این کوثر: پٹنہ
زبانیں ہر اس شخص کی ہوتی ہے جو اس زبان کو سیکھتا ہے اور اس زبان میں بات کرتا ہے تاہم دنیا کی ہر زبان کے ساتھ ایک تہذیب جڑا ہوتا ہے اور اردو زبان کے ساتھ مساوات، فرقہ وارانہ ہم آنگی اور بھائی چارے کا ایک مضبوط اور عظیم سنگم ملتا ہے اسی لئے اردو کو میٹھی و شیریں زبان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا ہے معروف شاعر نیلانشو رنجن کا۔ پٹنہ کے رہنے والے نیلانشو رنجن کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور اردو کی شاعری کرتے ہیں، مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں لیکن یہ سب آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے۔ نیلانشو رنجن اردو سے ناواقف تھے لیکن مشہور شعرا کرام کا کلام اور کتابیں پڑھتیں ہوئے انہیں اردو زبان سے عشق ہو گیا اور نیلانشو رنجن نے باقاعدہ اردو سیکھی اور اس قدر اردو سے آشنا ہوئے کہ اردو کے شاعر بن گئے۔ آواز دی وائس نے نیلانشو رنجن سے تفصیلی بات چیت کیا۔
اردو سے ایسا عشق نوکری چھوڑ کر سیکھا اردو
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے نیلانشو رنجن نے کہا کی اسکول کے زمانے سے ہی انہیں اردو سے لگاؤ تھا۔ دوران طالب علمی اردو پڑھنے و سیکھنے کی کوششیں کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ پھر بعد کے دنوں میں نیلانشو رنجن صحافت کی دنیا سے وابستہ ہوئے اور کئی اخبارات اور نجی ٹی وی چینلوں میں کام کرتے ہوئے ان کا وقت گزرتا رہا لیکن دل اردو میں اٹکا رہا۔ نیلانشو رنجن بتاتے ہیں کہ صحافتی ذمہ داریوں کے بوجھ میں اتنا وقت نہیں ملتا تھا کہ میں اپنا یہ شوق پورا کر سکوں، پھر ایک دن ایسا ہوا کہ انہوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اردو سیکھنے اور اردو پر کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ نیلانشو رنجن بتاتے ہیں کہ میں نے اپنی نوکری چھوڑی اور اردو سیکھنے کی للک جو میرے دل میں برسوں سے پروان چڑھ رہی تھی اس کی تکمیل کے لئے ہر ممکن کوششیں شروع کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تعلق سے جب میں اپنی کوششیں کر رہا تھا اسی وقت مجھے معلوم چلا کہ بہار حکومت کا اردو ڈائرکٹوریٹ ہندی جاننے والوں کو اردو سکھاتا ہے۔ میں بغیر وقت گنوائے اردو ڈائرکٹوریٹ میں اپنا داخلہ کرا لیا اور کچھ ہی دنوں میں اردو زبان میری زبان بن گئی۔
شوق نے بنا دیا اردو کا شاعر
نیلانشو رنجن کا کہنا ہے کہ دراصل عمر محض ایک نمبر ہوتا ہے۔ میں اپنی عمر کے اس حصہ میں آکر نہ صرف اردو زبان کو سیکھا، پڑھا بلکہ اردو میں شاعری کرنے لگا۔ میری آج کئی کتابیں اردو اور ہندی میں منظر عام پر آ چکی ہے۔ نیلانشو رنجن کا کہنا ہے کہ وہ مجروح سلطانپوری اور دیگر عظیم شعرا سے کافی متاثر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غالب کو میں کافی بعد میں پڑھنا شروع کیا لیکن غالب سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس کا بیان نہیں کر سکتا۔
نیلانشو رنجن کا ماننا ہے کہ زبانوں کو لیکر کسی طرح کا کوئی تنازعہ نہیں ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی زبان میں بات کرتا ہے اور بلاشبہ وہ اس زبان سے محبت بھی کرتا ہے لیکن صرف اس بات سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی دوسری زبان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ہر زبانیں محترم ہوتی ہے اور اس کا احترام ہم سب پر لازم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص زبانوں کو لیکر کوئی سطحی بات کرتا ہے تو وہ اس کے علم کا فقدان ہے۔ نیلانشو رنجن کا کہنا ہے کہ اہل علم طبقہ میں زبانوں کو جاننے اور سیکھنے کا ایک جنون ہوتا ہے۔ جتنی زبانیں ہم جانیں گے اتنا ہی ہمارے فلک کا دائرہ وسیع ہوگا اور دنیا کی تہذیب و تمدن سے ہم آشنا ہونگے۔ نیلانشو رنجن کہتیں ہیں کہ میں تو لوگوں سے کہتا ہوں زبانوں سے نفرت نہیں کرو جس زبان سے تم محبت کرتے ہو اس زبان کو مکمل طریقہ سے سیکھ کر اپنے عشق و محبت کا ثبوت پیش کرو۔ انہوں نے کہا کہ یقین ما نئے اگر لوگ اپنی زبان سے محبت کرنے لگیں تو کوئ شک کی گنجائش نہیں کہ وہ کسی دوسری زبان سے کسی بھی طرح کا کوئی خلش باقی رکھیں گے۔
