جانئے: افغان پرچم پرجنگ اورسفر کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
پرچم کی کہانی
پرچم کی کہانی

 

 

کابل :طالبان کے افغانستان کے قبضہ کے بعد کچھ ایسا ہورہا ہے جس کی دنیا نے توقع بھی نہیں کی تھی۔

 اس بار طالبان نے کابل تو فتح کیا لیکن افغان عوام کو بے چین کردیا۔ جو پچھلے بیس سال کی زندگی کے عادی ہوچکے ہیں۔ایک آزاد زندگی اور پر سکون زندگی کو غارت ہوتے دیکھ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ 

اب اس جنگ نے ایک اور موڑ لے لیا ہے جو افغانستان کے قومی پرچم کا ہے۔

 طالبان جب کابل میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے توانہوں نے سڑکوں پر کئی مقامات پر افغان پرچم کو اتار کر طالبان کا پرچم لہرا دیا تھا۔ ایسا اس سے قبل وہ ہرات،جلال آباد اور قندھار میں بھی کرچکے تھے ۔

مگر اب عوام نے اس کے حلاف سڑکوں پر مورچہ سنبھال لیا ہے ۔کہیں نعرے ہیں ،کہیں جلوس ہیں اور کہیں مسلح طالبان کے آمنے سامنے ہیں ۔

مختلف شہروں میں دوسرے روز بھی مظاہرین افغانستان کا جھنڈا لہراتے سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد ’طالبان کی ایک ہجوم پر فائرنگ‘ سے متعدد افراد کے ہلاک ہونے اطلاع ہے۔

 در اصل افغان قومی پرچم کی ایک طویل کہانی ہے۔

در اصل طالبان کے کنٹرول کے بعد پہلی بار ان کے زیر انتظام افغانستان میں یوم استقلال (انگریزوں سے آزادی) کا دن منایا گیا ہے جبکہ افغانستان کے کچھ صوبوں میں موجودہ پرچم کو تبدیل کرنے کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔

 ٹھیک 102 سال قبل 19 اگست 1919 کو انگریزوں اور افغانوں کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت افغانستان کو انگریزوں کی طرف سے مکمل آزادی ملی تھی۔ جمعرات کو دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے مختلف علاقوں میں شہری قومی پرچم اٹھائے اس دن کو مناتے نظر آئے۔

گذشتہ روز افغانستان کے صوبے ننگرہار میں شہریوں نے مظاہرہ کیا تھا جسے منتشر کرنے کے لیے مبینہ طور پر طالبان کے سکیورٹی پر مامور جنگجوؤں نے ہوائی فائرنگ کی تھی۔ افغان عوام کا موقف ہے کہ ملک کا موجودہ پرچم افغانستان اور وہاں کے لوگوں کی پہچان ہے، لہذا اس پرچم میں تبدیلی نہ کی جائے۔

افغانستان کا پہلا پرچم (1901-1881) 

افغانستان کا پہلا پرچم 1881 سے 1901 تک افغانستان کے بادشاہ امیر عبد الرحمان نے متعارف کروایا تھا، جو مکمل طور پر سیاہ تھا۔ امریکی سی آئی اے کی تاریخ پر مبنی مواد کے بارے میں ویب سائٹ کے مطابق 20 ویں صدی میں کسی بھی ملک کے پرچم میں سب سے زیادہ تبدیلی کرنے کا ریکارڈ افغانستان کے پاس موجود ہے۔ جو 22 مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے۔

ویب سائٹ پر تاریخ کے حوالے سے ایک سیکشن میں موجود رپورٹ کے مطابق امیر عبدالرحمان افغانستان کے ان بادشاہوں میں شامل تھے، جنہیں افغانستان کو یکجا کرنے کا اعزاز دیا جاتا ہے اور جنہوں نے وہاں خانہ جنگی کا خاتمہ کیا تھا۔ عبدالرحمان نے انگریزوں کے ساتھ ڈیورنڈ لائن معاہدے پر بھی دستخط کیا تھا۔ اس وقت بر صغیر میں برطانیہ کی حکومت تھی۔

