آواز دی وائس، سری نگر
آج جب کہ مشینی قالین بازار میں آگئی ہے اور تیزی سے لوگوں کے گھروں کی زینت بنتی جا رہی ہے،اس کے باوجود اب بھی کشمیر کی ہاتھ کی بنی ہوئی قالین کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جہاں کشمیری قالین کی اپنی ایک الگ خوبی ہوتی ہے، وہیں کشمیر کے قالین ساز اس فن میں بھی نئے نئے تجربے کرتے رہتے ہیں، جیسا کہ حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا کہ ایک قالین ساز نے قالین پر ترنگا بناکر لوگوں کو اپنی توجہ کا مرکزبنالیا تھا۔ ایسے ہی ایک قالن ساز غلام علی شیخ ہیں، جو تصویری قالین بناکر لوگوں کوحیرت و استعجاب میں ڈال رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کے ضلع کولگام کے مشرق میں واقع گاؤں شاہو سچن کے رہنے والے غلام علی شیخ نے اپنے منفرد تصویری قالین سے شہرت حاصل کی ہے۔آرٹسٹ یا فن کار کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ کئی رنگوں کے دھاگوں کا استعمال کرکے اسے شاہکار بنا دیتا ہے، جس پر نظر ٹھہرائے بنا انسان آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔
غلام علی شیخ بھی انہی اہم فنکاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ قالین کو دو افقی متوازی لکڑی کے شہتیروں سے بنے کرگھے پر بُنتے ہیں، جو ان کےکام کو خاص بنا دیتا ہے۔ ہاتھ سے بنے ہوئے قالین مشینوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک انچ میں 54 گانٹھوں کا قالین بُنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قالین میں، میں نے زیادہ تر سمندری جانوروں کو دکھایا ہے اور اس پر سمندر کا ایک پورٹریٹ بھی لگایا ہے۔ اس کام کے لیے انہیں بعد میں ریاستی ایوارڈ بھی ملا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک انچ میں 72 گانٹھوں کا قالین بنا تھا، جس پر انہیں قومی اعزاز دیا گیا۔
غلام علی شیخ کا سفر
غلام علی شیخ نے اپنے کام کا آغاز اپنے والد سے تربیت حاصل کرکے کیا ہے۔ انہوں نے اپنے والد سے قالین بننے کی تربیت لینے کے علاوہ سرکاری ادارے میں اس فن کی باریکیوں کو سیکھا، نیز نجی ادارے سے بھی انہوں نے قالین بننے کے فن میں مہارت حاصل کی۔ غلام علی شیخ کے کامیابی کی کہانی سنہ 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی جب کہ انہوں نے قالین بننا شروع کیا تھا۔
ایک اوسط متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے غلام علی شیخ نے یہ ہنر سیکھا اور اس کے ساتھ ہی ان کا نام بھی آس پاس گونجنے لگا۔ غلام علی شیخ کو پہلا ایوارڈ 2012 میں ملا۔اس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے انہیں 50 ہزار نقد انعام کے ساتھ یہ ایوارڈ دیا۔
سنہ2015 میں علی نے کیرالہ کے ایک مشہور میلے میں شرکت کی۔ اس میلے کا نام' سرگالیا ایرنگل انٹرنیشنل کرافٹس فیسٹیول' تھا، جو ایرنگل میں منعقد ہوا۔ اس میلے میں انہوں نے دو طرفہ قالین بُن کر شائقین کو حیران کر دیا۔ یہی وہ موقع تھا جب کہ علی نے دو طرفہ لوم کا قالین بنایا جس کے ایک طرف علامہ اقبال کی تصویر تھی اور دوسری طرف پھول کی۔ اس کے لیے انہیں پہلے انعام سے نوازا گیا۔یہ ایک ایسا قالین تھا،جسے بیگ میں رکھ کر لے جانا آسان تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے تصویری ڈیزائن کا فن کیسے سیکھا، تو انھوں نے کہا کہ پہلے میں خود گرافس بناتا تھا اور پھر اس پر فوٹو چسپاں کرتا تھا تاکہ قالینوں پر پورٹریٹ بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ میں میں کتب فروشوں سے گراف خریدتا تھا اور اس پر تصویریں کھینچتا تھا۔ اس طرح قالینوں پر اسی عمل کو دوہرانے لگا۔ غلام علی شیخ نےاب تک اس قسم کی بہت سی قالین بن کر انعامات حاصل کئے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے قالین پرایران کےآیت اللہ خامنہ ای کی تصویر بنائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عام قالین کی بُنائی پر زیادہ توجہ نہ ملنے کے سبب ایسا کیا کہ ہمیں کچھ مختلف کرنا چاہئے۔اس لیے میں نے سب سے پہلے خامنہ ای کی تصویر بنائی۔
خیال رہے کہ علی نے غالب، اقبال، مودی، اے پی جے عبدالکلام، مہاتما گاندھی، لکشمی رانی، آیت الکرسی، چارو قل، کعبہ اور مسجد النبوی کے پورٹریٹ بھی ڈیزائن کیے ہیں۔ سنہ2017 میں دو طرفہ قالین بننے پر علی کو قومی اعزاز مل چکا ہے۔ انہوں نے اس دو طرفہ قالین میں ایک ساتھ ایک ہزار روپے کا نوٹ، وزیر اعظم نریندر مودی اور اے پی جے عبدالکلام کو ایک ساتھ بنایا تھا۔اس منفرد کام کے لیے انھیں مرکزی حکومت نے ایک لاکھ روپے کے نقد انعام سے نوازا تھا۔
لوگوں میں ہنر پیدا کرنا
غلام علی شیخ نے کامیابی کے یہ ہنراپنی اہلیہ کو بھی سکھا دیا ہے، جواب قالین بُننے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ ان کے بہنوئی نے بھی ان سے ہنر سیکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری اہلیہ کو 2012 میں اسٹیٹ میرٹ ایوارڈ ملا ہے، اور میری بھابھی کو 2019 میں دوسری پوزیشن سے نوازا گیا ہے۔ وہ ضلع کولگام کے ایک گاؤں ہبلش میں محلے اور حکومت کے قائم کردہ مرکز میں خواتین کو تعلیم دے رہی ہیں۔
غلام علی شیخ بتاتے ہیں کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں، میں ان لوگوں کو یہ ہنر سکھاتا ہوں جو اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اب تک کتنے لوگوں کو یہ ہنر سکھایا ہے۔
جاری کام
فی الحال غلام علی شیخ دو طرفہ قالین کے ٹکڑے پر کام کر رہے ہیں جس کے لیے وہ تین سال سے کام کر رہے ہیں۔ قالین کا یہ ٹکڑا تین زاویوں والا کام ہے، اس میں چاند (پس منظر) میں آیت الکرسی کندہ ہے، مسجد النبوی اور دوسری طرف کعبہ اور بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مرتے ہوئے فن کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے کچھ سال ان کے لیے بہت مایوس کن رہے ہیں۔ یہ فن اب دم توڑ رہا ہے۔ اور مشین سے بنے قالین جن کی قیمت کم ہے، جو عام لوگوں کی طرف سے پسند کئے جا رہے ہیں۔ہاتھ سے بنے ہوئے قالینوں کی قیمت عام طور پر زیادہ ہوتی ہے اور اس سے بنکر بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم غلام علی شیخ ہاتھ سے بنے ہوئے قالین کو ترجیح دیتےہیں اور مشینی قالین کو وہ پسند نہیں کرتے ہیں۔