یوم خواتین کے موقع پر خاص تحریر
غوث سیوانی،نئی دہلی
رُفَیْدَهُ بنت سعد الاسلمیہ ایک صحابیہ تھیں۔ تاریخ اسلام میں وہ پہلی خاتون ڈاکٹر، نرس اور سرجن کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ چیریٹیبل ہسپتال کی بانی بھی تھیں۔ انہوں نے اپنا کام بے حد محنت ولگن سے کیااور تاریخ اسلام میں زندہ جاوید ہوگئیں۔ رُفَیْدَهُ بنت سعد الاسلمیہ ڈاکٹر،نرس اور سماجی کارکن تھیں جنہیں تاریخ اسلام میں پہلی مسلم خاتون ڈاکٹر ونرس اور پہلی خاتون سرجن سمجھا جاتا ہے۔ وہ ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والی مدینہ کی شخصیات میں شامل تھیں۔ رفیدہ کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنی اسلم سے تھا۔
رفیدہ الاسلمیہ کو اصحاب سیر نے نیک، ہمدرد نرس اور اچھا علاج کرنے والی ڈاکٹر بتایا ہے۔ انہوں نے دوسری عورتوں کو بھی علاج کرنے کی تربیت دی، جن میں ام المومنین عائشہ صدیقہ بھی شامل ہیں۔ جناب رُفیدہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو اپنی طبی خدمات کے لئے جانا جاتا تھا۔ رفیدہ کے والد سعد الاسلمی ایک طبیب تھے،اور انہوں نے خود ہی اپنی بیٹی کی تربیت کی تھی۔
ابن سعد نے اپنی کتاب "الطبقات" میں بیان کیا ہے: جب سعد بن معاذ غزوہ خندق میں زخمی ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں ، رفیدہ کے خیمے میں لے جاؤ، میں جلد اس کی عیادت کروں گا۔چنانچہ انہیں لے جایا گیا۔واضح ہوکہ جنگ کے بعد مسجد نبوی میں حضرت رفیدہ کا خیمہ نصب کیا گیا تھا اور ایک طویل مدت تک مسجد کا استعمال ہسپتال کے طور پر ہوتا رہا۔ ہر شخص کسی نہ کسی میدان میں جدوجہد اور کوشش کرتا ہے اور اس میں کافی مہارت حاصل کرتا ہے۔صحابیہ رفیدہ نے جراحت میں محنت کی اور کامیابی پائی۔ وہ جنگوں کے موقع پر اپنے خیمے کے ساتھ تیار رہتی تھیں۔
مقام جنگ کے آس پاس ان کا خیمہ لگتا اور زخمیوں کو اٹھاکر لایا جاتا تو علاج کرتی تھیں۔ بہت سی مہمات اور لڑائیوں میں انہوں نے میڈیکل اور آپریشن کی خدمات انجام دیں۔ احادیث ،سیرت اور سوانح کی کتابوں میں ان کی شخصیت کے بارے میں بہت زیادہ جانکاری نہیں ملتی مگر جتنی ملتی سے ، اس سے بھی ان کی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مکہ سے ہجرت کے مدینہ منورہ پہنچے تو استقبال کرنے والی خواتین میں رُفیدہ بنت سعد بھی شامل تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے انہوں نے اسلام کے احکام کو سنا اور یاد کیا۔ جس زمانے میں خواندگی کی شرح بہت کم تھی، انہوں نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا اورمیڈیکل کے پیشے کی طرف راغب ہوگئی تھیں۔حالانکہ ان کا مقصد اس پیشے سے پیسہ کمانا نہیں تھا بلکہ اللہ کے بندوں کی خدمت کرنا تھا۔ وہ کسی سے معاوضہ نہیں لیتی تھیں۔ بغیر فیس کے علاج کرتی تھیں۔ ان کے پاس بہت دولت تھی اور وہ بہت سخی بھی تھیں۔
ان کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی جائیداد کو طبی معاملات میں استعمال کیا اور یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پوری تاریخ میں پہلا"چیریٹی ہسپتال" قائم کرنے کا سہرا انہیں کے سر جاتا ہے۔ غزوہ بدر کے بعد بہت سے لوگ جن کے پاس نہ گھر تھا اور نہ پیسہ، اور وہ زخمی تھے، انہوں نے مسجد نبوی کے ایک کونے میں نصب رفیدہ کے خیمے میں اپنا مفت علاج کرایا اور صحت حاصل کی۔
رفیدہ، اپنے معاونین کے ساتھ مل کر نہ صرف مریضوں کا علاج کرتی تھیں بلکہ ان کے لئے کھانا بھی تیار کرتی تھیں۔ جنگ احد میں بھی انہوں نے میدان جنگ کے قریب اپنا خیمہ نصب کیااور زخمیوں کا علاج کیا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بغیر کسی رکاوٹ کے وہ دن رات طبی کاموں میں مصروف رہیں۔ انہوں نے غزوہ خندق میں بھی موثر کردار ادا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سعد بن معاذ کے علاج اور دیکھ بھال کا بیڑا اٹھایا جو زخمی تھے۔
یہ محترم خاتون صلح حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور بیعت رضوان میں درخت کے نیچے موجود تھیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اللہ تعالیٰ مومنین سے راضی ہوا،جو درخت کے نیچے ہیں۔" جنگ خبیر میں بھی انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور زخمیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے دیگر صحابی خواتین کے ساتھ بغیر آرام کئے راحت رسانی کے کام میں لگی رہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئیں اور بیت اللہ کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں روشن ہو گئیں۔ اس کے بعد آپ نے فتح مکہ اور جنگ حنین میں شرکت کی اور فوری طور پر علاج معالجے اور اپنے فیلڈ ہسپتال کی شدید ضرورت کی وجہ سے تھکاوٹ اور طویل مسافت طے کرنے کے باوجود جنگ تبوک میں فوج کا ساتھ دیا۔
بدقسمتی سے تاریخی اور سوانحی منابع میں حضرت رفیدہ کی وفات کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ سوانح نگاروں نے صرف ان کے خیمہ پر ہی فوکس کیا ہے جو ان کی شہرت کا سبب تھا۔ اللہ تعالیٰ قربانی اور سخاوت کی اس علامت سے راضی ہو اور ان کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت فردوس میں اعلٰی مقام عطافرمائے۔