ٹیچرز ڈے: ایک ٹیچر کی اپنی برادری سے شکایت

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-09-2022
 ٹیچرز ڈے: ایک ٹیچر کی اپنی برادری سے شکایت
ٹیچرز ڈے: ایک ٹیچر کی اپنی برادری سے شکایت

 



 

ٹیچرز ڈے اسپیشل

 

محمد اشفاق عالم نوری فیضی : کولکتہ

 

 کسی شاعر کا اساتذہ کرام کے تعلق سے نہایت عمدہ قطعہ ہے ؀

          دستِ معصوم کویہ لوح و قلم دیتا ہے

          نو نہالوں کو  یہ  قندیلِ حرم  دیتا ہے

          روشنی بانٹتا پھرتا ہے یہ سورج کی طرح

          ڈوبتا ہے تو ستاروں  کو  جنم  دیتا ہے۔

وطنِ عزیز یوں تو اپنے رنگا رنگ تہواروں اور تقریبات کی بنیاد پر پوری دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ہر مذہب وملت والے اپنا تہوار اپنی تقریبات آزادانہ طور پر مناتے آرہے ہیں۔ مذہب وملت میں کچھ یادگار دن ایسے بھی ہیں جو ہم سبھی اتحاد اور اتفاق رائے سے مناتے ہیں انہیں میں سے ایک یومِ اساتذہ بھی ہے جسے ہمارے ملک ہندوستان کے اسکول، کالجز اور یونیوسٹیوں کے طلباء وطالبات ہر سال 5/ستمبر کو سروپلی رادھا کرشنن کے جنم دن کے موقع پر یومِ اساتذہ کے نام سے مناتے ہیں. طلباء وطالبات خوش وخرم ہوکر اپنے اساتذہ کرام کو تحفہ و تحائف پیش کرتے ہیں اور اساتذہ کرام فرحت و انبساط ہوکر انھیں ڈھیروں دعائیں دیتے ہیں۔اور دعا کیوں نہ دیں، انھہیں اساتذہ کرام سے علم وتربیت پاکر مستقبل میں وطن عزیز کے اونچے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہوے نظر آتے ہیں۔

آج کے جدید ٹیکنالوجی، کمپیوٹراور سوشل میڈیا کے دور میں جہاں چاروں طرف بد اخلاقی،بدکرداری، بد امنی ،بے شرمی،بے حیائی،بے راہ روی عام ہیں ۔نئی نسلیں تباہی و بربادی کی راہ پر گامزن ہیں ۔آج کے تعلیمی ادارے اسکول،کالجز، اور مراکز کے ذریعے بچوں کو انسان بنانے کے بجائے انہیں ایک مشین بنایا جارہا ہے ۔طلباء تو در کنار خود اساتذہ ومعلیمن بھی اخلاقی زوال کے آخری سطح پر پہنچ گئے ہیں۔آخرایسا کیوں ؟ آج کیا ہمارے اندر غیبت وچغل خوری، حسد و کینہ اور الزام تراشی جیسی خصائل رذیلہ گھر نہیں کر چکے ہیں؟

علامہ اقبال نے اسی لیے کبھی یہ شعر کہا تھا 

          میرے  اللہ  برائی  سے  بچانا  مجھکو

          زندگی شمع کی صورت ہو خدایامیری۔ (اقبال)

سوال یہ ہے، کیا اس شعر کا تعلق صرف پڑھنے سے رہ گیا ہے ؟ عمل سے نہیں، آج ہماری زندگی اسکول ،کالج اور یونیورسٹی میں پندرہ سے بیس سال علم حاصل کرنے کے بعد بھی غیبت وچغلخوری ،حسدو کینہ سے بچ نہیں پاتی۔ آخر کیوں؟ ہمارے لئے کیا ربندرناتھ ٹیگور،قاضی نذرالاسلام ،سوامی ویویکانند ،ڈاکٹر ذاکر حسین،ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، مولانا ابوالکلام آزاد،پنڈت جواہرلال نہرو،سرسیداحمد خان اور سروپلی رادھا کرشنن وغیرہ شخصیات کی زندگی کافی نہیں ،حیرت بالائے حیرت تو اس وقت ہوتی ہے کہ جب ہمارے طلباء وطالبات اور اساتذہ کرام اسکول کے احاطے میں ہندوستان کے قومی ترانہ گانے کے بعد شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال  کی لکھی ہوئی ؀

