صدیوں پرانی شاہراہوں کی کہانی ،جو عازمین کو پہنچاتی تھیں حج کی منزل تک

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 07-06-2025
  صدیوں پرانی شاہراہوں کی کہانی ،جو عازمین  کو پہنچاتی تھیں حج کی منزل تک
صدیوں پرانی شاہراہوں کی کہانی ،جو عازمین کو پہنچاتی تھیں حج کی منزل تک

 



زیبا نسیم : ممبئی

 اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب سے حج مسلمانوں پر فرض ہوا تب سے دنیا بھر سے حاجیوں کے قافلے مختلف راستوں سے سفر کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچتے رہے ہیں۔ قدیم ادوار میں باقاعدہ حج کے لیے مخصوص شاہراہیں تعمیر کی گئیں، جن کے اطراف میں وقت کے ساتھ ساتھ تجارتی مراکز، کاروان سرائیں اور بازار وجود میں آئے۔ یہ حج شاہراہیں نہ صرف عبادت کا ذریعہ بنیں، بلکہ طویل عرصے تک مختلف اقوام و تہذیبوں کے درمیان ثقافتی روابط، تجارتی لین دین اور علمی و فکری تبادلے کا مؤثر وسیلہ بھی رہیں۔

تاریخ کی کتابوں میں 7 بڑی حج شاہراہوں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ اسلامی ریاست کے مختلف گوشوں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک بنائی گئی تھیں

درب زبیدہ – اسلامی تاریخ کی سب سے مشہور حج شاہراہ

حج کے سفر کی شاہراہوں میں سب سے معروف اور باوقار راستہ "درب زبیدہ" ہے، جسے عربی میں درب الحاج العراقی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ شاہراہ عراق کے شہر کوفہ سے شروع ہو کر مکہ مکرمہ تک پہنچتی ہے اور تاریخ میں اسے اسلامی دنیا کی سب سے اہم حج اور تجارتی گزرگاہ کا درجہ حاصل ہے۔اسلام سے پہلے یہ راستہ "الہیرہ – مکہ" سڑک کے نام سے مشہور تھا، جبکہ الہیرہ موجودہ کوفہ کے قریب ایک معروف مقام تھا۔ اسلام کی روشنی پھیلنے کے بعد کوفہ ایک بڑا علمی اور سیاسی مرکز بن گیا، اور اس سے مکہ و مدینہ کی طرف جانے والا راستہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا۔یہ عظیم الشان شاہراہ عباسی دور کی بااثر خاتون، زبیدہ بنت جعفر (خلیفہ ہارون الرشید کی اہلیہ) کے نام سے منسوب ہے جنہوں نے اس راستے کو سہل اور محفوظ بنانے کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔ پانی کے ذخائر، کنویں، آرام گاہیں، حوض اور دیگر سہولیات مہیا کر کے انہوں نے حاجیوں کی آسانی کو یقینی بنایا۔ اسی نسبت سے یہ شاہراہ “درب زبیدہکہلائی۔یہ شاہراہ سعودی عرب کے پانچ بڑے علاقوں - حدود شمالیہ، حائل، القصیم، مدینہ منورہ، اور مکہ مکرمہ - سے گزرتی ہے اور اس کی لمبائی 1400 کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔اسلامی خلافت کے مختلف ادوار، خصوصاً خلافت عباسیہ اور سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں یہ شاہراہ حاجیوں، علما، تاجروں اور کاروانوں کے لیے زندگی کی علامت بنی رہی۔ درب زبیدہ محض ایک راستہ نہیں، بلکہ یہ اسلامی تمدن، ایثار اور عبادت کے جذبے کا تاریخی شاہکار ہے۔

البصرہ حج شاہراہ

یہ شاہراہ عراق کے شہر البصرہ سے حج کے لیے ایک اہم راستہ تھی۔جوبصرہ سے شروع ہو کر وادی الباطن اور صحرا الدھنا جیسے دشوار گزار علاقوں سے گزرتی ہے۔ یہ راستہ قصیم سے بھی گزرتا ہے، جہاں میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں۔ آگے چل کر یہ شاہراہ کوفہ سے آنے والے راستے کے ساتھ ام خرمان کے مقام پر مل جاتی ہے، جو مشہور میقات ذات عرق سے قریب ہے۔

