رمضان المبارک ۔ عالم عرب کی توپوں کی کہانی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
رمضان المبارک ۔ عالم عرب کی توپوں کی کہانی
رمضان المبارک ۔ عالم عرب کی توپوں کی کہانی

 

علی احمد ۔ نئی دہلی 

 رمضان المبارک آگیا، مسلم دنیا میں عبادت کا ماہ شروع ہوگیا ۔ عبادت کے اس مقدس ماہ میں کچھ ایسی روایات ہیں جو  اس کو مزید پر کشش اور دلچسپ بناتی ہیں ۔ دنیا کو چونکا تی ہیں ۔ کہیں نہ کہیں اس ماہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں ۔ ان میں ایک روایت ہے توپ کی۔ جی ہاں! رمضان المبارک میں روزہ افطار کے وقت  توپ داغنے کی روایت اب بھی برقرار ہے۔ مسلم دنیا میں سحری و افطاری کے وقت سرکاری یا غیر سرکاری طور پر توپ کا گولہ داغ کر اطلاع دینے کی روایت پائی جاتی تھی اورعوام بھی اس میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔تاہم اب بیشترعرب اور دیگر مسلم ممالک میں یہ رواج ختم ہو گیا ہےاور اب بس کہیں کہیں یہ سلسلہ جاری ہے۔

سب سے پہلے توپ کس نے استعمال کی؟

اس بات پر مورخین کا اتفاق ہے کہ سب سے پہلے افطار و سحر کا وقت بتانے کے لیے توپ کا گولہ داغنے کی شروعات مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے ہوئی ۔ اس حوالے سے تین کہانیاں بیان کی جاتی ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے افطار و سحر کے وقت توپ سے گولہ داغنےکی روایت کا آغاز خوش قدم اخشیدی نے 1444ْ-865ھ میں کیا پھر اس کا سلسلہ بند ہو گیا ۔

سنہ 1805 کے دوران مصر کے معروف حکمران محمد علی الکبیر کے زمانے میں اس کا احیا ہوا۔ رفتہ رفتہ اس کا رواج پھر ختم ہو گیا۔ پھر مصر کے ایک اور حکمران خدیوی اسماعیل نے اپنی بیٹی فاطمہ کی درخواست پر توپ سے گولے داغ کر افطار و سحر کا وقت بتانے کا سلسلہ بحال کیا۔ اس کا سلسلہ 18جنوری 1863ء سے لے کر 26جون 1879ء تک برقرار رہا۔

اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ 19 ویں صدی کے وسط میں 1853 کے دوران عباس حلمی اول کے زمانے میں قاہرہ میں افطار کے لیے دو توپوں سے گولے داغے جاتے تھے ۔ ایک توپ قلعے پر نصب تھی اور دوسری العباسیہ میں عباس باشا اول کے محل میں رکھی ہوئی تھی ۔ وقت گزرتا رہا اس کا سلسلہ بھی بند ہو گیا۔

 مصر سے ہوا تھا رمضان امبارک میں توپ کا استعمال 

 خدیوی اسماعیل کے زمانے میں علما اور عمائدین نے ملاقات کر کے رمضان میں توپ سے گولے داغ کر افطار و سحر کی اطلاع دینے کا رواج بحال کرایا ۔ کچھ سال بعد پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا۔

مصر کے ایک وزیر احمد رشدی نے قلعے پر توپ نصب کراکر اس روایت کو زندہ کیا۔ ان کے زمانے میں رمضان بھر گولے داغ کر افطار و سحر کی اطلاع دی جاتی رہی ۔ عید الفطر پر بھی گولے داغے جاتے تھے تاہم مصری محکمہ آثار قدیمہ نے قلعے پر توپ نصب کرنے پر اعتراض کیا تو وزارت داخلہ نے وہاں سے توپ جبل المقطم منتقل کر دی یہ قاہرہ کا اونچا علاقہ تھا ۔

اس کی وجہ سے قاہرہ شہر کے تمام باشندے توپ کے گولے داغے جانے پر افطار و سحر کا اہتمام کرنے لگے ۔ رفتہ رفتہ یہ روایت مصر کے بہت سارے علاقوں میں منتقل ہو گئی۔ مصر میں سلطان صلاح الدین ایوبی قلعے میں نصب ایک توپ بھی 1467 میں پہلی بار سحری اور افطاری کے اوقات کے لیے استعمال کی گئی تھی جو کئی صدیوں تک کام کرتی رہی لیکن 30 سال قبل فنی خرابی کی وجہ سے اس کا استعمال بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم حال ہی میں توپ کی مرمت کے بعد اسے دوبارہ قابل استعمال بنایا گیا ہے۔

