۔ 15 اگست 1947 کو ہندوستان نے آزادی حاصل کی ۔ جنگ آزادی کی قربانیاں رنگ لائیں ،اتحاد نے طاقت منوائی اور ملک میں ترنگا لہرا ۔آزادی کی جنگ میں ہر کوئی ساتھ ساتھ تھا ،سب کی حصہ داری تھی . اس میں مسلمانوں کی قربانیوں کی مکمل تاریخ موجود ہے ،جنہوں نے انگریزوں کے خلاف ہر سطح پر جدوجہد میں حصہ لیا ۔ بات شہادت پانے کی ہو یا ڈنڈے کھانے کی ۔ جیل میں چکی پیسنے کی یا اذیتیں برداشت کرنے کی مسلمانوں نے کہیں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ۔
مسلمانوں نے نعرہ دیا کہ وطن سے محبت نصف ایمان ہے۔ "انقلاب زندہ باد" کا نعرہ بھی مسلمانوں کی دین ہے ۔سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔۔کا ولولہ بسم عظیم آبادی نے پیدا کیا، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے" جیسا عزم ٹیپو سلطان نے سکھایا، سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہماراجیسا لازوال ترانہ علامہ اقبال نے تخلیق کیا۔ حتیٰ کہ لال قلعہ کی فصیل سے آزادی کی خوشی میں شہنائی کی دھن بکھیرنے والے شہنائی نواز کے شہنشاہ استاد بسم اللہ خان ہی تھے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی آزادی کی جدوجہد میں معاشرے کے ہر طبقے نے بھرپور حصہ لیا۔ ملک کو آزاد کرانے کے لیے سب نے قربانیاں پیش کیں۔ اس دھرتی کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے میں مرد و عورت، جوان و بزرگ، امیر و غریب، اور ہر مذہب و ذات کے لوگ شریک ہوئے۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے للکارنے اور عملی مزاحمت کا آغاز مسلمانوں نے کیا۔ فرنگیوں کے خلاف جہاد کا پہلا فتویٰ کسی اور نے نہیں بلکہ علامہ فضل حق خیرآبادیؒ نے جاری کیا، جس کے نتیجے میں انہیں جلاوطنی کی سزا برداشت کرنی پڑی۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آزادی کی جدوجہد 1857 میں شروع ہوئی، مگر درحقیقت اس کی شروعات 1757 ہی میں ہو چکی تھی، جب نواب سراج الدولہ کی قیادت میں مجاہدین نے وطن کی آزادی کے لیے جنگ لڑی۔ نواب سراج الدولہ وہ پہلے حکمراں تھے جنہوں نے ملک کی خاطر اپنی جان قربان کر کے تاریخ میں لازوال مقام حاصل کیا۔
سراج الدولہ وہ اولین حکمران تھے جنہوں نے بر وقت انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور ان کے عزائم کو بھانپ لیا۔ انہوں نے انگریزوں کے قدم روکنے کی خاطر پلاسی کے میدان میں ان کا مقابلہ کیا۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے وزیر میر جعفر کی غداری نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اگر میر جعفر وفادار رہتا تو انگریز پسپا ہو کر واپس جانے پر مجبور ہو جاتے۔ غداری کے صلے میں میر جعفر کو بنگال کی حکمرانی ملی، مگر اس کی حکومت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی اور جلد ہی وہ معزول کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس کا داماد میر قاسم اقتدار میں آیا، لیکن انگریزوں کی مخالفت کے باعث وہ بھی زیادہ دیر تخت پر برقرار نہ رہ سکا۔ بالآخر 1763میں انگریز بہار اور بنگال پر قابض ہو گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنی طاقت اودھ تک پھیلا لی۔
ٹیپو سلطان ایک شیر
ٹیپو سلطان نے اپنی پوری زندگی انگریزوں کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد میں گزاری۔ انہوں نے ہندوستان کے راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کو برطانوی تسلط کے خلاف متحد ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سلطان سلیم عثمانی سمیت دیگر مسلم حکمرانوں اور ہندوستانی امراء سے خط و کتابت کی، اور ہر محاذ پر انگریزوں کے خلاف ڈٹ کر لڑتے رہے۔ان کی حکمتِ عملی اور شجاعت سے انگریزوں کے عزائم خاک میں ملنے کے قریب پہنچ گئے تھے، لیکن بدقسمتی سے جنوبی ہند کے کچھ امراء نے انگریزوں کا ساتھ دے دیا۔ بالآخر 3 مئی 1799ء کو سرنگاپٹنم کی جنگ میں یہ بہادر سلطان جامِ شہادت نوش کر گیا۔
