عیدالاضحیٰ کا پیغام:عظمتِ اسلام ومسلم صرف قربانی میں ہے

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 18-07-2021
عیدالاضحیٰ کا پیغام
عیدالاضحیٰ کا پیغام

 

 

عید الاضحی یا عید قرباں کے موقع پر ہندوستان سمیت جنوب ایشیائی ممالک میں تمام مسلمان ،اللہ کے حضور حاضر ہوکردورکعت نماز کی ادائیگی کے بعد اس سنت ابراہیمی کو ایک بار پھرتازہ کررہے ہیں، جسے ان کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہزاروں سال قبل محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر انجام دیاتھا۔عید قربان مسلمانوں کی سماجی زندگی کا بابرکت تہوار ہے۔

تہوار ، خوشیاں سماجی زندگی میں بے پناہ اہمیت رکھتی ہیں۔ تہوار منانا سماجی زندگی کی جان ہیں۔ لوگوں کا خوشیوں کے اظہار کیلئے جمع ہونا ، میلے ٹھیلے کرنا ، رسومات کی ادائیگی کرنا ، اپنی اہمیت اور موجودگی کا اظہار انسانی فطرت ہے۔ انسانوں کے درمیان تہوار کسی تاریخی واقعہ کی یاد گار کے طور پر منائے جاتے ہیں اسی لئے ہر قوم کے تہوار اپنی روایات رکھتے ہیں۔

عید الاضحی کا تذکرہ خدا کے خاص بندگان اور پیغمبران حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کے ساتھ منسلک‘ مربوط اور مشروط ہوچکا ہے۔ عید الاضحی کا بنیادی فلسفہ ہی قربانی،ایثار، خلوص اور اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین چیز نچھاور کردینا ہے۔ اگر عید الاضحی سے ہرطرح کی قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحی کا مفہوم بے معنی ہوجاتا ہے۔

اس عظیم اور خوشی کے موقع پران لوگوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے جوکوڈ کی وجہ سے اپنے عزیزوں کو کھوچکے ہیں یا ان کا روزگار چلا گیا ہے۔ان لاکھوں انسانوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے جو آج پریشان حال ہیں ،جن کے پاس کل تک سب کچھ تھا لیکن آج وہ آپ کے ایک ایک روپیہ کے محتاج ہیں۔

ضروری ہے کہ فرضیت ووجوب کے علاوہ آپ اس موقع پر امدادکریں تاکہ ان میں سے جو مسلمان ہیں وہ بھی تھوڑی دیر کیلئے خوشی مناسکیں اور جو غیر مسلم ہیں توان کی داد رسی ہوسکے۔ عید قرباں منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کیا ہے۔

اگر کوئی انسان محض ایک جانور پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے تو وہ ایک ناحق جاندار کا خون بہاتا ہے۔ عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی اس بات کو یاد دلانے کے لیے کی جاتی ہے کہ اللہ کے دئیے ہوئے جانوروں کو جب ہم اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو اپنے اس ایمان کو تازہ کرلیتے ہیں کہ ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ اللہ کا ہے، اور وقت آنے پر ہم اپنی ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔’

’عید الاضحی‘‘ اللہ تعالیٰ کے دین کے مکمل ہونے کا جشن بھی ہے، اور اسوۂ ابراہیمی کی یادگار بھی، یعنی اللہ کی راہ میں نکلنا، اس کی راہ میں کوشش کرنا، اس کی راہ میں مال دینا، مال کی قربانی، جان کی قربانی، وغیرہ۔جس طرح روزہ تقویٰ پیدا کرتا ہے، اللہ کی بندگی کراتا ہے، راتوں کو کھڑا رکھتا ہے، خدا کے قریب کرتا ہے اسی طرح قربانی اس بات کی تربیت دیتی ہے کہ گھر سے نکلو، اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو کہ اس کے بغیر ایمان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔

اسوۂ ابراہیمی توحید کی علامت ہے، گناہ تو ہر آدمی سے ہوتے ہیں، کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں لیکن زندگی کا رخ بس ایک ہی ہے، ہماری پوری زندگی کا رخ اسی کی طرف ہونا چاہیے جو بیت الحرام کا رب اور مالک ہے۔ زندگی کا ایک رْخ، ایک قبلہ، ایک مقصد، ایک منزل ہو۔

اس فرمان کے مطابق جس کا اقرار ہم ہر دن کرتے ہیں۔ وہ اقرار ہمارا عملی نمونہ بن جائے کہ’’میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رْخ اس ہستی کی طرف کرلیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘

عالم اسلام آج جس گرداب میں الجھ گیاہے یہ کسی اور کی مسلط کردہ نہیں امت کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔

قرآن و سنت ، اتحاد امت کے اصولوں سے روگردانی کے نتائج میں حج کے موقع پر کعبۃ اللہ کے گر د اکٹھے ہونے والے سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے قربانی کرنے والے متوالے فرزندان توحید اپنی انا ، ضد ، نفرت و تعصبات کے بتوں کو توڑ دیں ، قربان کر دیں تو عالم اسلام بحرانوں سے نجات پا لے گا۔

اسلام کی تعلیمات ، حج کا پیغام امن ہے ، برداشت ہے ، بھائی چارہ ہے اور اللہ سے دوستی کا ذریعہ ہے۔ اسلام دنیا میں ہمیشہ امن قائم کرنے کی بڑی تحریک ہے۔ اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ عیدالاضحی کا صحیح حق تو اس وقت اداہوگا جب ہم اس کے تقاضوں کو پورا کریں گے اور اس کی ضرورت، اہمیت، افادیت اور مقصدیت پر غوروفکر کر کے اس کو عملی جامہ پہنائیں گے۔