اہرام مصر ہے شان مصر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-01-2023
   اہرام مصر ہے شان مصر
اہرام مصر ہے شان مصر

 

 

علی احمد کی تحریر

مصر کے شہر قاہرہ کے قریب ہی دریائے نیل کے مغرب میں یہ تین مثلث نما اونچی پتھر کی عمارتیں ہزاروں سال سے کھڑی ہیں۔انہیں دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک عجوبہ مانا جاتا ہے یہ تقریباً بیس لاکھ پتھروں سے مل کر بنائی گئی ہیں اور 146 میٹر اونچی ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ان میں ایک ہے مصر کی شان اہرام مصر ۔ایک تعمیراتی معجزہ ہے۔

اہرامِ مصر کی تعمیر کا عجوبہ

عہدِ قدیم کا سب سے حیرت انگیز، سائنس اور عقل سے بعید ذہانت اور تعمیرات کا جیتا جاگتا اور ٹھوس ثبوت جو ہمارے سامنے ہے، وہ ہے اہرامِ مصر….

اہرام کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں دنیا کے سات عجائبات میں سب سے قدیم پتھروں سے بنے ہوئے فراعین کے دیوہیکل مقبرے آجاتے ہیں۔ یہ اہرام سرزمینِ مصر کی پہچان ہیں اور صدیوں بلکہ قرنوں سے ریگستان کی جھلسا دینے والی گرم ہواؤں، آندھی، بارش اور بجلی کی کڑک کے باوجود دھرتی پر ایستادہ ہیں۔ اپنی عجیب وغریب ساخت، حیرت انگیز خصوصیات اور پُراسراریت کے سبب آثارقدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہرامِ مصر کشش اور تجسّس کا باعث ہیں۔ بڑے بڑے پتھروں کو اس عمدگی سے اس قدر بلندی پر جڑ ے ہوئے دیکھ کر ہر کوئی قدیم مصری تہذیب کے کاریگروں کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

یہ حیرت انگیز اہرام آج سائنس دانوں کے ذہنوں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈالے ہوئے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال اُبھر تاہے کہ آخر اس نادرِ اور عجوبہ ٔروزگار عمارت کو کیوں اور کس طرح تعمیر کیا گیا ہوگا….؟

اہرام پر صدیوں سے ریسر چ جاری ہے۔ جدید سائنسدانوں، فلسفیوں، آرکیالوجسٹ اور ماورائی علوم کے ماہرین نے اہرام کی تعمیر کے مقصد کے بارے میں گزشتہ دوسوسالوں سے بہت کچھ لکھا ہے، مگر آج بھی اہرام کے متعلق بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔

خیال اپنا اپنا 

بعض ماہرین مصریات اہرام کو محض مقبرہ یا پھر معبد قرار دیتے ہیں لیکن بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ اہرام قدیم علوم کے محافظ ہیں….انتہائی ہولناک تباہیوں اور طوفانوں کے خطرہ کے پیش نظر قدیم لوگوں نے اپنے علوم، کتابیں، ایجادات اہرام کے خفیہ کمروں میں محفوظ کرلی تھیں تاکہ انہیں محفوظ رکھ سکیں۔ کچھ ریسرچرز کا خیال ہے کہ اہرام خلائی مخلوق یو ایف او نے تعمیر کیے ہیں، تاکہ وہ دوسرے سیاروں سے رابطہ قائم کرسکیں یا پھر یہ علمِ نجوم کے لیے بنائی گئی رصدگاہ ہے۔  بعض ماہرین کے مطابق اہرام زلزلوں کو روکنے کا کام کرتے ہیں

چند سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اہرام دراصل پاور پلانٹ ہیں، جنہیں قدیم ادوار کی ترقی یافتہ قومیں توانائی کے حصول کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ یہ توانائی شمسی تھی یا کرسٹل انرجی یا پھر کا سمک ریز، اس حوالہ سے تحقیق ابھی جاری ہے….

