تہذیب کی خاطر اپنے بچوں کو اردو پڑھائیے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-01-2021
اردو تدریس
اردو تدریس

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

وہ اردو کا مسافر ہے یہی پہچان ہے اسکی

جدھر سے بھی گزرتاہے سلیقہ چھوڑ جاتا ہے

               آپ کا بچہ اردو لکھنا،پڑھنا جانتا ہے؟ اگر نہیں۔۔ توکیوں؟ کیا آپ اپنے بچے کو سلیقہ مند اور مہذب دیکھنے کے خواہش مند نہیں ہیں؟ کیا آپ کو اپنی تہذیب سے محبت نہیں؟ جی ہاں! یہ سوال کڑواسہی مگر بے معنی نہیں۔ ہماری مادری زبان اردو ہے اور اگر ہم اپنی تہذیب سے محبت کرتے ہیں تو لازم ہے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔عوام کی بات چھوڑدیں۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ خواص یعنی اردو زبان کے پروفیسر، ٹیچر،صحافی، مشاعروں کے شاعر، مصنف جو اردوزبان کی روٹی کھاتے ہیں،ان میں سے ایک بڑا طبقہ اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتا۔۔۔

اردو کیوں پڑھیں؟

               اردو سے روزگار نہیں ملتاتو اردو کیوں پڑھیں؟ یہ سوال اپنی زبان اور تہذیب کے تئیں بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب بوڑھے ماں،باپ کچھ دینے کے لائق نہیں بچتے توان کی خدمت کیوں کی جاتی ہے؟ دیش،دنیامیں اور بھی بہت سی زبانیں ہیں جو روزگار نہیں دیتیں پھر بھی لوگ پڑھتے ہیں۔ بنگلہ،تمل، تیلگو،اڑیا،کنڑوغیرہ میں بھی روزگار کے کچھ خاص مواقع نہیں ہیں پھر بھی اہل زبان اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ اصل میں روزگار کا تعلق اب زبان کے بجائے تیکنالوجی سے ہوچکا ہے  پھر بھی جنھیں اپنی زبان وتہذیب سے محبت ہے،وہ کیوں اسے چھوڑیں؟

دنیا میں اردو کا مقام

               اردو،دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں شامل ہے۔Ethnologueکے 2018 کے ایک تجزیے کے مطابق عالمی سطح پر سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں گیارہویں نمبرپر اردو ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں کل 7ہزار117زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اردو بولنے والوں کی تعداد17کروڑ سے زیادہ بتائی ہے۔ 2011کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 50,772,631افرادکی مادری زبان اردو ہے جب کہ 12,151,715افرادنے اپنی سکنڈلنگویج اردو قراردی ہے۔علاوہ ازیں کروڑوں اہل اردو پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال، عرب، یوروپی اور امریکی وافریقی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ایسے میں اردو زبان کے لئے کوئی بقا کا مسئلہ ہرگز نہیں جس کا اندیشہ اکثر ظاہر کیا جاتا ہے۔سچ یہی ہے کہ ۔۔۔۔۔سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

بھارت میں اردو کی صورت حال

               بھارت میں کروڑوں افرادکی مادری زبان اردوہے۔ لاکھوں دینی مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں اردو کی درس وتدریس کاسلسلہ جاری ہے۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں اردو اخبارات ورسائل شائع ہوتے ہیں اور آئے دن اردوکی نئی ویب سائٹس کی لانچنگ کا سلسلہ جاری ہے۔چائے خانوں سے لے کر پارلیمنٹ ہاؤس تک اردو کے شعر پڑھے جاتے ہیں۔ فلمی ڈائیلاگس اور گانوں سے لے کر عوامی گفتگوتک اردو کے الفاظ رائج ہیں اور اب اردو زبان کو جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کا سہارا ملا ہے توایسے میں اردو زبان کا مستقبل تو روشن ہی نظرآتاہے۔ ایسے میں اگرآپ اپنے بچوں کو اردوزبان کی شیرینی سے دور رکھتے ہیں توآپ اپنی تہذیب کے ہی باغی نہیں،اپنے بچوں کو شائستگی سے دور کرنے کے ملزم بھی ہیں۔

