شیواجی کی جنگ مسلمانوں یا اسلام سے نہیں بلکہ مغل حملہ آوروں سے تھی ۔۔ پیغمبر شیخ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-02-2023
 شیواجی کی جنگ مسلمانوں یا اسلام سے نہیں  بلکہ مغل حملہ آوروں سے تھی ۔۔  پیغمبر شیخ
شیواجی کی جنگ مسلمانوں یا اسلام سے نہیں بلکہ مغل حملہ آوروں سے تھی ۔۔ پیغمبر شیخ

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

شیواجی مہاراج اسلام کے نہیں بلکہ مغلوں کے خلاف  تھے جو ملک میں حملہ آور تھے۔ دراصل شیواجی مہاراج  کے بارے میں نہ صرف غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں بلکہ ان کی ایک ایسی تصویر پیش کی گئی ہے جس سے مسلمان انہیں اپنا یا اسلام کا خالف سمجھیں ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیواجی مہاراج اسلام کا شاید مسلمانوں سے زیادہ احترام  کرتے تھے ۔جو اس حقیقیت سے واقف ہیں وہ شیواجی جینتی مناتے ہیں بلکہ اس کا اہتمام کرتے ہیں ۔

 ان خیالات کا اظہار پونے کے پیغمبر شیخ نے کیا جو مہاراشٹر میں ایک ایسا مسلم چہرہ ہیں جو نہ صرف چھتر پتی شیواجی مہاراج کے علمبردار ہیں بلکہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کے لیے بڑی اور انوکھی مہم بھی چھیڑے ہوئے ہیں ۔جس کے تحت وہ قربانی کے بجائے تعلیم کے لیے عطیہ کی اپیل کرتے ہیں ۔ان کی زندگی کے دو اہم مقصد ہیں اول تو شیواجی کے بارے میں مسلمانوں میں پھیلی غلط فہمی کو دور کرنا اور دوسرا قربانی کے جانور کی رقم تعلیم کے لیے حاصل کرنا۔

 آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے ’’پیغمبر شیخ نے کہا کہ  شیواجی مہاراج کو اکثریت کا ہی ایک طبقہ مسلمانوں کا مخالف بنا کر پیش کرتا ہے جس کے سبب عام مسلمان اسی پروپگنڈہ کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ جو مسلم تنظیمیں شیواجی مہاراج جینتی مناتی ہیں انہیں اس حقیقت کا علم ہے کہ ان کی لڑائی  اسلام یا مسلمانوں کے خلاف نہیں تھی ورنہ شیواجی کی فوج میں تیرہ مسلمان اعلی عہدوں پر نہ ہوتے ۔

پیغمبر شیخ کہتے ہیں کہ جس قلعہ میں شیواجی مہاراج کی پیدائش ہوئی تھی اس میں ایک مسجد بھی ہے۔ان کی تاریخ پڑھیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ شیواجی مہاراج نہ ہمیشہ مسلمانوں کا احترام کیا اور اسلام کے خلاف کبھی ایک لفظ نہیں کہا ۔ان کی لڑائی صرف حملہ آوروں کے ساتھ تھی۔جس میں ان کے ساتھ خود مسلمان بھی تھے۔

awazurdu

بچپن سے ہی پیغمبرشیخ کو شیواجی کی زندگی نے متاثر کردیا تھا 

اب محسوس کررہے ہیں مسلمان

آواز دی وائس نے بات کرتے ہوئے  پیغمبر شیخ نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ اب مسلمانوں  نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کردیا ہے ۔ شیواجی مہاراج جینتی بڑے دھوم دھام سے منا تے ہیں ،ایسے مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔  شیواجی جینتی اب ایک تہوار بن گیا ہے۔ میں اس دن تقریبا بیس سے پچیس تقریبات میں شرکت کرتا ہوں ۔جہاں مجھے تقریر کرنی ہوتی ہے۔ ان میں میزبان غیر مسلم بھی ہوتے ہیں اور مسلم بھی ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو یہ بتا سکوں اور سمجھا سکوں کہ شیواجی کی کوئی بھی لڑائی مسلمانوں یا اسلام کے خلاف نہیں تھی بلکہ صرف اور صرف حملہ آوروں کے خلاف تھی۔

مہاراشٹر میں ایک تہوار ہے شیواجی مہاراج کا جنم دن

 ہر سال کی طرح اس بار بھی پیغمبر شیخ کے لیے یہ دن بہت خاص رہا کیونکہ صبح سے ہی ان کی مصروفیات کا آغاز ہوگیا تھا۔ ان کا شیواجی کے ساتھ لگاو ایک دلچسپ کہانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے میں عمر کے ہر مرحلے سے گزر رہا ہوں، چھترپتی شیوا جی سے میری محبت اور عقیدت بڑھتی جا رہی ہے۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ میں پچھلے 5 سے 10 سال کے دوران چھترپتی شیواجی مہاراج کے موضوع پر زیادہ پختہ ہو گیا ہوں۔ میری صبح کا آغاز خون کے عطیہ سے ہوا دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ اس مہم میں ان کی اہلیہ بھی ساتھ ہیں 