درب الحاج المصری – مصری حاجیوں کا تاریخی راستہ

مصری حاجیوں کا سفرِ حج ایک اہم تاریخی شاہراہ کے ذریعے ہوتا تھا، جسے "درب الحاج المصری" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ راستہ ابتدائی اسلامی دارالحکومت فسطاط (موجودہ قاہرہ) سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک جاتا تھا۔فسطاط، جو اب عظیم قاہرہ کا حصہ ہے، سے حاجی روانہ ہو کر مختلف مقامات جیسے جسر السویس، عقبہ، حقل، شرف بنی عطیہ، البدع، ضبا، الوجہ، ام لج، ینبع، البحر، البدر، مستورہ، رابغ، قضیمہ، خلیص اور جموم سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچتے تھے۔قاہرہ حج کا اہم مرکز تھا جہاں مغربی اور وسطی افریقہ کے حاجی جمع ہوتے، جب کہ اندلس (اسپین) سے آنے والے حاجی سمندر کے راستے قاہرہ پہنچتے۔ اس شاہراہ پر سفر کرنے والا مصری قافلہ "محملِ مصری" کے نام سے مشہور تھا، جو شاہی انداز اور عسکری محافظوں کے ہمراہ روانہ ہوتا۔ یہ راستہ نہ صرف حج کا ذریعہ تھا بلکہ اسلامی تہذیب، ثقافت اور وحدت کا ایک زندہ نشان بھی تھا۔

درب الحاج الشامی – دمشق سے مکہ تک ایک عظیم روحانی سفر

تاریخی حج شاہراہوں میں "درب الحاج الشامی" کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ راستہ شام کے دارالحکومت دمشق سے شروع ہو کر درجنوں منزلیں طے کرتے ہوئے مدینہ منورہ اور پھر مکہ مکرمہ تک پہنچتا تھا۔ دمشق سے مدینہ تک کا سفر ایک ماہ سے زائد عرصے میں مکمل ہوتا تھا، اور حاجیوں کا قافلہ شاہی انداز میں "محملِ شامی" کے نام سے جانا جاتا تھا۔یہ شاہراہ محض ایک راستہ نہیں بلکہ اسلامی سلطنت کی عظمت اور خلفا کی دینی ذمہ داریوں کا مظہر تھی۔ خلفائے راشدین اور بعد ازاں خلفائے بنو امیہ نے اس شاہراہ کو خصوصی اہمیت دی۔ پورے راستے پر علامتی مینار تعمیر کیے گئے تاکہ قافلوں کی راہنمائی ہو سکے۔ پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے کنویں اور حوض بنوائے گئے، اور مسافروں کے آرام کے لیے آرام گاہیں بھی قائم کی گئیں۔اموی دور میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے درب الحاج الشامی پر روشنی کا انتظام کروایا تاکہ قافلے رات کے وقت بھی محفوظ سفر کر سکیں۔ تبوک اور وادی القری جیسی اہم منزلوں میں موجود مساجد کو از سر نو تعمیر کرایا گیا۔ ان اقدامات کو خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے بھی جاری رکھا اور راستے کو مزید بہتر بنایا۔درب الحاج الشامی صرف ایک سفری راستہ نہ تھا بلکہ اسلامی ثقافت، عبادت، یکجہتی اور خدمتِ خلق کا زندہ مظہر تھا جو صدیوں تک امت مسلمہ کو جوڑتا رہا۔

یمنی حج شاہراہ

یہ شاہراہ یمن سے حج کے لیے ایک اہم راستہ تھی۔ یہ شاہراہ قدیم زمانے سے یمن کو حجاز سے جوڑے ہوئے ہے۔ یہ کئی شاہراہوں کا مجموعہ ہے۔ یہ مختلف علاقوں اور شہروں سے گزرتی ہیں۔ ان میں عدن، تعز، صنعا، زبیدہ اور شمالی یمن کا علاقہ صعدہ قابل ذکر ہیں۔یمنی حاجی تین شاہراہوں ’الساحلی، داخلی اور الاعلی سے حج پر آتے ہیں۔

عمانی حج شاہراہ

یہ شاہراہ عمان سے حج کے لیے ایک اہم راستہ تھی۔ عمان سے حاجی یبرن، پھر بحرین اور یمامہ کے راستے ضریہ سے حج پر جاتے تھے۔ عمانی حاجی اس شاہراہ سےحج پر آتے تھے۔ عمانی حاجی اول تو عمان سے یبرن وہاں سے بحرین اور پھر یمامہ ہوتے ہوئے ضریہ آتے تھے۔ ضریہ بصرہ اور بحرین کے حاجیوں کا سنگم ہے۔عمانی حاجی الاحسا کے علاقے سے ہوتے ہوئے الیمامہ مکہ مکرمہ شاہراہ استعمال کیا کرتے تھے۔