         لب  آتی  ہے  دعا  بن  کے   تمنا    میری

         زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

         دوردنیاکی میرے دم سےاندھیرا ہوجاے

         ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا  ہوجائے

         میرے   اللہ  برائی  سے    بچانا  مجھکو

         نیک جو راہ ہے اس رہ پہ چلانا مجھ کو۔

     متذکرہ دعا ہر روز گاتے ہیں یا پڑھتے ہیں ۔لیکن آج تک ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی الا ماشاءاللہ ۔ آج جو ٹیچر کے عہدے پر فائز ہیں کل وہ بھی یہی ترانہ پڑھا کرتے تھے اور آج بھی پڑھ رہے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ کل طالب علم کی صورت میں پڑھا کرتے تھے اور آج معلم کی صورت میں پڑھ رہے ہیں ۔

زمانہ طفلی میں نیت یہ رہتی تھی کہ ہر برائی سے بچاکر میری زندگی مثل شمع ہوجائے لیکن افسوس عملی زندگی اس سے کوسوں دور ہے۔  کیا توتے کی طرح  پڑھ لینے سے کام چل جائے گا ؟ یا اس پر عمل کرکے ہمیں بھی اپنے آپ کو دکھانا ہوگا؟

اگرہم طالب علم ہیں تو متذکرہ اشعار کی شکل میں ڈھلنے کی ضرورت ہے. اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا کرنا چاہیے  اور اگر ٹیچر کی صورت میں ان بچوں اور بچیوں کے ساتھ ترانہ پڑھتے ہیں تو ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ ٹیچرکے عہدے پر فائز تو ہوچکے ہیں لیکن ایک ٹیچر کے اندر کیا کیاخوبیاں ہونی چاہئیں، وہ خوبیاں ہمارے اندر بھی ہیں یا نہیں ؟

ایک ٹیچر کو کلا س روم میں کیسے رہنا چاہیے بچوں کو درجنوں کتابیں پڑھا دینا ایک ٹیچر کی بہادری اور کمال نہیں ہے بلکہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں تہذیب و تمدن سے آراستہ و پیراستہ کروانا بھی  ایک ٹیچر کے لئے کمال ہے ۔یاد رہے، آپ کے سامنے جو بچے ہیں وہ گیلی مٹی کے مانند ہیں آپ جس طرح چاہیں اس کو زیور علم اور تہذیب و تمدن سے آراستہ و پیراستہ کرسکتے ہیں۔

    آپ نے کمہار کو دیکھا ہوگا اگر ان کے پاس مٹی دینگے تو وہ اپنی کاریگری اور کمال سے برتن بنادیں گے۔  کیوں؟ اس لیے کہ ان کے پاس اسی کا ہنر ہے تو بلاشبہ ایک ٹیچر کواس کمہار سے سبق حاصل کرناچاہئے کہ ان کے پاس اگر مٹی کو سجانے اور سنوارنے کا ہنر ہے تو ہمارے پاس بچے اور بچیوں کے مستقبل سنوارنے کا ہنر کیوں نہیں ؟

   اخلاقی نقطہ نظر سے ہم زوال کا شکار صرف اس لیے ہیں کہ ہمارے پاس ڈھیروں علم ہونے کے باوجود اپنی زبان پر کنٹرول نہیں ۔آج بھی بہت سارے اساتذہ  بد کلامی کا شکار ہیں ۔ نہ ان میں صحیح طور پر کلام کرنے کا سلیقہ ہے نہ ہی نشست وبرخواست کا سلیقہ ،بچوں سے بد تہذیبی انداز میں بات کرنا اور ان کے والدین کو برا بھلا کہہ دینا، بچوں کے ذہن پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    جب کہ زمانہ قدیم سے ہی اساتذہ کرام کو ملک اور  قوم وملت کا معمار سمجھا جاتا رہا ہے۔اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ بہتر سماج کی تشکیل کے لئے اساتذہ کرام کا اہم رول رہاہے ۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی سماج کی ترقی کے لیے اساتذہ کرام (معلمین)کا کردار نہایت ہی اہم ہے  ۔لہذا بہت سے دانشور اور مفکرین نے اساتذہ کے کردار کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات و خیالات کا اظہار اکثر و بیشتر دینی تقریروں اور تحریروں میں کیا ہے ۔مہا تما گاندھی جی کی نظر میں اساتذہ کی بڑی اہمیت ہے ان کا ماننا ہے کہ اساتذہ کے اندر بہت سی خوبیوں کا ہونا بے حد ضروری ہے مگر اچھے اخلاق و کردار ہونا چاہیے تاکہ سماج میں اچھائیاں پیدا کرسکیں۔

