شاہجہاں کا وزیر ،فارسی اوراردوکا عظیم شاعرچندربھان برہمن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-02-2021
ایک تخیلاتی تصویر
ایک تخیلاتی تصویر

 

 

برہمن نے داراشکوہ کے مزاج پر اثر ڈالا

برہمن نے شہزادہ سے جوگیوں کی ملاقات کرائی

برہمن پرشاہجہاں کو بہت زیادہ اعتماد تھا

برہمن شاہجہاں کا روزنامچہ لکھا کرتا تھا


غوث سیوانی، نئی دہلی

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاﺅں گا

میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاﺅں گا

”اردو ایک زبان ہی نہیں، ایک تہذیب ہے۔ بھارت کی ملی جلی گنگا جمنی ثقافت کی میراث۔ قومی یکجہتی اور بھائی چارہ کی وراثت۔ اس کی ابتدا اور ارتقا میں اس سرزمین پر بسنے والی تمام قوموں نے حصہ لیا۔ یہی سبب ہے کہ اس میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ اردو کے نوخیزپودے کی سیرابی، جس طرح فارس،ترکستان، عرب اور سنٹرل ایشیاءسے آنے والے مسلمانوں نے کی، اسی طرح اس کی شادابی میں بھارت کے ہندووں، سکھوں اور جینیوں نے بھی حصہ لیا۔ اردو کے باغیچے کو اپنے خونِ دل سے سینچنے والوں میں ایک اہم ترین نام چندربھان برہمن کا بھی ہے۔برہمن اردو کا ایک ایسا صاحب دیوان شاعر ہے،جو ولی دکنی سے قبل اپنی خدمات انجام دے کر رخصت ہوچکا تھا۔ مغل بادشاہ شاہجہاں کے وزیر اور شہزادہ داراشکوہ کے اتالیق چندربھان برہمن کو تاریخ، چندربھان زناردار کے نام سے بھی یاد کرتی ہے۔

برہمن کون تھا؟

برہمن نے عہدِشاہجہانی میں آگرہ کے مدرسوں میں تعلیم پائی اور اپنے عہدکے مشہور اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔اس نے ابتدائی تعلیم ملا عبدالحکیم سیالکوٹی سے حاصل کی تھی جوکہ تاج محل کی عمارتوں کے نگراں بھی رہے۔ چندر بھان کا بھائی اودے بھان ،شاہ جہاں آباد کے ناظم عاقل خاں کے دفتر میں ملازم تھا۔ قیاس ہے کہ چندر بھان کو سب سے پہلے یہیں بادشاہ تک رسائی کا موقع ملا۔ کچھ ایام بعد چندر بھان، امیر عبدالکریم کی ملازمت چھوڑ کر افضل خاں وزیر کل کی ملازمت میں آیا لیکن افضل خاں کی وفات کے بعد وہ شاہی ملازمت میں آیا۔

اسے پہلے منشی اور پھر میرمنشی کے عہدے پر مامور کیا گیا۔ وہ عہدشاہ جہانی میں داراشکوہ کا اتالیق بھی رہا۔ برہمن کے تین بھائیوں اور ایک بیٹے کا تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے۔ اس کے دو بھائی تارک الدنیا ہو کر درویشی کی زندگی گذارتے تھے مگر اس کے تعلقات ان دونوں بھائیوں سے بہت اچھے تھے۔ برہمن ،ان کا تذکرہ نہایت احترام سے کرتا ہے۔

صلح کلی ہندو

برہمن سلیم المزاج، صوفی مشرب اور صلح کلی ہندو تھا۔ اس کی تحریروں میں ہندوانہ رسم و رواج کا تذکرہ بے حد عزت سے ہوتا ہے۔ اس کی طبیعت میں سوز وگداز تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں تر رہتی تھیں وہ پریشان حال لوگوں کی امداد کے لئے سفارشی خطوط بھی متعدد جگہوں پر تحریر کر کے بھجواتا تھا۔

سرکاری نوکری

برہمن نے تقریبا تیس سال شاہجہاں کی خدمت میں گزارا۔وہ شاہجہاں کے بے حدقریب تھااور روزنامچہ لکھا کرتا تھا۔ وہ سفر میں بھی بادشاہ کے ساتھ ساتھ رہتا تھااور سفرکے حالات قلم بندکیا کرتا تھا۔بعد میں اسے ممالک محروسہ کی تفصیلات لکھنے کی ذمہ داری دی۔برہمن نے آگرہ میں کچھ عمارتیں اور باغات بھی بنوائے تھے۔ برہمن کی کتابیں شاہجہاں کے عہدکی اہم ماخذہیں۔