awazurdu

شیواجی مہاراج  جینتی پر پیغمبر شیخ اپنے اہل خاندان اور دوستوں کے ساتھ

کیسے ہوا شیواجی کی جانب رجحان

 اس بارے میں  کہ آخر کیوں اور کیسے شیواجی مہاراج سے ان کی قربت ہوئی ،پیغمبر شیخ کہتے ہیں کہ  جب میں چھوٹا تھا تو ان قلعوں میں تفریح کیا کرتا تھا جو شیواجی مہاراج کے تعمیر کردہ تھے۔ میرے ذہن میں ان کے بارے میں مزید جانکاری کا خیال آتا تھا ،میں نے پھر تاریخ کا مطالعہ کیا ،بہت کچھ پڑھا بھی اور سمجھا بھی۔   میں مہاراشٹر میں شیواجی کے تمام قلعوں کا دورہ کرنے کا عزم رکھتا ہوں ۔  جن کی تعداد  جن کی تعداد 53 ہے۔

 وہ کہتے ہیں کہ تاریخی واقعات کے بارے میں اپنا اپنا نظریہ ہوتا ہے  ،میں مانتا ہوں کہ ایک طبقہ نے شیواجی کو کو کچھ اس طرح پیش کرنا شروع کردیا جس نے انہیں مسلمانوں کی نظر میں اپنا دشمن بنا دیا لیکن ایسا نہیں ہے۔ میں اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ میرے سامنے یہی ایک بڑا مشن ہے۔ میں لوگوں کو ان کے بارے میں بتاتا ہوں اور سمجھاتا ہوں کہ حملہ آوروں کے خلاف جنگ کا مطلب کسی مذہب یا طبقہ کے خلاف نفرت یا جنگ نہیں ہے۔

awazurdu

شیواجی مہاراج کا جنم دن  تہوار کی شکل میں منایا جاتا ہے

قربانی کی رقم سے تعلیم

پیغمبر شیخ اب پونے میں ایک جانا پہچانا نام ہے ،لوگ ان کی جدوجہد کو جانتے ہیں ،سمجھتے ہیں اور اسے سلام کرتے ہیں ۔ ان کی زندگی ایک مقصد تو شیواجی مہاراج کے بارے میں مسلمانوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے جبکہ دوسرا مقصد مسلمانوں میں تعلیم کے لیے بیداری پیدا کرنا ہے۔ کمزور طبقہ کے بچوں کے لیے تعلیم  کا سہارا بننا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے جو مہم چلائی ہے وہ بہت انوکھی ہے۔ وہ تہواروں پر عطیات کی درخواست کرتے ہیں ۔خاص طور پر بقرعید کے موقع پر ان کا یہ نعرہ رہتا ہے کہ جانور کی قربانی کے بجائے اس رقم کو تعلیم کے لیے عطیہ کردیں ۔ اگر قربانی کرنی ہے تو ایک جانور کی کردیں لیکن دیگر کی رقم سے کسی کی زندگی کو سنوارنے کا کام کر دیں ۔

پیغمبر شیخ  نے آواز دی وائس سے کہا کہ ہم نے تعلیمی بیداری کی مہم کے ساتھ تعلیم کو ممکن بنانے کے لیے کوشش کی ۔ کیونکہ ہم نے  اس بات کو محسوس کیا کہ اگر کوئی بچہ پڑھنا چاہتا ہے تو اس کی تعلیم کا خرچ بھی برداشت کرنے والا کوئی نہیں ۔ ہم نے بیداری پیدا کی  یہی وجہ ہے کہ ہم نے مسلمانوں میں بیداری پیدا کی ۔ جس کا مثبت اثر پڑا ۔لوگوں نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور پھر قربانی کے بجائے ہمیں تعلیمی فنڈ میں رقم دینی شروع کی ۔

پچھلی دہائی کے دوران انفرادی مسلمانوں نے بقرعید پر جانوروں کی قربانی کی روایت کو توڑنا شروع کر دیا ۔اجانوروں کی خریداری اور قربانی پر خرچ ہونے والی خطیر رقم کو کمیونٹی کی فلاح و بہبود بالخصوص تعلیم کے لیے بہتر طور پر استعمال کرنے کے مشورے کو تسلیم کیا ۔

awazurdu

پیغمبر شیخ  سب سے سرگرم اور متحرک نام اور چہرہ

ایک سوچ جو تحریک بن گئی

پیغمبر شیخ کہتے ہیں کہ بنگلورو میں بھی ان میں سے کچھ مسلم دوست دوسروں کو اس طرز پرکام کرنے کے لیے راضی کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہی نہیں 2018 کے کیرالہ کے سیلاب کے بعد، سوشل میڈیا نے ملک بھر میں بہت سے لوگوں کو قربانی کے لیے رکھی ہوئی رقم یا کم از کم اس کا ایک حصہ سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کی تھی۔ تاہم، پیغمبر شیخ کی آرتھک قربانی تحریک ان سب سے مختلف ہے کیونکہ یہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے۔

