عشق امروہہ ۔۔ جس نے ایک سافٹ وئیر کنسلٹینٹ کو صاحب کتاب بنا دیا

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-05-2025
عشق امروہہ ۔۔ جس نے ایک سافٹ وئیر کنسلٹینٹ کو صاحب کتاب بنا دیا
عشق امروہہ ۔۔ جس نے ایک سافٹ وئیر کنسلٹینٹ کو صاحب کتاب بنا دیا

 



منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

امروہہ ۔۔۔ یقینا دنیا کے لیے نقشے پر صرف ایک قصبہ ہوگا،مگر اہل امروہہ کے لیے یہ ایک دنیا ہے ،ایک پرکشش دنیا ، یادوں  بھری دنیا ،ایک ایسی دنیا جو دل و دماغ میں  شاد و آباد رہتی ہے ،جس کا ذکر یوں تو تاریخ کی کتابوں میں بزرگوں سے آموں تک کے لیے آتا ہے لیکن امروہہ کی ایک خصوصیت اس سر زمین سے فطری محبت کی ہے،  آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں اور کسی بھی پیشے سے وابستہ ہوں ،آپ کے دل و دماغ پر اس سرزمین کی چھاپ اور اثرات تا حیات برقرار رہیں گے ۔اس  کی ایک نئی مثال ہیں انعام عابدی امروہوی  ۔۔۔ دبئی میں مقیم ایک سافٹ ویئر کنسلٹنٹ اور ڈیجیٹل مارکیٹر، جن کے دل میں دھڑکنے والا ایک قصبہ ان کے لیے ایک دنیا ہے، جسے انہوں نے    Making of a Qasba: The Story of Amroha(میکنگ آف اے قصبہ: دی اسٹوری آف امروہہ) نامی ایک کتاب کی شکل میں پیش کیا ہے ۔مقصد تجارتی  نہیں بلکہ اس سرزمین کے بارے میں دنیا کے ایک ایسے طبقہ کو آگاہ کرنا ہے جو اردو یا ہندی سے واقف نہیں۔

آپ کو بتا دیں کہ انعام عابدی امروہوی  نے کمپیوٹر ایپلی کیشنز میں ماسٹرز کیا ہے۔ وہ ہندوستان ٹائمز، ٹائمز آف انڈیا، گلف نیوزاورنیوزلانڈری سمیت مختلف اخبارات اور آئی ٹی میگزین کے ساتھ  انفو اسٹور میں بھی  مضامین لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب امروہہ کے لیے غیرمعمولی اور قابل رشک  جذبے کو میرا خراج تحسین بھی ہے، یہ صوفیاءکرام کی سرزمین ہے ،جسے اہل امروہہ نے ثقافتی طور پر زندہ رکھا ہے ۔ امروہہ نے دکھایا ہے کہ روحانیت مذہبی حدود سے آگے کی بات ہے۔ جو  باہمی احترام اور بندھن پر مبنی ایک ہم آہنگی کی ثقافت تشکیل دے سکتی ہے۔لیکن سب سے اہم بات ہے کہ امروہہ سے محبت۔ ہر کسی کے دل  میں دھڑکتا ہے یہ شہر ۔ جس کی تاریخ کے صفحات میں اردو ادیبوں سے شاعروں اورصوفیوں تک نام بکھرے ہوئے ہیں ۔

الہ آباد سے لکھنو تک

دراصل انعام عابدی  کے والد  تعلیم کے سلسلےمیں امروہہ سے باہر   نکلے تھے،اس کے بعد ملازمت میں تبادلے کا دور جاری رہا، پھر ان کا خاندان 1970 کی دہائی میں  الہ آباد سےلکھنؤ منتقل ہوا تھا،وہ  کہتے ہیں کہ لکھنو میں رہتے ہوئے امروہہ کی جانب متوجہ ہونے کا سبب ان کے والد تھے جو کہ امروہہ سے تعلق رکھتے تھے،وہ امروہہ کے تعلق سے اس قد ر حساس تھے کہ میں ان کے جذبات کو بچپن میں سمجھنے میں قاصر رہا، لیکن جب میری دوست دیویا انوراگ کے والد سوریہ پرکاش سکسینہ امروہہ سے  پہلی بار لکھنؤ میں ہمارے گھر تشریف لائے تو میرے والد کے ساتھ اس قدر گھل مل گئے کہ یقین کرنا مشکل تھا کہ وہ پہلی بار مل رہے ہیں۔اس کا سبب صرف امروہہ تھا ۔اس وقت مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ آبائی وطن کی محبت کیا ہوتی ہے ۔

