ناصر خان: نفسیاتی و ذہنی مریضوں کا مسیحا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
ناصر خان: نفسیاتی و ذہنی مریضوں کا مسیحا
ناصر خان: نفسیاتی و ذہنی مریضوں کا مسیحا

 


 عارف الاسلام، گوہاٹی

ڈاکٹربھوپن ہزاریکا کا ایک نغمہ ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان انسانوں کی پرواہ نہیں کرے گا توپھرمجھے بتائیں کہ کون انسانوں سے ہمدردی دکھائے گا۔

شمال مشرقی ریاست آسام کے ضلع سیوساگرکے علاقے نذیرا کے ہاتی پٹی سے تعلق رکھنے والے نوجوان ناصرخان معروف نغمہ نگارڈاکٹربھوپن ہزاریکا کے گائے ہوئے اس لازوال گانے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ناصر خان ذہنی طور پر بیمار لوگوں کی خدمت کرکے حقیقی معنوں میں انسانیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔

ناصر خان ریاست آسام کے مختلف اضلاع کے ذہنی طور پر بیمار لوگوں کو 'ہیومن ویلفیئر سوسائٹی'(Human Welfare Society) نامی ایک این جی او کے ذریعے ان کی مدد کر رہے ہیں،جس کا ذیلی ادارہ جیوتی گریہا( Jyoti Griha)ہے۔

خان اور ان کےخاندان کے دیگر ممبران نے جیوتی گریہا میں 600 سے زیادہ نفسیاتی مریضوں کا علاج کیا ہے۔ فی الحال جیوتی گریہا میں47 نفسیاتی مریضوں کا علاج جاری ہے، مریضوں میں علاقائی زبان کے معروف گلوکار زوبن گرگ کے سابق دوست پیکو ملاکر اور سابق الفا لیڈر بیبی مارن بھی شامل ہیں۔

آوازدی وائس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ہیومن ویلفیئر سوسائٹی کے بانی اور نگران ناصر خان نے کہا کہ بے سہارا لوگوں کی خدمت کرنے کے مقصد کے ساتھ ہم نے 2004 میں اس قسم کی ایک پہل شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس کے دو برس بعد ہیومن ویلفیئر سوسائٹی کا 2006 میں قیام عمل میں آیا۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے نذیرا کے تین مساجد کے نوجوانوں کو جمع کیا اور مختلف سماجی وفلاحی کام کرنے لگے۔ ہمارے کام کا بنیادی مقصد نفسیاتی و ذہنی بیماروں کی مدد کرنا تھا۔

AWWWWWW

انہوں نےبتایا کہ ابتداً ذہنی مریضوں کےعلاج کرنےسے لوگوں کو خوف آتا تھا،اس لیے ان کے کچھ ساتھیوں نے ان کے این جی او سے علاحدگی اختیار کرلی۔انہوں نے بتایا کہ ہم نےنفسیاتی مریضوں کو سڑکوں سے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے ذاتی طور پر کام کیا۔ جیسے جیسے ہمارے اراکین کی تعداد کم ہوتی گئی، ہم نے صرف ذہنی طور پر بیماروں پر کام کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ دیگرسماجی کاموں کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوگیا۔

انہوں نے اپنے این جی او کو مزید منظم انداز میں فعال رکھنے کے لیے دیگر مذاہب کےافراد کو شامل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سنہ 2012 میں ہیومن ویلفیئر سوسائٹی کو رجسٹرڈ کرایا گیا۔ جب کہ چھ سالوں تک وہ رجسٹریشن کے بغیر کام کر رہے تھے۔

ناصر خان کہتے ہیں یہ این جی او ذاتی چندہ سے چلائی جا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں ہیومن ویلفیر سوسائیٹی کے لیے او این جی سی(ONGC) کی جانب سےفرنیچر اور دیگرسہولیات کے لیے 3 لاکھ روپے کا تعاون ملا ہے۔ جب کہ ایک مقامی قانون ساز نے کچن اورڈائننگ ہال کی تعمیرکےلیے5لاکھ روپے دینا منظورکیاہے۔ ناصرخان نے دعویٰ کیا کہ ہم نے اب تک کیرالہ سے گوہاٹی کے ایک مریض سمیت تقریباً600مریضوں کوعلاج کیا ہے۔ اب جب کہ ہماری این جی او کو اپنی عمارت مل گئی ہے،ہم اس کے ایک حصےمیں ہینڈلوم کا کاروبار شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ تنظیم کومالی طور پر خود کفیل بنایا جا سکے۔

ابتداً ہیومن ویلفیئرسوسائٹی کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس تنظیم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ یہاں تک کہ کوویڈ 19 وبائی مرض کے دوران بھی جیوتی گریہا فعال رہا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کےبہت سے مریض صحت یاب ہونے کے بعد 'جیوتی گریہا'میں کام کرنے لگے ہیں۔ وہ لوگ کچن میں کام کرتے ہیں، مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

آسام میڈیکل کالج اوراسپتال کے سابق پرنسپل ڈاکٹر ایچ کے گوسوامی، این جی او کے مشیر ہیں اور جیوتی گریہا کے مریضوں کاعلاج بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوئےساگراسپتال اور پڑوسی ضلع جورہاٹ کے نفسیاتی شعبہ کے ڈاکٹر بھی یہاں کا دورہ کرتے ہیں اور مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔

اگر مریضوں کو بہتر علاج کی ضرورت ہو تو این جی او کی اپنی گاڑی سے تیز پور یا ڈبرو گڑھ لے جایا جاتا ہے۔ 

اب چہارسوناصر خان کی ستائش کی جا رہی ہے، وہ ایک ایسا فلاحی کام کر رہے ہیں، جس کی آج کے سماج کوسب سے زیادہ ضرورت ہے۔