رضوان شفیع وانی، سری نگر
دیوالی کا تہوار مٹی کے دیے کے بغیرادھوری لگتی ہے۔آج بھی کشمیری مٹی کے بنائے ہوئے دیے ہر جگہ مانگ ہے۔جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے کرالپورہ علاقے سے تعلق رکھنے والا غلام قادر کمار ان دنوں مٹی کے دیے بنانے میں مصروف ہیں۔غلام قادر کمار ہندوؤں کے سب سے بڑے تہوار دیوالی پر مٹے کے دیے بنا کر امن، بھائی چارہ کا پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھیں یہ کام اپنے آبا و اجداد سے وراثت میں ملا ہے، وہ گزشتہ 50 برسوں سے مٹی کے دیے اور برتن تیار کرتے آرہے ہیں جنہیں عقیدت مند بڑے شوق سے خریدا کرتے ہیں۔
غلام قادر کمار ہر سال کی طرح اس بار بھی دیے بنا کر انہیں فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک وقت تھاجب غلام قادر کماردیوالی سے پہلے ہزاروں مٹی کے دیے بنایا کرتے تھے۔ ان کے دیے سے ہزاروں گھر روشنی سے جگمگا اٹھتے تھے۔تاہم گزشتہ کئی سالوں سے وہ اندھیرے میں کھوتے جا رہے ہیں۔غلام قادر کمار کہتے ہیں کہ سری نگر کے بیشتر مندر ان کے ہاتھوں سے بنائے گئے دیے سے سجائے جاتے تھے۔ لیکن اب ٹیکنالوجی کے اس دور میں چائنیز کی وجہ سے مٹی کے دیے کی مانگ بہت کم ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اِس وقت میری عمر70 سال ہے۔ آج سے 50 سال قبل جب میں نے یہ کام شروع کیا تو اس وقت سری نگر میں آبادی کم تھی اور میں دیوالی سے ایک ہفتہ قبل پنڈت برادری کے لوگوں کے گھر جاکر دیے بیچا کرتا تھا۔وہ لوگ میری بہت عزت کرتے تھے اوراستقبال کرتے تھے۔غلام قادرنےکہاکہ دیوالی پرلوگ ایک دوسرے کے گھروں میں مٹھائیوں اور تحفائف کے ساتھ جاتے اور اس تہوار کی مبارکباد دیتے ہیں۔
غلام قادر کہتے ہیں کہ دیوالی پر پنڈت برادری کے لوگ مجھے مدعو کرتے تھے لیکن کام کی مصروفیت کی وجہ سے نہیں جا پاتا تھا۔ وہ میرے لیے مٹھائی محفوظ رکھتے تھے اور جب کبھی میں دوبارہ ان کے یہاں جاتا تھا وہ مجھے میرا حصہ دیتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ نوے کی دہائی میں جب حالات خراب ہوئے تو سب کچھ بدل گیا۔
دورِجدید میں بازاروں میں الیکٹرانک جھالر، قمقمے اور دیے باآسانی دستیاب ہیں۔ وہیں لوگ بھی چائنیز لائٹ سےاپنے گھروں کو سجاتےہیں، جس کا اثر کمہاروں پر پڑا ہے۔
غلام قادر کمارمٹی کے دیے کے علاوہ مٹی کے برتن اور دیگر روز مرہ کی اشیاء بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مٹی کے دیےاوربرتنوں کی مانگ بہت کم ہے۔ مٹی کے برتن اور دیے بنانے میں کافی محنت لگتی ہے، ہمیں لاگت بھی وصول نہیں ہو رہی ہے۔ یہ کاروبار متاثر ہوا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ یہ صنعت بالکل ختم نہ ہو جائے۔
کشمیر میں اب نوجوان نسل اس کام میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ نئی نسل نے دوسرے روزگار کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔
ایک مقامی پنڈت نے غلام قادر کمار کے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ غلام قادر کمار نے نہ صرف مٹی کے دیے بنانے کی روایت کو ابھی تک زندہ رکھا ہے، بلکہ وہ تہواروں کو مذہب کے ترازو میں تولنے والوں کے لیے ایک مثال ثابت ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں دیوالی پر مٹی کے دیے استمعال کرنے کی روایت رہی ہے۔ ہمارے آباواجداد مٹی کے دیےاستعمال کرتے تھے۔ مارکیٹ میں چائنیز لائٹ کی کثرت کی وجہ سے لوگ اس کی طرف جا رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے ہر شعبہ متاثر ہوا ہے، وہیں مٹی کے برتن بنانے والے لوگوں کے کاروبار کو بھی کافی دھچکہ لگا ہے، دیوالی ہم سب کی ہے۔ اس لیے میری سب سے اپیل ہے کہ وہ دیوالی کے موقع پر مٹی سے بنے دیے ہی استمعال کریں، تاکہ ان کمہاروں کے گھروں میں بھی روشن ہو جائیں۔
واضح رہے کہ دیوالی ایک قدیم تہوار ہے جسے برصغیر کے علاوہ ماریشس، سری لنکا، میانمار، ملیشیا، سنگاپور، نیپال اورفجی سمیت دنیا کے متعدد ملکوں میں انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
یہ تہوار مایوسی پر اُمید کی فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس تہوار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دنوں تک جاری رہتے ہیں۔ اصل تہوار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