ٹیپو سلطان نے غلامی اور ذلت کی زندگی پر عزت و وقار کی موت کو ترجیح دی۔ ان کا مشہور قول آج بھی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے:"شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے"۔
جب جنرل ہارس کو سلطان کی شہادت کی خبر ملی، تو وہ ان کی لاش کے قریب آ کر کھڑا ہوا اور مغرورانہ لہجے میں بولا:"آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔"
۔1857 کی بغاوت میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ میدان میں اترے ، آزادی کے مقصد کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ اگرچہ اس بغاوت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے بعد بھی ہندوستانیوں نے انگریزوں کو ملک سے نکالنے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کیں۔ اس مقصد کے لیے مختلف اوقات میں متعدد تحریکیں جنم لیں۔ قومی جدوجہدِ آزادی کو عمومی طور پر تین بڑے مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے: پہلا مرحلہ 1885 سے 1905 تک، دوسرا مرحلہ 1905 سے 1919 تک، اور تیسرا مرحلہ 1919 سے 1947 تک جاری رہا۔
1857 کی جنگِ آزادی اور علماء دیوبند
1857 میں شاملی (ضلع مظفر نگر) کے میدان میں حضرت حاجی امداد اللہ کو امیر بنایا گیا تھا ۔ علماء دیوبند نے انگریزوں سے جنگ کی۔ قیادت مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا منیر نانوتوی نے کی۔ حافظ ضامن رحمہ اللہ شہید ہوئے، مولانا قاسم نانوتوی زخمی اور مولانا رشید احمد گنگوہی گرفتار ہو کر چھ ماہ قید میں رہے۔اگرچہ یہ جنگ بظاہر ناکام ہوئی، مگر اس نے انگریزوں کے خلاف فکری و دینی مزاحمت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد لارڈ میکالے نے ایسا تعلیمی نظام لانے کا منصوبہ بنایا جو مسلمانوں کے جسم کو تو مشرقی رکھے مگر ذہن کو مغربی بنا دے۔ یہی دور برصغیر میں دینی و تہذیبی بیداری کی ایک نئی جدوجہد کا نقطۂ آغاز بنا۔
کانگریس کا دور
1884 میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا، جس میں کئی نامور مسلم اہلِ علم و دانش نے بھی شرکت کی۔ اس جماعت کا باضابطہ قیام 1885 میں عمل میں آیا، اور اس کے بانی اراکین میں مسلمان رہنما بدرالدین طیب جی اور رحمت اللہ سیانی شامل تھے۔ 1887 میں کانگریس کا چوتھا اجلاس مدراس میں منعقد ہوا، جس کی صدارت کا اعزاز بدرالدین طیب جی کو حاصل ہوا۔
1920 میں موپلا بغاوت، 1922ء میں پولیس فائرنگ، 1930میں سول نافرمانی اور نمک آندولن، 1942 میں ہندوستان چھوڑو تحریک" اور 1946ء میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس فائرنگ سے ہزاروں شہید ہوئے۔ جنگ آزادی میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،مولانا ابوالکلام آزاد،حکیم اجمل خان،مولانا حسین احمد مدنی،مولانا محمود حسن (شیخ الہند)،مولانا فضل حق خیرآبادیمولانا ظفر علی خان اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری جیسے نام شامل رہے ۔اس جدوجہد میں ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف آخری وقت تک کوشش کی۔ مسلمان تو طویل عرصے سے اس تحریکِ آزادی میں شامل تھے، مگر آج ان کی قربانیاں فراموش کی جا رہی ہیں۔ بہرحال 15 اگست 1947 کو یہ ملک انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا اور ہندوستان نے طویل اور کٹھن جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل کی۔