ہندوستان کے سات گم نام مجاہد آزادی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-08-2022
 ہندوستان کے سات گم نام مجاہد آزادی
ہندوستان کے سات گم نام مجاہد آزادی

 

 

شاہ عمران حسن : نئی دہلی

مادر وطن ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے میں بے شمار لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔ان مجاہدین آزادی ایک بڑی تعداد وہ ہے، جو آزادی ہند کے لیے پس پردہ کام کرتی، سرخیوں میں نہیں آئی تاہم ان کی قربانیاں بھی ناقابل فراموش ہے۔ہم آزادی کے امرت مہوتسو کےموقع پر انہیں یاد کرتے ہیں، ان کی دی جانے والی قربانی کو سلام کرتے ہیں۔ یہاں ہم بے شمار گم نام مجاہدین آزادی میں سے صرف سات کا تذکرہ کررہے ہیں۔

1.ڈاکٹر محغفور احمد اعجازی

 ڈاکٹر محغفور احمد اعجازی بہار کے اندر حب ا لوطنی کا جذبہ انقلابی وشعلہ انگیز تھا ۔اپنے وطن کی آزادی کے لئے آپ بے چین و مضطرب اسقدر کہ ہمیشہ اسی جدو جہدمیں سونے کی چڑیا ہندوستان کو ان سفید ،مکّارر فرنگیوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے۔ابتدائی تعلیم امدادیہ مدرسہ دربھنگ سے حاصل کی اور جب نارتھ بروک ضلع ثانی اسکول میں اپنی طالب علمی کے ہی زمانے میں رولٹ ایکٹ کی مخالفت کی تو آپ کو اسکول سے بے دخل کر کیاگیا۔

پوسا بائی اسکول سے میٹرک کی کامیابی کے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لئے بہار نیشنل کالیج پٹنہ میں داخلہ لے لیا۔فرنگیوں کی غلامی انکے ظلم و تشدد کے خلاف تحریک کا عزم کرلیا ۔ آخر اپنی اعلیٰ تعلیم کو منقطع کرتے ہوئے اور ۱۹۲۱ء میں عدم ِ تعاون تحریک میں شامل ہوئے ۔انگریزی لباس کو آگ کے حوالے کیا ،نمک قانون کی خلاف ورزی ،انفرادی ستیہ گرہ ، اسطرح تحریک ِ آزادی میں اپنے آپ کوجھونک دیا ر۔’سر جان سائمن‘ کی سر براہی مین ہندوستانی قانونی کمیشن ’آئین ‘اصلاحات کے لئے منعقدہ اس کمیشن اور بھارت چھوڑو تحریک میں شامل رہے۔

قانونِ نجات، رامائن منڈلی، چرخہ سمیتی ،عوامی رضاکار کارپس وغیرہ کا اہتمام کیا اور انگریزوں کے خلاف ایک منظم عوام کو متحرک رکھا اور ایک اہم ’’ مُٹھیہ ‘‘ مہیم کے ذریعہ تحریکِ آ زادی کی جدود جہد کے لئے فنڈس اکٹّھا کئے۔مٹھیہ کا طریقۂ کار یوں تھا کہ کھانے بنانے سے پہلے ایک مُٹھی اناج بطور ِ تحریکِ آزادی عطیہ کے لئے محفوظ کیا جائے۔

ڈاکٹر اعجاز ی شمالی بہار کے ذمہ دار تھے اور اپنے اُصولوں کے پابند تھے۔اس تناظر میں آپ کی چچیری بہن کا قصہ کافی مشہو ہے۔دور دراز علاقے گاؤں جب آپ انکے مہمان رہے تب آپ کی بہن سے مُتھیہ کی دریافت کا جواب منفی ملا تو اپنی بہن سے کافی ناراض رہے یہاں تک کہ اصرار کو باوجود آنے کھانے سے انکار کیا ۔لیکن جب بہن مان گئی اور جب انہوں نے واجبات کا عطیہ ادا کیا تب آپ نے کھانا کھایا۔تحریکِ آزاددی کی اعلیٰ وقار جنگِ آزادی کی مجاہد خاتون ’’بی اماں‘‘ نے آپ کو بلقان جنگ کے لئے عطیہ کے لئے طلب کیا تو آپ فوراََ حاضر ہوئے عطیہ کے لئے بیحد جدو جہد کی اور بی اماں کو اپنی خدمات سے بیحد متاثر کیا۔ خاتون مجاہدِ جنگِ آزادی اور معروف شاعرہ سروجنی نائیڈو کی منعقدہ  خدمت دَل‘ ایک محاذتنظیم کا اہتمام کیا اور بخوبی اس تنظیم کو اپنی سر براہی میں آزادی کی جدو جہد کے لئے نوجوانوں کی تشہیر اور تربیت کے خود آپ نے ’’ اعجازی ٹروپ‘‘ کی فوجی دستے کی تشکیل کی اور انگریزوں کے خلاف اپنی آزادی کی شدید جدو جہد جاری رکھی۔ 1921ء میں احمد آباد منعقدہ نیشنل کا نگریس کمیٹی کی اجلاس میں شرکت کی اور میں حسرت موہانی کی زیرِ عقیدہ منعقدہ ’’ مکمل آزادی‘‘ اس تحریک کی حمایت کی جس مہاتما گاندھی نے مخالفت کی تھی اور وہ ہار گئے تھے۔آپ نے پہلی مرتبہ سابر متی آشرم میں گاندھی جی سے ملاقات کی۔

آپ تحریکِ خلافت میں شامل ہوئے اور علی برا دران مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر سے رابطہ بڑھا اور ان کے قریبی ساتھی بن گئے۔نہروپورٹس سے متعلق تمام سیاسی جماعتوں اور خصوصی طور سے تمام مسلم سیاسی جماعتی پارٹیوں کی اجلاس میں مرکزی خلافت کمیٹی کی نمائند گی کی۔مغفور احمد 3مارچ 1900ء میں بہار کے ضلع مظفرپور کے بلاک اشکراا گاؤں دیہولی میں پیدا ہوئے۔ آپ کی شادی کی خصوصی بات کا واضح ہونا ضروری ہے۔ دولہا دولہن دونوں کے عقد کے رسومات میں ہاتھ سے بُنے ہوئے کھادی میں ملبوس مکمل کر لئے۔بعد نکاح اسی تقریب آزادی کی جدوجہد میں تبدیل ہوگئی۔

