گلشن فردوس‘کا داخلی دروازہ اور’آپا جان‘ کی خستہ حال قبرکی جانب جانے والا تنگ راستہ  


 جامعہ ملیہ میں آمد

جب فلپس بورن نے جامعہ ملیہ میں قدم رکھا تو پہلے ہی خبر پھیل چکی تھی کہ ایک میم صاحب کی آمد آمد ہے، وہ دسمبر1932 میں جامعہ پہنچیں اور جنوری 1933سے اپنا کام سنبھال لیا۔انہیں نرسری کینڈر گارڈن کا انچارچ بنایا گیا تھا۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ آنے والے دنثوں اور تاریخ کے پنوں میں انہیں ایک دن ’’آپا جان‘‘ کے طور پر جانا جائے گا۔جامعہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ یہاں کے کام کرنے والے لوگ ایک خاندان کی طرح یہاں رہتے، کوئی چھوٹا بڑا نہیں تھا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے۔ فلپس بورن بھی اس خاندان کا حصہ بن گئیں۔ انہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ ہندوستانی عورتیں گھر کی چہار دیواری میں رہتی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی دنیا الگ الگ ہے۔ مرحومہ صغرا مہدی نے اپنی کتاب آپا جان میں جامعہ ملیہ کے ایک اور استاد عبدالغفار مدھولی کی آب بیتی کا ذکر کیا ہے ،جنہوں نے اپنی آپ بیتی ’’ایک معلم کی زندگی‘‘ میں فلپس بورن کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کو بچوں کی خدمت سے مطلب تھا، چاہے وہ جرمنی کے ہوں یا ہندوستان کے۔ جرمنی میں ایسی عورتوں کی کیا کمی ہے۔آپ نے سوچا ہندوستان کی عورتیں ابھی بچوں کو پڑھانے کے معاملے میں پیچھے ہیں، لہٰذا ان ہی کے درمیان رہ کر ان بچوں کی خدمت کرنا چاہیے۔

اسی طرح ڈاکٹر ذاکر حسین کے قریبی دوست پروفیسر مجیب نے بھی لکھا ہے کہ جتنے نمونے کے کام آپا جان نے جامعہ میں کیے اور کسی نے نہ کیے ہوں گے۔وہ جامعہ کے کارکنوں کے گھرو ں میں بے تکلفی سے جاتی تھیں، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتی تھیں اور ان کے گھر کی خواتین کو یہ احساس دلاتی تھیں کہ جامعہ کس قدر اہم ادارہ ہے اور اس میں کام کرنے والے کس قدر اہم اور کیسی قربانی کر کے اس ادارے کو چلارہے ہیں اور اس میں ان لوگوں کو بھی حصہ لینا چاہیے۔اسی کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھاتی تھیں کہ مسلمان عورتیں پردے میں رہ کر سب کام کرسکتی ہیں۔ خاص طور سے سماجی فلاح و بہبود کے کام جس کی ہندوستان میں، بالخصوص مسلمانوں میں سخت ضرورت ہے۔اسلام میں ان کاموں کی اور مذاہب کی طرح بہت تاکید کی گئی ہے اور عورتوں پر بھی ان کاموں کے کرنے کی اتنی ہی ذمے داری ہے جتنی مردوں پر۔

