ڈاکٹرکلام کے ساتھ نیلائی ایس متھو کی رفاقت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-07-2021
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اپنے رفیق و سائنس داں ڈاکر نلائی ایس متھو اور ان کی اہلیہ کے ہمراہ ( 7 اگست 2006 ، راشٹرپتی بھون)
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اپنے رفیق و سائنس داں ڈاکر نلائی ایس متھو اور ان کی اہلیہ کے ہمراہ ( 7 اگست 2006 ، راشٹرپتی بھون)

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

نیلائی ایس متھو بیک وقت دو پیشے سے وابستہ ہیں، جہاں وہ ایک طرف ایک اچھے سائنس داں ہیں وہیں وہ ایک بہترین تمل مصنف بھی ہیں، انھوں نے سابق صدر و میزائل مین ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے ہمراہ تقریباً 40 برسوں تک کام کیا ہے۔

انھوں نے سنہ 1963 سے 1980 کی دہائی کے درمیان ڈاکٹر کلام کے ساتھ کام کیا۔ جب ڈاکٹر کلام بطور پروجیکٹ ڈائریکٹر اسرو(ISRO) میں تھے ، متھو نے مدورائی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1973 میں سائنسدان کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔

ڈاکٹر کلام ڈی آر ڈی او منتقل ہونے پر متعدد مواقع پر وہ ان کےرابطے میں رہے۔

انھوں نے سائنس پر متعدد کتابیں لکھیں اور ترجمہ کیا اور خاص طور پر کلام پر ان کی چارکتابیں ہیں۔ 

نلائی ایس متھو ہی پہلے شخص ہیں، جنھوں نے تمل میں کتاب ڈاکٹر کلام کی کتاب ہندوستان 2020 وژن(India 2020 vision) کا ترجمہ کیا؛ اسے وہ اپنے لیے ایک اعزازسمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ڈاکٹر کلام کی سوانح بھی لکھی ہے، جو کہ ان پر لکھی جانے والی کسی بھی ہندوستانی زبان کی پہلی سوانح تھی۔ 

اس کے ساتھ ہی وہ اے پی جے عبدالکلام فاؤنڈیشن کے مشاورتی بورڈ کے رکن بھی ہیں۔

awazurdu

نیلائی ایس متھو نے ڈاکٹر کلام کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات اپنی گفتگو میں بیان کیا ہے، جسے یہاں نقل کیا جاتا ہے۔

نیلائی ایس متھو کہتے ہیں کہ ان سے میری پہلی غیر رسمی ملاقات وکرم سارا بھائی کے خلائی مرکز(Vikram Sarabhai Space Centre) کے دورے کے موقع پر تیروندرم(1989)میں ہوئی تھی۔ یہ اس وقت ہوا جب طیارہ اے ایس ایل وی(ASLV) کی ناکام ہوگیا تھا۔ اس وقت میں نے تمل میں ایک کتاب واناتھائی اللپوم (Measure the Sky) لکھی تھی اور اس کی ایک کاپی انہیں بھیجی تھی۔

 اس دورے کے دوران انہوں نے میری کتاب کو یاد رکھا اور چائے کے وقفہ میں، اس کے بارے میں گفتگو کی۔ اصل میں ان دنوں کوئی اور مھتو نامی شخص تھا، جس نے ڈاکٹر کلام کو کتاب بھجی تھی، وہ مجھے وہ سمجھ رہے تھے۔ بعد میں انھیں مطلع کیا گیا کہ میں نے ہی کتاب لکھی ہے اور پھر جب میں ان سے ملا تو میری تعریف کرنے لگے۔

 اسی کتاب کے لیے مجھے اس وقت کے وزیراعلی ایم کرونانیدھی کے ہاتھوں نوازا بھی گیا۔

awazurdu

 اب تک میں نے تقریباً 160 کتابیں تحریرکی ہیں اور ترجمہ کیا ہے۔ ان میں متعدد کتابوں پر بہترین مترجم کی حیثیت سے ریاستی حکومت کی جانب سے مجھے ایوارڈ مل چکا ہے۔

 جب میں سن1997 تا 2008 کے درمیان سریہریکوٹہ گیا، اکثرہا ان سے ملاقات کی۔ جب وہ چنئی کے دورے پر آئے تو ان سے کئی مواقع پر ملنے کا اتفاق ہوا۔

 ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ کہ بہت سے لوگوں نے سوانح عمری لکھی ہے لیکن میں بھی آپ پر لکھنا چاہتا ہوں، یہ میراخواب ہے۔