  محب وطن، جمہوری سوچ ، رفاقت، ہندو مسلم اتحاد کی بے مثال شناخت ، ادب، نیشنل کھیل کے کارکن‘ ، سیاست، معاشرے کی فلاحو اصلاح کے معمار‘ کی صورت دُنیائے فانی میں اپنے کرشمائی وجود کو لافانی کردیا اور ایک اننجمن ، بہ سلیقہ مہذب تنظیم کی صورت سار ی مخلوق کے لئے اپنی ایک منفرد شناخت کے نقوش تا قیامت ساری کائینات پر نقش کر گئے۔ 26 دسمبر1966ء کی صبح مظفر پور میں رحلت کر گئے۔ آپ کے انتقال کے بعد اچاریہ ’جے پی کرپلانی نے کہا ــ ’’ ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی ایک عظیم محبِ وطن ، انسانیت کے عقیدت مند خدمتگار تھے۔انکی موت معاشرے کے لئے ایک لئے بہت بڑانقصان ہے۔ 

2.مختار احمد انصاری

حب الوطنی مختار احمد انصاری کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ بطور ڈاکٹر کام کرتے ہوئے یہ سیاست میں بھی حصہ لینے لگے۔ انڈین نیشنل کانگریس اور انڈین مسلم لیگ دونوں پارٹیوں میں کام کیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کے عہدہ پر بھی کارگزار رہے۔ مہاتما گاندھی سے انہیں حد درجہ لگاؤ تھا۔ جب بھی گاندھی جی دہلی آتے تو انہیں کے گھر قیام کرتے تھے اور مختار احمد انصاری ان کی بہتر سے بہتر خدمت میں مشٖغول ہو جاتے۔

مختار احمد انصاری کئی مرتبہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری رہے اور کئی بار صدر بھی۔ 1920ء میں جب مسلم لیگ میں صدارت کی کرسی کے لئے دوڑ شروع ہوئی اور محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا صدر بنا دیا گیا تو انہوں نے اپنے آپ کو مسلم لیگ سے الگ کر لیا اور ہمیشہ کے لئے کانگریس کے ہو کے رہ گئے۔

مختار انصاری مسلم ہندو ملت کے سربراہ تھے اور کبھی نہیں چاہتے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر ملک تقسیم ہو۔ ان کی شریک حیات نے دہلی کی مسلم عورتوں میں سماجی بہبود کا بڑا کام کیا ہے۔ انصاری، خاص کر نئے رجحان کے مسلمان جیسے مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں کے ہم خیال تھے اور ہمیشہ محمد علی جناح کے نقطۂ نظر کے خلاف رہے۔ یہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ملک ٹوٹے اور مذہب کے نام پر کسی نئے ملک کا جنم ہو۔

مختار احمد انصاری کا تعلق یوسف پور، ضلع غازی پور (اترپردیش) سے ہے لیکن ان کے آباء و اجداد کا تعلق حضرت ایوب انصاری صحابئ رسولؐ کے لڑکے عبدالرحمان سے ہے جو پہلے ایک اسلامی لشکر کے ساتھ خراسان ایران آئے تھے۔ یہ لوگ سلطان محمد بن تغلق کے دور میں ہندوستان آئے تھے۔ ان کے خاندان کے لوگ شہنشاه غیاث الدین محمد بابر کی عدلیہ میں بھی تھے۔ 1526ء میں خواجہ سراج کو بطور چیف جسٹس ہمایوں بادشاہ نے غازی پور کے لئے مقرر کیا۔ اسی حسب و نسب سے مختار احمد انصاری ہیں۔ ان کی پیدائش 25/ دسمبر 1880ء کو ہوئی اور انتقال 10/مئی 1936ء کو ہوا۔

 مختار انصاری جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 1928ء سے 1932ء تک وائس چانسلر رہے۔ یہ جامعہ کی بنیاد رکھنے والی شخصیات میں شامل رہے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی کے علاوہ ان کا بھی اس یو نیورسٹی کو بنانے میں بڑا ہاتھ رہا ہے۔

3۔عبد القیوم انصاری 

 جب ملک میں خلافت تحریک کی شروعات ہوئی تو بہار میں 14 سال کے ایک نوجوان نے بھی لبیک کہا اور ملک کی آزادی کی لڑائی میں کود پڑا۔ اس نوجوان کا نام تھا عبدالقیوم انصاری۔ وہ نو عمری سے ہی انگریز حکومت مخالف تحریکوں میں سرگرم رہے۔ عبدالقیوم انصاری بہار کے سہسرام ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اسی دوران مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی خلافت تحریک کے سلسلے میں بہار کا دورہ کر رہے تھے، اسی دورے میں عبدالقیوم انصاری کو بھی علی برادران سے ملنے کا موقع ملا۔ علی برادران ان کے قومی جذبے سے متاثر ہوئے اور انہیں 1920میں ڈہری آن سون خلافت کمیٹی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا۔ اسی سال یعنی ستمبر 1920میں کلکتہ میں کانگریس کا اسپیشل سیشن بلایا گیا تو نوجوان ڈیلیگیٹ کی حیثیت سے عبدالقیوم انصاری اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے نظر آئے۔ یہاں ان کی ملاقات مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی ہوئی۔ گاندھی جی کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ کانگریس کے اسی اسپیشل سیشن میں گاندھی جی کی پہل پر ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے اور ترکی میں خلافت کی حفاظت کی خاطر تحریک عدم تعاون کی تاریخی قرار داد پاس کی گئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ عبدالقیوم انصاری ان دنوں انگریز حکومت کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جس سے انہوں نے علیحدگی اختیار کی اور خود اسکول قائم کر ڈالا۔ اس میں وہ بچے تعلیم حاصل کرنے لگے جو گاندھی جی کے اعلان کے بعد سرکاری اسکولوں سے نکل گئے تھے اور اب وہ تحریک عدم تعاون کا حصہ تھے۔عبدالقیوم انصاری خلافت تحریک میں اس قدر سرگرم رہے کہ انہیں اس تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے فروری 1922میں ڈہری آن سون میں گرفتار کر کے سہسرام جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ نومبر تک جیل میں رہے۔ اس سزا کے بعد بھی ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا تھا، اس لیے جیل سے نکلتے ہی پھر سے سرگرم ہوگئے اور آگے بھی حکومت مخالف سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔ دسمبر 1922 میں گَیا میں منعقد کانگریس اجلاس میں ایک سامع کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس اجلاس کی صدارت چترنجن داس کر رہے تھے۔