البحرین الیمامہ شاہراہ

یہ بصرہ حج شاہراہ کااہم حصہ ہے۔ البحرین الیمامہ شاہراہ بے حد اہم ہے۔ یہ جزیرہ عرب کے وسطی علاقوں سے گزرتی ہے۔ یہ حجاز اور عراق کو بھی جوڑتی ہے۔اسلامی ریاست نے بحرین یمامہ مکہ المکرمہ حج شاہراہ میں دلچسپی لی ۔اس پر اہم خدمات مہیا کی گئیں۔ رہزنوں سے حاجیوں کی حفاظت کے انتظامات کئے گئے۔ الیمامہ شاہراہ بصرہ حج شاہراہ سےمل جاتی تھی۔ یہ شاہراہیں تاریخی طور پر حج کے لیے استعمال ہوتی تھیں،ان کے نام بھی ان راستوں سے منسلک ہیں۔ ان شاہراہوں کی وجہ سے مختلف خطوں سے آنے والے حاجیوں کے لیے حج کرنا آسان ہو گیا تھا

ثقافت کو فروغ

حج کی شاہراہیں مسلمانوں کے درمیان تعلق اور ثقافت کو فروغ دینے کاذریعہ بنی تھیں۔ ان راستوں نے نہ صرف سفر کا سلیقہ سکھایا بلکہ مختلف علاقوں کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام بھی کیا۔ یہ راستے کئی صدیوں تک آباد رہے اور ان پر سفر صرف حج اور عمرے کے لیے ہی نہیں ہوتا تھا، بلکہ لوگ سال بھر مختلف کاموں اور مقاصد کے لیے بھی ان پر سفر کرتے رہتے تھے۔حج کے لیے ایک نہیں بلکہ کئی راستے تھے۔ مسلمان حکمران اور خلفا ان شاہراہوں کی بہت اہمیت دیتے تھے، جس کا ثبوت ’امیرِ حجکے عہدے سے ملتا ہے۔ امیرِ حج کا کام حاجیوں کی دیکھ بھال کرنا، راستے میں مسافروں کے لیے سہولتیں مہیا کرنا، آرام گاہیں بنوانا اور منزلوں کے فاصلے بتانا ہوتا تھا۔خلیفہ عمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت (634-644ء) میں مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے راستے پر خاص توجہ دی گئی۔ انہوں نے راستے میں کئی ٹھہرنے کی جگہیں اور آرام گاہیں بنوائیں تاکہ حاجیوں اور مسافروں کو سفر میں سہولت ہو۔اسلام کے ظہور سے بھی کئی صدیوں پہلے سے حج کا سلسلہ جاری ہے، اور ان راستوں کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ ان حج شاہراہوں پر وقت کے ساتھ قلعے، قصر (محل)، مسافر خانے اور کنویں بنائے گئے تاکہ حاجیوں کو پانی اور آرام کی سہولت ملسکے۔

شاہراہوں کا تاریخی کتابوں میں ذکر

تاریخ کے مشہور مؤرخوں اور سیاحوں نے اپنی کتابوں میں حج کےراستوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ان میں ناصر خسرو، ابو اسحاق الحربی، ابن حوقل، علی یعقوبی، یاقوت الحموی، الخوارزمی، ابن خرداذبہ، المسعودی، البیرونی، ابن جبیر، البکری، ابن بطوطہ، الادریسی، الحمدانی، عبدالغنی النابلسی اور ابن فضلان جیسے معروف نام شامل ہیں۔حج کی ان شاہراہوں نے صرف عبادت کا راستہ فراہم نہیں کیا، بلکہ علم و فن، ثقافت، اور تجربات کے تبادلے کا بھی ایک سنہری دروازہ کھولا۔ ان راستوں سے مفسرین، محدثین، فقہا، مشہور ادیب، شعرا، تاجر، اور معمار گزرے جنہوں نے نہ صرف اپنے علم کو پھیلایا بلکہ ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن سے سیکھا۔یہ راستے کئی طرح کی ہجرتوں اور تاریخی نقل و حرکت کا سبب بنے۔ انہوں نے نئی روایات کو جنم دیا اور مذہبی، ثقافتی، سماجی، اقتصادی اور معاشرتی سطح پر تعلقات کو مضبوط کیا۔ حج کی یہ شاہراہیں ایک طرح سے تاریخ کا ایسا دریچہ بن گئیں جن سے ہم ماضی کے اہم واقعات کو سمجھ سکتے ہیں