سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں مسلم خواتین کی خدمات

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 02-05-2023
سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں مسلم خواتین کی خدمات
سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں مسلم خواتین کی خدمات

 

محمد رضی الاسلام ندوی

صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ

دنیا کے تمام مذاہب، تہذیبوں اور فلسفوں نے عورت کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا ہے ، اس کے بارے میں منفی باتیں کہی ہیں اور اسے مرد سے کم تر حیثیت دی ہے۔ قدیم تہذیبوں میں یونانی تہذیب کا بہت شہرہ تھا۔ یونانی مفکرین کے نزدیک عورت تمام برائیوں کی جڑ تھی۔سقراط (م399ق م)نے کہا تھا کہ عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی اور کوئی چیز نہیں۔افلاطون (م347 ق م)کا خیال تھا کہ سانپ سے ڈسے کا علاج ممکن ہے ، لیکن عورت کے شر کا علاج ممکن نہیں۔ارسطو(م 322 ق م) کہتا تھا کہ عورت میں مرد کے مقابلے میں کم عقل ہوتی ہے ۔اسلام  نے عورت کو عزّت و احترام کی نظر سے دیکھا ہے اور اس کے تمام حقوق بنیادی انسانی حقو ق تسلیم کیے ہیں۔ لیکن افسوس کہ بعد کی صدیوں میں مسلمانوں نے بھی دیگر تہذیبوں اور مذاہب سے تاثر کے نتیجے میں خواتین کو بہت سے حقوق سے محروم کردیا ، ان پر بے جا پابندیاں عائد کردیں،انہیں تعلیم سے محروم رکھا، یا زیادہ سے زیادہ گھریلو تعلیم کی اجازت دی اور سماج میں انہیں مردوں سے کم تر حیثیت دی۔

                 اسلام نے عورتوں کو جینے کا حق دیا ، جب کہ نزول قرآن کے زمانے میں بعض قبائل اپنی لڑکیوں کو زندہ دَر گور کرتے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی۔(ابو داؤد:514)آپؐ نے ان کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا۔

 ایک مرتبہ ایک خاتون نے شکایت کی کہ آپ کو ہر وقت مرد حضرات گھیرے رہتے ہیں، ہم عورتوں کو آپ سے خصوصی استفادہ کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔ آپ نے ان کے لیے دن اور مقام متعین کردیا ، پھر وہاں تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و تلقین فرمائی ۔ (بخاری:۱۰۱)آپ نے خواتین کو مسجد میں حاضری دینے کی اجازت مرحمت فرمائی اور مردوں کو تاکید کی کہ جو عورتیں باجماعت نماز کے لیے مسجدوں میں آنا چاہیں انھیں نہ روکیں۔    ابو داؤد:567مسجدیں نماز ہی کا نہیں، بلکہ تعلیم و تربیت کا بھی مرکز ہوتی تھیں تھیں ۔

مسجدیں نماز ہی کا نہیں، بلکہ تعلیم و تربیت کا بھی مرکز ہوتی تھیں تھیں ۔ آپ نے تاکید کی تھی کہ خواتین بھی عید گاہ جایا کریں۔ وہاں آپ مردوں کے درمیان خطبہ دیتے تو الگ سے عورتوں کے پاس بھی تشریف لے جاتے اور انہیں دین کی باتیں بتاتے۔(بخاری:975)

آپ کی ان ہدایات اور تلقینات کے نتیجے میں خواتین بھی تحصیل ِ علم کے میدان میں پیش پیش رہتی تھیں۔عہد نبوی میں ام المومنین حضرت عائشہؓ علم کے میدان میں سبقت کی روشن مثال ہیں۔صحابۂ کرام پر ان کے استدراکات مشہور ہیں، جنہیں متعدد کتابوں میں جمع کردیا گیا ہے۔ تابعین اور تبع تابعین کے زمانوں میں بھی متعدد خواتین کو شہرت ملی ، جو بہت سے مردوں پر فائق تھیں۔مشہور تابعیہ حضرت حفصہ بنت سیرینؒ (م 101ھ)

بلند پایہ کی محدثہ تھیں۔ فہم ِ قرآن میں بھی ان کا مقام بہت اعلیٰ تھا۔علم قراء ت میں ان کو اس قدر مہارت حاصل تھی کہ جب ان کے بھائی محمد بن سیرین کو کوئی مشکل پیش آتی تو فرماتے:‘‘ حفصہ سے پوچھو کہ وہ کیسے پڑھتی ہیں؟