 کیوں اور کیسے ؟

ایک نرم گواورانتہائی شائستہ  انعام عابدی نے آواز دی وائس کو بتایا کہ اس کے بعد میں نے امروہہ کی کھوج شروع کی۔امروہہ کی تاریخ سے بچوں کو آگاہ کرنے کے لیے میں نے انگریزی میں مواد تلاش کیا تو بہت کچھ نہیں ملا،جس کے بعد مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ امروہہ پرایک ایسی کتاب لکھوں جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات کا ذریعہ بن جائے ۔ساتھ ہی شہر کے تعلق سے کوئی جامع انگریزی ویب سائٹ کے بارے میں سوچا تاکہ انگریزی میں بھی امروہہ کی تاریخ اورمختلف پہلووں پر معلومات مل سکے ۔بس اس کے بعد میں نے اس مشن پر کام شروع کردیا  تھا ۔۔

صاحب کتاب بنے مگر

انعام عابدی  نے اپنی کتاب کی تیاری کے لیے امروہہ کے کئی چکر لگائے،وہ ایسے لوگوں سے ملے وہ شہر کے ورثے سے بخوبی واقف افراد کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف رہے، اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں کتابوں کا مطالعہ کیا، متعدد یوٹیوب ویڈیوز کو بھی دیکھا ۔یہ ایک نیا تجربہ تھا۔انعام عابدی کہتے ہیں کہ اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی شہر کی سیاسی اور سماجی تاریخ، شہر کی چند ممتاز شخصیات اور کچھ ثقافتی پہلو۔ میں نے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اہم شخصیات کا انتخاب خالصتاً ان کے اثر و رسوخ کی بنیاد پرکیا، شہر کے مشہور ناموں کی ایک وسیع فہرست امروہہ گیٹ پر دستیاب ہے۔ سال۲۰۲۳میں تین سال کی محنت کے بعد ‘میکنگ آف اے قصبہ: دی اسٹوری آف امروہہ ایک کتابی شکل میں امروہہ سے انوکھی محبت کا ثبوت ہے  بلکہ ایک خواب کی تعبیر بھی جو انہوں نے لکھنو میں اپنے والد میں امروہہ کے لیے محبت اور بے چینی دیکھنے کے بعد دیکھا تھا ۔مگرافسوس یہ رہا اس کتاب کی اشاعت سے ایک سال قبل والد  کا انتقال ہوگیا ۔