1928 میں کلکتہ کالج اسٹریٹ میں سائمن کمیشن کے مخالفت میں چل رہی طلبہ تحریک میں سب سے سرگرم تھے، اس میں انہیں برطانوی پولیس کے ظلم کا شکار ہونا پڑا تھا۔ انہوں نے 1937 میں مومن کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح سے وہ ملک کی آزادی کے لیے ہمیشہ سرگرم رہے اور ہر تحریک میں سب سے آگے نظر آئے۔

 1946ء میں منعقدہ بہار قانون ساز اسمبلی انتخابات میں رانچی کم سنگھ بھوم محمڈن دیہی حلقہ سے پہلے پہل ایم ایل اے منتخب ہوئے اور انہیں 14 اپریل 1946 کو شری کرشنا سنگھ کی وزراء کے کونسل میں کابینہ کا وزیر بنایا گیا جو اس وقت سب سے کم عمر کے وزیر تھے۔ سچیدانند سنہا، راجیندر پرساد اور شری کرشنا کے ساتھ ان کا نام بھی آئین سبھا کے لیے بہار کے کانگریس امیدواروں میں بھی شامل تھا۔ 1946 کے آخر میں بہار فسادات کے بعد انہیں پنرواس محکمہ کا چارج سونپا گیا۔ اس دوران عبدالقیوم انصاری گاندھی جی سے رابطے میں رہے۔ اس کا تذکرہ ان دنوں گاندھی جی کے ذریعہ لکھے گئے کئی خطوط میں ہوتا ہے۔

پنرواس کے کام کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے عبدالقیوم انصاری کے ذریعے تیار کردہ منصوبے کے بارے میں گاندھی جی نے ان سے کئی بار بات چیت بھی کی۔ بعد میں اپنے خیالات کو بطور تبصرہ ان کی رہنمائی کے لیے بھی لکھا۔ گاندھی جی نے یہ تبصرہ بہار چھوڑنے سے پہلے 24 مئی 1947 کو لکھا تھا۔

ملک کی آزادی کے بعد گاندھی جی نے عبدالقیوم انصاری کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں "بھائی انصاری، آپ کی بیماری کی بات منو بہن نے سنائی۔ میری نگاہ میں بیمار پڑنا خدمت گار کے لیے گناہ ہے‘‘

 عبدالقیوم انصاری قومی اتحاد، سیکولرزم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے زبردست پیروکار تھے۔ وہ ایسے لیڈروں میں شامل تھے جنہوں نے مسلم لیگ کے علیحدہ مسلم ملک کے قیام سے متعلق نظریہ کی سخت مخالفت کی تھی۔ بہار کا یہ عظیم لیڈر 18 جنوری 1973 کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا۔

4. بطخ میاں انصاری

ہندوستان کو بے پناہ مشقتوں اور جدوجہد کے بعد انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی۔ اس کی تاریخ انقلابوں اور تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔ 1857 کی جنگ کو ہندوستان کی تاریخ آزادی میں پہلے انقلاب کا درجہ حاصل ہے اور اس کے بعد 1947 میں جب ہندوستان کو آزادی ملی، اس وقت تک لاتعداد تحریکیں چلیں۔ کچھ ناکام ہوئیں، اور کچھ آزادی کے سفر میں دیگر تحریکوں کا پیش خیمہ بنیں۔ مہاتما گاندھی کو ہندوستان کی آزادی کا حقیقی رہنما تصور کیا جاتا ہے اور ان کا نام زبان پر آتے ہی ’انگریزو بھارت چھوڑو‘، ’تحریک عدم تعاون‘، ’نمک ستیاگرہ‘، ’رالٹ ایکٹ کے خلاف تحریک‘ اور اسی طرح کئی دیگر تحریکوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان سب تحریکوں سے پہلے1917 میں بہار کے چمپارن میں نیل کی زراعت کرنے والے کسانوں پر مظالم کے خلاف تحریک چلی تھی جسے نام دیا گیا تھا 'چمپارن ستیاگرہ'۔ اس تحریک کی کامیابی نے ہی گاندھی جی کو یکے بعد دیگرے انگریزوں کے خلاف متعدد ’تحریک‘ چلانے کی ترغیب دی، اور اسی تحریک کے بعد گاندھی جی کو ’مہاتما‘ کا لقب حاصل ہوا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ 'چمپارن ستیاگرہ' سے پہلے گاندھی جی کو مارنے کا ایک زبردست منصوبہ انگریزوں نے تیار کیا تھا اور اسے ناکام بنایا حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار شخصیت بطخ میاں انصاری نے۔ یقیناً بیشتر لوگ اس نام کو سن کر حیران ہوں گے کیونکہ تاریخ کی کتابوں میں تو یہ نام کہیں نظر ہی نہیں آتا، یہ تو کسی گمنامی کے اندھیرے میں غائب ہیں

جی ہاں، بطخ میاں انصاری اگر نہیں ہوتے تو نہ ہی گاندھی ’مہاتما‘ بن پاتے، نہ ہی چمپارن ستیاگرہ ہوتا اور نہ ہی آگے وہ کامیابیاں ملتیں جو گاندھی جی کی قیادت میں مختلف تحریکوں سے حاصل ہوئیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس بطخ میاں کو آج شاید ہی کوئی شخص جانتا ہے۔ وہ تو بھلا ہو ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کا جنھوں نے آزادی کے بعد ایک موقع پر اس واقعہ کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ ایک انگریز افسر کے یہاں کام کرنے والے معمولی باورچی بطخ میاں نے کس طرح گاندھی جی کو ایک نئی زندگی دی اور غلام ہندوستان پر احسان عظیم کیا۔ آج انہی بطخ میاں انصاری کا یوم پیدائش ہے۔ وہ 25 جون 1869 کو موتیہاری میں پیدا ہوئے تھے اور آزاد ہندوستان کی ہوا میں سانس لیتے ہوئے 1957 میں مالک حقیقی سے جا ملے۔