کئی کتابوں کے مصنف ہیں نیلانشو رنجن
نیلانشو رنجن کئی کتابوں کے مصنف ہیں جس میں اہم تصنیفات خاموش لمحوں کا سفر ، فاصلے در فاصلے، شعری مجموعہ رات خاموشی اور تم وغیرہ ان کا کہنا ہے کہ مزید کئی کتابیں آنے والی ہے۔ نیلانشو رنجن گیت بھی لکھتے ہیں۔ ان کے گیتوں کا کئی البم بھی آ چکا ہے اور مزید اس پر کام جاری ہے۔ نیلانشو رنجن کے مطابق اردو میں کام کرنا اپنے آپ میں ایک الگ طرح کی خوشی فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ تخلیقات کی دنیا کافی مطمئین کرتا ہے۔
کافی وسیع ہے اردو کا دائرہ
نیلانشو رنجن کا کہنا ہے کہ اردو کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ ان کے مطابق اردو ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی وراثت ہے اور خالص ہندوستانی زبان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اس وقت بیحد خوشی ہوتی ہے جب اردو تمام حدود کو توڑ کر دنیا کے کئی ملکوں میں بولی جاتی ہے اور ہندوستان کی تہذیب کی نمائندہ زبان دوسرے ملکوں میں بھی اپنے ادب و تہذیب کا لوہا منوا رہی ہوتی ہے۔ نیلانشو رنجن کا کہنا ہے کہ آج اردو کو لیکر لوگوں کی سونچ بدلی ہے اور ایسے ایسے لوگ اردو پر کام کر رہے ہیں اور مشاعروں میں شرکت کر رہے ہیں اور مشاعرہ انعقاد کرا رہے ہیں جس پر اردو آبادی کو فخر ہوتا ہے۔
اردو کا فروغ میری زندگی مقصد
نیلانشو رنجن کہتیں ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد اردو کا فروغ ہے اور میں مسلسل اردو کے فروغ اور اس کی بقا کے تعلق سے کام کرتا رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اول تو یہ ہے کہ ابتدائی دنوں میں ہی بچوں کو اردو سے روشناس کرایا جائے اور جو لوگ اس زبان سے ناواقف ہیں وہ کسی بھی عمر میں ہوں اور تھوڑی سی محبت زبانوں سے ہے تو وہ اردو ضرور سیکھ سکتیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ویسے بھی روز مرہ کی زندگی میں ہم اردو ہی بولتے ہیں اگر اردو جان جائیں تو ہماری زبانیں کافی بہتر ہو سکتی ہے اور ایک الگ تصویر سماج میں قائم ہو سکتا ہے۔ منافرت سے الگ ہٹ کر صحیح چشمہ سے دیکھنے والے یہ ضرور دیکھ سکتے ہیں اور محسوس کر سکتے ہیں کہ اردو کس تہذیب کا نام ہے۔
اردو کو کسی خاص مذہب سے جوڑنا غلط
نیلانشو رنجن کا کہنا ہے کہ اردو کو کسی خاص مذہب سے جوڑ کر دیکھنا دانشمندی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر زبان اپنے اندر ایک شاندار تہذیب رکھتی ہے اور اس کو پڑھے بغیر اور جانے بغیر اس تہذیب سے ہمکنار نہیں ہوا جا سکتا ہے۔ نیلانشو رنجن کہتیں ہیں کہ میں جب اردو پڑھنے اور سیکھنے کا کام کر رہا تھا اس وقت کافی جدوجہد کیا اور یہ طے کر لیا تھا کی مجھے اس زبان کو ہر حال میں سیکھنا ہے اور اس پر کام کرنا ہے اور اس تعلق سے میں کامیاب رہا۔ آج اس مقام پر پہنچ کر میں کافی مطمئین ہوں اور پر سکون ہوں کہ جو میں نے چاہا اسے حاصل کر لیا۔ نیلانشو رنجن کا کہنا ہے کہ میں لگاتار مشاعروں میں جاتا ہوں اور اردو شاعری، نثر نگاری اور گیت پر کام کر رہا ہوں۔ نیلانشو رنجن کا ماننا ہے کہ اردو زبان میں چاشنی تو ہے ہی روزگار کے مواقع بھی کم نہیں ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کی صلاحیت اس زبان میں کیسی ہے اور تخلیقات کے معاملہ میں آپ کا معیار کیا ہے۔ اگر یہ سب کچھ صحیح ہے تو اردو کی دنیا آپ کا خیر مقدم کرتی ہے اور روزگار آپ کا منتظر ہے۔