سید التابعین حضرت سعید بن المسیبؒ (م94 ھ) کی صاحب زادی ‘درّۃ’ نے ان سے مروی تمام احادیث حفظ کرلی تھیں۔ خلیفۂ وقت عبد الملک بن مروان (م86 ھ) نے اپنے بیٹے اور ولی عہد ولیدکے لیے ان کا رشتہ مانگا، لیکن ابن المسیب ؒنے انکار کردیا اور ان کا نکاح اپنے ایک شاگرد ابن ابی وداعہ سے کردیا۔

نکاح کے کچھ روز کے بعد جب شوہر حضرت ابن المسیبؒ کی علمی مجلس میں جانے لگے تو بیوی نے کہا: اِجْلِسْ اُعَلِّمُکَ عِلْمَ سعید۔‘‘یہیں رہیے۔ (میرے والد)حضرت سعیدؒ کے پاس جو علم ہے وہ میں ہی آپ کو دے دوں گی۔’’ (ابن الحاج،المدخل 5121؍،ابن سعد،الطبقات،5؍831، ابو نعیم،حلیۃ الاولیاء، 2؍167)

امام مالک بن انسؒ (م179ھ)کی صاحب زادی کو ان کی مؤطا پوری یاد تھی۔ان کے بارے میں بیان کیاگیاہے کہ وہ اپنے والد کے حلقۂ درس میں دروازے کی اوٹ سے شریک رہتی تھیں۔ احادیث پڑھنے میں کوئی شخص غلطی کرتا تو وہ دروازہ کھٹکھٹادیاکرتی تھیں۔ امام مالک سمجھ جاتے اور پڑھنے والے کی اصلاح کردیتے تھے۔(ابن فرحون،الدیباج المذھّب فی أعیان علماء المذھب، 1؍86) فاطمہ بنت منذر بن زبیر بن العوام عظیم محدثہ اور فقیہہ تھیں۔انہوں نے بہت سی احادیث کی روایت کی ہے،خاص طور پر اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے۔ان کی بیش تر روایات ان کے شوہر حضرت ہشام بن عروہ ؒ(م146 ھ)کے واسطے سے مروی ہیں۔

اسلام کے دورِ عروج میں خواتین کے افادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ان سے دیگر خواتین بھی استفادہ کرتی تھیں اور مرد بھی فیض اٹھانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔خواتین کے فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ان کی مجلسوں میں وقت کے حکم راں اور بڑے بڑے علماء و فقہاء و محدثین حاضر ہوتے تھے اور ان سے استفادہ کرتے تھے۔

حضرت ابو الدرداءؓ کی دوسری بیوی ام الدرداء الصغری التابعیۃکے شاگردوں میں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان بھی تھے۔وہ ان سے فقہ کا درس لیتے تھے اور دوسرے شاگردوں کی طرح ان کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کرتے تھے۔ اسماعیل بن عبد اللہ راوی ہیں ۔۔۔ عبد الملک بن مروان قبۂ صخرہ، یروشلم میں نشست رکھتے تھے اور ام الدرداء وہاں ان کو درس دیتی تھیں ۔

جب مغرب کی اذان ہونے لگتی تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کا سہارا لیتے ہوئے ام الدرداء بھی کھڑی ہوجاتیں اور ان کے سہارے مسجد میں داخل ہوتیں۔ پھر وہ خواتین کی صف میں شامل ہوجاتیں اور عبد الملک آگے بڑھ کر امامت کا فریضہ انجام دیتے ۔

عہد نبوی میں ام المومنین حضرت عائشہؓ علم کے میدان میں سبقت کی روشن مثال ہیں۔صحابۂ کرام پر ان کے استدراکات مشہور ہیں، جنہیں متعدد کتابوں میں جمع کردیا گیا ہے۔ تابعین اور تبع تابعین کے زمانوں میں بھی متعدد خواتین کو شہرت ملی ، جو بہت سے مردوں پر فائق تھیں۔مشہور تابعیہ حضرت حفصہ بنت سیرینؒ (م101 ھ)بلند پایہ کی محدثہ تھیں۔

