تملہ ہال :کشمیر کا معروف صوفی گاوٴں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-05-2022
 تملہ ہال :کشمیر کا معروف صوفی گاوٴں
تملہ ہال :کشمیر کا معروف صوفی گاوٴں

 

 

سرینگر ۔۔ منظور ظہور شاہ چشتی

یوں تو ساری وادی کشمیر صوفیوں اور درویشوں کی مسکن رہی ہے اور آج بھی کشمیر کے اکثر علاقوں میں صوفیوں اور درویشوں کو دیکھا جاسکتاہے۔ مگر ضلع پلوامہ وادی کشمیر میں تصوف کے میدان میں ایک خاص پہچان رکھتاہے۔ ضلع پلوامہ نے معروف صوفی بزرگوں کو جنم دیا ہے جن میں وہاب کھار ، سوچھ کرال ، مومن شاہ صاحب ، صوفی شاعر غلام احمد مہجور ، حبہ خاتون اور قادر صاحب الوپورہ کا نام خصوصی طور لیا جاتاہے۔

ضلع پلوامہ میں کئی دیہات صوفیوں ، درویشوں اور ملنگوں کا مرکز رہے ہیں انہی گاوں میں ایک تملہ ہال ہے جو ضلع صدر مقام سے 7 کلو میٹر کی دوری پر واقع جنوب میں واقع ہے۔ اس گاوں کی آبادی 3 ہزار نفوس پر مشتمل ہے جن میں 200 کشمیری ہندو بھی ہیں۔ اس گاوں میں زمانہ قدیم سے صوفی اور خدا دوست بزرگوں کے علاوہ درویش ، ملنگ ، قلندر اور مجذوب پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آس پاس اور دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے درویش اور قلندر اس گاوں میں ہمیشہ نظر آتے ہیں۔ اس گاوں میں سلسلہ کبرویہ کے ایک معروف بزرگ حضرت سید محمد جعفر رح نے ایک مٹی نما ٹیلے پر 12 سال تک ریاضت کی ہے ۔جس کی درگاہ سرینگر شہر کے راول پورہ علاقے میں واقع ہے ۔

- گاوں کے ایک فقیر غلام محی الدین بٹ کا ماننا ہے کہ ان کے گاوں تملہ ہال کو تصوف کے میدان میں ایک مرکزیت حاصل ہے اور کشمیر کے حوالے سے کئی باطنی فیصلے یہاں ہوتے ہیں ان کے مطابق یہاں بزرگوں کی باطنی مجالس کا انعقاد ہوتاہے اور یہ مجالس حضرت سید محمد جعفر کبروی کی رہی نشت گاہ پر ہوتی ہیں۔

------ تملہ ہال نے جن بزرگوں صوفیوں قلندروں اور مجذوبوں کو پیدا کیاہے ان میں کئی سالک و صوفی ہیں جن میں حضرت پیر صمد شاہ کبروی، حضرت پیر محمد مصطفیٰ شاہ کبروی ، حضرت پیر مبارک شاہ کبروی ، حضرت پیر محمد مقبول شاہ کبروی اور پیر فقیر محد طیب شاہ کبروی شامل ہیں جب کہ مجذوبوں اور ملنگوں میں غلام نبی میر ، یوسف منصور شاہ اور آہنگر مستانہ کا نام لیا جاتاہے ۔

کشمیر کے معروف صوفی شاعر ،کاتب اور روحانی بزرگ حضرت پیر فقیر غلام نبی شاہ ظہور کبروی کا تعلق بھی اسی گاوں سے ہے جو مارچ 1982 میں انتقال کرگئے۔

ہر دور اور زمانے میں اس گاوں میں کوئی نہ کوئی صوفی ،قلندر ،ملنگ یا سالک رہا ہے جس نے مخلوق خدا اور انسانیت کی اپنے مخصوص اندازمیں خدمت کی ہے۔

