شاہ تاج خان: لاک ڈاون میں صحافت سے بچوں کی سائنسی کہانیوں تک کا سفر

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
 شاہ تاج خان:  لاک ڈاون میں صحافت سے بچوں کی سائنسی کہانیوں تک کا سفر
شاہ تاج خان: لاک ڈاون میں صحافت سے بچوں کی سائنسی کہانیوں تک کا سفر

 

 

آشا کھوسہ/ نئی دہلی

کورونا لاک ڈاون کے دوران جہاں دنیا تھم گئی اور گھروں میں قید ہوگئی تھی وہیں شہر پونے میں مقیم خاتون صحافی شاہ تاج خان بھی زندگی میں ٹھہراو کا سامنا کررہی تھیں۔یوں تو وہ بھی مارچ 2020 میں پہلے کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے دوران واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کے ذریعے باقی دنیا سے جڑی ہوئی تھیں،مگر قلم اور دماغ کی بے چینی انہیں بند کمروں میں بھی آزاد ہونے کا احساس دلاتی رہی۔وہ صحافت سے زیادہ کسی اور میدان میں دماغ دوڑا رہی تھیں حالانکہ انہیں یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ لاک ڈاون کا دور زندگی میں ایک بڑا انقلاب لائے گا۔بس اس بات کا احساس تھا کہ جسمانی طور پر گھرتک محدود رہنے کے باوجود دماغ دوڑانے کی کوئی نئی راہ کھل سکتی ہے۔اور ہوا بھی ایسا ہی، ان کی زندگی میں ایک بڑی تعلیمی اور قلمی تبدیلی پیدا کردی۔انہوں نےبند کمرے کی صحافت کے بجائے بچوں کی اردو میں سائنس کی کہانیوں کی جانب رخ کرلیا اور اس نئی راہ نے انہیں حال ہی میں اتر پردیش اردو اکاڈمی کے انعام کا حقدار بنا دیا۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے شاہ تاج خان کا کہنا ہے لاک ڈاون کے ساتھ لوگوں کی زندگی موبائل میں سماں گئی تھی،لوگ اچھی اور بری خبروں کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔وہ بھی وقت کی ضرورت سمجھ کر واٹس اپ کے کچھ گروپس سے جڑ گئیں ۔ ان گروپس سے حاصل کچھ نہیں ہورہا تھا لیکن ٹیشن زیادہ مل رہی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ تجربہ بھی بتاتا ہے کہ اس قسم کے واٹس گروپ گروپ زیادہ تر ایک بوجھ ہوتے ہیں۔مگر ان میں کبھی کبھی کوئی ایسا گروپ بھی مل جاتا ہے جو بوجھ بننے کے بجائے بوجھ کم کردیتا ہے۔

 شاہ تاج خان نے اس گروپ میں دلچسپی لینا شروع کیا۔ اس گروپ میں لوگ اردو میں بچوں کے لیے لکھی گئی اپنی اصلی کہانیاں شیئر کرنے لگے۔ البتہ اس گروپ کی خاص بات یہ تھی، اس میں چھوٹے بچے بھی بطور ممبر اردو لکھنے میں دلچسپی لیتے تھے۔

ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھنے والی ایک تجربہ کار ملٹی میڈیا صحافی شاہ تاج خان کہتی ہیں کہ مجھے اس میں دلچسپی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ مصنف وہی کہانیاں پوسٹ کر رہے ہیں جو میں نے بچپن میں پڑھی تھی۔ میں نے ان کہانیوں کا جواب دیا اور پوچھا۔ اردو میں کہانی لکھنے کا انداز ابھی تک کیوں نہیں بدلا، جب کہ آج کی دنیا ہمارے بچپن سے بہت مختلف ہے۔زیادہ تر مصنفین نے اسے یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ بچوں کی کہانیاں اسی طرح لکھی جاتی ہیں۔

 شاہ تاج خان کی بیٹی گریجویشن کے آخری سال میں ہیں اوران کا بیٹا 12ویں جماعت کا طالب ہے۔

شاہ تاج خان کہتی ہیں کہ میرے دونوں بچے سائنس کے طالب علم ہیں۔ اگرچہ میں نے سائنس صرف دسویں جماعت تک ہی پڑھی ہے، لیکن میرے بچے اسکول جاتے ہوئے اپنی سائنس کی کتابیں میرے پاس جمع کراتے تھے اور مجھ سے ایک خاص باب پڑھنے اور آسان زبان میں سمجھانے کو کہا کرتے تھے۔

