لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ مذہبی نہیں سماجی بحث ہے : علماء و دانشور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-12-2021
لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ مذہبی نہیں سماجی بحث ہے :  علماء و دانشور
لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ مذہبی نہیں سماجی بحث ہے : علماء و دانشور

 

 

منصور الدین فریدی ۔آواز دی وائس 

لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر 18 سال سے 21 سال کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا ،ساتھ ہی یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہر کسی کا ہے۔ یہ مذہبی معاملہ کم اور سماجی زیادہ ہے۔ اس سے مذہب میں تو کوئی مداخلت نہیں ہوتی لیکن اس سے سماجی مسائل ضرور سر اٹھائیں گے۔اس قانون سے بہرحال دین یا شریعت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

یہ تاثرات ملک کے ممتاز علما اور دانشورو ں کے ہیں جن کا اظہار انہوں نے مرکزی کابینہ نے ملک میں خواتین کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنے کی تجویز منظور کرنے کے بعد کیا ہے۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ سال یوم آزادی کے موقعے پر کی گئی تقریر میں اس تجویز کا ذکر کیا تھا۔جس پر اب کابینہ نے اپنی مہر لگائی ہے۔

دہلی میں مسجد فتح پوری کے امام اور ممتاز عالم دین ڈاکٹر مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے کہا کہ یہ فیصلہ درست نہییں ہے۔بات صرف مسلمانوں کی نہیں ،یہ سماجی مسئلہ ہے ،پورے ہندوستان کے لیے ہے۔یہ انسانیت کا سوال ہے ۔ماں باپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لڑکیوں کی شادی ،جس سے فارغ ہونا ہر کسی کا پہلا ہدف ہوتا ہے۔

آج کے ماحول میں لڑکیوں کی ذمہ داری سے ہر کوئی جلد سے جلد نپٹنا چاہتا ہے۔ مجھے حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ جب ووٹ کی عمر 18 سال ہے تو پھر شادی کی عمر 21 کیوں کی جارہی ہے ؟ مفتی مکرم نے مزید کہا کہ ایسا تو امریکہ میں بھی نہیں ۔میری سمجھ سے باہر ہے ۔

اس معاملہ میں تو حکومت کو بھی سائنٹفک طور پر سوچنا چاہیے۔میری نظر میں یہ ایک سماجی مسائل پیدا کرے گا جو والدین کے لیے تناو کا سبب بنیں گے۔

جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ نکاح انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے؛ لیکن نکاح کس عمر میں ہو، اس کے لئے کسی متعین عمر کو پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا، اس کا تعلق صحت وتندرستی سے بھی ہے اور سماج میں اخلاقی اقدار کے تحفظ اور سوسائٹی کو اخلاقی بگاڑ سے بچانے سے بھی؛ اسی لئے نہ صرف اسلام بلکہ دیگر مذہب میں بھی نکاح کی کوئی عمر متعین نہیں کی گئی ہے-

اس کو عاقدین اور اُن کے سرپرستوں کی صوابدید پر رکھا گیا ہے، اگر کوئی لڑکا یا لڑکی ۲۱؍سال سے پہلے نکاح کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نکاح کے بعد عائد ہونے والے واجبات کو ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تو اس کو نکاح سے روک دینا ظلم اور ایک بالغ شخص کی شخصی آزادی میں مداخلت ہے- سماج میں اس کی وجہ سے جرائم کو بڑھاوا مل سکتا ہے، 18؍ سال یا 21 سال شادی کی کم سے کم عمر متعین کر دینا 

اس سے پہلے نکاح کو خلاف قانون قرار دینا نہ لڑکیوں کے مفاد میں ہے، نہ سماج کے لئے بہتر ہے؛ بلکہ اس سے اخلاقی قدروں کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے،ویسے بھی کم عمر میں نکاح کرنے کا رجحان آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے- لیکن بعض دفعہ ایسے حالات آتے ہیں کہ مقررہ عمر سے پہلے ہی نکاح کر دینے میں لڑکی کا مفاد ہوتا ہے؛ اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسے بے فائدہ بلکہ نقصاندہ قانون بنانے سے باز رہے

ممبئی کے ممتاز عالم دین مولانا ظہیر عباس رضوی نے اس معاملہ میں کہا کہ یہ سب دنیاوی قوانین ہیں جو وقت کے ساتھ بنتے اور بدلے جاتے ہیں۔ایسے قوانین کی پابندی نہ کرو تو ملک کے قانون میں مجرم بن جائیں گے۔ بات اسلام کی کریں تو بالغ ہونے کے فوراا بعد شادی کا حکم ہے ۔بہرحال میں یہ کہوں گا کہ اس قانون کو مان لیا جائے تو دین یا شریعت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