امام ذہبیؒ (م 748ھ)نے اپنی کتاب ‘معجم شیوخ الذھبی’ میں، اسی طرح علامہ ابن حجرؒ(م 852ھ) نے اپنی کتابوں:المعجم المؤسس للمعجم المفہرس، الدُرَر الکامنۃ فی أعیان المائۃ الثامنۃاور أنباء الغمر في أنباء العمر میں بہت سی خواتین کا تذکرہ کیاہے۔ علامہ سخاویؒ (م902ھ)نے اپنی کتاب الضوء اللامع لأ ھل القرن التاسع کی ایک جلد خواتین کے لیے خاص کی ہے۔

انہوں نے ایک ہزار ستّر(1070)خواتین کا تذکرہ کیاہے، جن میں سے زیادہ تر محدثات و فقیہات تھیں۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ(م 911ھ)نے متعدد خواتین سے علم حاصل کیا۔ مثلاً ام ہانی بنت الھووینی، ام الفضل بنت محمد المقدسی، خدیجہ بنت ابی الحسن المقن،نشوان بنت عبداللہ الکنانی،ھاجر بنت محمد المصریۃ، امۃ الخالق بنت عبداللطیف العقبی وغیرہ۔ انہوں نے اپنی معجم اور دیگر مؤلفات میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی روایات بیان کی ہیں۔

علامہ ابن حزمؒ(م 456ھ) کی تعلیم وتربیت میں متعدد خواتین کا اہم کردار ہے، جنہوں نے انہیں قرآن کریم کی تعلیم دی،لکھنا پڑھنا سکھایا اور ان میں شعری ذوق پیداکیا۔ اس کا ابن حزمؒ نے برملا اعتراف کیاہے۔ابوعمر ومسلم بن ابراہیم الازدی الفراھیدیؒ (م 222ھ) نے ستّر(70) خواتین سے روایت کی ہے۔ ابوالولیدہشام بن عبدالملک الطیالسیؒ(م227ھ) کے شیوخ میں بھی ستّر(70) خواتین کا نام ملتاہے۔حافظ ابن عساکرؒ (م571ھ) نے جن خواتین سے استفادہ کیا اور ان سے احادیث روایت کیں ان کی تعداد اسّی(80)سے متجاوز ہے۔ ابوعبداللہ محمد بن محمود بن النجارؒ (م 643ھ) کے اساتذہ اور شیوخ میں چار سو(400) خواتین تھیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب التہذیب میں تیسری صدی ہجری کے اوائل تک کے زمانے کی آٹھ سو چوبیس(824) خواتین کے نام ذکر کیے ہیں، جنھیں روایتِ حدیث میں شہرت حاصل تھی۔

آج ہمارے درمیان اس موضوع پر مباحثے جاری ہیں کہ مساجد میں خواتین کا داخلہ جائز ہے یا نہیں؟

وہ وہاں جاکر نماز پڑھ سکتی ہیں یا نہیں؟

جمعہ کے خطبے اور دیگر مواقع پر مواعظ سن سکتی ہیں یا نہیں؟

جب کہ ابتدائی صدیوں میں مساجد میں خواتین کی حاضری پر تو کسی کو اعتراض نہ تھا، اس سے آگے بڑھ کر ان کے علمی دروس کی مجلسیں منعقد ہونا ایک عام بات تھی۔ وہ اپنے گھروں میں، دوسروں کے گھروں میں، مدارس اور رباطات میں، یہاں تک کہ مسجدوں میں مسندِتدریس پر بیٹھتی تھیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں مرد اور خواتین دونوں ہوتے تھے۔

اسلام میں تین مسجدوں(مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجد اقصیٰ) کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

مؤرخین نے صراحت کی ہے کہ ان سب میں خواتین کی علمی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں اور وہ باقاعدہ درس دیتی تھیں۔مسجد حرام میں درس دینے والی خواتین میں ام محمد سارہ بنت عبدالرحمن المقدس،مسجد نبوی میں درس دینے والی خواتین میں ام الخیر وام محمد فاطمہ بن ابراہیم بن محمود بن جوھر البعلبکی المعروف بالبطائحی، قاضی القضاۃ شیخ تقی الدین سلیمان بن حمزہ کی بیوی زینب بنت نجم الدین اسماعیل المقدسیۃ،ام محمد زینب بنت احمد بن عمر المقدسیۃ،مسجد اقصیٰ میں درس دینے والی خواتین میں ام الدرداء التابعیۃ،ام محمد ھدیۃ بنت علی بن عسکر البغدادی (۸ویں صدی ہجری) شہرت رکھتی تھیں۔

