مارخور کے شکار کے لیے پاکستان کی ’تاریخ کی سب سے بڑی‘ بولی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 05-11-2021
مارخور کے شکار کے لیے پاکستان کی ’تاریخ کی سب سے بڑی‘ بولی
مارخور کے شکار کے لیے پاکستان کی ’تاریخ کی سب سے بڑی‘ بولی

 

 

آواز دی وائس،ایجنسی

خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلی حیات کو مارخور کے شکار کے پرمٹ کی بولی سے تاریخ کی سب سے بڑی آمدنی ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ مارخور بکری کی ایک نسل سے تعلق رکھنے والا جانور ہے۔

اس کی تفصیلات اس ویب سائٹ (https://animalcorner.org/animals/markhor/)پر دیکھی جاسکتی ہے۔

پاکستان کے قومی جانور مارخور(Markhor) کے شکار کا ایک پرمٹ 2 کروڑ 70لاکھ روپے سے زائد میں فروخت ہوا جبکہ 4 پرمٹس سے کل 9 کروڑ 70 لاکھ سے زائد حاصل کیے جائیں گے۔

جمعہ کی رات کو چیف کنزرویٹر وائلڈلائف خیبر پختونخوا پشاور میں واقع دفتر میں مارخور کی بولی لگائی گئی جس میں مختلف شکار کمپنیوں نے حصہ لیا۔

بولی میں سب سے زیادہ پرمٹ توشی شاشہ ون میں 1 لاکھ 60 ہزار 250 ڈالرز یعنی 2 کروڑ 72 لاکھ 52 ہزار 8 سو 84 روپے میں فروخت ہوئے۔

دوسرے نمبر پر توشی شاشہ ٹو چترال میں پرمٹ 1 لاکھ 55 ہزار 100 ڈالرز یعنی 2 کروڑ 63 لاکھ 77 ہزار 50، گہریت چترال میں 1 لاکھ 25 ہزار ڈالر یعنی 2 کروڑ 12 لاکھ 58 ہزار ایک سو اور کیاغ کوہستان میں 1 لاکھ 35 ہزار 150 ڈالر یعنی 2 کروڑ 29 لاکھ 84 ہزار دو سو 57 روپے میں فروخت کیے گئے۔

یاد رہے مارخور بڈنگ سالانہ نومبر کے مہینے میں کی جاتی ہے جس میں باقاعدہ بولی کے ذریعے بین الاقوامی شکاریوں کو 4 پرمٹس فروخت کیے جاتے ہیں۔

رواں برس ہونے والی 4 پرمٹس سے کل 5 لاکھ 75 ہزار 500 ڈالرز یعنی 9 کروڑ 78 لاکھ 72 ہزار دوسو 92 روپے کی بولی ، محکمہ جنگلی حیات کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی ہے. اس شکار سے حاصل ہونی والی آمدنی کا 80 فیصد حصہ مقامی آبادیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ 20 فیصد سرکاری خزانے میں جمع کیا جاتا ہے.

محکمہ جنگلی حیات اور مقامی آبادیوں کو اس سے فائدہ تو مل رہا ہیں لیکن کچھ دن پہلے مارخور کی آبادی کم ہونے کا انکشاف بھی ہوا تھا۔ سروے رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران 868 مارخور کم ہوئے۔

نیشنل پارک میں قومی جانوروں کی گھٹتی تعداد پر چترال کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ قیمتی جانوروں کا غیرقانونی شکار ہو رہا ہے، اسی لیے ان کی آبادی کم ہو رہی ہے۔

مولانا عبدالاکبر چترالی کے مطابق چترال نیشنل پارک کی حفاظت کے لیے 32 واچرز بھرتی کیے گئے تھے جن کو چار سال قبل تنخواہوں سے محروم کر دیا گیا تھا، اسی وجہ سے پارک کی حفاظت ٹھیک طریقے سے نہیں ہو پا رہی۔

دوسری جانب محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق پہاڑوں پر برف باری کی وجہ سے سروے مکمل نہ ہو سکا تاہم غیرقانونی شکار پر مکمل پابندی ہے اور ایسے ملزمان کو جیل کے ساتھ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔

چترال نیشنل پارک کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں مارخوروں کی تعداد 2 ہزار 336، سنہ 2017 میں 2 ہزار 521، سنہ 2018 میں دو ہزار 692، سنہ 2019 میں دو ہزار 868 جبکہ سنہ 2020 میں اس کی تعداد دو ہزار تک آگئی ہے۔