جیل کیوں گئیں

بچوں کی آپا جان میں مرحومہ صغری مہدی لکھتی ہیں کہ جب وہ ہندوستان میں تھیں،اس دوران دنیا کے نقشے پر دوسری عالمی جنگ کی جو بساط بچھی ہوئی تھی اس میں ہندوستان اور جرمنی ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس نتیجہ یہ نکلا کہ برطانوی حکومت نے انھیں’’دشمن‘‘ قرار دے کر گرفتار کر لیا۔اس وقت وہ ’’خاکسار منزل ‘‘میں وارڈن تھیں۔ انہیں احمد نگر کے قلعے میں نظربند کردیا گیا تھا ۔ جامعہ میں کام کرنے والوں کے لیے یہ نہایت دکھ کی بات تھی ، وہ لوگ جو ہندوستان کی جدوجہد آزادی سے جڑے ہوئے تھے انہیں قلعہ احمد نگر کی سختیوں کا اچھی طرح اندازہ تھا ۔اعلیٰ سطح کے کچھ لوگوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے وہاں جا کر ان سے ملاقاتیں کیں اور جامعہ کے اساتذہ اور آپا جان پر جان چھڑکنے والے شاگردوں کے بنائے ہوئے تحائف بھی انھیں پہنچائے۔دیار غیر میں اور ہزاروں میل دور رشتہ داروں اور دوستوں کی زندگی اور موت کی کشمکش کے دوران وہ ان لوگوں کے درمیان تھیں جو نہ ان کے ہم زبان تھے اور نہ ہم مذہب لیکن کیا چھوٹے اور کیا بڑے سب ہی ان پر جان چھڑکتے تھے۔ جب قلعہ احمد نگر سے رہائی ملی تو جامعہ ملیہ میں ان کی آمد کا جشن بنایا گیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹاف کا گروپ فوٹو جس میں ’آپا جان‘ بھی نظر آرہی ہیں 


رہائی کے بعد پھر کیا جامعہ  ملیہ کا رخ

 احمد نگر قلعہ سے رہائی کے بعد وہ دوبارہ اپنے مشن میں جٹ گئی تھیں ،خاکسار منزل میں رونق آگئی تھی ۔وہ جامعہ ملیہ کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں ،جب تک وہ صحت مند رہیں بھاگ دوڑ کرتی رہیں۔لیکن جب کینسر نے جکڑا تو  پھر کمزور تو پڑیں لیکن بستر سے بھی اسکول کا کام کرتی تھیں ،اگر  بات  گرڈا فلپس بورن  کی زندگی کے آخری لمحات کی کریں تو ایک واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر حسین ان کے بغیرجامعہ  ملیہ کے لیے وعدہ شدہ گرانٹ لینے نہیں جانا چاہتے تھے۔مگر خراب صحت کے سبب  انہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کو تنہا بھیجا، جبکہ بستر مرگ پر جامعہ  ملیہ کے بارے میں اچھی خبر کا انتظار کرتی رہیں۔ اچھی خبر آئی اور وہ شدید درد کے عالم میں سکون سے مسکرا دیں۔ جو ان کی آخری مسکراہٹ تھی۔اپریل ۱۹۴۳ کو ان کا انتقال ہوا تو جامعہ کی تعلیمی بستی سوگ میں ڈوب گئی تھی ۔۔ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے جامعہ ملیہ کے قبرستان میں انہیں  آخری آرام گاہ پہنچایا گیا، جہاں آج بھی ان کی قبر اور جامعہ ملیہ کا ایک گرلز ہوسٹل ۔۔ جی پی ہوسٹل، جی پی ڈے کئیر سینٹر اس انوکھی محبت اور رشتے کی کہانی بیان کررہے ہیں ۔ 

جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایک یہودی خاتون کی محبت کی کہانی کو صغری مہدی نے  ادارے کے 75 سال مکمل ہونے پر پیش کیا تھا۔اس کتاب میں آپا جان کا ایک پیغام  کسی سبق سے کم نہیں ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ  ہم لوگ اگرکسی کی خدمت کرتے بھی ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے مذہب کا اور ہم قوم ہو۔ ہمارا ہم وطن ہو جب کہ خدمت خلق میں کسی قسم کی شرط نہیں ہونی چاہیے۔ چونکہ خدمت خلق کا راستہ ہی وہ راستہ ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا ہے۔ ہم ابتداء سے یہ بات بچوں کو سمجھا دیں اور عملی طور پر اس کی مثال ان کے سامنے پیش کریں تو یہ بات ان کے ذہن نشین ہوجائے گی اور بڑے ہوکر وہ اس پر عمل کریں گے

آپ دیکھ سکتے ہیں آواز دی وائس کی 19ستمبر 2024کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی یہودی آپا جان پر خاص پیشکش 

 ا