اسلامی تاریخ میں دمشق کی مسجد اموی کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس میں بھی خواتین کی درس وتدریس کی مجلسیں قائم ہوتی تھیں۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھاہے کہ اس نے مسجدِ اموی کی زیارت کی اور وہاں متعدد خواتین، مثلاً زینب بنت احمد بن ابراہیم اور عائشہ بنت محمد بن مسلم الحرّانیۃ سے حدیث کی سماعت کی۔

علوم کی نشر و اشاعت میں خواتین کی خدمات زرّیں حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ خاص طور سے اسلامیات کے میدان میں ان کی خدمات نمایاں ہیں۔انھوں نے تصنیف و تالیف کا کام کیا ہے، درس و تدریس کی خدمت انجام دی ہے، تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں اور ان کی سرپرستی کی ہے، تعلیمی خدمات انجام دینے کے لیے لوگوں کو تیار کیا ہے اور ان پر اپنی دولت لُٹائی ہے، غرض امت ان کے احسانات سے کبھی عہدہ برا نہیں ہوسکتی

تفسیر و علوم قرآنی میں خواتین کی خدمات کے عنوان پرعزیزہ ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین نے ، جنھوں نے اسی ڈپارٹمنٹ سے پوسٹ گریجویشن کیا ہے ، تحقیقی کام کیا ہے۔انھوں نے عربی ، انگریزی ، اردو اور دیگر زبانوں میں خواتین کی بہت سی تفاسیر اور علوم قرآنی پر کتب کی نشان دہی کی ہے۔ان میں موجودہ دور کی مشہور مفسّراتِ قرآن: ڈاکٹر عائشہ عبد الرحمن بنت الشاطی(مصر)مؤلفہ التفسیر البیانی للقرآن الکریم،زینب الغزالی(مصر)مؤلفہ نظرات في کتاب اللہ، حنان لحام( شام) مؤلفہ التأملات القرآنیۃ اورنائلہ ہاشم صبری( فلسطین ) مؤلفہ المبصر لنور القرآن شہرت رکھتی ہیں۔

علم تجوید و قراء تِ قرآن کے میدان میں مشہور محدث شیخ جمال الدین المزّی (م 247ھ) کی زوجہ عائشہ بنت ابراہیم (جو ام فاطمہ کے لقب سے مشہور تھیں)کو شہرت حاصل تھی۔ وہ بہترین قاریہ تھیں۔ ہزاروں مردوں اور عورتوں نے ان سے استفادہ کیا۔ ان سے یہ فن سیکھنے والوں میں ان کے داماد علامہ ابن کثیر (م 774ھ) بھی تھے۔

انھوں نے اپنی خوش دامن صاحبہ کا تذکرہ بڑے اچھے انداز میں کیاہے۔ لکھتے ہیں:‘‘اپنے زمانے کی عورتوں میں کثرتِ عبادت، تلاوت ِ قرآن اور فصاحت و بلاغت اور صحیح ادا کے ساتھ قرآن پڑھانے کے معاملے میں کوئی دوسرا ان کا ہم سر نہ تھا۔یہاں تک کہ انھوں نے ان کے بارے میں یہ بھی لکھ دیا ہے: ‘‘ان کی طرح کی قراء ت کرنے سے بہت سے مرد حضرات عاجز تھے۔ (ابن کثیر،البدایۃ والنھایۃ،دا ر احیاء التراث العربی، 1988ء،12؍113)

ہمارے دوست ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ) نے عربی زبان میں تینتالیس(  43) جلدوں پر مشتمل اپنے عظیم الشان پروجکٹ ‘الوفاء بأسماء النساء’میں تقریباً دس ہزار ایسی خواتین کا تذکرہ جمع کردیا ہے جنھوں نے علم حدیث کی روایت، تدریس اور تصنیف کی خدمت انجام دی ہے۔ ڈاکٹر محمد بن عزوز نے اپنی کتاب صفحات مشرقۃ من عنایۃ المرأۃ بصحیح الإمام البخاری (روایۃً و تدریساً) میں گیارہ(11) ایسی عظیم محدثات کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے پوری زندگی صحیح بخاری کا درس دیتے ہوئے گزار دی اور ان سے بے شمار مردوں اور عورتوں نے اس کا درس لیا۔ وہ ہیں۔