پیرانارمل سائنٹسٹ کا کہنا ہے کہ اہرام دراصل ایسے اینٹینا کا کام کرتے ہیں جو توانائی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل اور دوسری جگہ کی توانائیوں کو موصول بھی کرسکتے ہیں۔ ان کے مطابق قدیم اقوام کے لوگ اسے بطور مواصلاتی نظام بھی استعمال کرتے تھے۔ اسی لیے یہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چند محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ مواصلاتی سسٹم ٹیلی پیتھی کے ذریعہ چلتا تھا۔ قدیم مصر کے لوگ اہرام میں بیٹھ کر اپنے ذہن سے خیالات کو دور دراز فاصلے پر موجود اہرام میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک منتقل کردیتے تھے۔

بعض مغربی ریسرچرز کے مطابق اہرام کی ساری پراسراریت اس کی مخصوص بناوٹ اور زاویہ میں پوشیدہ ہے، ان ماہرین کے مطابق اہرام کی ساخت میں ایک خاص توانائی پنہاں ہے، جسے وہ ‘‘بائیوکاسمک انرجی’’ کا نام دیتے ہیں۔

اہرام کے مختلف پہلوؤں پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں، مگر اس کے بارے میں جو کچھ بھی تحقیق پیش کی گئی، وہ ماورائیت یا پُراسراریت کے دائرہ سے باہر نہ نکل سکی….اہرام کا مقصد کیا تھا یہ جاننا تو دُور، ابھی تک سائنس اس بات کا کھوج نہیں لگاپائی ہے کہ یہ اہرام تعمیر کیسے ہوئے ….؟

ایک عام تصور جو اہرام کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتاہے، وہ یہ ہے کہ اس کی تعمیر پانچ ہزار سال قبل فرعون خوفو کے عہد میں شروع ہوئی۔ ایک لاکھ سے زیادہ مزدور درختوں کے رولروں پر بڑے بڑے پتھر رکھ کر رسّوں کی مدد سے کھینچتے ہوئے لاتے….

awazurdu

پتھروں کا استعمال 

صرف غزہ کے  اہرام کی تعمیر میں 30 لاکھ کے قریب گرینائٹ کے پتھر استعمال ہوئے ہیں، جن کا وزن 2.6 ٹن سے 70 ٹن تک ہے۔ گرینائٹ کے پتھروں کو بغیر کسی اسٹین لیس اسٹیل کٹر یا لیزر ٹیکنالوجی کے کاٹنا ناممکن ہے اور پتھر کی سطح اتنی چکنی ہے جیسے چاندی کا ورق۔ اگر آج کی جدید ترین مشینریز کے ذریعہ سینکڑوں میل دور ‘‘اسوان’’کے پہاڑوں سے ٹنوں وزنی گرینائٹ کے بلاکس کاٹ کر فی دن دس بلاکس کے حساب سے بھی لاکر لگائے جائیں تو مکمل اہرام کی تعمیر میں 385سال لگیں گے….اوریہ بھی ظاہر ہے کہ کسی ایک فرعون کی عمر بھی اتنی نہیں تھی کہ وہ محض اپنے مقبرہ کی تعمیر اپنی موت سے 385 سال قبل شروع کراسکے….

دوسری بات یہ کہ آج سے پانچ ہزار سال قبل پوری دنیا کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہوگی ایسے میں صرف مصر جیسے صحرائی خطہ میں جہاں صرف دریائے نیل کے کنارے زرخیز پٹی ہے، وہاں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کا جمع ہونا، جن میں معمار، سنگتراش، ملاح، راہب، سوداگر، کسان سرکاری اہلکار اور فراعین کا اپنا کنبہ الگ، پھر اس صحرائی خطہ میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی رہائش اور خوراک کا انتظام کرنا سراسر ناممکن ہے….

دوسری جانب دیوہیکل پتھروں کو درختوں کے تنوں پر لڑھکانے کی بات تو مصر کے صحرائی خطہ میں درختوں کے اتنی بڑی تعداد میں درختوں کے تنے کہاں کہ ان سے صرف لڑھکانے کا کام لیا جاسکے، کھجور کے چند درخت وہا ں ضرور پائے جاتے ہیں مگران کی کھجوریں بطور خوراک استعمال ہوتی تھیں….