      اساتذہ ملک میں تمام معیار کی تعلیم کے نظام کو فروغ دینے کی وجہ سے ممتاز ہیں اور ان کے بغیر ملک اور قوم وملت تاریکی میں رہ جائے گی۔اساتذہ طالب علموں کو بڑے احتیاط سے اور اخلاقی طور پر صرف اپنے بچوں کی طرح سکھاتے ہیں یہ عموماً کہا جاتا ہے کہ اساتذہ کرام والدین سے ممتاز ہیں اسلئے کہ والدین بچے کو جنم دیتے ہیں جبکہ اساتذہ اپنے کردار کو شکل دیکرمستقبل کو روشن کرتے ہیں استاد اپنے شاگردوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ بھی حاصل ہے جبھی تو  ہر سال پانچ ستمبر کو ان کے اعزاز میں ٹیچر ڈے منایا جاتاہے استاذ کیا ہوتا ہے، اس کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ ہم سکندر اعظم کے قول سے اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ سکندر اعظم نے کہا تھا، "میں زندگی جینےکے لیے اپنے والدین کاقرض دار ہوں لیکن اچھی زندگی جینے کے لیے  اپنے استاد کا قرضدار ہوں"

۔دوستو! ہندوستان کی سرزمین پہ بہت سارے عظیم شخصیتوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے ملک اور قوم وملت کے لئے بہت کچھ کیا انہیں میں سے ایک ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن بھی ہیں ۔جن کی زندگی طالب علم اور استاد کے لیے کھلی کتاب ہے جس نے اپنی محنت اور جدوجہد سے ٹیچرز کے عہدے سے صدر جمہوریہ کے عہدے پر کس طرح پہنچے یہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے.................اور ٹیچرس ڈے انہیں کی مرہون منت ہے جو آج پورا ہندوستان جوش وخروش سے مناتا ہےاور مناتا رہے گا۔

   ہندوستان کے طلباء و طالبات کے لئے ٹیچر ڈے ان کے مستقبل کے نقطہ نظر سے کافی اہمیت و افادیت رکھتا ہے آج کے دن ہر ایک طالب علم کے من کی بات زبان پر کھل کر آتی ہے طالب علم بھی علم کی قدر و قیمت اور ٹیچرز کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ 

پھر اس طرح جو محنت طلباء پر کی جاتی ہے، اس کا نتیجہ ملتا ہے۔ معلم بھی مستقبل میں اور بھی بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے سے اپنے کاموں کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم سماج کی طرف دیکھیں اورسماج کے اندر موجودہ پیشوں کا اگر جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ٹیچر کا  پیشہ  سب سے بہتر اور عمدہ پیشہ ہے ۔ایک دوسرے سے  گہرا ربط ہوتا ہے استاد کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کے بعد ہی طالب علم اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔

سماج کی تعمیر صرف اور صرف اسکول اور استاد سے ہی ممکن ہے تعلیم کے ذریعہ سے انسان اچھے اور  برے کی تمیز  کرنا سیکھ لیتا ہے فیصلہ لینے کی  صلاحیت انسان میں پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی خدمات اور انکی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ہمیشہ کے لیے ان کی قربانیوں کو یاد کرکے انکے جنم دن کے موقع سے ٹیچرس ڈے کی صورت میں ان کے لیے خراج عقیدت پیش کیا جاتاہے اور کیا جاتا رہے گا