افغانستان کا دوسرا پرچم (1919-1901)

افغانستان کے پرچم کے مکمل سیاہ رنگ میں تبدیلی 1901 میں کی گئی۔ فلیگ آف دی ورلڈ نامی ویب سائٹ کے مطابق 1901 میں انگریزوں سے آزادی کے بعد افغانستان کے پرچم میں تبدیلی کی گئی اور مکمل سیاہ رنگ کے پرچم کے درمیان سفید رنگ شامل کیا گیا۔ اسی رپورٹ کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ افغانستان کے پرچم میں کالا رنگ خلافت عباسیہ (750-1258) میں ان کے سیاہ رنگ سے متاثر ہو کر متعارف کروایا گیا تھا۔

فرانسیسی محقق روگر بائرٹ کے مطابق یہ پرچم ریاست اور جنگ کی علامت تھا اور کم ہی بطور قومی پرچم اپنایا گیا تھا بلکہ زیادہ تر یہ شاہی محل اور کسٹم سروس کی عمارتوں پر لہرایا جاتا تھا۔

بائرٹ کے مطابق اس پرچم کی سفید فیلڈ میں شاہی نشان کے درمیان میں منبر و مہراب بنایا گیا ہے اور ان دونوں علامات کو پرچم کے سفید فیلڈ میں بنائی گئی ایک مسجد کے اندر دکھایا گیا ہے۔ منبر و مہراب کو پرچم پر دکھانے کا مطلب افغانستان کا اسلام کے ساتھ تعلق اور شاہی نشانی دکھانے کے مطلب کسی بھی ملک کے لیے فوج کی اہمیت دکھانا ہے۔

awazurdu

افغانستان کا تیسرا پرچم (1921-1919)

بائرٹ کے مطابق 1919 میں امیر عبدالرحمان کے بیٹے امیر حزب اللہ کو قتل کیا گیا تو حزب اللہ کے بیٹے امیر امان اللہ خان نے 1919 میں افغانستان کو انگریزوں سے آزاد کروا کر ایک خودمختار ریاست کا اعلان کردیا۔

آزادی کے بعد امان اللہ خان نے پرچم میں معمولی تبدیلی کی اور شاہی نشان کو تبدیل کرکے نئی قومی نشانی کو شامل کیا جبکہ منبر و مہراب کی نشانی کو اسی طرح رہنے دیا۔ اسی طرح پرچم کی سفید فیلڈ کے اوپر شاہی ٹوپی کی ایک نشانی کا اضافہ کیا گیا جبکہ خلافت عثمانیہ کے پرچم سے متاثر ہو کر سفید فیلڈ کے اردگرد آٹھ کونوں پر مشتمل کرنوں کا دائرہ بنایا گیا۔

تاہم ایک امریکی ادارے فلیگ ریسرچ سینٹر کے ایک ایڈیشن میں شائع پرچم میں دکھایا گیا ہے کہ تیسرے پرچم کا پس منظر سرخ، ہلکا سبز اور درمیان میں سیاہ رنگ کا دائرہ تھا، جس کے اندر سفید رنگ پر مسجد اور منبر و مہراب دکھایا گیا ہے۔

افغانستان کا چوتھا پرچم (1928-1921)

یہ پرچم تیسرے پرچم کی طرح ہے لیکن سفید فیلڈ جہاں نشانیاں موجود ہیں، کو گول دائرے کی بجائے بیضوی شکل میں تبدیل کیا گیا، جب امیر امان اللہ افغانستان کے بادشاہ بن گئے۔

افغانستان کا چھٹا پرچم (1928)