بہر حال، گاندھی جی کی زندگی بطخ میاں نے کس طرح بچائی، یہ اب ایک دلچسپ داستان معلوم پڑتی ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ 1917 میں نیل کے کسانوں پر بہت ظلم ہو رہا تھا اور نیل فیکٹری منیجروں کے لیڈر اِروِن تھے۔ کسان بے انتہا پریشان تھے اور راج کمار شکل، شیخ گلاب اور شیتل رائے کے بہت ضد کرنے پر گاندھی جی اپریل مہینے میں چمپارن پہنچے۔ جب اس کی خبر اِروِن کو ملی تو اس نے بہت خطرناک منصوبہ تیار کیا۔ منصوبہ تھا گاندھی جی کے کھانے میں زہر دے کر انھیں موت کی نیند سلانے کا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اِروِن نے گاندھی جی کو اپنے گھر عشائیہ پر مدعو کیا اور پھر اپنے باورچی بطخ میاں کو بتایا کہ کس طرح زہر ملا ہوا سوپ گاندھی جی کو دینا ہے۔ گاندھی جی کے ساتھ اِروِن کے گھر ڈاکٹر راجندر پرساد، مولانا مظہرالحق اور کچھ دیگر لوگ بھی پہنچے ہوئے تھے۔ اپنی چھوٹی سی کمائی کے ذریعہ فیملی کا پیٹ پالنے والے بطخ میاں گاندھی جی کو مارنے کا منصوبہ جان کر اندر ہی اندر کانپ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ آخر کس طرح اس مصیبت کو ٹالا جائے۔ پھر وہ ٹرے میں دودھ سے تیار مشروب لے کر گاندھی جی کے پاس تو گئے لیکن انھیں پینے نہیں دیا۔ جب بطخ میاں کی آنکھوں سے گاندھی جی کی آنکھیں ملیں تو بطخ میاں کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور انھوں نے ڈاکٹر راجندر پرساد و دیگر مہمانان کے سامنے ہی پوری حقیقت کھول کر رکھ دی۔ پھر گاندھی جی اور ان کے ساتھی تو وہاں سے چلے گئے لیکن بطخ میاں کو اِروِن کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں بے رحمی سے پیٹا گیا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ انگریزی ظلم کی انتہا ان پر کچھ اس طرح بڑھی کہ جس چھوٹے سے گھر میں ان کی فیملی رہتی تھی، اسے بھی منہدم کر دیا گیا۔

ایک طرف گاندھی جی کی زندگی بچانے کے لیے بطخ میاں کو سزا ملی، اور دوسری طرف گاندھی جی نے ہندوستان میں اپنی پہلی تحریک (چمپارن ستیاگرہ) چلائی۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ نیل کے کسانوں کو انگریزوں کے مظالم سے نجات مل گئی اور پھر گاندھی جی کو ہندوستان کی آزادی کے لیے ایک راستہ بھی مل گیا۔ 15 اگست 1947 کو ہندوستان کی آزاد فضا میں ایک نیا سورج طلوع ہوا اور پھر ڈاکٹر راجندر پرساد ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ بنائے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1957 میں جب ڈاکٹر راجندر پرساد نے موتیہاری (چمپارن) کا دورہ کیا تو ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ اچانک انھیں بھیڑ میں ایک جانا پہچانا شخص نظر آیا۔ راجندر پرساد کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا جب انھیں احساس ہوا کہ یہ تو بطخ میاں انصاری ہیں۔ دور سے ہی انھوں نے آواز لگائی ”بطخ بھائی کیسے ہو؟“ پھر راجندر پرساد نے بطخ میاں کو اسٹیج پر بلایا اور گاندھی جی کی جان بچانے والا پورا واقعہ وہاں موجود لوگوں سے کہہ سنایا۔

حیرانی کی بات ہے کہ انتہائی اہم اس واقعہ کا تذکرہ نہ ہی مہاتما گاندھی کی خودنوشت میں ہے اور نہ ہی ڈاکٹر راجندر پرساد کے ذریعہ تحریر کردہ چمپارن کی تاریخ پر مبنی سب سے بھروسہ مند اس کتاب میں جہاں چمپارن کی ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کی یادوں میں بطخ میاں انصاری زندہ ہیں اور اگر اس واقعہ کو تاریخ کی کتاب میں درج نہیں کیا گیا تو یہ ان پر ظلم ہی ہوگا۔ اور یہ ظلم انگریز افسر اِروِن کے اس ظلم سے بہت بڑا ہوگا جو گاندھی جی کی جان بچانے کے عوض میں ان پر ڈھایا گیا تھا۔ سوچنے والی بات ہے کہ اگر اپریل 1917 میں زہر کا گلاس پینے سے گاندھی جی کو بطخ میاں نے نہیں روکا ہوتا تو ہندوستان کی تاریخ کیا ہوتی۔ یہ سوچ کر دل گھبرا جاتا ہے کہ کیا ہندوستان 15 اگست 1947 کو آزاد نہیں ہو پاتا، کیا غلامی کی زنجیریں مزید کئی سالوں تک بندھی رہتیں، یا پھر نہیں نہیں بطخ میاں انصاری نے جو کارنامہ انجام دیا ہے، انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہم انھیں سلام کرتے ہیں، ان کی حب الوطنی کو سلام کرتے ہیں اور ان کی قربانیوں کو بھی سلام کرتے ہیں۔

5.رفیع احمد قدوائی

اترپردیش کے بارابنکی ضلع کے مسولی میں رفیع احمد قدوائی کی پیدائش 18 فروری 1894 میں ہوئی تھی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے انھوں نے 1918 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور آگے قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن مہاتما گاندھی کی اپیل پر تعلیم ترک کر کے تحریک عدم تعاون میں شریک ہو گئے۔

