مصنف و محقق مولوی مہیش پرشاد جنھیں اردووالوں نے بھلادیا

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 03-10-2021
مولوی مہیش پرشاد
مولوی مہیش پرشاد

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

اردوزبان وادب کو اپنی خدمات سے بلندیوں تک پہنچانے والوں میں ایک نام مولوی مہیش پرشادکا بھی شامل ہے۔حالانکہ موجودہ عہد میں ان کا ذکر کم سننے کو ملتا ہے مگروہ اردو زبان کے ان قلمکاروں اور مدرسوں میں شامل تھے جنھوں نے زبان کی بے لوث خدمت کی۔

بنارس ہندو یونیورسٹی کے قیام کے بعد پنڈت مدن موہن مالویہ نے اردو کاشعبہ بھی قائم کیا۔ حالانکہ وہ اردوکے بجائے ہندی کو ملک کی سرکاری زبان بنانے کے قائل تھے۔

یہاں سنسکرت اور ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کی تدریس کا بھی انتظام کیاگیا۔ قیام کے ابتدائی دور میں اردو ، عربی اور فارسی کے شعبے ایک ساتھ تھے۔

ان تمام شعبوں کے سربراہ مولوی مہیش پرساد تھے۔

مولوی صاحب کی خدمات

مولوی مہیش پرساد نے اردوکے شعبہ کو کئی دہائیوں تک اپنی خدمات سے پہچان دلائی۔ مولوی مہیش پرساد،وہ شخص تھے جنھوں نے غالب کے خطوط کی تلاش شروع کی۔ غالب کے خطوط کی تلاش میں شہر شہر ، گاؤں گاؤں گئے۔

بی ایچ یو اردو ڈیپارٹمنٹ کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر آفتاب احمد افقی کا کہنا ہے کہ گاؤں گائوں میں چلتے ہوئے مولوی مہیش پرساد لوگوں سے کئی بار دنیاوی انداز میں بات چیت کرتے تھے اور غالب کے خطوط کے بارے میں دریافت کرتے تھے۔

بی ایچ یوکا شعبہ اردو

سال 1974 میں ، جب اردو ، عربی اور فارسی کے شعبے الگ ہوگئے ، 1991 تک ، پروفیسر حکم چند نائر نے شعبہ اردو کی کمان سنبھالی۔ جبکہ اس کے بعد پروفیسر راکیش مشرا اور ڈاکٹر امرت لال عشرت نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔

بی ایچ یو کے اردو شعبہ کی خدمت کی روایت ان دنوں مغربی بنگال کے رشی شرما کے ہاتھ میں ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسر رشی مغربی بنگال کے ضلع اتر دیناج پور میں پیدا ہوئے۔

بچپن سے مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ، انھوں نے مزید تعلیم بہار کے کشن گنج انٹر کالج ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جے این یو میں حاصل کی۔ بنگال کے اسلام پور کالج میں پانچ سال پڑھانے کے بعد ، سال 2015 میں ، انھیں بی ایچ یو کی خدمت کا موقع ملا۔ گویا بی ایچ یومیں ابتداسے ہندواساتذہ اردوکی خدمت پر مامور ملتے ہیں۔ مولوی مہیش پرشاد سے جس سلسلہ کا آغاز ہواتھا،وہ آج بھی جاری ہے۔

اعلیٰ درجے کے محقق

مولوی مہیش پرشاد بسیارنویس نہیں تھے۔ انھوں نے جو کچھ بھی لکھا وہ پوری تحقیق کے بعد لکھااور بہت خوب لکھا۔بنارس ہندویونیورسٹی شعبہ فارسی کے پروفیسر ڈاکٹرسید حسن عباس کا خیال ہے کہ ’’غالبیات کے حوالے سے ان کے کارناموں پر نظرڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ وہ کیسے باریک بیں تھے۔

نیز ان میں ایک محقق کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔وہ محب وطن، کٹرہندواور آریہ سماجی مبلغ بھی تھے۔ وہ اردو، ہندی، فارسی، عربی، انگریزی اورسنسکرت زبانوں سے بخوبی واقف تھے۔ شاعر بھی تھے اور’سادھو‘تخلص کرتے تھے۔‘‘

اسلامی علوم کی تعلیم

مولوی مہیش پرشادکو ابتدا سے اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم دی گئی تھی اور انھوں نے اس میدان میں مہارت پیدا کی تھی۔ ان کی تاریخ پیدائش ،پاسپورٹ پر ۱۹،اپریل ۱۸۹۱عیسوی درج تھی جب کہ ان کی تاریخ وفات۳۰،اگست ۱۹۵۱ہے۔انھوں نےصرف۶۰سال کی عمر پائی۔

وہ ضلع الہ آباد کے فتح پورکائستھان کے رہنے والے تھے۔انھوں نےابتدائی تعلیم وطن میں ہی پائی، پھر آگرہ چلے گئے جہاں ایک آریہ سماجی اسکول میں داخلہ لے لیا۔

اس کے بعد پھر لاہورکے اورینٹل کالج میں داخلہ لیااور مولوی، عالم وفاضل کی تعلیم مکمل کی۔کالج کے پرنسپل مولوی محمد شفیع نےاپنےدستخط کےساتھ سند لکھ کر دی تھی ،جس کے مطابق انھوں نے مولوی فاضل (عربی آنرز)کا امتحان بھی پاس کیا تھا۔یہی سبب ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ڈگری کےطور پرمولوی،عالم اورفاضل لکھا کرتے تھے۔

ڈاکٹرسیدحسن عباس کے مطابق ’مولوی مہیش پرشاد ۴ اکتوبر۱۹۲۰کو بنارس ہندویونیورسٹی کے ہندوکالج میں شعبہ عربی،فارسی واردومیں لکچرر مقرر ہوئے۔ ۱۶اپریل ۱۹۲۴کو اسی شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے اور جون ۱۹۵۱میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔‘

مولوی صاحب کی کتابیں

مولوی مہیش پرشاد نے بہت زیادہ کتابیں نہیں لکھیں لیکن جو کچھ بھی لکھاوہ پوری محنت اور عرق ریزی کے ساتھ لکھا۔ ان کی کتابوں میں پہلی کتاب ’خطوط غالب‘ ہے۔ جب کہ دوسری کتاب ہے’مشاہیراردوکے خطوط‘۔ ان دونوں ہی کتابوں سے ان کی ادبی سوجھ بوجھ کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔

علاوہ ازیں انھوں نے غالبیات اور دوسرے موضوعات پر اردواور ہندی میں مضامین بھی لکھے ہیں۔ان میں بہت سے مضامین میں اسلام اور ہندومت کا تقابلی جائزہ ہے۔ ان کا سفرنامہ ایران دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ اب تاریخی حیثیت کا بھی حامل ہوگیا ہے۔

مولوی صاحب نے مرزاغالب کے ۴۵۲خطوط جمع کئے، انھیں تاریخ وار ترتیب دیااور مختلف قسم کی غلطیوں سے پاک کرنے کی کوشش کی۔ یہ کتاب ’غالب کےپتر‘کے نام سے ہندی میں بھی شائع ہوئی تھی۔

ان کی ایک کتاب ’مشاہیر ادب اردو‘بھی شائع ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں انھوں نے ہندی میں بھی کتابیں تحریرکیں جن میں ’عربی کاویہ درشن‘ کو خاص شہرت ملی۔ اس کتاب میں انھوں نے عربی شاعری کی تاریخ، شعراکا تذکرہ اور ان کے نمائندہ کلام کو ہندی قارئین کے لئے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے رباعیات عمرخیام کا انتخاب بھی شائع کرایا تھا۔