جب امان اللہ افغانستان کے بادشاہ بن گئے تو انہوں نے پرچم میں مزید تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ فیلگ آف دی ورلڈ ویب سائٹ کے مطابق پرچم کے پس منظر کو سیاہ رنگ میں رہنے دیا گیا اور مسجد کی نشانی کو بھی اسی طرح چھوڑ دیا گیا لیکن مسجد کے اردگر شاہ بلوت اور لورل کی ٹہنیوں کے گل دستے کو دکھایا گیا اور دونوں ٹہنیوں کو ایک ربن سے جوڑ دیا گیا

افغانستان کا سبز، سرخ اور سیاہ رنگ کا پرچم (1929-1928)

بائرٹ کے مطابق امان اللہ 1928 میں جب یورپ کے دورے سے واپس آئے تو انہوں نے پرچم میں بڑی تبدیلی اور نیا ڈیزائن بنانے کا فیصلہ کیا۔ نئے پرچم میں پہلی مرتبہ سرخ، سبز اور سیاہ رنگ دکھایا گیا۔ اس پرچم میں سیاہ رنگ ماضی یعنی جنگوں کے دور، سبز کو امن اور امید کے رنگ اور سرخ کو افغانستان کی آزادی کے لیے بہائے گئے خون کی علامت کے طور پر دکھایا گیا۔

اسی طرح نئے ڈیزائن میں درمیان میں ایک پہاڑ کو دکھایا گیا، جس پر سورج کی کرنیں موجود تھیں، جس کا مطلب نئی سحر کی بنیاد رکھی گئی اور مستقبل کے لیے اچھے کی امید تھی۔ پرچم کے درمیان میں گندم کے خوشے اور ساتھ میں سورج کی کرنوں کے ساتھ ستارے کو بھی دکھایا گیا ہے جبکہ اس کے اوپر اللہ اور پیغمبر اسلام کا نام بھی پہلی مرتبہ لکھا گیا۔

افغانستان کا آٹھواں پرچم (جنوری 1928 - اکتوبر 1929)

ابھی سبز، سرخ اور سیاہ رنگ کے پرچم کو ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس وقت کے بادشاہ امان اللہ خان کو ان کے اپنے ہی بھائی عنایت اللہ نے اقتدار سے بے دخل کردیا، لیکن عنایت اللہ کے اقتدار سنبھالنے کے تین دن بعد ہی ایک تاجک وار لارڈ بادشاہ ساکو (سقہ)نے ان کو اقتدار سے بے دخل کدیا اور حبیب اللہ غازی کو امیر بنایا گیا، لیکن بعد میں امیر امان اللہ خان کے چچا نادر خان نے حبیب اللہ کو بے دخل کردیا اور نومبر1929 میں انہیں گولی مار دی گئی۔

اس دور میں جو پرچم استعمال کیا گیا وہ حبیب اللہ غازی نے متعارف کیا تھا جس میں عمودی سمت میں سیاہ، سرخ اور سفید رنگ استعمال کیا گیا اور اس کے علاوہ اس پرچم پر کوئی نشانی نہیں تھی۔ان رنگوں کو منگولوں نے آٹھویں صدی میں افغانستان پر چڑھائی کے دوران اپنے پرچم میں استعمال کیا تھا۔

افغانستان کا نواں پرچم (1931-1929) نادر خان جب بادشاہ کی کرسی پر براجمان ہوئے تو انہوں نے اکتوبر 1931 میں افغانستان کے نئے آئین پر دستخط کیا، تاہم انہیں امان اللہ کے بھتیجے کے ایک حمایتی نے تقسیم انعامات کی ایک تقریب میں قتل کردیا۔

نادر خان نے اپنے دور حکومت میں امان اللہ خان دور کے پرچم کو دوبارہ متعارف کیا تاہم پرچم کے اندر بنے نشانات کے ارد گرد بنی کرنوں کو بیضوی شکل سے دوبارہ گول کر دیا اور اسے دوبارہ خلافت عثمانیہ کے پرچم پر بنے گول دائرے کی طرح بنا دیا گیا۔