ایک برطانوی ریسرچر کرسٹو فر پی ڈیون برسوں سے اہرام پر ریسرچ کر رہے تھے اُنہوں نے قدیم مصر میں ایڈوانس مشینری کے حوالے سے کئی مضامین اور کتابیں تحریر کی ہیں۔ کرسٹو فر پی ڈیون اپنی کتاب ‘‘غزہ پاور پلانٹ’’ میں تحریر کرتے ہیں کہ وہ 1986ء کے دوران جب مصر میں قاہرہ میوزیم کی سیر کے لیے گئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ میوزیم کے ایک کمرے میں پیتل کے مختلف اوزار رکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

ان پتھروں کو اُٹھا کر یہاں لانا اتنا بڑا کارنامہ نہیں، اس سے بڑا کارنامہ ان کو اِس ترتیب سے کھڑا کرنا ہے کہ ان میں ہر ایک کے درمیان انچ کے ہزارویں حصّے کا بھی فرق نہیں۔ اتنی بڑی چٹانوں کو اس کاریگری سے لگانا کہ ذرا بھی عیب باقی نہ رہے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کام موجودہ دور میں زیرِاستعمال دیوہیکل مشینوں کے ذریعہ بھی ممکن نہیں ہوسکتا….یعنی اس کام کے لیے جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہوگی، موجودہ ترقی یافتہ دور میں اس کا کوئی تصور موجود نہیں ہے….

دماغ چکرا گئے ہیں

پراسرار علوم کے ماہرین ایڈگرکیسی اور لوب سنگ رمپا کے مطابق قدیم مصریوں کے پاس ایسی مشینیں تھیں جو کششِ ثقل کی نفی کرسکتی تھیں۔ جس کی مدد سے کئی ٹن وزنی پتھروں کو پروں کی طرح اُٹھاکر یا ہوا میں تیرا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا۔ایک ماہرِعلومِ مصریات ولیم کنگس لینڈ اپنی کتاب ‘‘گریٹ پیرامڈ ان فیکٹ اینڈ فکشن’’ میں تحریر کرتے ہیں کہ

۔اہرامِ مصر کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کو اُن منتروں کے ذریعے وہاں تک لایا گیا ہے جو پادری اور مزدور پڑھتے تھے….

ایک اور پراسرار علوم کے ماہر اور تھیوسوفسٹ اے پی سینٹ اپنی کتاب ‘‘دی پیرامڈ اینڈ اسٹون ہینج’’ میں لکھتے ہیں

awazurdu

وہ علم کونسا تھا؟ 

عظیم اہرام کی تعمیر میں ایسے بھاری بھرکم پتھروں کو اس قدر سلیقے اور ہنر مندی سے استعمال کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ لوگ فطرت کے کسی ایسے علم پر دسترس رکھتے تھے جو آج انسان کی نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ پوشیدہ فطری علوم کے ماہرین ان پتھروں کو اپنی مرضی کے مطابق ہوا میں تیراتے ہوئے اپنی مطلوبہ جگہ پہنچانے کے طریقے سے پوری طرح واقف ہوں گے۔

اہرام کی تعمیر کرنے والے ماضی کے لوگ نجوم اور ریاضی میں بھی کافی حد تک ایڈوانس تھے۔ ایک اور مغربی ریسرچر ایرک وان ڈینکن کے خیال میں اہرام کمپیوٹر کی مدد سے تعمیر ہوسکتا ہے یا پھر شاید دوسرے سیاروں کی ذہین مخلوق نے لیزر شعاعوں سے بڑے بڑے پتھروں کو تراشا ہوگا اور اینٹی گریویٹی یعنی چیزو ں کو بے وزن کردینے والے آلات سے کام لے کر وزنی پتھروں کو نو سو فٹ کی بلندی تک ترتیب وار جوڑا ہوگا۔

ایرک کے مطابق قدیم زمانے میں مصر ایسا مقام رہا ہے جہاں طوفانِ نوح جیسا عظیم اور تاریخی سانحہ پیش آیا، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ طوفان سے قبل اپنی باقیات کو محفوظ رکھنے کے لیے اہراموں کی تعمیر کی گئی اور طوفانِ نوح سے قبل ایسی قوم موجود رہی ہو جو ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہو۔

سائنسدانوں کے مطابق اہرام مصرآج سے تقریباً پانچ ہزار برس قبل تعمیر کیے گئے، لیکن موجودہ دور میں بھی ایسی ہی محیرالعقول واقعات رونما ہورہے ہیں، جن کی حقیقت کے حوالے سے سائنسدان انگشت بدنداں ہیں اورسمجھ نہیں پارہے کہ انہیں انسانوں نے کیسے بنایا ….؟