 اس کے جواب میں ڈاکٹرکلام نے کہا کہ آپ کو پوری آزادی حاصل ہے، آپ جو چاہیں لکھیں۔

 اس کے بعد میں نے ان پر ایک کتاب تمل زبان میں لکھی ’ارویول ارائینارعبد الکلام یعنی سائنسی اسکالر عبد الکلام(Scientific scholar Abdul Kalam) کے نام سے شائع ہوئی۔

اس کے علاوہ سنہ 2002 میں ، ’ہندوستان 2020 وژن‘ کی کتاب کی رونمائی سے پہلے ، مجھے اس کا ترجمہ کرنے کا موقع مل گیا۔

اگرچہ کئی لوگوں نے اس کے ترجمہ کی خواہش ظاہر کی تھی، لیکن اس کا ترجمہ کرنے کی ذمہ داری مجھے مل گئی۔

 اس کتاب کا رسم اجرا یکم جون 2020 کو تمل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ای سندر مورتی کی موجودگی میں ہوا، جس میں ڈاکٹر کلام بذات خود شریک ہوئے اور ہمارے درمیان کافی ہنسی مذاق بھی ہوا تھا۔ سامعین کی تالیاں بھی بجی تھیں۔ میں نے اس وقت ایک جملہ کہا تھا جو مجھ کو اب بھی یاد ہے کہ آئیے پہلی بار قوم کو ایک سائنسدان کے حوالے کردیں۔

 اس پر سبھی لوگ ہنس پڑے ، پورا ہال تالیوں کی گرگراہٹ سے گونج اُٹھا۔

awazudu

 زبان و بیان پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ میں اگنی اول تجربے کے بعد ان پر ایک مضمون لکھا جسے انھوں نے پسند کیا اور کہا کہ اس مضمون کو لکھنے کے لیے مبارک باد تاہم اس میں دو جگہ قواعد کی غلطی ہے۔

 سنہ 2004 میں اپنی بیٹی کی شادی کے دو ہفتے قبل ان سے ملنے چنئی کے گورنر ہاؤس گیا تاکہ اپنی بیٹی اور داماد کے لیے ان سے دعائیں لے لوں۔

 ان سے میری آخری ذاتی ملاقات 2013 میں دہلی میں ہوئی تھی۔ وہ رمضان کا مہینہ تھا، تاہم انھوں نے میرے لیے شام کو ملاقات کا وقت نکالا تھا۔ وہ رمضامن کے مقدس مہینے میں پابندی سے روزہ رکھتے تھے۔

 اس کے دو برس کے بعد 2015 میں ان کا انتقال ہوگیا،میں اس وقت بنگلور میں تھا، میں فوراً آخری رسومات میں شرکت کے لیے نئی دہلی روانہ ہوگیا۔

 ڈاکٹر کلام کی زندگی کے کچھ انہ کہے پہلو

 ڈاکٹرکلام کے اندر طنز و مزاح کا بھی فطری حسن موجود تھا۔ وہ اکثر خود بھی ہنستے اور دوسروں کو بھی ہنساتے تھے۔ یہاں تک کہ عوامی جلسوں میں بھی اس کا اہتمام رکھتے تھے۔

 ایک واقع یاد آ رہا ہے۔ ایک افسر نے ان سے ایک عوامی جلسے میں پوچھا تھاکہ ہندوستان کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، پھر آپ کو کیسے یقین ہے کہ 2020 تک ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے گا؟

 اس کے لئے ڈاکٹر کلام کے فوری ردعمل نے سب کو دنگ کر دیا کہ میں اس طرح کے موضوعات پر بہت بے قصور ہوں۔ اگرچہ بعد میں اس کے لیےانہوں نے خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے پر زور دیا۔

awazurdu

 ڈاکٹر کلام اکثر فون بھی کیا کرتے تھے جو غلطی ہوتی اس کی نشاندہی کرتے اور اسرو سے وابستگی کے زمانہ میں سبھی سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔

 ایک بات مجھے یاد آ رہی ہے کہ ڈاکٹر کلام کو موسیقی کا بھی شوق تھا۔

ڈاکٹر کلام نے ہمیشہ یہ مانا کہ طلباء کی زندگی میں ہائی اسکول کے سال انتہائی اہم ہیں جہاں وہ اپنے لئے فیصلے کرتاہے، کیوں کہ اس سے پہلے، وہ ہمیشہ اساتذہ / والدین پر انحصار کرتے ہیں۔

 ان باتوں سے میں بہت متاثر ہوا اور اب تک میں نے تقریباً700 اسکولوں کے طلبا تک اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، تاکہ ان میں کچھ تبدیلی آئے اور وہ بھی ملک کے تئیں اچھا سوچیں اور اس کے لیے کچھ کریں۔