منصور الدین فریدی : نئی دہلی
ایک اور آواز خاموش ہوگئی، موسیقی کی دنیا سوگوار ہوگئی۔ ہندوستان میں غزل کا بادشاہ کہلانے والے پنکج ادھاس کی اس دنیا سے رخصتی نے ہر کسی کو اداس کردیا ۔ تھوڑی تھوڑی پیا کرو سے چھٹی آئی ہے ۔۔تک پنکج ادھاس نے غزل گوئی میں جو چھاپ چھوڑی ،جو سنگ میل قائم کیے اور جو دیوانے پیدا کئے اس کی دوسری نظیر نہیں ملتی ہے۔ غزل گوئی میں اسٹیج سے بالی ووڈ تک انہوں نے اپنا سحر دکھایا،موسیقی کی دنیا میں پنکج ادھاس ایک ایسے غزل گلوکار ہیں جو اپنی گائیکی سے گزشتہ چار دہائیوں سے اپنے مداحوں کو مسحور کرتے رہے ۔ پنکج نے کئی بالی وڈ فلموں کیلئے گیت بھی گائے تھے اور ان کی مشہور غزلوں میں ’چاندنی رات میں‘، ’نا کجرے کی دھار‘، ’اور آہستہ کیجیے باتیں‘، ’ایک طرف اس کا گھر‘، ’تھوڑی تھوڑی پیا کرو‘ اور ’چٹھی آئی ہے‘ شامل ہیں جو ہمیشہ ان کے پرستاروں کو یاد رہیں گی۔غزل گائیکی میں ایک منفرد مقام رکھنے والے پنکج ادھاس کو مشہور غزل ’چٹھی آئی ہے‘ سے شہرت ملی تھی جو کہ فلم ’نام‘ میں شامل تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے فلم ’ساجن‘ کے نغمے ’جیئیں تو جیئں کیسے‘ کو بھی آواز دی تھی جو اپنے وقت میں ہر کسی کے زبان پر رہتا تھا اور اس کی بازگشت آج بھی باقی ہے۔
پنکج ادھاس ایک کسان کے بیٹے تھے،ہندوستان کی مٹی سے جڑے انسان ،جن کی پیدائش 17مئی 1951کو ہوئی۔پنکج ادھاس، جیت پور سوراشٹر (گجرات)کی ایک’ چرن‘ کسان فیملی سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کے والدکیشو بھائی ادھاس اور والدہ جیتو بین ادھاس گجرات کے معمولی کسان تھے مگر بچوں کو انہوں نے اعلا تعلیم دلائی۔چنانچہ پنکج ادھاس کے چھوٹے بھائی منوہر ادھاس اور نرمل ادھاس اسکولی تعلیم کے بعد پرو فیشنل اور ٹیکنیکل اپنے کیرئیر کا آغاز 1980میں غزلیہ البم ”آہٹ“سے کیا۔جوراتوں رات مقبول ہو گیا ۔ شائقین کی دنیا میں ان کی طلب و جستجو نے حیرت انگیز سماں باندھ دیا ،1981میں انہوں نے”مقرر“ البم ریلیز کیا۔شائقین اسے بھی لے اڑے،اب انہیں ترنم کی تلاش تھی،پنکج کو حوصلہ ملا اور انہوں نے 1982میں ”ترنم “ریلیز کیا۔وہ بعد ازاں محفل۔نایاب۔آفرین۔ہم نشیں۔نبیل۔ کیف ۔شگفتہ۔رباعی ۔حسرت۔آشیانہ۔خیال۔ نشہ۔گیت نما۔مہک۔مسکان اور دھڑکن ایک پر ایک البم ریلیز کرتے رہے اور شائقین کے دل لوٹتے رہے۔1984میں ایک موقع ایسا آیا کہ انہیں’رائل البرٹ ہال ‘لندن سے لائیو پروگرام نشر کرنے کا زرین اور یادگار موقع ملا۔تعلیم حاصل کر کے بالی ووڈ میں اپنی آواز کا جادوجگانے لگے۔
دنیا نہ بھولا پائے گی