بات کتاب کی

انعام عابدی کی  کتاب میں چھ ابواب  ہیں ،ہر ایک امروہہ کی تاریخ اور ترقی کے ایک مختلف پہلو کو تلاش کیا گیا ہے۔  اگر پہلے باب قصبے کے جغرافیہ، آب و ہوا اور آبادیات کے ساتھ ساتھ اس کے ثقافتی اور مذہبی تنوع کا ایک جائزہ   پیش کیا گیا ہے تو دوسرا باب  امروہہ  کی ابتدائی تاریخ کو بیان کرتا ہے۔تیسرا باب  1857 کی بغاوت میں امروہہ کا کردار اجاگر کیا ہے ۔ چوتھا باب اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ امروہہ میں مہاتما گاندھی کی سول نافرمانی کی تحریک کو مسلمانوں کی حمایت کیسے ملی ۔ پانچواں باب  سب سے زیادہ دلچسپ  ہے ،جس میں انعام  عابدی  نے امروہہ  سے تعلق رکھنے والے قابل ذکر شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی خدمات کا ذکر کیا ہے ، اردو شاعری اور ادب میں امروہہ  کے کردار پر روشنی ڈالی ہے ۔ اس میں فلم ساز  کمال امروہوی ،صادقین ، شاعر رئیس امروہوی ، شاعر جان ایلیا،تاریخ داں پروفیسر خلیق احمد نظامی ،حامد علی خان  کے ساتھ ممتاز پینٹر جے کرشنا اگروال کا ذکر ہے ۔ اس کے ساتھ ایک باب میں بات آم کی بھی کی گئی اور مچھلی کی بھی۔ ثقافت کی بھی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بھی ۔ اہم بت یہ ہے کہ انعام عابدی نے  کتاب کو صرف  ماضی تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اس میں  امروہہ کی موجودہ حالت اور مستقبل کے امکانات کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے، جس میں اس کے ثقافتی ورثے اور روایات کو محفوظ رکھتے ہوئے جدید بنانے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے جاری کوششیں بھی شامل ہیں۔

امروہہ کے نام کے بارے میں کتاب میں لکھا گیا ہے کہ  اس سلسلے میں کئی دعوے یا اندازے ہیں  اول تو اس کا تعلق امرچوڈا (یا غلط ہجے'امر جودھا) سے ہے، جو وشراوا کی 10ویں نسل کا ایک راجپوت بادشاہ تھا جس نے 474 قبل مسیح سے اندرا پرستام اس جگہ کے لیے استعمال کیا گیا ہو اور برسوں کے دوران اس کی موجودہ شکل ’امروہہ‘ ہو۔ دوسرا  نظریہ  یہ بتاتا ہے کہ  یہ نام امرووانم کے لفظ سے اخذ کیا جا سکتا ہے (سنسکرت میں 'امرہ' آم کا ہے اور 'وانم' جنگل یا باغ ہے)، جس کا مطلب ہے آم کے درختوں سے بھری ہوئی سر زمین۔ تیسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ  نام 'آم' اور 'روہو' (ایک مشہور جنوبی ایشیائی مچھلی) کے نام پر رکھا گیا ہے۔.

کتاب میں ان جنگوں کا بھی ذکر ہے جو ماضی میں امروہہ میں لڑی گئیں ،ان میں ایک جنگ 1305 میں منگولوں کے خلاف تھی ،جنہوں نے ہندوستان کو فتح کرنے کی ایک اور کوشش کی تھی ۔ علی بیگ اور ترتاق کی قیادت میں 30,000 سے 40,000 فوج کا مقابلہ سلطان علاؤالدین خلجی کی 30,000 کی فوج نے ملک نائک کے ماتحت کیا۔ امروہہ میں  منگولوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا، لڑاکوں کو کھونے کے علاوہ انہوں نے اپنے 20،000 گھوڑے بھی کھو دیئے۔ ان کے لیڈروں نے سامراجی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

ایک خوبصورت کوشش 

امروہہ کے ممتاز دانشور اور مصنف  ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے  دی اسٹوری آف امروہہ  کے پیش لفظ میں کہا ہے کہ ۔۔۔یہ ایک خوبصورت کتاب ہے ،امروہہ کو صفحات پر سمیٹنے کی کامیاب کوشش ہے لیکن ابھی بہت کچھ ہے جو کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے پوری امید اور خواہش ہے کہ وہ اپنی پیاری سرزمین کی تمام ادبی اور تاریخی خدمات کو مرتب کر سکیں۔ان کے مطابق  بلا شبہ امروہہ حقیقی معنوں میں مسلمانوں کی آمد کے بعد بارہویں صدی میں وجود میں آیا۔ یہ ہندوستانی اور فارسی ثقافت کا ایک خوبصورت سنگم ہے اور کسی نہ کسی طرح اس کی اصل روح کو برقرار رکھا ہے۔جبکہ  امروہہ ادب کی تاریخ میں ایک روشن دروازے کے طور پر ابھرا جب صوفیوں نے اسے گھر بنایا۔حضرت شرف الدین شاہ ولایت، حضرت شاہ نصیر الدین، حضرت غزالدین، محمد جعفری، حضرت شاہ عبدالہادی صدیقی، اور حضرت ابان بدر چشتی، وہ چند صوفی ہیں جنہوں نے امروہہ میں اپنا نام پیدا کیا۔انہوں نے امروہہ کے اس پہلو کو اجاگر کیا کہ یہ سرزمینبھی اتحاد اور بھائی چارے کی عمدہ مثال ہے۔ یہاں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی بستے رہے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ امروہہ کی تاریخ نے کبھی بھی فرقہ وارانہ تشدد نہیں دیکھا۔ امروہہ کے مسلمان اگرچہ مختلف نظریات اور عقائد کی پیروی کرتے ہیں لیکن باہمی احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں

انعام عابدی نے بھی اپنی اس کتاب میں امروہہ کے بھائی چارے اور مذہبی رواداری کا ذکر کیا ہے اور ان تہواروں کے بارے میں روشنی ڈالی ہے جن میں یہ اتحاد نظر آتا ہے،انہوں نے لکھا ہے کہ  اس سرزمین پرہندو، مسلمان، سکھ اورعیسائی بستے رہے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ امروہہ کی تاریخ نے کبھی بھی فرقہ وارانہ تشدد نہیں دیکھا۔ امروہہ کے مسلمان اگرچہ مختلف نظریات اور عقائد کی پیروی کرتے ہیں لیکن باہمی احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایک نمونہ ہے جس کے ثبوت عید سے دیوالی تک مل جائیں گے بلکہ محرم میں بھی مذہبی رواداری ابھر کر سامنے آتی ہے ۔بقول انعام عابدی امروہہ کی ایک ثقافت ہے،صوفی روح ہے ،مذہبی رواداری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حاجی مختار احمد 'ان پڑھ' بھگوان کرشن کی تعریف کرتے ہیں۔

جب پردہ حقیقت کا اٹھتا نظر آتا ہے

 عالم کو کنہیا کا جلوہ نظر آتا ہے

اور دوسری جانب  رام ناتھ شرما 'رمن' قسم سے جواب دیتے ہیں۔

ہو تم کو مبارک اے سفیران  مدینہ

 مہمان خدا ہوتے ہیں مہمان مدینہ

بات یہیں نہیں رکتی۔ ایک اور مقامی شاعر منشی سوروپ ٹنڈن 'معصوم' کچھ یوں کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔

رام کی بھومی  ہے یا دھرتی ہے یہ رحمان کی

 ہے تو اس کی  آپ کیوں آپس میں ٹکرانے لگے

ویب سائٹ بھی لانچ کی 

 ایک جانب تو انعام عابدی  نے اس کتاب کے خواب کو پورا کیا ،دوسری جانب انہوں نے  اب امروہہ پر ایک ویب سائٹ  Amrohvi.in لانچ کی ہے ،جس کا مقصد امروہہ کی تاریخ کو اس کی آغوش میں محفوظ کرنے کے ساتھ اس سرزمین سے تعلق رکھنے والی ایسی شخصیات کے بارے میں تفصیلات اور انٹرویوز  کو پیش کرنا ہے جو اس وقت دنیا کے کونے کونے میں  مختلف میدانوں میں کامیابی کے پرچم گاڑے ہوئے ہیں ۔خواہ وہ صحافی ہوں ،کھلاڑی ،شاعر ہوں یا سائنسداں ۔ امروہہ کے نیوز میکرز کی فہرست ہے ۔ اس کے ساتھ خود انعام عابدی کے مختلف  اخبارات اور میگزین میں شائع مضامین  بھی پیش کئے گئے ہیں ۔ ایک مکمل اور دلچسپ  ویب سائٹ میں امروہہ کی ایسی شخصیات کے بارے میں تمام تر معلومات ہے جنہیں شاید آپ جانتے ہوں مگر  امروہہ کنکشن سے واقف نہیں ہوں گے ۔