 اس شراکت داری کے لیے انھیں قید کی صعوبت بھی جھیلنی پڑی۔ ان کے اندر تنظیمی صلاحیت بے پناہ تھی۔ یہی سبب ہے کہ جواہر لال نہرو نے انھیں الہ آباد بلایا اور اپنا ذاتی سکریٹری منتخب کیا۔

سنہ1930 میں جب رائے بریلی کے غریب کسان ٹیکس ادا کرنے کے لائق نہیں تھے تو رفیع احمد قدوائی نے ان کے حق میں تحریک چلائی جس کے لیے انھیں انگریزی حکومت نے 6 مہینے قید کی سزا سنائی۔

اس کے باوجود وہ غریب ہندوستانیوں کے حق میں آواز بلند کرتے رہے۔ 1937 میں صوبائی انتخاب ہوا اور کانگریس کو فتحیابی ملی تو اترپردیش میں گووند ولبھ پنت کی کابینہ میں رفیع احمد کو آمدنی اور جیل کا وزیر بنایا گیا۔ 1946 میں انھیں اترپردیش کا وزیر داخلہ بھی بنایا گیا۔

ملک کی آزادی کے بعد ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے جواہر لال نہرو نے انھیں وزیر مواصلات کا عہدہ دیا۔ رفیع احمد قدوائی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جواہر لال نہرو کی کابینہ میں صرف دو مسلم شامل تھے، ایک رفیع احمد اور دوسرے مولانا ابوالکلام آزاد۔ ملک کے اس مجاہد آزاد کا انتقال 24 اکتوبر 1954 کو ہوا۔

6۔ مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی

مولانا احمداللہ شاہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ(1787 - 1857ئ)’ شیرِ ہند‘ ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ کی فکرو عمل کی بازگشت ہیں۔ ٹیپوسلطان کی شہادت 4مئی 1799ء کے وقت آپ کی عمر تقریباً 12سال تھی۔آپ چنیا پٹن تعلقہ پورناملی نزدمدراس ، جنوبی ہند کے نواب سیدمحمد علی کے بیٹے تھے ۔

آپ کااصل نام ’سیداحمد علی‘،’ضیاء الدین‘ لقب جب کہ ’دلاور جنگ‘ خطاب تھا اورآپ کی مادری زبان اردو تھی۔آپ نے عربی ،فارسی اوربعدازاں انگریزی زبان سیکھی۔آپ خوب صورت اور خوب سیرت شخصیت کے مالک تھے ۔آپ نے عملی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن میں فوج کی ملازمت سے کیا۔آپ نے دوران ملازمت انگریزوں کو بہت قریب سے دیکھاجانااوربعض انگریز رفقا کی ترغیب سے برطانیہ کاسفرکیا،پھر مصرگئے ،حجازمقدس کی زیارت کی،حج کیا، بعدازاں ترکی،ایران اورافغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان لوٹے ۔

آپ نے یہ سیر وسیاحت اپنے دور جوانی میں کی۔القصہ آپ ایک جہاندیدہ اور باہمت شخصیت کے حامل تھے ۔گو کہ آپ کی پرورش اورتعلیم وتربیت نوابی یعنی امیرانہ ماحول میں ہوئی مگر آپ کی طبیعت میں بچپن سے ہی فقراورغناغالب تھی۔آپ کوتصوف سے خاص شغف تھا۔اسی روحانی جستجونے آپ کو سارے ہندوستان کی سیاحت کرائی۔ بیکانیر اورسانبھر میں 12سال ریاضت،مجاہدہ اور چلہ کشی کی۔آپ کی پہلی بیعت جے پورکی روحانی شخصیت میرقربان علی چشتی رحمہ اللہ کے دست مبارک پر ہوئی۔بعدازاں آپ گوالیارکے قادری بزرگ محراب شاہ قلندر گوالیاری رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے اور بیعت کی۔

اس طرح آپ کو بیک وقت چشتی اورقادری سلسلے سے خلافت کا اعزاز میسر تھا۔آپ سماع کے دلدادہ تھے ۔آپ کے شیخ کامل محراب شاہ قلندرگوالیاری رحمہ اللہ نے آپ کو غاصب انگریز کے خلاف جہاد کا حکم دیااور اس حوالے سے قوم کو ترغیب دلانے کا بھی فرمایا۔اس لئے آپ گوالیار سے دہلی آئے ،دہلی کے علماواولیا سے مصاحبت مشاورت رہی۔دہلی کے صدر الصدور مفتی صدرالدین آزردہ رحمہ اللہ نے 1846ء میں آپ کوجہادی جدوجہد کے لیے آگرہ بھیجاجہاں آپ نے ’مجلس علما‘ بنائی جنھوں نے جنگ آزادی 1757ء میں اہم کردار اداکیا۔

آپ نے دہلی اورآگرہ کے بعد میرٹھ، پٹنہ،بِہار،کلکتہ وغیرہ کے بھی دورے کیے اور ان علاقوں میں عوامی جہادی مراکزقائم کیے ۔ان کی جہادی پالیسی کااہم نکتہ مزاحمتی جہادی یکجہتی تھاجوشیرِہندٹیپوسلطان کی ریاستی پالیسی کا مرکزی رہنمااصول تھا کہ غاصب انگریز کے خلاف مقامی وبین الاقوامی مزاحمتی محاذ بنایاجائے ۔ حقیقت یہ ہے مولانامدراسی غیرمعمولی آدمی تھے اور جنگ آزادی کی اہم ترین شخصیت تھے ۔