 رسم الخط کی تبدیلی؟

               ایک طبقہ تو ایسا سامنے آیا ہے جو اردورسم الخط کو ہی بدلنے کی بات کرتا ہے۔یہ تو اردو کے تابوت میں آخری کیل جیسا معاملہ ہے۔ کوئی ہندی رسم الخط بدلنے کی بات نہیں کرتا، کوئی بنگالی،مراٹھی، تمل، تیلگو کے رسم الخط کو بدلنے کی بات نہیں کرتا مگر اردوکے رسم الخط کوبدلنے کا سوال باربار اٹھتا ہے۔یہ سوال بھی اس طبقے کی طرف سے نہیں اٹھتا جو اردو لکھتا اورپڑھتاہے، اپنے بچوں کو پڑھاتاہے۔ یہ سوال وہ مدارس اسلامیہ نہیں اٹھاتے جنھوں نے اب تک اردو کو زندہ رکھاہواہے اور اردو اخبارات وکتب کے لئے قاری پیدا کر رہے ہیں،یہ نامناسب سوال وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو انگلش سے مرعوب ہیں، خود تارکِ اردو ہیں اور اپنے بچوں کو اردو پڑھانا کسرشان سمجھتے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر رسم الخط کو بدل دیا گیا تو ان لاکھوں کتابوں کا کیا ہوگاجو اردو کا سرمایہ ہیں؟ کیا سب کونئے رسم الخط میں ڈھالنا ممکن ہوگا؟ اس رشتے کا کیا ہوگاجو رسم الخط ہی کے سبب عربی، فارسی،پشتو، دری، کاشر اور دوسری زبانوں سے ہے؟پھر اس رسم الخط کا اپنا ایک الگ حسن ہے:

دلہن کی مہندی جیسی ہے اردو زباں کی شکل

خوشبو بکھیرتا ہے عبارت کا حرف حرف

اردوجانتے ہیں مگر۔۔

               اردودانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اردو زبان لکھنا پڑھنا تو جانتا ہے مگر زبان کی ثقالت کے سبب نہیں پڑھتا۔ظاہر ہے کہ اس کے لئے ذمہ دار، ہمارے وہ مصنفین اور قلمکار ہیں جومشکل زبان کا استعمال کرتے ہیں۔کوئی قاری ایسی تحریر کیوں پڑھے جو اسے سمجھ میں نہ آئے۔قلم کاروں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو بقراطی میں مشکل زبان کا استعمال کرتاہے۔ اسے لگتا ہے کہ اگر مشکل الفاظ استعمال کیا تو پڑھنے والے زیادہ ’قابل‘ سمجھیں گے۔ جبکہ دوسرا طبقہ ان قلمکاروں کا ہے جنھوں نے دینی مدرسوں سے تعلیم پائی ہے اور فطری طور پر عربی وفارسی کے زیراثر آگئے ہیں۔اردو زبان کے قارئین میں نیم خواندہ افراد کی تعداد زیادہ ہے،ایسے میں قلمکاروں کو ان کی رعایت کرتے ہوئے چھوٹے جملے، آسان اور عام فہم زبان لکھنی چاہئے۔مثال کے طور پر آپ مولانا ابوالکلام آزاد اور منشی پریم چند کی نثر کو لے سکتے ہیں۔ مولاناثقیل زبان لکھتے تھے، اس لئے ان کی تحریر صرف اہل علم تک محدودہے جبکہ منشی پریم چند عوامی زبان کا ستعمال کرتے تھے لہٰذاانھیں تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ بچے بھی پڑھتے ہیں، نیم خواندہ افرادبھی پڑھتے ہیں۔ یہاں تک ہندی والے بھی دیوناگری رسم الخط میں ایک لفظ ترجمہ کئے بغیرپڑھتے ہیں۔

               عام لوگ اخبارات پڑھتے ہیں کیونکہ زبان آسان ہوتی ہے مگر وہ ادارتی صفحہ کے مضامین کم پڑھتے ہیں کیونکہ عموماًان کی زبان مشکل ہوتی ہے۔ ایک دن ادبی زبان میں اخبارنکال کر دیکھیں۔ مشاعروں میں بھی وہی شعراء پسند کئے جاتے ہیں جن کی شاعری گنجلک نہیں ہوتی اور شعر سمجھنے کے لئے ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