درحقیقت فیس بک پراس مہم کو مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کی حمایت ملی ۔ انہوں نے 2014 میں اپنی مہم شروع کی تو اس وقت زیادہ مسلمان راغب نہیں ہوسکے تھے۔ اس سال عطیہ کرنے والے 117 افراد میں سے صرف 50 مسلمان تھے۔ پچھلے سال انہوں نے تقریباً 95,000 روپے اکٹھے کیے، جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں کم تھے لیکن دو لاک ڈاؤن سے ہونے والے مالی دھچکے کے پیش نظران کی توقع سے زیادہ تھا ۔

پیغمبر شیخ کہتے ہیں کہ "قرآن میں کہا گیا ہے کہ انسان کو وہ چیز قربان کرنی چاہیے جو ہمارے دلوں کو عزیز ہو۔ ایک جانور جسے قربانی کرنے کے واضح مقصد کے ساتھ خریدا گیا ہو وہ ہمارے دلوں کے قریب ترین چیز کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک کی یہ آیت میرے یقین پر مہر لگاتی ہے کہ ’’ نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچے گا اور نہ ہی ان کا خون، لیکن جو چیز اس تک پہنچتی ہے وہ تمہاری طرف سے تقویٰ ہے۔‘‘

پیغمبر شیخ کا کہنا ہے کہ مذہب میں " نیت ‘‘ سب سے اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ بتائیے اہم کیا ہے - مٹن کھانا یا غربت سے نکلنا؟ جو لوگ غریب گھرانوں میں مٹن بانٹتے پھرتے ہیں، انہیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان میں سے کچھ گھرانے اپنے بچوں کے اسکول کے لیے درکار ڈیڑھ درجن نوٹ بکس خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔ بلاشبہ غربت کو ختم کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن ایک غریب خاندان کو اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے قابل بنا کر ہم انہیں ان کی غربت سے باہر آنے کا ذریعہ فراہم کر رہے ہیں۔

awazurdu

 قربانی کے بجائے تعلیم کے لیے مالی مدد کی مہم 

دوستوں کا ساتھ

کہتے ہیں انسان کچھ سفر تنہا شروع کرتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے ساتھ جڑتے چلے جاتے ہیں اور تنہائی کا سفر کارواں بن جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ  پیغمبر شیخ کے ساتھ ہوا ۔ ان کی تعلیمی مہم کے ساتھ دو دوست جڑے ۔ جنہوں نے  ’’آرتھک قربانی ‘‘ کی مہم کو آگے بڑھانے میں مدد کی ۔ مختلف ضرورت مند تنظیموں کی مدد سے بچوں میں کتابیں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کی غریبی دور نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس کا راستہ ضرور ہموار کرسکتے ہیں ۔

پیغمبرشیخ کے ساتھی رفیق شیخ کہتے ہیں کہ ’’ہم کسی کو جانوروں کی قربانی ترک کرنے کو نہیں کہتے۔ ہم صرف یہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہ ساری رقم کسی جانور پر خرچ کرنے کے بجائے کیوں نہ اس میں سے کچھ حصہ ان لوگوں کے لیے رکھیں جنہیں اس کی ضرورت ہے؟

ان کے دوسرے ساتھی عالم پٹھان ہیں ۔  ان کا کہنا ہے کہ آپ جب کوئی مختلف کام کرتے ہیں تو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس میں بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ ایسے عناصر کو نظر انداز کردیں ۔اگر اس سوچ کی مخالفت پر دھیان دیتے تو زندگی بہت مختلف ہوتی۔

awazurdu

دھمکیاں بھی ملیں مگر ۔

پیغمبر شیخ کا نظریہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے تہواروں کو منانے کا انداز بدلنا ہوگا نہ کہ اس کی روح کو ،اس کی نیت اور مقصد کو۔ اگر ہم غیر ضروری اخراجات کا رخ تعلیم کی جانب موڑ دیں گے تو بہت کچھ بدل جائے گا ۔ انہیں اپنی اس تعلیمی مہم کے سبب معاشرے میں بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ،دھمکی آمیز کال موصول بھی موصول ہوئیں ۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب اس طرح کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ دو شخصیات سے تحریک حاصل کرتے ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو تعلیمی تحریک چلانی ہوگی ۔جیسے سرسید احمد خان نے بیڑا اٹھایا تھا ،کسی کی فکر کئے بغیر تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ انہیں زمانے کے ہاتھوں بہت کچھ برداشت کرنا پڑا لیکن ہمت نہیں ہاری۔ آج ہم لوگ ڈگر سے ہٹ کر تعلیم کے لیے کچھ کررہے ہیں تو مخالفت کا سامنا ہورہا ہے مگر اس کی فکر کئے بغیر ہم محنت کررہے ہیں ۔ مقصد یہی ہے کہ گھر گھر اور فرد فرد تک تعلیم پہنچ سکے تاکہ قوم کے ساتھ ملک کا مستقبل روشن ہوسکے