کریمۃ المروزیۃ (م473ھ)، فاطمہ بنت محمد بن ابی سعد البغدادیۃ (م 539ھ)، شھدۃ بنت أحمد البغدادیۃ (م 574ھ)، کریمۃ بنت عبد الوہاب الزبیدیۃ الدمشقیۃ (م 641ھ) ، فاطمۃ بنت جوھر المعروفۃ بالبطائحیۃ (م 711ھ)،ھدیۃ بنت عسکر الصالحیۃ (م 712ھ)، ست الوزراء بنت عمر بن اسعد التنوخیۃ الدمشقیۃ (م  716ھ)، عائشۃ بنت محمد المقدسیۃ (ولادت 723 ھ)زینب بنت أحمد المقدسیۃ الصالحیۃ (ولادت 628 ھ) جویریۃ بنت أحمد الھکاریۃ القاھریۃ (ولادت ۷۰۴ھ) اور فاطمۃ بنت أحمد العمریۃ الحرازیۃ (ولادت 710ھ) یہ تو صرف صحیح بخاری کا درس دینے والی مشہور خواتین ہیں، دوسری کتبِ حدیث کی روایت، سماع، قراء ت اور اجازت دینے والی خواتین کی تعداد کا تو شمار نہیں۔

فقہ کے میدان میں بھی بہت سی خواتین شہرت رکھتی تھیں۔بعض خواتین کو تو ایسا ملکہ حاصل کیا ہے کہ ان کے شوہروں کا شمار ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیویوں سے مختلف علمی و فقہی مسائل کے حل کے لیے رجوع کرتے تھے ۔معاذ بن عبد اللہ بن حبیب الجہنی نے اپنی بیوی سے ایک مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے اپنے قبیلے کے ایک فرد کے واسطے سے حدیث بیان کی۔

فاطمہ بنت المنذر بن زبیر بن العوام کا شمار ایک ممتاز عالمہ، محدثہ اور فقیہہ کے طور پر ہوتا ہے۔انھوں نے بہت سی احادیث اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابی بکرؓسے روایت کی ہیں۔

ان سے روایت کرنے والوں میں ممتاز سیرت نگار محمد بن اسحاق بھی ہیں۔ ان سے مروی زیادہ تر روایات ان کے شوہر ہشام بن عروہ کے واسطے سے احادیث کے مجموعوں میں مذکور ہیں۔ ہشام ؒامام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، شعبہؒ اور سفیان ثوریؒ وغیرہ کے استاد تھے ۔

شیخ محمد بن أحمد سمرقندی چھٹی صدی ہجری کے مشہور محدث اور فقیہ ہیں۔ان کا تعلق ترکستان کے شہر کاسان سے تھا۔ان کی تصنیف ‘تحفۃ الفقہاء’ فقہ حنفی میں بہت شہرت رکھتی ہے۔

ان کی صاحب زادی فاطمہ (م581ھ) نے ان سے علم حاصل کیا اور اس میں کمال پیدا کرلیا۔انھیں پوری کتاب ‘التحفۃ’ ازبر تھی۔ خاص طور سے فقہ میں انھیں بہت مہارت حاصل تھی۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے والد کے پاس کوئی استفتا آتا تو وہ اپنی صاحب زادی سے مشورہ کرتے تھے۔

پھر وہ جواب تیار کرتیں اور اس پر باپ اور بیٹی دونوں کے دستخط ہوتے۔ فاطمہ سے نکاح کے لئے بڑے بڑے لوگوں نے رجوع کیا، لیکن شیخ محمد خاموش رہے ۔ ان کے عزیز شاگرد ابو بکر بن مسعود کاسانی نے دبے الفاظ میں خواہش ظاہر کی تو شیخ نے فر مایا:‘‘ تم میری کتاب ‘التحفۃ’ کی شرح لکھ دو ۔

اگر وہ مجھے پسند آگئی تو میں فاطمہ سے تمھارا نکاح کردوں گا۔ہونہار شاگرد نے ہمت کی، اچھی شرح لکھنے میں جان لگادی ۔ بالآخر اپنے استاد کے سامنے ان کی کتاب کی شرح پیش کردی، جسے علمی دنیا فقہ حنفی کی مشہور کتاب ‘بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع’کے نام سے جانتی ہے۔