یہی صورتحال اہرام مصر کے ساتھ بھی نظر آتی ہے ….اہرام بھی دنیا کے کئی خطوں میں پائے جاتے ہیں اور ان میں بھی مقناطیسی لہروں کی شدت نوٹ کی گئی ہے اور اس کی تعمیر میں بھی انسانی ہاتھوں کا سراغ نہیں مل سکا ہے اور نہ ہی موجودہ دور کی جدیدٹیکنالوجیز سے آراستہ حساس اور دیوہیکل مشینرز اس قابل ہیں کہ ایسی محیرالعقول تعمیر کا کام انجام دے سکیں….

awazurdu

برطانوی مورخ گریگ جینر نے تاریخ کے دلچسپ پہلوؤں کو بیان کیا ہے اور انھوں نے قدیم مصری تاریخ اور ’خلائی آثار قدیم‘ کے ماہر پروفیسر سارہ پارکک اور امریکی مصری مزاح نگار ماریہ شہاتا کے ساتھ دنیا کے اس عجوبے کے بارے میں بات کی۔ اس کا نچوڑ درج ذیل ہے 

  وہ ذہین ریاضی دان تھے

اہرام کی تعمیر صرف بھاری پتھروں کا بوجھ نہیں تھی۔ قدیم مصر میں مارکر تھے (جو لوگ کٹ کے مقام کا تعین کرنے کے لیے لکڑی یا پتھر پر نشان لگاتے تھے) جنھوں نے پتھر کے ٹکڑوں کی تعداد کا حساب لگایا تاکہ اہرام کی جگہ پر لے جایا جا سکے اور یہ بھی تعین کیا گیا کہ زمین میں کوئی ڈھال تو نہیں۔

مثال کے طور پر عظیم خوفو اہرام کے ہر طرف 52 ڈگری کی ایک مقررہ ڈھلوان ہے۔ اہرام بنانے کے لیے استعمال ہونے والے حساب کی درستگی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ ذہین اور ہنر مند ریاضی دان تھے۔

 اہرام کی تعمیر ایک بڑا کام رہا

اگر کسی کو اہرام بنا کر ابدی زندگی مل گئی ہے تو وہ سقرہ میں پہلے اہرام کے ڈیزائنر ایمهوتِپ ہیں۔ ایک ہنر مند معمار ہونے کے علاوہ وہ فرعون کے دربار میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور ایک پادری اور معالج بھی تھے۔ قدیم مصریوں نے انھیں اتنی عزت دی کہ بعد میں انھیں دیوتا کا درجہ دے دیا۔

دراصل 1960 آس پاس فلم بینوں نے ان کے کردار کو اپنے طریقے سے دوبارہ تخلیق کیا اور انھیں فلم ’دی ممی‘ میں ولن کے طور پر پیش کیا، جو جیمز فریزر اور ریچل ویز کو خوفزدہ کرتا ہے۔

کارکن توانا اور مضبوط جسم کے مالک تھے

اہرام بنانے والوں نے توانا اور مضبوط جسم بنانے کے لیے ان پتھروں کو اٹھایا لیکن یہ مرد مشروبات اور پروٹین شیک نہیں پیتے تھے۔ اہرام بنانے والے مزدوروں کے دیہات میں بطخوں، بھیڑوں، خنزیروں اور گائے کی باقیات سے پتہ چلتا ہے کہ اہرام بنانے والے گوشت، روٹی اور بیئر کا بھرپور انداز میں استعمال کرتے تھے۔ ان ملازمین کا قبرستان بھی ایک ہی چیز ظاہر کرتا ہے کیونکہ اس کام کے دوران حادثات بھی پیش آئے لیکن حیرت انگیز طبی دیکھ بھال کی بدولت بہت سے زخم مہلک نہیں تھے اور لوگوں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا بھی علاج کیا گیا۔

awazurdu

کارکن ٹیم ورکر تھے

قدیم گاؤں میں آثار قدیمہ کی کھدائی اہرام کے ہنر مند مزدور کرتے تھے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ غلاموں کو مبینہ طور پر اہرام بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ کہ وہ ہنر مند مزدور تھے جنھوں نے اپنے کام سے اچھی کمائی بھی کی۔ جب اہرام کے ورکروں کے گروپ نے اپنے آپ کو ’فرینڈز آف خوفو‘ کہا تو ایسا لگتا ہے کہ انھیں اپنے کام کے ماحول سے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی استحصال کی کوئی خبر تھی۔ ان گروہوں کی جانب سے چھوڑے گئے پتھروں پر بنی تصاویر اور لیتھوگرافس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں اہرام بنانے والے دوسرے گروپوں کے ساتھ فخر، یکجہتی اور صحت مند مقابلے کا احساس تھا۔