تملہ ہال گاوں میں ہر سال اسلامی کلینڈر کے حساب سے رجب مہینے کی 14 تاریخ کو حضرت سید محمد جعفر کبروی کا سالانہ عرس بالکل منفرد اور دلچسپ انداز میں منانے کی روایت ہے ۔ہر گھر سے مخصوص برتنوں میں بھریانی (جسے کشمیری میں تہری کہتے ہیں )گاوں میں رہی ان کی نشت گاہ پر لاکر تقسیم کی جاتی ہے اور نشت گاہ کے ساتھ ساتھ اپنے گھروں کو چراغاں کیا جاتاہے ۔

تملہ ہال گاوں کے لوگ اگرچہ زمینداری اور باغبانی کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کرتے ہیں مگر لوگوں کے چال چلن ،آداب اور رہن سہن میں تصوف اور درویشی کے مزاج اور رموزات صاف جھلکتے ہیں۔ 

گاوں میں جہاں آج بھی کئی درویش ، صوفی اور ملنگ عوام کی خدمت کرتے پائے جاتے ہیں وہیں کئی دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ملنگوں اور مجذوبوں کو اس گاوں کی سڑکوں ،گلیوں میں گشت کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ گاوں کے مرد اور خواتین عقیدت اور احترام سے ان کے کھانے پینے اور قیام کا بندوبست کرتے ہیں ۔

تملہ ہال گاوں میں آج بھی صوفی بزرگ اور تصوف کی دنیا سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ حیات ہیں ان میں میر عبدلعزیز قادری، ملنگ غلام حسن میر ، غلام محی الدین بٹ ، عبدل جبار ڈانگرو اور محمد اکبر پڑے شامل ہیں ۔ میر عبدلعزیز قادری اگرچہ عمر رسیدہ بزرگ ہیں مگر ان کے گھر دن بھر مریدوں ، محبوں اور حاجت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ گاوں میں غلام محمد حجام المعروف محمد مستانہ کافی مقبول ہے جو اگرچہ ایک نزدیکی گاوں کا باشندہ ہے مگر بقول اس کے میری" ڈیوٹی" اسی تملہ ہال گاوں میں ہے اور وہ گاوں کی آبادی کے آنکھوں کا تارا بن چکاہے۔ گاوں کی نئی نسل اور نوجوانوں میں کئی ایک ڈاکٹر ، پروفیسر اور انجینر ہیں جو صوفیوں اور درویشوں کی خدمت کرنے اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر باتیں سننے کا شوق رکھتے ہیں۔

تملہ ہال گاوں سے جاڑے کے موسم میں بہت سے مرد وزن اور نوجوان بسوں کا انتظام کرکے یا اپنی ذاتی گاڑیوں میں اجمیر شریف جاکر حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی تہواروں اور بزرگوں کے عرس پر گاوں کے لوگ درگاہوں کے پر حاضری دینے میں دوسرے دیہات کے لوگوں پر سبقت لیتے ہیں۔

گاوں کی ایک معتبر شخصیت پیر ظہور الدین شاہ نے آواز دی وائس کو بتایا کہ ان کے خاندان کا تعلق حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی رح جنہیں شاہ ہمدان کے نام سے جانا جاتاہے کی سرینگر میں موجود خانقاہ معلی سے رہا ہے اور بعد میں ہمارے خاندان کو اسلام اور تصوف کی خدمت کیلئے یہاں منتقل ہونا پڑا ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے خاندان کی محنت اور تربیت کی بدولت بھی اس گاوں کا نقشہ تصوف کے میدان میں سنہرے حروف سے لکھنے کے لائق بن چکا ہے ۔ پیر ظہور الدین شاہ جو خود بھی کبروی سلسلے سے تربیت یافتہ ہیں، کا کہنا ہے کہ اس گاوں میں 400 سال قبل مساجد کے معمار حضرت بابا نصیب الدین غازی نے تشریف لاکر مسجد تعمیر کی اور اس جگہ پر چند سال قبل بابا نصیب الدین غاذی سے منسوب نئی مسجد تعمیر کی گئ۔