استاد نے خوش ہوکر اپنی صاحب زادی سے ان کا نکاح کردیا اور اس کتاب کی تالیف کو ان کا مہر قرار دیا ۔اسی لیے فقہاء نے کہا ہے:شَرَحَ تُحْفَتَہ وَ زَوَّجَہُ اِبْنَتَہُ(کاسانی نے اپنے استاد کی کتاب 'التحفۃ' کی شرح کی، استاد نے اپنی بیٹی سے ان کا نکاح کردیا ۔) فاطمہ سمرقندی کا علمی فیض شادی کے بعد بھی جاری رہا ہے ۔ وہ اپنے گھر میں درس کے حلقے لگاتی تھیں۔ ان سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے استفادہ کیا ۔ ان کے شاگردوں میں خود ان کے شوہرِ نام دار بھی تھے ۔

شیخ کاسانی بڑے فقیہ تھے ۔ ان کا لقب ‘ملک العلماء’ تھا ، لیکن ان کی بیوی فاطمہ ان سے بڑھ کر تھیں ۔ انھیں فقہ حنفی کی تمام جزئیات ازبر تھیں ۔ سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ علامہ کاسانی کو فتوی دینے کے دوران میں کسی مسئلے میں وہم ہوجاتا تو فاطمہ اس کی تصحیح کردیتی تھیں اور انھوں نے کیا غلطی کی ہے؟ یہ بھی بتا دیتی تھیں ۔( ابن ابی الوفاء القرشی، الجواھر المضیئۃ فی طبقات الحنفیۃ،4؍122۔124)

سوانح نگاروں نے اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ لکھا ہے ۔کاسانی اپنے گھر میں اپنے شاگردوں کے سامنے درس دیتے تھے۔ کوئی شاگرد کوئی ایسا پیچیدہ سوال کر بیٹھتا جس کا جواب کاسانی کو نہ معلوم ہوتا تو وہ کسی بہانے سے گھر کے اندر چلے جاتے ۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر اس سوال کا جواب دے دیتے۔

جب ایسا کیی بار ہوا تو شاگردوں کو تجسّس ہوا کہ آخر جب استادِ محترم سے کسی سوال کا جواب بن نہیں پڑتا تو گھر کے اندر کیوں چلے جاتے ہیں؟ اور گھر سے آتے ہی کیسے پورے اطمینان کے ساتھ جواب دے دیتے ہیں؟ پتا چلا کہ وہ گھر کے اندر اپنی معلّمہ کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کرتے ہیں، جو خیر سے ان کی زوجہ بھی ہیں۔

مطہر بن محمد بن سلیمان (م879ھ) پیچیدہ فقہی مسائل حل کرنے میں اپنی بیوی فاطمہ بنت یحییٰ سے مشورہ کرتے تھے۔کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ اپنی بیوی سے رجوع کرتے۔ وہ اسے حل کردیتیں۔ان کے شاگرد کہا کرتے تھے کہ یہ رائے آپ کی نہیں، بلکہ یہ پردے کے پیچھے سے برآمد ہوئی ہے۔

ایک اہم میدان علم طب کا ہے۔ اس میں بھی مسلم خواتین کے کارنامے نمایاں ہیں۔ عہد نبوی میں متعدد خواتین کے نام ملتے ہیں جنہیں علاج معالجہ کے میدان میں مہارت حاصل تھی۔ حضرت شفاء بنت عبد اللہؓ طبی معلومات رکھتی تھیں ، اسی طرح لکھنا بھی جانتی تھی۔ اللہ کے رسولﷺ نے انہیں حکم دیا کہ و ہ یہ دونوں چیزیں ام المومنین حضرت حفصہؓ کو سکھادیں۔(ابو داؤد:3887)

حضرت رفیدہ بنت سعد الاسلمیۃؓ باقاعدہ طب کی پریکٹس کرتی تھیں۔ کتب ِ حدیث میں ذکر ہے کہ غزوۂ خندق میں حضرت سعد بن معاذ ؓ زخمی ہوگئے تو انہیں رسول اللہﷺ کی ہدایت پر حضرت رفیدہ ؓ کے خیمے میں رکھا گیا تھا،جو مسجد ِ نبوی میں لگایا گیا تھا۔