مصری محکمہ آثار قدیمہ و تاریخی مقامات کی معاون وزیر ایمان زیدان نے بتایا کہ وزارت سیاحت و آثار قدیمہ نے اس پرانی توپ کو مرمت کر کے دوبارہ فعال کر لیا ہے۔ یہ توپ قلعہ صلاح الدین ایوبی میں نصب ہے اور اس سے ماضی میں غروب آفتاب یا افطاری کے وقت ایک گولہ داغ کر افطاری کا اعلان کیا جاتا تھا۔

ایمان زیدان کا کہنا تھا کہ یہ توپ سحر و افطار کے پرانے طریقوں کو زندہ رکھنے کی ایک علامت ہے اس لیے اسے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیا گیا ہے اور اب توپ سے سحری اور افطار کے وقت دور تک دیکھی جانے والی شعائیں بھی نکلتی ہیں۔

قاہرہ کی آگ اگلتی توپ

مصر کے اسلامی، قبطی اور یہودی آثار قدیمہ کے امور کے چیئرمین ڈاکٹر اسامہ طلعت نے کہا کہ رمضان توپ کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ سب سے مشہور یہ ہے کہ یہ توپ قاہرہ شہر میں سب سے پہلے رکھی گئی تھی۔ اس توپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مملکو بادشاہ خشقدم کے دور میں نصب کی گئی جسے پہلی بار 1467 کو افطار کے اعلان کے لیے ایک گولہ داغ کر استعمال میں لایا گیا تھا۔ توپ کے ذریعے گولہ داغ کر افطار کے وقت کا اعلان لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ لوگ یہ دیکھ کر سلطان کے پاس آئے اور اس ’بدعت حسنہ‘ پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

ایک دوسری روایت کے مطابق یہ توپ خدیوی اسماعیل کے سپاہیوں نے نصب کی تھی جو اسے مشقوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس توپ سے پہلا گولہ رمضان میں مغرب کے وقت داغا گیا۔ اس موقعے پر خدیوی اسماعیل کی بیٹی الحاجہ فاطمہ نے توپ کے ذریعے گولہ داغ کر افطاری کے اعلان کی تجویز پیش کی۔ اس کے بعد اس توپ کے ذریعے سحری کے لیے جگانے اور عید کے ایام کے اعلانات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

عرب ممالک میں توپ کا رواج

مصر سے توپ کا رواج بیت المقدس ، شام اور عراق منتقل ہوا۔ اس کی شروعات 19ویں صدی کے آخر میں ہوئی، پھر شیخ مبارک الصباح کے زمانے میں 1907 میں توپ کا رواج کویت میں قائم ہوا۔ کویت سے یمن ، سوڈان ، مغربی افریقہ کے ممالک چاڈ ، نائیجر ، مالی اور مشرقی و وسطی ایشیا کے ممالک میں منتقل ہوا ۔ خلیجی ممالک میں بھی توپ کا رواج کویت سے آیا ۔ انڈونیشیا میں اس کا رواج 1944 میں آیا۔

سعودی عرب کے مختلف شہروں کی طرح مکہ میں بھی رمضان کے دوران توپ سے گولے داغ کر افطار و سحر کا اعلان کرنے کا رواج موجود ہے۔ مکہ کے لوگ ایک طرف تو اذان سن کر افطار و سحر کرتے ہیں اور دوسری جانب توپ کے گولے کی آواز پر بھی کان لگائے رکھتے ہیں ۔ سعودی ٹی وی ہر روز توپ سے گولے داغنے کی آواز ناظرین کو سناتا اور دکھاتا ہے ۔ مکہ میں توپ کا رواج 50 برس تک برقرار رہا۔دو برس قبل اس کا سلسلہ بند ہو گیا ۔

مکہ کی تاریخی توپ 

اس کے بعد صوتی توپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مکہ میں رمضان کی شروعات کا اعلان سات صوتی گولے داغ کر کیا جاتا ہے ۔ رمضان کی آمدسے قبل اس کی باقاعدہ تیاری ہوتی ہے ۔ افطار و سحر کے وقت کا اعلان ایک ایک صوتی گولے اور سحر کے ختم ہونے کا اعلان دو صوتی گولے داغ کر کیا جاتا ہے ۔ عید کا چاند نظر آنے پر متعدد صوتی گولے داغے جاتے ہیں۔ مکہ میں جس پہاڑ سے افطار و سحر کے لیے توپ سے گولے داغے جاتے ہیں اسے جبل المدافع یعنی توپوں کا پہاڑ کہا جاتا ہے۔

مکہ مکرمہ کے شمال میں ابو المدافع پہاڑی کی چوٹی پر نصب توپ، جسے رمضان میں استعمال کیا جاتا تھا، چھ برس سے خاموش ہے۔ لیکن اس کی گرج دار آواز اب بھی مکہ کے بہت سارے مکینوں کو یاد ہے جن کے لیے یہ روزہ رکھنے، صبح کی نماز اور رمضان کے آغاز اور اختتام کے اعلان کا ذریعہ تھی۔ وہ لوگ جو اس پہاڑی کے قریب ہی رہتے تھے وہ رمضان المبارک کا اعلان ہونے کے بعد چوٹی پر چڑھ کر توپ سے گولے داغے جانے کے مناظر دیکھتے تھے۔

