ماں کی اہمیت قرآن کی نگاہ میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-05-2022
ماں کی اہمیت قرآن کی نگاہ میں
ماں کی اہمیت قرآن کی نگاہ میں

 

 

مفتی مولانا ظہور عالم

ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ماں شفقت ، خلوص ، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے ۔ ماں دُنیا کا وہ پیارا لفظ ہے جس کو سوچتے ہی ایک محبت ، ٹھنڈک ، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کا سایہ ہمارے لئے ٹھنڈی چھاو¿ں کی مانند ہے ۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا دستِ شفقت شجرِسایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے ۔ اس کی گرم گود سردی کااحساس نہیں ہونے دیتی ۔ خود بے شک کانٹوں پر چلتی رہے ، مگر اولاد کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے اور دُنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہتی ہے اِس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی دُنیا میں پیدا نہیں ہوئی ،آندھی چلے یا طوفان آئے، اُس کی محبت میں کبھی کمی نہیں آتی ۔

وہ نہ ہی کبھی احسان جتاتی ہے اور نہ ہی اپنی محبتوں کا صلہ مانگتی ہے بلکہ بے غرض ہو کر اپنی محبت اولاد پر نچھاورکرتی رہتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ماں کی محبت ایک بحر بیکراں کی طرح ہے ۔ ماں کی بے پایاں محبت کو لفظوں میں نہیں پُرویا جا سکتا ۔خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ، ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ماں کو عظیم اور مقدس قرار دیا ہے ۔ ماں ایک دُعا ہے جو ہر وقت ربّ رحیم کے آگے دامن پھیلائے رکھتی ہے اور قدم قدم پر اُن کی حفاظت کرتی ہے ۔ خُدا نے اس کے عظیم تر ہونے کی پہچان اس طرح کرائی کہ اس عظیم ہستی کے قدموں تلے جنت رکھ دی ۔

قرآن ماں باپ کے بارے میں کہتا ہے: - تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس اللہ کے سوا کسی کی بند گی نہ کرو اور ماں - باپ کے ساتھ اچھا برتاو کرو. اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھاپہ کی منزل پر پہنچ جائیں تو انہیں "اف" تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے مہربانی سے بات کرو.

قرآن مجید کا یہ حکم ہر مسلمان کے لیے واجب ہے اللہ اللہ خداوند عالم کے نزدیک والدین کی یہ عظمت و منزلت کہ ان کے سخت اور تکلیف والے روییہ پر بھی اولاد کو لفظ اف بھی کہنا ان کے مرتبہ کے خلاف ہے کہاں کہ ان کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی اور بد سلوی سے پیش آیا جائے حالانکہ لفظ اف کہنا کوئی بہت بڑی بیاحترامی نہیں ہے عام بات چیت میں اس لفظ کو برا نہیں سمجھا جاتا، لیکن اس لفظ سے مزاج کے خراب ہونے کی بو آتی ہے لہذا اس کو بھی خداوند عالم نے والدین کی شان کے خلاف قرار دیا ہے ۔

جہاں لفظ ماں آیا سمجھ لیا کہ ادب کا مقام آیا میری نظر میں تخلیق کائنات کے وقت اللہ رب العزت نے اس پاک ہستی کو یہ سوچ کر بنایا کہ جب انسان کو دنیا میں کہیں سکون کی دولت نہ ملے گی تو اپنی ماں کی آغوش میں آکر اپنی سوچوں آہوں اور دکھوں کو نثار کرے گا اور ایسی راحت محسوس کرے گا جو اسے کہیں نہ ملی ہو گی ماں جیسی ہستی اس کائنات میں اس کائنات کا ایک جز ہے یہ ہستی اپنے اندر ایک محبت کا سمندر لیئے ہوئے ہے اگر اولاد کو ذرا سا دکھ میں دیکھا فورا محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا اور اس دکھ کو اپنی لہروں میں بہا کر محبت کا سکھ لے آئی اور پھر سے جینے کی کرن ابھار دی اگر تاریخ میں جھانکا جائے تو چاہے ماں جتنا ہی اولاد سے خفا ہو مگر دل سے نہیں ہوتی مگر مجھے تو اس ہستی کے ڈانٹ میں بھی محبت کا اظہار نظر آتا ہے خوش نصیب ہیں وہ جن کی ماں زندہ ہے میرا ایمان ہے کہ کبھی ماں کسی کو دل سے بدعا نہیں دیتی اور اگر کسی نے اس ہستی کو دکھ دیا اور وہ ناراض ہو گئی تو سمجھ لو کہ دنیا سے بھی وہ شخص نامراد گیا اور آخرت میں بھی نامراد رہا اس لیے اس ہستی کا مقام اس کائنات سے بھی بڑا ہے اور محبت کی انتہا بھی اسی ہستی میں ہی ہے بقول تابش کے

