فنون و ثقافت کا گہوارہ ’دارالسرور‘رام پور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-03-2022
فنون و ثقافت کا گہوارہ ’دارالسرور‘رام پور
فنون و ثقافت کا گہوارہ ’دارالسرور‘رام پور

 

  

ایس فضیلت 

 رام پورخواہ رقبے میں چھوٹاہو لیکن رتبے میں بڑاہے۔ تہذیبی لحاظ سے یہ ہندوستان کا اہم ترین شہرہے۔ رام پور،اپنی رہن سہن، رسوم ورواج، لذیذ کھانوں،تاریخی عمارتوں، زردوزی اور کڑھائی والے کپڑوں، موسیقی اور شاعری کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ افغانستان سے ایک افغان پٹھان، شاہ عالم خان اپنے بھائی حسن خان کے ساتھ روزگار کی تلاش میں ہندوستان آیا اور کتھیر کے علاقے میں رہائش اختیار کی۔ آج وہ علاقہ روہیل کھنڈ کہلاتا ہے۔

ایک طویل جدوجہد اور کئی جنگیں لڑنے کے بعد شاہ عالم اور ان کے رشتہ دار اس پورے علاقے پر چھا گئے اور انہوں نے اس علاقے کا نام روہیل کھنڈ رکھا۔ ان روہیلوں میں سے ایک علی محمد خان نے 1748ء میں روہیل کھنڈ پر حکمرانی شروع کی۔ علی محمد کی زندگی کے آخری دور میں ان کے دو بیٹوں فیض اللہ خان اور عبداللہ خان نے فیصلہ کیا کہ روہیل کھنڈ کو تقسیم کر دیا جائے۔

اس کے بعد روہیل کھنڈ میں مراد آباد، سنبھل، امروہہ، کاشی پور، شاہجہاں پور، بریلی، پیلی بھیت اور رام پور کے علاقے وجود میں آئے۔ اس وقت رام پور ایک چھوٹی سی آبادی تھی، رام پورہ اس کا نام تھا جسے بعد میں مصطفی آباد اور پھر رام پور کہا گیا۔ 1774ء میں رام پور کی نوابی ریاست قائم ہوئی جس کے پہلے نواب، فیض اللہ خان تھے۔ اس وقت یہ پورا علاقہ بانس کے جنگلات، اونچی اور نیچی کچی سڑکوں اور گڑھوں سے بھرا ہوا تھا۔

نواب فیض اللہ خان نے گھنے جنگلات کاٹ کر سڑکیں صاف کروائیں، جس کی وجہ سے تھوڑے فاصلے پر بنی ہوئی بستیاں ایک دوسرے سے جڑ گئیں۔ پٹھان، یوسف زئی، کمال زئی بجوٹی عالی کے مختلف قبائل مل جل کر رہنے لگے۔ رام پور کے محلوں کے نام بھی ان قبائل کے سرداروں کے نام پر رکھے گئے۔ 1774 سے 1960 تک، رام پور نے فیض اللہ خان سے لے کر نواب رضاعلی خان تک سات سے آٹھ نوابوں کا دور دیکھا، اور ان سب نے اس خطرناک علاقے کو ایک شاندار تاریخ کے شہر میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی چھ سو شاہی ریاستوں میں اس کی شان وشوکت نمایاں تھی۔

فرانس، اٹلی اور انگلینڈ سے ماہر تعمیرات، فنکار، مجسمہ ساز بلائے گئے جنہوں نے یہاں پینٹنگز اور مجسمے تیار کیے جو یورپی ممالک کے آرٹسٹوں کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ نوابوں کے دور کا رام پور، رنگین خواب کی طرح خوبصورت اور پریوں کی کہانیوں کی طرح دلکش تھا۔ نواب کلب علی خان فن، ثقافت اور ادب کے بڑے قدردان ہونے کے ساتھ ساتھ عمارتوں کی تعمیر کا بھی شوق رکھتے تھے۔

انھوں نے جامع مسجد کے برابر ایک مسجد بنوائی اور اس کے دروازے پر ایسی انوکھی گھڑی لگوائی جس میں وقت آگے اور پیچھے دونوں طرف سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اصطبل، فیل خانہ، شتر خانہ اور گاؤ خانہ کی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ خسرو باغ میں ایک عظیم الشان کوٹھی تیار کی گئی۔ اس میں بدر منیر اور بے نظیر کے نام پر باغات تیار کئے گئے۔ بے نظیر میں ایک میلہ شروع ہوا جو ہر سال لگتا تھا اور جس کی خوبصورتی بے مثال تھی۔ اس میلے میں صرف بیگمات اور شہزادیوں کے لئے اسٹال لگتےتھے۔ کھانے پکتے تھے اور ناچ گانے کی محفلیں سجتی تھیں۔یہ میلہ پورے ہندوستان میں مشہور تھا۔