ا ن کی فوجی حکمت عملی نے اس وقت کے موجودہ انگریز سپہ سالاروں کی تمام تدبیریں کئی بارناکام بنائیں۔اگر محب وطن کی تعریف یہ ہے کہ :’’وہ اس آزادی کے لیے جنگ کرتا ہے او رجال بچھاتاہے جس سے اسے بلا سبب محروم کردیا گیاہو۔‘‘تو اس تناظرمیں مولانامدراسی ایک سچے اور مخلص مومن تھے ۔آپ نے اپنی تلوار کو(میدان جنگ سے باہر)کسی کو دغابازی سے قتل کر کے رنگین نہیں کیااورنہ ہی کسی کوکسی مارنے یاہلاک کرنے میں حیلے بہانے سے کام لیا۔آپ نے کھلے میدان میں مردانگی کے ساتھ، صدق وصفا سے ایسے لوگوں کا مقابلہ کیا جنہوں نے ان کے وطن پر قبضہ کررکھا تھا ،دلیری اور سچائی کی قدر کرنے والے خواہ کسی بھی قوم کے ہوں ، ان کی یاد کو ہمیشہ عزیز رکھیں گے ‘‘ انگریز مؤرخ ہومز(Holms) کہتے ہیں کہ ’’ اگر چہ مولوی مدراسی ، حیدر علی اور شیوا جی کے ہم پایہ نہ تھے لیکن ہندوستانی غدر( آزادی) میں جو آدمی ہمارے خلاف لڑے ،ان میں وہ غالبًا سب سے بڑھ کر قابل اور یقینا سب سے زیادہ صاحب عزیمت تھے ‘‘ میک میوٹن نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’ برطانیہ کے اس سخت ترین دشمن کا غیر متوقع انجام سرکالن کیمیل کی ساری طاقتور فوج کے مقابلے میں ، پروپیگنڈا کے اندر اَمن قائم کرنے کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہوا ‘‘ (جنگ آزادی میں علماء وصوفیاء کا کردار، ص 175،176 ) جنگ آزادی 1857ء کے مخلص مجاہدین کی فہرست خاصی طویل ہے مگر اس تحریک کا نقص(Tragic Flow) یہ ہے کہ اس کی کوئی مرکزی قیادت تھی اور نہ ایک محاذِ جنگ۔یہ پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی مختلف ٹولیاں اور گروہ تھے جن کے اغراض ومقاصد مختلف اور بعض اوقات متصادم تھے ، جب کہ مخلص مجاہدین مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی ،مفتی آزردہ ، مولانا رضا علی خان بریلوی ،سید کفایت علی کافی، جنرل بخت خان ،خان بہادر خان ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ،مرزا مظہر جان جاناں ،امام بخش صہبائی وغیرہم کی خدمات تحریک پاکستان کی بنیاد بنی۔

شہنشاہ ِ ہند بہادر شاہ ظفر کو میرٹھ کے مجاہدین کو پناہ دینے کے الزام میں رنگون میں قید کیا گیااور ان کی اولاد کو شہید کردیا ،جھانسی کی رانی جنوری 1858ء تک انگریزوں سے اپنے لے پالک بیٹے کے لیے نوابی کی ناکام سعی کرتی رہیں ۔اودھ کی بیگم حضرت محل اپنے کم عمر اکلوتے بیٹے برجیس قدر کی نوابی کا پروانہ انگریزوں سے مانگتی رہیں ۔لکھنو کے واجد علی خان کو انگریز سرپرست سے سبکدوشی کا غم تھاوغیرہ وغیرہ دریں حالات مولانا احمداللہ شاہ مدراسی نے اپنے چند ہزار مخلص مجاہدین کی مدد سے غاصب انگریز کو بار بار جنگی ناکامی اور پریشانی میں ڈالے رکھا ۔مولانا مدراسی نے میرٹھ ، فیض آباد، اودھ ، لکھنو ، شاہجہان پور وغیرہ میں جنگی جوہر دکھائے ۔آپ نے لکھنو کی شیعہ برداری کے ساتھ تعاون اس بنیاد پر کیا کہ ’تبراگوئی‘ سے اجتناب کریں گے ۔مزاحمت کے دوران اودھ کی بیگم حضرت محل ،آپ کے درِ دولت پر پناہ گزین تھیں، آپ چہنٹ ،دلکشا،قیصر باغ ،عالم باغ ، سکندر باغ ، ریزیڈینسی وغیر ہ میں دادِ شجاعت دی ،لکھنو پر انگریزوں کے تسلط کے بعد آپ شاہجہان پور اور بعدازاں قصبہ محمدی میں مجاہدین کی سرکار سازی میں کامیاب ہوگئے ۔قصبہ محمدی میں قائم ہونے والی حکومت کے مولانا مدراسی امیر تھے ،جنرل بخت خان فوجی کمانڈراور نانا صاحب کو دیوان یعنی وزیر اعظم بنا یا گیا ۔ آپ نے محمدی حکومت کے تحت اردگردانگریزوں پرکامیاب حملے کیے ۔مگر آپ اپنوں کی نااہلی ، احمقانہ دراندازی ، انگریزون کی منظم فوجی سرگرمیوں ،مال وزر کے شوق ِ فضول،مخبری کے زرتعاون، بھوک ، غربت ، بیروزگاری سے تنگ عوام کے فکر وعمل سے خاصے نالاں تھے ۔آپ نے قصبہ محمدی سے شاہجہاں پور جاتے وقت ایک درویش الف شاہ سے شہادت کی خواہش کا اظہار کیا ۔انگریزوں نے آ پ کے سر کی قیمت 50 ہزار مقرر کررکھی تھی ۔

 آپ کے ایک مرید فتح محمد تائب ؔ نے آپ کے کارناموں کو مثنوی ’ تواریخ احمدی‘ میں محفوظ کیا ۔ضلع شاہ جہان پور کے پوائین کے راجہ جگن ناتھ نے آپ کو تعاون کی پیشکش کی اورپوائین آنے کی دعوت دی۔پوائین،اودھ اوربندھیل کھنڈکی سرحد پر واقع ہے ۔جب مولانامدراسی پوائین پہنچے تو راجہ مگن ناتھ نے حویلی کا دروازہ بند کردیا اور اندر سے گولی چلا کر آپ کو شہید کردیا ۔آپ کے دست ِ راست شفیع اللہ خان رئیس نجیب آباد بھی موقع پر شہید ہوگئے ۔جگن ناتھ کے بھائی بلدیو سنگھ نے آپ کا سرقلم کرکے انگریزمجسٹریٹ کو پیش کیا اور 50ہزار کی رقم زرِ تعاون پائی ۔ آپ کے جسد خاکی کا مثلہ کرکے جلا دیا گیا اور بعدازاں موضع جہاں گنج کی ایک جھوٹی سی مسجد کے قریب ان کے سر کی تدفین کی گئی ۔مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی نے تاحیات انگریزوں کی خلاف مزاحمت کی اور ان کو بار بار ناکام کیا ۔1857ء کی جنگ آزادی وسائل کی کمی مگر حوصلوں کی زیادتی سے لڑی گئی بقول علامہ اقبال ’ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ‘ شاعر نے بجا فرمایا خدا رحمت کند ایں عاشقان ِ پاک طینت را