اسی طرح انھوں نے غزوۂ خیبر میں شرکت کی تھی توآپؐ نے مال غنیمت میں ان کا حصہ مردوں کے برابر لگایا تھا۔مسلمانوں نے اپنے عہد ِ حکم رانی میں بہت سے علاقوں میں شفا خانے قائم کیے ،جو ‘بیمارستان’ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ان میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ وارڈ ہوتے تھے ،جہاں مرد اور خواتین ڈاکٹرس الگ الگ مریضوں کو دیکھا کرتے تھے۔

مورخ طبری (م310ھ) نے ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ ایک عورت ایک ماہر امراض چشم کے نرسنگ ہوم میں حاضر ہوئی اور اس سے علاج کی درخواست کی۔ اس طبیب نے اس سے کہا کہ وہ خاتون ڈاکٹر کے آنے تک انتظار کرے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نرسنگ ہوم میں خاتون ڈاکٹر کی خدمات بھی حاصل تھیں، جو صرف عورتوں کا علاج کیا کرتی تھی۔عباسی خلیفہ ہارون رشید کے عہد میں بعض خواتین کا تذکرہ ملتا ہے، جنھیں فن طب میں خاصی معلومات تھیں۔

چنانچہ مشہور کتاب ‘الف لیلۃ ولیلۃ’ میں ہے کہ اس کے زمانے میں‘نزہۃ الزماں’اور‘تودّد’ نامی دو باندیوں کے قصے مشہور تھے ،جو علاج و معالجہ میں مہارت رکھتی تھیں۔

مشہور طبیب ابو بکر محمد بن زکریا رازی (م311ھ) نے ذکر کیا ہے کہ اس نے بعض امراض کا علاج ایسی عورتوں سے سیکھا ہے جو اگر چہ طب میں بہت کم معلومات رکھتی تھیں، مگر وہ معلومات انتہائی قیمتی اور بہت اہم تھیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رازی نے طب کے سلسلہ میں بعض خواتین سے استفادہ کیا ہے۔ شیخ الرئیس ابن سینا (م 427ھ) نے بھی ایک ماہر امراض ِ چشم طبیہ کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے فن میں دست رس رکھتی تھی۔

 تاریخ ِ طب کی کتابوں میں اندلس کی ایک طبیبہ ام الحسن کا تذکرہ ملتا ہے جس نے بہت سے مریضوں کا کامیابی کے ساتھ علاج کیا تھا اور جو وہاں کی طبی تاریخ میں کافی شہرت رکھتی تھی۔

 مشہور اندلسی طبیب ابن زہر کی بیٹی اور پوتی کا شمار بھی مشہور طبیبات میں ہوتا ہے۔ یہ دونوں ابو یوسف یعقوب بن یوسف المنصور (595ھ) کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ شاہی خاندان میں جو شخص بھی بیمار ہوتا وہ انہی سے رجوع کرتا تھا۔

فروغِ علم کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ تعلیم وتربیت کے لیے مکاتب، مدارس، رباطات، ادارے اور مراکز قائم کیے جائیں، ان کے لیے اوقاف خاص کیے جائیں، ان میں تعلیم دینے والوں کے لیے وظائف مقرر کیے جائیں اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے مصارف برداشت کیے جائیں۔جن لوگوں نے خود کو علمی کاموں کے لیے وقف کررکھاہو انہیں معاشی تگ ودورکرنے سے آزاد رکھا جائے۔

اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ حکم راں طبقے سے تعلق رکھنے والی اور دولت وثروت سے بہرہ ور خواتین نے ہر دور میں یہ خدمات انجام دی ہیں۔ زمرّد خاتون(م557ھ)، جو دمشق کے حکم راں الملک دقّاق کی بہن تھیں، انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیا تھا، جو المدرسۃ الخاتونیۃ البرانیۃ کے نام سے معروف تھا۔(الزرکلی، الاعلام،3؍ 49)

عائشہ ہانم (بارہویں صدی ہجری) نے  1154ھ میں ایک مسافر خانہ تعمیر کرایا تھا، جس کو ‘سبیل عائشہ ہانم’ کہا جاتا تھا۔ اس کے اوپر انھوں نے قرآن کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم کیا تھا اور ان دونوں کے مصارف کے لیے بہت سی جائیدادیں وقف کر دی تھیں اور اپنے ورثاء کو ان کا متولّی بنا دیا تھا۔(عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،3؍ 194)