گردشیں لوٹ جاتی ہیں میری بلائیں لے کر

گھر سے جب نکلتا ہوں میں ماں کی دعائیں لے کر

لبوں پہ اس کے کبھی بددعا نہیں ہوتی

اک ماں ہی ہے جو مجھ سے خفاء نہیں ہوتی

 ماں دُنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کی محبت کے سامنے ہرانسان کی محبت کم ترہے،ماں جیسی محبت،خلوص اورایثارکوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ ماں اپناوجودکاٹ کر،اپنے حصے کی خوشیاں چھوڑ کراپنی اولاد کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں اوربڑے بڑے ارادوں میں ان کی مددگار ہوتی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کے سامنے صرف اورصرف اولاد کی بہتری اوراس کی خوشی ہوتی ہے۔ماں کی عظمت کااس سے بڑاثبوت کیا ہوگا کہ اللہ کریم جب انسان سے محبت کادعویٰ کرتاہے تواس کے لیے محبت کی مثال ماں کوبناتاہے اور کہتاہے کہ ’’میں انسان کے ساتھ سترماؤں سے زیادہ محبت کرتاہوں۔‘‘ یعنی بے پناہ محبت کرتاہوں۔دوسری جانب ہمارے رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے کافرمان ہے کہ’’ماں کے قدموں تلے تمھاری جنت ہے۔‘‘ اس فرمان سے ماں کے مقام کااندازہ ہوتاہے کہ جوبھی شخص اپنی ماں کی خوشی کاخیال کرتاہے،اس کااحترام کرتاہے اوراس سے محبت کرتاہے تواللہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت لکھ دیتے ہیں۔

ماں کی عظمت کے بارے میں ایک واقعہ بہت اہم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے زمانے میں ایک شخص قریب المرگ تھا مگرنہ تواُس کی زبان سے کلمہ جاری ہوتاتھااور نہ ہی اُسے موت آتی تھی۔ وہ نہایت تکلیف میں تھا۔صحابہؓ میں سے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور ساری کیفیت بتائی۔آپﷺ نے پوچھا کیااس شخص کی والدہ زندہ ہے؟ بتایاگیازندہ ہے مگراس سے ناراض ہے۔ تب آپ نے فرمایااس کی والدہ سے کہاجائے کہ وہ اسے معاف کردے۔جب والدہ نے معاف کرنے سے انکار کیا تونبی کریم نے صحابہؓ کوحکم دیا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کریں تاکہ اُس شخص کوجلادیاجائے۔ جب اُس کی ماں نے یہ حالت دیکھی توفوراًمعاف کردیا۔ جب ماں نے اُسے معاف کیاتوپھراس شخص کی زبان سے کلمہ بھی جاری ہوگیا۔ 

اگرہم دیکھیں تواندازہ ہوتا ہے ایک ماں کس قدراذیت،تکلیف اور محبت سے اپنے بچوں کوپالتی ہے۔ان کے لیے ہرطرح کے حالات کامقابلہ کرتی ہے تاکہ ان کی زندگی سکھی رہے۔سخت سردراتوں میں جب بچے بسترگیلاکردیتے ہیں توماں انھیں خشک جگہ پر ڈال کرخودگیلے بسترپرسوجاتی ہے۔ اس طرح کی ہزاروں قربانیاں ہیں جوایک ماں اپنے بچے کے لیے دیتی ہے۔ 

ماں ہی ایسی ہستی ہے جس پرانسان ہرطرح کااعتمادکرسکتاہے۔ اسے اپنے دکھ سکھ میں شریک کرسکتا ہے کیوں کہ اس سے زیادہ قابل اعتبارہم راز کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے باوجودبعض اوقات دیکھنے میں یہ آتاہے کہ اس عظیم ہستی کے ساتھ اس کی اولاد ناروا سلوک کرجاتی ہے۔ بعض معاشروں میں توبوڑھی والدہ کو’’اولڈ ہومز‘‘ میں چھوڑ آتے ہیں۔ اسی طرح ہسپتالوں میں بھی ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ ماں کے بڑھاپے میں اس سے اکتاجاتے ہیں اور گھرکی فالتوچیز سمجھنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ نبی کریم کاارشادگرامی ہے کہ جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کوپایا اورجنت حاصل نہیں کرسکا وہ تباہ و بربادہوگیا۔ ۔

بعض لوگ ماں کااتنااحترام نہیں کرتے جتنااس کاحق بنتاہے۔ ایسی ہستی جوسراپامحبت ہے، اس کے ساتھ نامناسب سلوک دراصل اپنے ساتھ ظلم ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس شفیق ہستی کی محبتیں زیادہ سے زیادہ سمیٹیں اوراسے ہرحال میں خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ سال میں صرف ایک دن منالینے سے بات نہیں بنتی بلکہ ہرروزاپنی ماں کی قدرکریں اورجن لوگوں کی ماں دُنیا سے رخصت ہوگئی ہے انھیں چاہیے کہ وہ اپنی ماں کے لیے ہروقت دعائے خیرکرتے رہیں۔