۔ 1774 میں ہی نواب فیض اللہ خان نے رام پور میں ایک مضبوط قلعہ کی ضرورت کو محسوس کیا اور بہت مضبوط دیواروں والا قلعہ بنایا گیا۔ بعد کے نوابوں نے اس میں نئی ​​عمارتیں شامل کیں۔ نواب حامد علی خان کو شاعری اور موسیقی کے ساتھ خوبصورت عمارتیں بنوانے کا بھی شوق تھا، انہوں نے رام پور میں سابقہ ​​نوابوں کی بنائی ہوئی پرانی عمارتوں کو ایک نئی شکل دی۔

ایک یورپی انجینئر مسٹر رائٹ کو رام پور بلایا گیا۔ اس نے قلعے میں خوبصورت عمارتیں تیار کیں، جگہ جگہ شاندار مجسمے لگائے گئے۔ قلعہ میں 1902 سے 1905 تک ایک خوبصورت عمارت حامد منزل بنائی گئی۔ قلعے کے دو شاندار دروازے بنائے گئے جو کہ عمارت کے ڈیزائن کی بہترین مثال ہیں۔ نواب حامد علی خان نے قلعہ کے مغربی دروازے پر سورج مکھی کے سرے کےساتھ ایک فرشتہ کا سنہری مجسمہ بنایا۔

ایشیا کی سب سے بڑی لائبریری رضا لائبریری آج حامد منزل میں ہی کھڑی ہے۔ رضا لائبریری رام پور کے نوابوں کی سب سے یادگار اور عظیم ترین تخلیقات میں سے ایک ہے۔ اسے فروغ دینے کا کام 1842ء سے نواب محمد سعید خان کے دور میں شروع ہوا۔ نواب صاحب کے حکم سے موجودہ کتابوں کی حفاظت کا کام شروع کیا گیا اور دنیا بھر سے قیمتی کتابیں لاکررکھی گئیں۔ قیمتی کتابوں کی نقل اوردیکھ بھال کے لئے خوش نویس، جلد سازو نقاشوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ قیمتی کتابوں پر اصلی سونے کی روشنائی سے کام کیا گیا۔ آج اس لائبریری میں رامائن، بھوج پتر، قرآن کے قیمتی نسخے حقیقی حالت میں موجود ہیں، دنیا بھر سے اہل علم یہاں آتے ہیں۔

قصہ گوئی اور داستان نویسی کا رواج نواب محمد سعید خان کے زمانے سے رام پور ہی سے ہی شروع ہوا۔ رامپور کے دربار سے میر احمد علی، حکیم اصغر علی، ضامن علی جیسے کئی مشہور افسانہ نگار موجود تھے۔ نواب مشتاق علی خان کے دور میں کئی منفرد کہانیاں لکھی گئیں۔ طلسم ہوشربا،طلسم باطن،طلسم نادر فرنگ وغیرہ۔ ان کے اصل نسخے رضا لائبریری میں موجود ہیں۔

رامپور نے موسیقی اور فن کی دنیا کو اتنا کچھ دیا ہے کہ پورے ہندوستان نے مل کر بھی نہیں دیا۔ نواب یوسف علی خان کے دور میں روشن خان، باسط خان( رباب بجانے والے)، جعفر خان، صادق خان جیسے موسیقار دربار میں موجود تھے۔ نواب کلب علی خاں اور نواب حامد علی خان کے دربار میں امیر خان، عنایت خان، وزیر خان، حفیظ خان، ستار نواز، کالکا بِندہ دین (کتھک کے ماہر)، گنپت رائے، پنڈت بھٹ کھانڈے جیسے معروف فنکار تھے۔ کتھک کے ماہر بچھوا جان اور گھگھروں کے ماہر اچن مہاراج، رام پور دربار کا فخر تھے۔

نواب رضا علی خان خود بھی موسیقی کے بڑے ماہر تھے۔انہوں نے سنگیت ساگر نوٹیشن کے ساتھ کئی کتابیں لکھیں۔ نواب رضا علی خان کی موسیقی میں گھورپد، ساگھرا، ہوری، خیال، ترانہ، چترنگ، تروت، چہاربیت اور نوحہ و سوز تک کے راگوں کو گایا گیا۔ پکھاوج، کھڑتال بے مثال بجاتے تھے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ستار خود رام پور کی ایجاد ہے۔ نوابوں کے زمانے میں رام پور اردو شاعری کا سب سے بڑا اور اہم مقام تھا۔ جن بڑے بڑے ناموں پر پورا اردو ادب قائم ہے وہ سب رام پور دربار سے وابستہ تھے اور انہیں تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ غالب، داغ، مومن، امیر مینائی جیسے عظیم شاعر رام پور کے درباری شاعر تھے۔ نواب رضا علی خان خود ہندی کے بہت اچھے شاعر تھے۔ لکھنؤ 1856 میں اور دہلی 1857 میں تباہ ہوا۔

