رام، رام مندر اور ہندوستان ___ مسلمانوں کو مذہبی رواداری، گنگا جمنی تہذیب اور قومی یک جہتی کی وراثت کی حفاظت کرنا ہوگی _ مسلم دانشوران

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 06-01-2024
رام، رام مندر اور ہندوستان ___ مسلمانوں کو مذہبی رواداری، گنگا جمنی تہذیب اور قومی یک جہتی کی وراثت کی حفاظت کرنا ہوگی _ مسلم دانشوران
رام، رام مندر اور ہندوستان ___ مسلمانوں کو مذہبی رواداری، گنگا جمنی تہذیب اور قومی یک جہتی کی وراثت کی حفاظت کرنا ہوگی _ مسلم دانشوران

 

محفوظ عالم : پٹنہ

پوری دنیا میں ہندوستان کے مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارے کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں کے لوگ نہ صرف ایک دوسرے کے مذاہب کی قدر کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے تہواروں اور رسم و رواج میں شرکت کرنا اپنی بڑائی سمجھتے ہیں۔ یہی وہ عظیم خطہ ہے جہاں شری رام کی پیدائش ہوئی۔ اسلام کے مطابق کہتے ہیں کہ قریب ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبر اس دنیا میں آئے ہیں اور ہم شری رام اور گوتم بدھ کو ایک پیغمبر مانتے ہیں۔
یہ کہنا ہے مشہور مورخ اور پٹنہ یونیورسیٹی کے شعبہ قدیم تاریخ کے صدر، پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید عالم کا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید عالم کے مطابق سو سال پہلے برصغیر کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے رام کو امام ہند کہا تھا۔ انہوں نے اس وقت کے کسی عظیم صوفی، بزرگ، عالم اور فقیہ کو یا کسی امام کو امام ہند نہیں کہا بلکہ رام کو امام ہند کہا تھا اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان بھی رام کا کتنا احترام تھا۔ آج بھی لوگ رام کا احترام کرتے ہیں۔ کبھی آج جیسا ماحول نہیں تھا تب بھی رام سب کے تھے اور آج کے ماحول میں بھی ہندوستان کی گنگا جمنی تہزیب اور  جامع تہذیب   میں رام سب کے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید عالم کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں رام کے جنم استھان پر رام مندر کا افتتاح ہونے جا رہا ہے۔ اس مقدس مقام کو لیکر کافی دنوں تک تنازعہ چلتا رہا لیکن عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد وہ سب تنازعہ اب ختم ہو گیا ہے۔ ایودھیا میں رام مندر بن رہا ہے۔ وہ  ہندو مذہب کے آستھا کا کیندر ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پہلے بھی بھگوان رام کو لیکر لوگوں کی آستھا تھی اور آج بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب کو سب کے مذہب کا احترام کرنا لازمی ہے۔ اگر کوئی اس معاملے پر سیاست کر رہا ہے تو ان کو مبارک لیکن سبھی مذاہب کے آستھا و عقیدہ کا احترام کرنا ہمارے لئے لازمی ہے۔
واضح رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید عالم ایک مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی ہیں اور مسلمانوں کے درمیان تعلیمی بیداری کو عام کرنے کے تعلق سے مسلسل کام کرتے رہے ہیں۔ پروفیسر سعید عالم کا کہنا ہے کہ ماضی کے خوبصورت یادوں کو سامنے رکھنا چاہئے اور تلخیوں کو فراموش کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تبھی ملک میں امن و امان اور ترقی کا ماحول قائم ہوگا اور سماج آگے بڑھے گا۔
ڈاکٹر احمد عبدالحئ، پروفیسر قمر احسن اورپروفیسر ڈاکٹر محمد سعید عالم
رام مندر اور رام کی شخصیت کو لیکر مسلم سماج میں ایک مثبت نظریہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی اور مگدھ یونیورسیٹی کے سابق  وائس چانسلر پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک میں بھی مختلف تنازعات لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں لیکن وہاں کے لوگ اسے حل کرتے ہیں نہ کی ماحول کو خراب کرنے کی کوئی کوشش ہوتی ہے۔
پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ رام کے نام پر بن رہے رام مندر کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کیا ہے کہ فیل وقت سب سے زیادہ ضروری تعلیم پر توجہ دینے کی ہے۔ پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کثیرالمذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ اسلئے آپسی الزام تراشی کی عادت یا روایت ختم ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کی مسلمانوں کو قومی یکجہتی کو فروغ دینے اور اپنی طرف سے اس ملک کی عظیم وراثت کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ بغیر جانے سمجھے کچھ لوگ غیر ضروری مدعوں پر بات کرتے ہیں اس سے ماحول خوشنما ہونے کے بجائے خراب ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مہذب سماج کا شخص اس بات کو ضرور تسلیم کرے گا کہ مذہبی معاملات میں ہر مذہب کے عقیدہ کا احترام ہونا چاہئے اور اپنی طرف سے کوئی ایسی ناگوار بات نہیں ہونی چاہئے جسے کسی مذہب کے ماننے والوں کو ٹھیس پہنچیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت سائنس و تکنیک کا ہے اور یہ کافی اہم ہے کہ لوگ اپنی ترقی کے بارے میں غور و فکر کریں اور ماضی کے ان باتوں کو فراموش کرنے کی پوری کوشش کی جائے جسے گنگا جمنی تہزیب کو نقصان پہنچتا ہے۔ پروفیسر قمر احسن کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی کتابیں بی پی ایس سی اور یو پی ایس سی کی تیاری کرنے والے طلبا پڑھتے ہیں۔ انہوں نے ایسے نوجوانوں سے کہا ہے کہ اب اس بات کو لازمی بنانا چاہئے کی مسلم سماج کا پورا فوکس تعلیم حاصل کرنے اور مقابلہ ذاتی امتحانات کی تیاری پر رہے تاکہ ان کی سماجی زندگی میں بڑا بدلاؤ ممکن ہو سکے۔ قمر احسن کا کہنا ہے کہ دنیا کا ہر مذہب انسان کو انسان بنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہندوستان میں رام جیسی عظیم شخصیت کی پیدائش ہوئی ہے۔ اور ان کی تعلیمات میں بھی انسان کو انسان بنانے پر ہی زور دیا گیا ہے۔ ایسے میں سبھی مذہب کے لوگوں کو انسانیت اور بھائی چارے کے فروغ کے لئے کام کرنا چاہئے۔
مسلم سماج کے اسکالر اور سماج کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی مٹی میں قومی یکجہتی کی خوشبو ہے۔ مذہبی رواداری اس ملک کی پہچان رہی ہے۔
معروف ڈاکٹر اور سماجی کارکن ڈاکٹر احمد عبدالحئ کے مطابق زمانے قدیم سے ہی ہندوستان سبھی لوگوں کو اور سبھی مذاہب کا دل کھول کر خیر مقدم کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کی مغلوں کے زمانے میں بھی ہندو مذاہب کی مقدس کتابیں اور اپنشد کا مسلم بادشاہوں نے فارسی میں ترجمہ کرایا۔ انہوں نے کہا کی مغل شہنشاہ شاہجہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے اپنشد کا ترجمہ کرایا تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی مذہبی رواداری اس قدر مضبوط تھی کی لوگ ایک دوسرے کے مذہب کو جاننے کے لئے ان کی کتابوں کو ترجمہ کرا رہے تھے تاکہ اہل علم تک وہ بات پہنچے اور ایک دوسرے کے مذاہب کی قدر کی جائے۔
ڈاکٹر احمد عبدالحئ کا کہنا ہے کہ آج کے موجودہ تناظر میں جب کے رام مندر کا افتتاح ہونے والا ہے، ہم عدالت کے فیصلے کو پہلے ہی تسلیم کر چکیں ہیں ایسے میں اس موقع پر بھی ہم بھائی چارہ اور خیر سگالی کا پیغام دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کی مسلمانوں کو چاہئے کی وہ بھائی چارہ کو فروغ دینے کے لئے اپنی سطح سے ہر وہ کام کریں جسے سماج کے سبھی طبقہ کا بھلا ہو۔ اس بات میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کے بغیر قومی یکجہتی اور ضرورت مند کا خیال رکھا جائے تاکہ سماج کا وہ طبقہ بھی خوشیوں سے قریب ہو سکے جو بے سہارا ہے۔ غورطلب ہے کہ ڈاکٹر احمد عبدالحئ آل انڈیا سرجن ایسوسی ایشن کے چیرمین رہ چکیں ہیں اور پارس اسپتال کے ڈائرکٹر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ مختلف مسلم تنظیموں سے جڑے ہونے کے ساتھ ساتھ کئی تعلیمی ادارہ بھی چلا رہے ہیں۔
کہنا غیر مناسب نہیں ہے کہ رام مندر کے معاملے میں مسلم سماج کا نظریہ کافی مثبت ہے۔ سماج کے ذمہ داروں نے مذہبی عقیدہ کو تسلیم کیا ہے اور رام کو ایک عظیم شخصیت بتایا ہے۔ ساتھ ہی اس ملک کی وہ وراثت جسے گنگا جمنی تہذیب کا نام دیا جاتا ہے اس کے فروغ کو لازمی بتایا ہے۔ مسلمانوں کو بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کو بڑھانے کے لئے اس سمت میں مسلسل کام کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ سماجی و معاشی اعتبار سے لوگ ترقی کریں اور اس ملک کے مذہبی رواداری کی پہچان ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں باقی رہے۔ اور دنیا عزت و احترام کے ساتھ ہندوستان کا نام لینے پر فخر محسوس کرے۔