 اہرام پانی کے پاس تھے

آج جیزا کے اہرام ریت کے ٹیلوں کے درمیان واقع ہیں لیکن جب وہ بنائے گئے تھے تو انھیں اس طرح رکھا گیا تھا کہ ان کی تصویر کا عکس دریائے نیل کے پانی پر پڑا، جو اس وقت قریب تھا۔ قدیم مصریوں نے دریائے نیل میں نہریں بنائی تھیں جس کی وجہ سے اہرام کے مقام کے قریب پتھر کے بڑے ٹکڑے تھے۔ قدیم مصر کے فرعونوں کے لیے بعض اوقات ایک اہرام کافی نہیں ہوتا تھا اہرام مختلف اہراموں کا ایک مجموعہ تھا، بشمول چھوٹے اہرام نیز فرعون کے پجاریوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے راستے اور مندر۔

 قدیم مصری فانی تھے

ہزاروں لوگوں کو کئی دہائیوں سے صرف ایک شخص کے لیے قبریں بنانے پر مجبور کرنا وقت اور توانائی کے ضیاع کی طرح لگتا ہے لیکن یہ صرف بادشاہ اور فرعون ہی نہیں تھے جنھوں نے موت کے بعد بھی اپنی زندگی گزاری۔ جیزا کے اہرام سینکڑوں دیگر اہراموں کے مجموعے میں گھرا ہے جو قدیم مصر کے اہم لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں کو ایسی شاہانہ اور تکلیف دہ تدفین کی تقریب پسند نہیں تھی۔ وہ صرف یہ امید کرتے تھے کہ وہ فرعون کے لیے مقدس قبرستان کے اہرام کی تعمیر کے فوراً بعد اپنے دنیاوی انعامات وصول کریں گے۔

 وہ خزانے اور خزانوں سے متوجہ تھے

قدیم مصر کے فرعون بعد کی زندگی کا سفر خالی ہاتھ نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اہرام خزانے کو دفن کرنے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہ تھی۔ جیسا کہ بعض صورتوں میں مقبروں کو اس وقت تک لوٹا گیا جب تک کہ وہ تقریباً ختم نہ ہو گئے۔ جب جدید دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین اہرام تک پہنچے تو اکثر اہرام کے پویلین خالی تھے۔ خوش قسمتی سے قدیم مصر کے کچھ لوٹ مار کرنے والوں نے جائیداد اور خزانے کی ایک فہرست اور تفصیل لکھی جو انھوں نے چوری کی۔ اب ایکشن لینے کی باری لارا کرافٹ کی ہے! (ویڈیو گیمز پر حملہ کرنے والے مقبرے کا مرکزی کردار)

 اہرام اپنی پیچیدہ اور پراسرار سلامتی اور تحفظ کے لیے بدنام

ماہرین آثار قدیمہ کو مصر کے اہراموں میں کوئی کلہاڑی، سانپ کے گڑھے یا یہاں تک کہ عام جال نہیں ملے۔ مقبروں کی چوری کے خلاف تمام احتیاطی تدابیر جیسے اہراموں کے داخلی دروازوں کے سامنے بڑے پتھر رکھنا (جبکہ انڈیانا جونز ایک گہری سانس لیتے ہیں) بیکار تھے۔ اور جہاں تک مصری اہراموں کی بات ہے تو ایسی چیزوں کا بہت زیادہ امکان نہیں کہ راستے میں انتباہ جیسا کچھ ہو: جیسے کہ ’نو انٹری (آپ داخل نہیں ہو سکتے) یا اگر آپ کی جگہ میں ہوتا تو میں ایسا نہ کرتا۔‘

 اہرام مصر اب بھی ماہرین آثار قدیمہ کو پریشان کرتا ہے

ابھی بھی اہرام مصر اور اس کے تعمیر کرنے والوں کے بارے میں بہت کچھ ایسا ہے، جن کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ نہیں جانتے۔ مثال کے طور پر ان بڑے مقبروں میں خالی جگہیں ہیں جن کے بارے میں آثار قدیمہ کے ماہرین اب بھی بحث کر رہے ہیں کہ وہ کس طرح تعمیر کیے گئے تھے۔