اس تجربے نے شاہ تاج خان کو ایاک نیا راستہ دکھایا اور انہوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی پکنک لکھی جو اب ان کی انعام یافتہ کتاب کا عنوان ہے۔ کہانی ایک ویران شہر میں جانوروں کے اسکول کی کلاس پکنک کے بارے میں ہے۔

اسکول ٹیچر، ہاتھی، اپنے طالب علموں کو ایک نئے پارک میں لاتا ہے جو بہت جلد بند ہو سکتا ہے۔ کہانی ماحولیات اور انسانوں اور جانوروں کے درمیان تنازعات سے متعلق ہے۔

شاہ تاج خان نے یہ کہانی اپنے واٹس ایپ گروپ میں پوسٹ کی۔ شاہ تاج خان نے کہا کہ اس پر لوگوں نے بہت اچھا تبصرہ کیا۔ پھر ان کی کہانی مختلف اردو رسائل اور اخبارات میں شائع کرنے کے مطالبے آنے لگے۔

پہلی کہانی کی مقبولیت اور اشاعت کے بعد شاہ تاج خان باضابطہ اردو میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے لگیں۔

اس کے بعد انہوں نے ایک دوسری کہانی بلیک گولڈ لکھی، جب کہ ان کی تیسری کہانی جیواشم ایندھن  تھی۔  یہ کہانی ایک ماں کے درمیان گفتگو پر مبنی تھی جو اپنے بچے کو اسکول سے لے جارہی تھی۔ جب اس نے یہ پوسٹ کیا تو ممبئی کی ایک نوجوان طالبہ نے اسے فون کیا اور کہا کہ میں کبھی نہیں سمجھ سکی تھی کہ سائنس سیکھنا اتنا آسان اور مزیدارہے۔

شاہ تاج خان نے اپنی تحریر کے لیے اصولوں کا ایک سیٹ مقرر کیا: وہ ہمیشہ انگریزی میں سائنسی اصطلاحات استعمال کرتی ہیں اورمکالمے کے ذریعے کہانی بیان کرتی ہیں۔

جب انہوں نے سائنس پر مبنی 18 کہانیوں کا ایک مجموعہ لکھا تو انہیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL) سے اپنی کتاب شائع کرنے کی پیشکش ہوئی۔ دسمبر 2020 میں پکنک کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ نکل گیا۔

اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی بہت جلد فروخت ہوگیا۔ حالاں کہ شاہ تاج خاں کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک ان کی کتاب کے لیے آئی ایس بی این(ISBN)نہیں ملا ہے۔

 ایک نیوز رپورٹر سے لے کر اردو میں بچوں کے لیے بامعنی سائنسی کہانیاں لکھنے والی شاہ تاج خان مہاراشٹر کے ضلع پریشد کے زیر انتظام اسکولوں میں ایک معروف خاتون ہیں جہاں اردو پڑھائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرا سب سے زیادہ اطمینان و سکون کا لمحہ اس وقت آیا جب منتظر شیخ، جو پالگھر کے حذیفہ اسکول کے آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے، نے پکنک پر ایک مضمون لکھا اور بعد میں کہانیاں لکھنا شروع کیں۔۔

پکنک 112 صفحات پر مشتمل کتاب ہے  جو کہ مالیگاؤں، مہاراشٹر کے سمر پرکاشن کی جانب سے شائع ہوئی ہے اور اس کی قیمت 125 روپے ہے۔

شاہ تاج خان کا کہنا ہے کہ انھیں پبلشرز کی جانب سے کتاب کا علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے تجاویز موصول ہو رہی ہیں۔پکنک کے دوسرے ایڈیشن کا افتتاح  بھی انوکھا ہی تھا  کیونکہ آل انڈیا آدرش ٹیچرز ایسوسی ایشن (AIITA) اور طلبا نے پالگھر اسکول میں اس کتاب کی رونمائی کی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی کتاب بازار میں دستیاب نہیں ہے۔دراصل طلبا نے مالیگاؤں کے پبلیشرسے کچھ کاپیاں حاصل کیں اورخود ہی اس کا انوکھا اجرا کیا۔ جو یقینا میرے لیے حوصلہ مند ہے۔