مولانا رضوی نے کہا کہ حکومت کا فیصلہ ایسا نہیں ہو جو آپ کے عقیدے یامذہب کے خلاف ہو۔میرے خیال میں اس قانون سے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لیکن حتمی رائے تو فقہ کی ہی ہوگی ۔ایسا فیصلہ جکو ہر مسلک اور طبقہ کے لیے قابل قبول ہو۔

انٹر نیشنل صوفی کارواں کے سربراہ اور اسلامی اسکالرمولانا مفتی منظور ضیائی نے کہا ہے کہ یہ کوئی مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کو صرف مسلمانوں کے مسئلے کی نظر سے دیکھنا ہی غلط ہے۔ ایک سماجی معاملہ ہے اگر دیگر طبقوں کو اعتراض ہوگا تو وہ بھی اپنی بات رکھیں گے۔

یہ قانون ان کے لیے ہے جو بہت ہی کم عمر میں لڑکیوں کی شادیاں کر دیتے ہیں۔جو کم عمر میں کرتے ہیں ان کے ملیے مفتی منظور ضیائی نے مزید کہا کہ مسلمان خواہ مخواہ اس کو اپنا مسئلہ نہیں بنائیں کیونکہ کچھ طاقتیں ایسے مواقع کی تلاش میں رہتی ہیں ۔مسلمانوں کو اس معاملہ پر چیخ پکار نہیں کرنی چاہیے۔ خوامخواہ ایک تنازعہ پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسری جانب امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں خواتین کے لئے شادی کی قانونی عمر میں اضافہ کرنے کی پیش کردہ تجویز پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی کابینہ نے ابھی حال ہی میں ایک نئے بل کو متعارف کرانے کی منظوری دی ہے جس کے تحت ”بچوں کی شادی پر پابندی کا قانون 2006“ میں ترمیم کرکے خواتین کی شادی کی قانونی عمر کو18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں خواتین کے لئے شادی کی قانونی عمر کو بڑھا کر 21 سال کرنا کوئی دانشمندانہ اقدا م ہے۔

موجودہ وقت میں پوری دنیا میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ خواتین کے لئے شادی کی قانونی عمر 18 سال ہونی چاہئے۔ بہت سے ممالک جن میں متعدد ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں، اسی رائے پرعمل کررہے ہیں“۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” حکومت کو لگتا ہے کہ شادی کی عمر بڑھا کر 21 سال کردینے سے خواتین تاخیر سے ماں بنیں گی، شرح تولید کم ہوگی اور ماؤں اور بچوں کی صحت میں بہتری آئے گی۔مگر اعدادو شمار سے اس نقطہ نظر کی توثیق و تصدیق نہیں ہورہی ہے۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے ڈاکٹر ظفر الا اسلام خان کے مطابق ہندوستان میں کوئی اسلامی حکومت نہیں ہے۔ حکومت کو سماجی مسائل پر فیصلہ لینے کا حق ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر لڑکی ۱۸ سال میں بالغ ہوجاتی ہے تو کیا اس کی شادی اسی عمر میں کردینی چاہیے؟اس کی تعلیم ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے سماجی معاملوں کی حمایت کی جانی چاہیے نہ کہ مخالفت کی جائے ۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت بیٹیوں اور بہنوں کی صحت کے بارے میں فکر مند ہے۔ بیٹیوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی صحیح عمر میں شادی کی جائے۔

اس وقت مردوں کے لیے شادی کی قانونی عمر کم از کم 21 سال اور خواتین کے لیے 18 سال مقرر ہے۔

کابینہ سے منظوری کے بعد حکومت اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پروہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ، سپیشل میرج ایکٹ، اور ہندو میرج ایکٹ میں تبدیلیوں پر غور کر رہی ہے۔ گذشتہ سال قائم ہونے والی اس ٹاسک فورس میں اعلیٰ حکومتی ماہر وی کے پال، وزارت صحت، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت اور وزارت قانون کے اعلیٰ حکام شامل ہیں۔ اس تجویز پر سفارشات دسمبر میں پیش کی گئی تھیں کیونکہ ٹاسک فورس نے زور دیا تھا کہ پہلے حمل کے وقت عورت کی عمر کم از کم 21 سال ہونی چاہیے۔ ٹاسک فورس کا یہ بھی کہنا تھا کہ شادیوں میں تاخیر کا خاندانوں، معاشرے اور بچوں پر صحت، سماجی اور مالی لحاظ سے مثبت اثر پڑتا ہے۔

 اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے راجیہ سبھا کی رکن اور اداکارہ جیا بچن کا کہنا تھا کہ: ’یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اس سے لڑکیوں کو مزید تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ وہ اپنی آزادی سے لطف اندوز ہو سکیں گی اور انہیں روزگار کے بہتر مواقع بھی ملیں گے۔‘