7. میجر جنرل شاہ نواز خاں 

وطن عزیز کی سو سالہ تحریک آزادی بلاتفریق مذہب وملت ہند و ستان کے بے شمار فرزند وطن کی قربانیوں سے روشن و تاباں ہے۔ ان مجاہدین کی جاں نثاریوں کی بدولت ہی آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ ان عظیم سپوتوں میں جنرل شاہ نواز کا نام بھی سرفہرست ہے جنہوں نے آزادی کی خاطر پر خار راہوں کا انتخاب کیا اور مادرِ ہند کو انگریزوں کے پنچوں سے آزاد کرا کر ہی دم لیا۔

میجر جنرل شاہ نواز خاں ایک عظیم وطن پرست، مخلص سپاہی اور نیتاجی سبھاش چندر بوس کے بے حد قریبی ساتھی تھے، خاں صاحب ایک فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ جذبہ خدمت خلق سے سرشار، غریب پرور اور نباض وقت سیاست داہ بھی تھے۔ جنرل شاہ نواز خاں برٹش انڈیا میں 24 جنوری 1914 کو مٹور ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سردار ٹیکا خاں جنجوعہ اپنے قبیلے کے سردار ہونے کے ساتھ برٹش فوج میں افسر بھی تھے، تو وہیں ان کے چچا پنجاب اسمبلی کے رکن تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم آبائی وطن میں ہوئی اور آگے کی تعلیم پرنس آف ویلس رائل انڈین ملٹری کالج دہرادون میں حاصل کی۔ شاہ نواز خاں نے اپنے بزرگوں کی تقلیدکی روش اختیار کی۔

جنرل شاہ نواز جب 1940میں برٹش انڈین فوج میں ایک افسر کے طور پر شامل ہوئے اس وقت دوسری عالمی جنگ چل رہی تھی۔ انگریزوں نے جاپانیوں کے خلاف جس پنجاب رجمنٹ کو سنگاپور اور ملایا کے مورچوں پر بھیجا تھا اس میں یہ کیپٹن کے عہدے پر فائز تھے۔ جاپانی فوج نے برٹش فوج کے سینکڑوں سپاہیوں کو جیل میں ڈال دیا تھا، دریں اثنا 1943میں نیتا جی سبھاش چندر بوس سنگا پور پہنچے اور آزاد ہند فوج کے تعاون سے ان سپاہیوں کو آزاد کرایا۔ نیتا جی کی شخصیت سے متاثر ہو کر جن افسران اور سپاہیوں نے آزاد ہند فوج میں شمولیت اختیار کی تھی ان میں شاہ نواز خاں بھی شامل تھے، جو قلیل مدت میں ہی سبھاش چندر بوس کے سب سے بھروسہ مند ساتھی بن گئے۔

شاہ نواز خاں نے آزاد ہند فوج میں نئی توانائی پھونکی اور سپاہیوں کو سمجھانے کے لئے رات دن ایک کر دیا۔ جاپانی خیمہ میں قید ہندوستانی سپاہیوں کے ایک خیمہ سے دوسرے خیمہ میں جا جا کر پرانگیز اور جوش ولولہ تقریر کرتے، ’’اگر تم آزاد ہند فوج میں شامل نہ ہوئے تو جاپان ہماری مدد نہ کرے گا، آزاد ہند فوج ہندوستان کی آزادی دلانے کے لئے قائم کی گئی ہے۔۔۔۔۔ہر ہندوستانی کا فرض ہے ہے کہ لڑنے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر جائے کیونکہ لڑائی میں موت بھی ہو سکتی ہے اور جو موت و تکلیف سے ڈرتا ہے وہ پیچھے رہ سکتا ہے کیونکہ ہم کو ہندوستان کی آزادی کے لئے لڑائی لڑنی ہے اس لئے بزدلوں کی ضرورت نہیں، صرف عالیٰ حوصلہ مند لوگوں کی ضرورت ہے، ہماری لڑائی ہندوستان کی عزت و وقار کے لئے ہے نہ کہ جاپان کے فائدے کے لئے ۔‘‘

نتیا جی جنرل شاہنواز خاں کی وطن کے تئیں بے پناہ محبت اور جذبہ کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ نیتا جی نے برٹش انڈیا پر حملہ کرنے کے وقت انہیں کمان سونپتے ہوئے جو کہا تھا وہ تاریخ ہند میں حرف زریں کے لکھنے کے قابل ہے:

’’آزاد ہند فوج کی عارضی حکومت کے حکم پر آپ ہندوستان سے آخری لڑائی لڑنے جا رہے ہیں۔ میں حملہ آور فوج کی کمان شاہ نواز کے ہاتھوں میں سونپتا ہوں۔ جنرل شاہنواز کی حب الوطنی، ان کی قوت ارادی اور ان کی حکمت عملی کو خراج تحسین ادا کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔‘‘

انہیں دسمبر 1944 میں مانڈھلے میں تعینات فوج کی ٹکڑی کا نمبر 1 کمانڈر فائز کیا گیا ۔ان کی کمان میں برگیڈ نے منی پور، امپھال اور کوہما کے مقامات پر انگریزی فوج سے لوہا لیا اور انہیں دن میں تارے دکھا دئیے۔ انہیں جوائنٹ سیکنڈ ڈیزون کا کمانڈر بنا کر برما کے مورچہ پر لڑنے کے لئے بھیجا، جہاں یہ اپنے مشن میں زیادہ کامیاب نہ ہو سکے اور 1945 میں انگریزی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے شاہنواز کو گرفتار کر لیا گیا۔ نومبر 1946 میں میجر جنرل شاہنواز خاں، کرنل پریم سہگل اور کرنل گروبخش کے ساتھ لال قلعہ میں برٹش سرکار نے ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا۔ شاہ نواز خاں پابندی سے ڈائری لکھتے تھے، یہ ڈائری بھی ان کی گرفتاری کے وقت انگریزوں کے ہاتھ لگی اور لال قلعہ فوجی عدالت میں بطور ثبوت پیش کی گئی۔ دوران جنگ انہیں کن حالات سے گزرنا پڑا، اس ڈائری میں تسلسل کے ساتھ تمام باتیں قلم بند ہیں۔