یمن کے سلطان الملک المظفر کی بیوی مریم نے زبید میں المدرسۃ المجاھدیۃ قایم کیا، اس میں یتیم اور غریب بچوں اور دیگر طالب علموں کو داخل کیا، اس میں امام، مؤذن اور معلّم کو رکھا اوراس کے مصارف کے لیے وقف کا معقول نظم کیا۔(عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،5؍ 40)

 السیدۃ ملکۃ بنت ابراھیم البعلیۃ الدمشقیۃ نے خواتین کے لیے مخصوص ایک رباط قائم کیا، جس میں قرآن مجید کے حفظ اور حدیث نبوی کی تعلیم کا نظم کیا۔( عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،2؍3)

مغل حکم راں اورنگ زیب (م 1118ھ)کی صاحب زادی زیب النساء نے شیخ صفی الدین ولی قزوینی سے امام رازی(م 606ھ) کی تفسیر کبیر فارسی زبان میں ترجمہ کروایا تھا۔

ماضی قریب میں ریاست بھوپال کی حکم راں نواب خواتین :نواب سکندر جہاں بیگم(م1808ء)،ان کی صاحب زادی اور جانشین نواب شاہ جہاں بیگم اوران کی صاحب زادی اور جانشین نواب سلطان جہاں بیگم نے علمی سرپرستی کی مثال قائم کی ہے۔

انہوں نے خوب فیاضی سے تعلیمی اداروں کی مالی امداد کی ہے اور خطیر سرمایہ صرف کرکے علمی کام کرائے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں فاطمہ بنت محمد الفہریہ(م266ھ) کا نام بڑے ادب و احترام اور اعزاز و اکرام سے لیا جاتا ہے ، جس نے اپنی پوری دولت صرف کرکے مراکش کے شہر ‘فاس’ میں ایک یونی ورسٹی قائم کی تھی۔اس کا امتیاز یہ ہے کہ یہ دنیا کی قدین ترین یونی ورسٹی ہے، جو اب بھی پوری شان کے ساتھ قائم ہے۔ بارہ سو برس سے زائد عرصہ سے اس کا فیض جاری ہے۔-

واقعہ یہ ہے کہ مختلف علوم و فنون میں خواتین کی خدمات کا کما حقہ تعارف اب تک نہیں کرایا جاسکاہے اور نہ ان کے بارے میں عموماً لوگوں کو کچھ معلومات ہیں۔ تذکرہ و تراجم کی کتابیں بھی ان کے ذکر سے تقریباً خاموش ہیں۔

اس کا اندازہ اس سے لگایاسکتا ہے کہ ابن الجزری المقریؒ(م 338ھ)نے اپنی کتاب غایۃ النھایۃ فی طبقات القرّاء میں تین ہزار نوسو پچپن(3955)قاریوں کا تذکرہ جمع کیاہے، جن میں سے قاریات صرف تین (3) ہیں۔ 

اسماعیل بغدادی نے اپنی کتاب ھدیۃ العارفین فی أسماء المؤلّفین وآثار المصنّفین میں صرف دو صاحبِ تصنیف خواتین کا ذکر کیا ہے۔خیر الدین الزرکلی کی الأعلام میں صرف تیرہ ایسی خواتین کا ذکر ہے جنھوں نے تحریر و تصنیف کا کام کیا ہے۔ عمر رضا کحالہ کی أعلام النساء میں صرف دس ایسی خواتین کا تذکرہ ہے جنہوں نے کسی موضوع پر تصنیف و تالیف کا کام کیا ہے ۔

ضرورت ہے کہ مختلف علوم و فنون میں خواتین کے کاموں اور خدمات کے تعارف کی طرف توجہ دی جائے، انھیں تحقیق کا موضوع بنایاجائے اور ان کو نمایاں کیاجائے۔اس پر کتابیں لکھی جائیں، لیکچرس کا اہتمام کیا جائے اور سمینار منعقد کیے جائیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ شعبۂ اسلامک اسٹڈیز میں منعقد ہونے والا یہ سمینار اس معاملے میں سنگ میل ثابت ہوگا۔

اس میں پیش کیے جانے والے مقالات سے مختلف میدانوں، خاص طور پر سائنس اور ٹکنالوجی میں مسلم خواتین کے کارنامے نمایاں ہوں گے۔ میں اس سمینار کے شرکا کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور سمینار کی کام یابی کے لیے دست بہ دعا ہوں۔ و آخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین۔