علمی کارنامے

برہمن کے فارسی نثر کی خصوصیت اس کی سادگی ہے اور ایسا ہی اس نے نظم میں بھی کیا۔ مغل دور میں عموماً مشکل گوئی اور ابہام کا رواج تھا مگر برہمن نے اس کے خلاف رویہ اختیار کیا۔ اس کے دیوان میں غزلیات، رباعیات اور قطعات ہیں۔ برہمن کا کلام اسلامی تخیل میں ڈوبا ہوا ہے اور تمام وہی رنگ نظر آتے ہیں جو مسلمان شعراءکے یہاں ملتے ہیں۔ عشق کی واردات، محبت کی کیفیات اور تصوف کی منازل کا ذکر برہمن کے یہاں اسی ڈھنگ سے ملتا ہے جیسا کہ اس دور کے دیگر مسلم شعرا کے ہاں ملتا ہے۔ صوفی مشرب برہمن، اردووفارسی شاعر کے ساتھ ساتھ عربی،فارسی اور سنسکرت کا زبردست عالم تھا۔ اس نے تصوف اور ادب پر کئی کتابیں تحریر کیں۔ اس کی جن کتابوں کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے، ان کے نام ہیں، منشآت، چہارچمن، گلدستہ،نگارخانہ، تحفة الفصحائ،مجموعة الفقرائ، تحفة الانوار اور شاعری کا دیوان وغیرہ۔

فارسی شاعری

برہمن کو فارسی زبان کا پہلا صاحبِ دیوان ہندو شاعر بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ حضرت امیر خسرو کا پیرو کار نظر آتا ہے اور قومی یکجہتی پر ایمان رکھتا ہے۔برہمن کا شعر ہے:

بانیِ خانہ و بت خانہ ومے خانہ یکیست

خانہ بسیار ولے صاحبِ ہر خانہ یکیست

(مسجد،مندراورمیخانہ کا مالک ایک ہے۔گھربہت سے ہیں مگر تمام گھروں کا مالک ایک ہی ہے۔)

برہمن، فارسی زبان کے ان چند ہندوستانی شاعروں میں شامل ہے جن کا لوہااہل ایران نے بھی مانا ہے۔برہمن کی شاعری میں توحید،تصوف اور ویدانت کے مضامین کی بھرمارہے۔

اے برتراز تصور وہم وگمان ما

اے درمیان ماوبروں از میان ما

آئینہ گشت سینہ ما ازفروغ عشق

شدجلوہ گاہ صورت معنی نہان ما

(اے جوکہ ہمارے تصور اور وہم وگمان سے برترہے۔ اے ہمارے درمیان والے اور ہمارے درمیان سے باہر فروغ عشق سے ہماراسینہ آئینہ ہوگیا ہمارانہاں خانہ دل صورت معنی کی جلوہ گاہ ہوگیا)

برہمن،شاعرکے ساتھ ساتھ فارسی زبان کا اچھا نثرنگار بھی تھا۔ظاہر ہے کہ شاہجہاں جیسا زباں داں بادشاہ کسی غیرزباں داں کو اپنا روزنامچہ لکھنے کی خدمت نہیں سونپ سکتا تھا۔ علاوہ ازیں اس نے سنسکرت کے علم عروض کو ترتیب دینے کا بھی کارنامہ انجام دیا تھا۔

اردوشاعری

برہمن کو جو خصوصیت دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ وہ نہ صرف فارسی کا پہلا صاحب دیوان ہندو شاعر تھا بلکہ وہ اردوزبان کا بھی پہلا صاحبِ دیوان شاعر تھا۔ عام طور پر ولی دکنی کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ برہمن کی موت کے چھ سال بعد1669ءمیں ولی دکنی کی پیدائش ہوئی اس طرح اردو شاعری کا باوا آدم ولی دکنی کے بجائے چندر بھان برہمن قرار پاتا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ برہمن کا اردو دیوان زمانے کے دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا مگر جو اشعار ملتے ہیں وہ اردو ادب میں تبرکات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی شاعری عشق ومحبت اور کیف ومستی کے مضامین سے بھری ہوئی ہے۔ برہمن کہتا ہے:

یہ نہ جانو کہ مری آنکھ سے آنسو ٹپکا

نشترِعشق لگا ہے کہ یہ لوہو ٹپکا

دور تک جس کا ہے ساحل ناپید

زیست وہ غم کا سمندر ٹھہرا

خمخانہ جاویدجلداول(لالہ سری رام)میں برہمن کی ایک اردو غزل درج ہے:

خدا نے کس شہر اندر ہمن کو لائے ڈالا ہے

نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالہ ہے

پیا کے ناوں کی سمرن کیا چاہوں کروں کس سیں

نہ تسبیح ہے نہ سمرن ہے نہ کنٹھی ہے نہ مالا ہے

خوباں کے باغ میں رونق ہوئے تو کس طرحیاراں

نہ دونا ہے نہ مروا ہے نہ سوسن ہے نہ لالا

ہے پیاں کے ناوں عاشق کوں قتل عجب دیکھے

نہ برچھی ہے نہ کرچھی ہے نہ خنجر ہے نہ بھالا ہے

برہمن واسطے اشنان کے پھرتا ہے بگیاں سیں

نہ گنگا ہے نہ جمنا ہے نہ ندی ہے نہ نالہ ہے

داراشکوہ اور برہمن کے تعلقات

برہمن ایک مدت تک شہزادہ دارا شکوہ کا اتالیق رہا۔یعنی شہزادہ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری برہمن کی تھی اور یہ اہم ذمہ داری کوئی بھی بادشاہ کسی عام استاد کو نہیں سونپتاتھا۔ داراشکوہ،کو تو شاہجہاں، مستقبل کے بادشاہ کے طور پر دیکھتا تھا لہٰذا اس نے اپنے وقت کے جیدعالم اوراپنے قابل اعتماد برہمن کو سونپا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ شہزادہ کے مزاج میں جو صلح کل کا عنصر پایا جاتا تھا اور تصوف سے گہرالگاﺅ تھا،وہ برہمن کے ہی زیراثر تھا۔ شہزادہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور اس کی شاعری کو پسند کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ داراشکوہ کے دربار میں اسے خصوصیت حاصل تھی۔

ہندوجوگیوں اور ویدانت کے ماہرین سے شہزادہ کو قریب لانے والایہی برہمن تھا۔بابالال بیراگی کے ساتھ داراشکوہ نے ایک مکالمہ کیا تھا جسے شہزادے کے حکم سے برہمن نے ضبط تحریر میں لے لیا تھا۔”یوگ وشسٹ“ کا فارسی ترجمہ بھی برہمن نے شہزادے کے حکم سے کیا تھا۔اسی کتاب کے ذریعے عالم اسلام کو یوگا سے پہلی بارآگاہی کا موقع ملا۔

داراشکوہ کے قتل کے بعد اورنگ زیب کا زمانہ آیاتب ان سبھی لوگوں کی شامت آئی جومقتول شہزادے سے قریب تھے۔ برہمن نے ایک رباعی لکھ کر اورنگ زیب کے پاس بھیجی اور تقصیر کی معافی چاہی۔ معافی ملی اور سرکاری ذمہ داری بھی ملی مگر برہمن نے کبرسنی کا سہارالے کر حکومت سے دوری بنالی اور اپنی بقیہ زندگی بنارس میں گزارکر1663میں یہیںانتقال کیا۔ چہارچمن کے اردو ترجمہ کے دیباچہ کے مطابق برہمن کی پیدائش 1614ءمیں لاہور میں ہوئی تھی۔ چندربھان برہمن نے شاہی ملازمت میں اپنی زندگی گزاری مگر چونکہ اس کا دلی لگاﺅ روحانیت سے تھا لہٰذاعمر کے آخری پڑاﺅپر پہنچ کر اس نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ برہمن کی زندگی کے آخری ماہ وسال ہندووں کے مقدس شہر بنارس میں پاکیزہ گنگا کے کنارے بیتے ،یہیں اس نے اپنے مالک کویاد کیا اور یہیں زندگی کو الوداع کہا۔۔

میں نے تیرے واسطے سب کچھ کیا

زیست بتلا تونے مجھ کو کیا دیا