سیکڑوں صفات وخصوصیات اورمجاہدات و ریاضات کی خوشبوؤں سے ماں کا خمیر تیار ہوتا ہے اور جب وہ ماں دھرتی پر اپنے پاؤں رکھتی ہے تو اس کے تلے جنت ملتی ہے اسی ماں کے متعلق ذکر هوتا هے! ۔

آسمان نے کہا۔ ماں کی عظمت ورفعت افلاک کی وسعتوں سے بڑھ کر ہے۔

زمین نے کہا۔ ماں کے پیروں کی دھول میں بھی پھول اگتے ہیں

  چاند نے کہا۔ ماں ایسی میٹھی روشنی جس میں ممتا اور محبت کی کلیاں مسکراتی ہیں۔

چاندنی نے کہا۔ ماں ایسی روشنی ہے جس میں تپش نہیں ہوتی ۔

تا ریکی نے کہا۔ ماں ایک تابندہ ستارہ ہے جو اندھیرے میں روشنی بکھیرتی ہے۔

 ستاروں نے کہا۔ ماں ایسی دیپ ہے جس کی تا بندگی کے آگے زہرہ، مریخ اور ثاقب کی بھی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔

بادل نے کہا۔ ماں کی نظرِ کرم ابرِ رحمت کا خو شگوار سایہ ہے۔

سمندر نے کہا۔ ماں کا دل ساگر سے بھی زیادہ گہرا ہے، جہاں پر رنج وغم چھپ جاتے ہیں۔

مالی نے کہا۔ ماں ایک چمن ہے جس کے پھولوں کی رنگت کبھی ماند نہیں پڑتی۔

پھولوں نے کہا۔ ماں ایسی خوشبو ہے جس کے وجود سے پوری کائنات معطر رہتی ہے۔

قدرت نے کہا۔ ماں میری طرف سے دنیا والوں کے لیے عظیم تحفہ اور انعام خداوندی ہے۔

ماں جس کی پیشانی میں نور، جس کی آنکھوں میں ٹھنڈک، جس کی باتوں میں محبت، جس کے دل میں رحمت، جس کے ہاتھوں میں شفقت، جس کے پیروں میں جنت اور جس کی آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا گیا اور پھر اس کی عظمت کا اعتراف خالق نے مخلوق سے اس طرح کرایا کہ خدا کی بندگی اور رسول کی پیروی کے بعد اطاعت وفر مانبرداری اور خدمت گزاری کا سب سے بڑا درجہ کسی کو حاصل ہے تو وہ ماں ہے۔ جس کو صرف محبت بھری نظرسے دیکھ لینے سے حج مبرور کا ثواب مل جاتا ہے۔ رب کائنات ہم سب کو ماں باپ کو با لخصوص ماں کی عظمت اور فر ماں برداری کر نے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔

ماں جنت ہے اور ماں کی قدر کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب ماں دنیا سے چلی جاتی ہے دنیا میں ماں کے بغیر ایسا لگتا ہے جیسے میں دنیا میں اکیلا ہوں۔ ماں جیسی چھاؤں کسی کے پاس نہیں۔ ماں اﷲ تعالیٰ کا جنتی میوا ہے۔ جو اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں عنایت فرمایا ہے۔ جب بھی کبھی انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے منھ سے ماں نکلتا ہے۔ ماں ہی کی بدولت ہمیں سب کچھ ملا۔ دونوں جھاں ماں کی وجھ سے قائم ہیں۔ ماں سے دونوں جہاں کا وجود ہے۔

 ماں اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لیئے ایک عظیم نعمت ہے۔ جس کا کوئی نعم البدل نہیں‌ہے۔ ماں‌کے بغیر اس دنیا میں‌ کچھ بھی نہیں‌ہے۔ ماں‌کائنات میں‌انسانیت کی سب سے قیمتی متاع اور عظیم سرمایہ ہے۔ اسلام میں‌اولاد کی پوری زندگی ماں کے تقدس، اس کی عظمت کے اظہار اور خدمت واطاعت کے لیے مخصوص ہے۔ اس کے لیئے کسی دن کو مخصوص کرنا اس کی روح کے منافی ہے۔ اسلام میں‌ہر سال ، ہر مہینہ ، ہر دن اور ہر لمحہ ماں کی خدمت اور اطاعت کے لیئے وقف ہے“۔ مقصود کائنات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “مائوں کے قدموں تلے جنت ہے“

ماں ایک محبت بھرا احساس ہے کسی کے لیے ماں ایک گھنا شجر ہے تو کسی کے لیئے احساس ہے، کوئ یہ کہتا ہے کہ ماں سائباں‌ہے تو کسی کے لیے ماں ہی دھرتی ہے۔ بلاشبہ ماں دو لفظ ہیں کہ جس کی کوئی مثال نہیں‌ملتی۔ وہ گھنا سایہ جو چھائوں‌تو دیتاہے لیکن صلے کی پرواہ نہیں‌کرتا۔ اگر ماں نہیں‌ تو زندگی کا ہر کام ادھورہ رہ جاتا ہے۔ مامتا سے زندگی کے اسرار بے نقاب ہوتے ہیں۔