اس کے نتیجے میں دونوں جگہوں کے کارکنان رام پور آگئے۔ یہاں انھیں عزت ملی اور ماہانہ وظیفہ بھی طے ہوا۔ تاریخ و ادب کے علمبرداروں کے لیے ایک بات قابل غور ہےکہ انقلاب کی وجہ سے جب دہلی والے دہلی میں نہ رہے اور لکھنؤ کی ثقافت بھی وہاں سے ختم ہوئی تو ایک نئی اور خوبصورت زبان نے جنم لیا۔ اردورام پور کی خاص زبان ہے اور اردو ادب کے بڑے شاعروں کے کلام پر یہاں کی زبان کا اثر صاف نظر آتا ہے۔

۔ 1774 سے 1950 تک، رام پور پر سات نوابوں نے حکومت کی - فیض اللہ خان، یوسف علی خان، محمد سعید خان، مشتاق علی خان، کلب علی خان، حامد علی خان اور رضا علی خان۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوابوں کے خواب حسین اور رنگین تھے۔ یہ جاہ و جلال، یہ رسم و رواج، شاہی انداز، زیورات کی فراوانی اور اس کے ساتھ کھانے پینے کی انواع واقسام نیز گفتگو کا انداز کسی اور نوابی ریاست میں نہیں دیکھا گیا۔

کوٹھی خاص باغ اور قلعہ میں برسات کا موسم عجیب آتا تھا۔ شاہی خاندان کی لڑکیاں اور بیگمات شوخ رنگوں والی گھانی چوڑیاں پہنتی تھیں۔ کیسی کیسی خوبصورت چنریاں ہوتی تھیں۔ کیا خوبصورت انتخاب تھا۔ باغ بے نظیر میں آم کے درختوں پر ڈور میں سونے چاندی کے گھونگرو لٹکتے تھے۔ سب جھولوں میں پینگ بڑھاتے اور گانوں کی سریلی تانیں گونجنے لگتیں۔

گلوکارخواتین یہاں گانے کے لئے آتی تھیں۔ کلکتہ کی مشہور گلوکارہ گوہر جان، زہرہ بائی آگرہ والی، راجیشوری بائی بنارس سے آتی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی جھولداریاں درختوں کے نیچے رکھ دی جاتیں۔ چہل چوبہ شامیانہ نواب صاحب اور ان کی بیگم کے لیے سجایا جاتا۔ باہر سے بھی سینکڑوں مہمان آتے جن کے لیے خوبصورت جھولدایاریاں لگائی جاتی تھیں۔ مہمانوں کے لیے پکوان مہیا کرایے جاتے۔

ہر طرف کنیزیں ،خادمائیں زرق برق لباس ، نقرئی زیورات سی لدی ہوئی، پٹا پٹی کے لہنگے، گہرے رنگ کی چولیوں میں ملبوس، مہمانوں کی خاطر تواضع میں مصروف ہوتیں۔ شہزادیوں کو بنارس میں بنی ہوئی تاربانے کی اوڑھنیاں اورسونے کی کھڑاویں پیش کی جاتیں۔ رات بھررقص وسرود چلتا۔ گوہر جان کارقص جاری رہتا اور صبح اس کا اختتام جشن بھیروی پر ہوتا۔

ایک خاص بات جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ رام پور کے نواب نہ صرف اپنی عیش و عشرت میں مگن تھے بلکہ انہوں نے رام پور میں صنعتوں کی ترقی اور لوگوں کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بھی بڑے کام کیے تھے۔ اس وقت رام پور میں کپڑے کا کارخانہ ، رضا ٹیکسٹائل، دو شوگر ملز، اٹلس اور ہیرو سائیکل فیکٹری، ماچس فیکٹری، ڈسٹلری کے علاوہ 50 سے زائد فیکٹریاں کام کر رہی تھیں۔

یہاں وائلن اور ستار بھی بنتے تھے لیکن آج وہ تمام صنعتیں سیاست کی نظروں میں بند ہوگئیں۔ آج رام پور کی وہ شان و شوکت، وہ رنگ، زندگی کا وہ حسن، وہ انداز ختم ہو چکا ہے، آج بھی یہ خاندان اس پرانی روایت اور اپنے بزرگوں کی اس وراثت کو بالکل برباد ہونے سے بچانے کے لیے پرجوش نظر آتا ہے۔ ان لوگوں کے رہن سہن، گفتگو پر نظر ڈالیں تو پرانے نوابی دور کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