مئی 1945 کے واقعات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’محاذ جنگ پر کوئی امداد نہیں ملی، نہ تو فوجی امداد، نہ ہی رسد پہونچی، بھوک کی وجہ سے اموات ہونے لگیں۔ 4 مئی کو بارش ہوتی رہی، قدم جب لغزش کھا رہے تھے جاپانی مکمل طور پر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں سے چاروں طرف سے گھر گئے۔‘‘

آگے رقم طراز ہیں کہ، ’’16، 17 مئی کی درمیانی شب ہم ایک گاؤں کے جنگلوں میں تھے پنجاب کی رجمنٹ جو ہم سے 5 گز دورتھی گولیاں چلا رہی تھی، رات گزری، صبح آٹھ بجے ہم کو گرفتار کر لیا گیا، پھر جاپان کی شکست کے بعد وہاں سے دہلی لا کر لال قلعہ میں نظر بند کر دیا گیا۔‘‘

ان کے اوپر ملکہ کی حکومت کے خلاف سرگرم جنگ کرنے اور قتل کے الزامات لگا ئے گئے، عدالت میں مقدمہ کی پیروی پنڈت نہرو،سر تیج بہادر سپرو، کیلاش ناتھ کاٹجو اور بھولا بھائی دیسائی نے کی۔ مقدمہ کے خلاف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کلکتہ، ممبئی، لکھنو، آگرہ اور احمدآباد کی سڑکوں پر اتر آیا اور ہڑتالیں کی جانے لگیں۔ 31 دسمبر کو مقدمہ کی کاروائی پوری ہوئی۔ کورٹ مارشل کے ایڈوکیٹ نے ان کے جذبہ حب الوطنی کی تعریف کرتے ہوئے کم سے کم سزا دینے کی اپیل کی لیکن فوجی عدالت نے سزائے موت تجویز کی، حالات کی سنگینی کو دیکھ کر اس کی توثیق کے وقت ہندوستان کے کمانڈر انچیف سرکلائیو آرکینک نے نہ چاہتے ہوئے بھی جرمانہ لگا کر 31 جنوری 1946 کو رہائی کا حکم دیا۔

جنرل شاہ نواز خاں نے مقدمہ کی دوران جو اپنا تحریری بیان داخل کیا اس سے ان کی حب الوطنی اور وطن پر مر مٹنے کے جذبات کا اظہار عیاں ہوتا ہے۔ ’’جب میں ملایا کے مورچہ پر گیا میرے دائیں بائیں جو انگریزوں کی کمپنیاں تھیں دم دبا کر بھاگ گئیں۔ مجھے انگریزوں کی بزدلی بری لگی۔ سنگاپور کی شکست کے بعد جب ہندوستانی فوج کو انگریزی فوج سے علاحدہ کیا گیا تو مجھے بہت غصہ آیا۔ جب انگریزی کرنل نے مجھ سے کہا اب ہمارے تمہارے راستہ الگ ہیں اور ہم کو چھوڑ کر چلے گئے تو سنگاپور کے جنرل پارک گیا۔ میں آزاد ہند فوج کے خلاف تھا کیونکہ سمجھتا کہ جاپانی اپنے مطلب کے لئے استعمال کریں گے لیکن جب یقین ہو گیا کہ آزاد ہند فوج ہندوستان کو آزاد ی دلانے کے لئے بنائی گئی ہے تب میں شامل ہوا۔‘‘

تحریری بیان کا یہ اقتباس بڑا دل سوز ہے کہ ’’میرے دل میں اپنے خاندان کی بھلائی اور بہبودی کا خیال بار بار آیا تھا اور سوچتا تھا کہ میری آزاد ہند فوج کی شرکت سے سرکار ان کو تکلیف پہونچائے گی۔ دوسری طرف ملک کے کروڑوں ننگے بھوکے میری آنکھوں کے سامنے آتے تھے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ ان کی خاطر گھر، خاندان کو قربان کردوں گا، میں ہندوستان کے مورچہ پر اپنے چچازاد بھائی کے خلاف لڑتا رہا جبکہ وہ زخمی بھی ہوگیا تھا۔‘‘

1946 میں آزاد ہند فوج کے خاتمہ کے بعد مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو سے میزان ملنے کے بعد شاہ نواز خاں کانگریس میں شامل ہو گئے۔ 1947 میں پنڈت نہرو نے انہیں کانگریس سیوا دل کے کارکنوں کو فوج کی طرح ٹریننگ دینے کی ذمہ داری سونپی۔ 1952 میں جنرل شاہ نواز خاں میرٹھ پارلیمانی حلقہ سے ایم پی منتخب ہوئے، اس کے بعد 1971 تک لگاتار پارلیمنٹ میں میرٹھ کی نمائندگی کرتے رہے اور 23 سال تک مرکزی کابینی وزیر رہے۔

نیتا جی سبھاش چندر بوس کے سانحہ کی جانچ کے لئے جو کمیشن تشکیل دیا گیا تھا اس کی صدارت جنرل شاہ نواز کو ہی سونپی گئی تھی۔ آزادی کے بعد لال قلعہ پر یونین جیک کو اتار کر ترنگا لہرانے کی سعادت اپنے حصہ میں لکھنے والے شاہ نواز خاں ہی ہیں۔ آج بھی لال قلعہ پر شام چھ بجے لائٹ اینڈ ساؤنڈ کا جو پروگرام ہوتا ہے اس میں ان کی ہی آواز گونجتی ہے۔ ڈاک شعبہ بھی ان کی خدمات کو دیکھ کر ان کے اوپر ڈاک ٹکٹ شائع کر چکا ہے۔ 9 دسمبر 1983 کو اس عظیم مرد مجاہد آزاد ی نے داعی اجل کو لبیک کہا اور شاہجہانی مسجد دلی کے احاطہ میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