فارس کے صوفی کے مزار کی تعمیر نو : سری نگر بنا گواہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-05-2021
عرس کا منظر
عرس کا منظر

 

 

احسان فاضلی / سری نگر

انڈین نیشنل ٹرسٹ برائے آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (انٹاچ) نے لگ بھگ 11 سال قبل کشمیر میں صوفیوں کے دس بڑے بڑے مزاروں کو ڈیجیٹل بنانے کی دور اندیش شروعات کی تھی ۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ اس کے فوائد  بہت جلد ملنا شروع ہو جائیں گے ۔

اس کی شروعات کے دو سال بعد جون 2012 میں پیر دستگیر صاحب کی درگاہ جو سری نگر شہر کے خنیار علاقے میں واقع تھی ، شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگنے والی آگ میں تباہ ہوگئی۔ اس کے بعد چیف مفتی کی طرف سے دو روزہ ہڑتال کے اعلان کے نتیجے میں وادی میں غم و غصہ پھیل گیا۔

اس درگاہ میں فارسی صوفی سید عبد القادر جیلانی (1077-1166) کے تبرکات اور یادیں ہیں جنہیں پیر دستگیر صاحب کے نام سے جانا جاتا ہے ، جو کبھی کشمیر تو نہیں آے لیکن ان کی شہرت کی وجہ سے کشمیر کے ہزاروں لوگ ان کے مرید ہو گیے ۔ وہ بغداد میں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہیں ۔

شارٹ سرکٹ کی وجہ سے اس لکڑی کے مزار کی تباہی کا کشمیر میں بڑے پیمانے پر سوگ تھا ، جس سے حکومت اس کی تعمیر نو پر مجبور ہوگئی۔ انٹاچ کے جموں و کشمیر باب کے سربراہ محمد سلیم بیگ کو درگاہ تعمیر نو کا کام سونپا گیا ۔

چیلنج لینے والے سلیم بیگ نے کہا ، "ہم نے پہلے ہی کشمیر کی 10 بڑی درگاہوں کے سب سے چھوٹے ڈھانچے اور ڈیزائن کے پہلوؤں کے ڈیجیٹل ریکارڈ بنانے کے حصے کے طور پر ڈیجیٹلائز کیا ہوا ہے"۔ ڈیجیٹل ریکارڈوں سے صوفی بزرگ کے درگاہ کی تعمیر نو میں افسران کو بہت مدد ملی۔ بیگ نے وضاحت کی کہ 19 ویں صدی میں "اس کی دیواروں پر بہت ساری سجاوٹ اور خطاطی کی گئی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ درگاہ دلدل پر بنائی گئی تھی اور اس میں ایک تیرتا ہوا چبوترہ تھا ، عمارت بھی خستہ حال تھی۔ ہر چیز کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی گئی اور آثار قدیمہ کا سروے کیا گیا۔ انہوں نے کہا ، "ہم نے محسوس کیا کہ یہ کوئی سخت ڈھانچہ نہیں تھا . بلکہ بنیادی طور پر زلزلے سے بچنے کے لئے اسے ایسا بنایا گیا تھا "۔ بیگ نے بتایا کہ درگاہ اینٹ پر اینٹ کی طرز پر تعمیر کی گئی تھی۔ بحالی کا کام پانچ سال تک جاری رہا ، اس دوران درگاہ اور اس کا اضافی بلاک مکمل ہوا۔ ابھی بھی کچھ چھوٹے چھوٹے کام جاری ہیں۔

درگاہ کے سجادہ نشین خالد جیلانی نے کہا ، "80 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے ، لیکن گذشتہ پانچ سالوں سے کوئی اپ گریڈیشن نہیں ہورہی ہے۔" انہوں نے کہا کہ نیا ڈھانچہ ویسا ہی ہے جیسا کہ تھا اور اس ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

 

حفاظت کے لئے معمولی ترمیم کی گئی ہے ، جیسے سالانہ عرس کے دوران علیحدہ فٹ پاتھ بنانا۔ بقیہ 20 فیصد کام بنیادی طور پر خوبصورتی پر مشتمل ہے۔ سری نگر شہر کے خنیار میں پیر دستگیر صاحب کے دروازے ابھی کورونا پروٹوکول کے تحت عقیدت مندوں کے لئے بند کردیئے گئے ہیں۔ درحقیقت مزار انتظامیہ نے اسے چار دن پہلے ہی اس وقت بند کردیا تھا جب کورونا کے خطرہ کی وجہ سے کشمیر حکومت نے رمضان کے دوران لوگوں کو مساجد اور مزارات پر جانے پر پابندی عائد کردی تھی۔

خالد جیلانی نے کہاکہ کورونا مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافے کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں کو موجودہ صورتحال کے تحت خطرہ میں رکھنا مناسب نہیں تھا۔ اسلامی تقویم کے چوتھے مہینے ربیع الثانی کے پہلے 11 دنوں میں دیگر مذہبی تہواروں کے دوران نماز کے علاوہ وادی کشمیر کے باھر سے آنے والے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد سال میں پانچ بار آتی ہے۔ سالانہ عرس کے دوران تبرکات کو ظاہر کیا جاتا ہے۔

 

درگاہ میں موجود باقیات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے قرآن کا سب سے قدیم نسخہ اور صوفی صاحب کے بال ہیں ، جسے ایک افغان مسافر نے اس وقت کے گورنر کشمیر سردار عبد اللہ خان کے سامنے پیش کیا تھا۔ بعد میں درگاہ کو 1806 میں تعمیر کیا گیا جس کے توسیع خواجہ ثناء اللہ شال نے 1877 میں کی تھی ۔ درگاہ 200 سال قبل ایک صوفی بزرگ کے اعزاز میں دوبارہ تعمیر کی گئی ۔

درگاہ کی توسیع کا کام تقریبا 60 سال پہلے کیا گیا تھا ۔ اس ڈھانچے میں صوفیا کرام کی اولاد کے پانچ مقبرے بھی ہیں۔