یہاں سے پورے ماہ رمضان سحر و افطار کے اوقات میں گولے چلائے جاتے تھے جن کی آواز سن کر لوگ روزہ رکھتے اور افطار کرتے تھے۔ توپ کی حفاظت، اس کی دیکھ بھال اور گولے چلانے والے مکہ پولیس کے ترجمان میجر محسن الميمان نے عرب نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ توپ عوام میں کس قدر مشہور تھی۔ ان کے بقول: ’75 سال پہلے جب مکہ پولیس کی تشکیل ہوئی تھی تو فورس کو اس توپ کی دیکھ بھال اور انتظام کا کام سونپا گیا تھا۔

رمضان سے کچھ دن پہلے اسے پہاڑ پر نصب کیا جاتا تھا جب کہ عید کے بعد توپ کو ایک خصوصی محکمے کو واپس کردیا جاتا تھا۔ اس میں استعمال ہونے والے بارود کو خصوصی ٹیم سنبھالتی ہے تاکہ کوئی نقصان نہ ہو۔ المدافع کے قریبی علاقے ريع ذاخر کے میئر فہد الحربي نے عرب نیوز کو بتایا: ’رمضان توپ کو ترک کرنے سے قبل اس میں طویل عشروں سے تکنیکی تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ یہ مکہ کی قدیم تاریخ کی نمائندگی کرتی ہے۔توپ کا دھماکہ اپنی تمام تر اہمیت اور خوبصورتی کے ساتھ مکہ مکرمہ کے باسیوں کے لیے ایک مقدس بلاوا بن گیا تھا۔

مکہ میں توپ داغنے کا منظر

انہوں نے بتایا کہ کئی سالوں سے یہ توپ چاند نظر آنے کے اعلانات اور سحر و افطار کے اوقات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کا واحد ذریعہ تھی اور مقدس مہینے میں اس کا ایک منفرد ہی کردار تھا جو لوگوں کے ذہنوں میں قیمتی یادوں کی طرح محفوظ ہے۔ ’سنٹر آف مکہ ہسٹری‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فواز الدهاس کے مطابق توپ کم از کم ایک صدی سے ابو المدافع پر نصب ہے اور اس توپ اور پہاڑی نے مکہ مکرمہ کے باسیوں کو مقدس مہینے سے ان کی محبت کو جوڑ دیا تھا۔ ’ماضی میں مسجد الحرام سے اذان کی آواز سننا ناممکن تھا لہذا یہ کام توپ کی مدد سے کیا جاتا تھا۔ فواز الدهاس نے مزید کہا کہ یہ روایت بہت ہی اچھی طرح سے برقرار تھی لیکن جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام کے میناروں سے منسلک لاؤڈ سپیکرز کے باعث بالآخر توپ کا استعمال متروک کردیا گیا۔ رمضان المبارک کے دوران توپوں کا استعمال 15 ویں صدی اور مملوکوں کے عہد میں شروع ہوا تھا۔

متحدہ عرب امارات امارات میں بھی 

متحدہ عرب امارات کے باشندے گذشتہ صدی کے تیسرے عشرے کے شروع میں رمضان توپ سے متعارف ہوئے۔ اماراتی اسے ’’الراویہ ‘‘کے نام سے جانتے ہیں ۔

الراویہ کے معنی سیراب کرنے والی کے ہیں چونکہ توپ سے گولے داغے جانے پر روزے دار افطار کر کے سیراب ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے اسے الروایہ کہتے ہیں۔ زمانے کی تبدیلیوں کے باوجود شارجہ، دبئی اور ابوظبی میں توپ سے گولے داغ کر افطار و سحر کی اطلاع کا رواج آج بھی قائم ہے ۔

دبئی میں توپ کا منظر

بحرین میں توپ کا رواج گذشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں آیا ۔ یہاں عیدین کی اطلاع بھی 12 ,12گولے داغ کر دی جاتی ہے ۔مغرب کے وقت متعدد بحرینی اور تارکین وطن افطار کے گولے داغنے کا منظر دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں ۔ بچوں کو بھی ہمراہ لاتے ہیں ۔

توپ کے رواج کا خاتمہ متعدد عرب ممالک میں توپ سے گولے داغ کر افطار و سحر کی اطلاع کا رواج دہشت گردی کی لہر کے باعث بند کر دیا گیا۔ ان میں عمان ، تیونس ،عراق ، شام اور یمن شامل ہیں ۔