افغانستان کا دسواں پرچم (1973-1931)

نادر شاہ (خان) کے دور حکومت میں آئین کے اندر باقاعدہ پرچم کے حوالے سے شقیں شامل کی گئیں کہ افغانستان کا پرچم کس طرح اور کس ڈیزائن میں ہوگا۔ 1931 میں سرخ، سیاہ اور سبز پرچم میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ پرچم کی سفید فیلڈ میں مسجد کے گرد گندم کے خوشے کے گلدستے پر عربی زبان میں افغانستان کا نام لکھا گیا جبکہ فارسی زبان میں وہ تاریخ لکھی گئی جب نادر شاہ نے اقتدار سنبھالا۔

افغانستان کا گیارہواں پرچم (1974-1973)

بائرٹ کے مطابق 1934جب نادر شاہ کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو ان کے بیٹے ظاہر شاہ نے اقتدار سنبھال لیا لیکن انہوں نے پرچم میں کوئی تبدیلی نہیں کی، تاہم 1973 میں جب ظاہر شاہ کو بے دخل کیا گیا اور ظاہر کے رشتہ دار سردار محمد داؤد نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے پرچم میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی، تاہم پرچم میں گندم کے خوشے کے گلدستے پر لکھے گئے نادر شاہ کی بادشاہت کی تاریخ کو ہٹا دیا گیا۔

افغانستان کا تیرہواں پرچم (1978-1974) داؤد نے 1974 میں ایک جمہوری افغانستان کے پرچم کا باقاعدہ اجرا کیا، جو پہلے کی طرح سرخ، سیاہ اور سبز رنگ پر مشتمل تھا، جس کے درمیان میں سفید رنگ سے مسجد اور منبر و مہراب بنایا گیا تھا جبکہ مسجد کے گرد گندم کے خوشے سے بنایا گیا ایک گلدستہ بنایا گیا اور اسی خوشے کے درمیان میں ایک عقاب بنایا گیا۔

خوشے کے نچلے حصے پر پشتو زبان میں ’د افغانستان جمہوری دولت‘ یعنی جمہوریہ افغانستان بھی لکھا گیا اور وہ تاریخ بھی لکھی گئی جس دن افغانستان کی جمہوری ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نئے پرچم میں سبز رنگ زیادہ تھا جبکہ سیاہ اور سرخ کو ایک ہی سائز میں بنایا گیا۔

افغانستان کا 14واں پرچم (اپریل 1978-اکتوبر 1978)

جب 1974 میں سردار محمد داؤد نے جمہوری افغانستان کا اعلان کیا تو ابتدا میں سویت یونین نے ان کی حمایت کی اور سویت یونین پہلا ملک تھا، جس نے جمہوری افغانستان کو تسلیم کیا تاہم 1978 میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان کے ’انقلاب سور‘ کے دوران محمد داؤد کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا اور داؤد سمیت ان کے بہت سے خاندان والوں کو صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا۔

محمد داؤد کے بعد افغانستان مین سویت یونین کی حمایت یافتہ کمیونسٹ حکومت کی بنیاد رکھی گئی اور نور محمد ترکئی کو صدر بنا دیا گیا۔ افغانستان کا نام ’ڈیمو کریٹک ریپبلک آف افغانستان‘ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس دور میں محمد داؤد کے دور کے پرچم کے درمیان سے تمام نشانات ہٹا دیے گئے اور پرچم کو صرف سرخ، سیاہ اور سبز رنگ تک محدود کردیا گیا۔

افغانستان کا 15واں پرچم (اکتوبر 1978- اپریل 1980)

’انقلاب سور‘ کے بعد نور محمد ترکئی کی کمیونسٹ پارٹی نے سبز، سیاہ اور سرخ رنگ کے پرچم کو تبدیل کرکے اسے مکمل طور پر سرخ رنگ سے تبدیل کردیا اور پرچم کے ایک کونے پر نور محمد ترکئی کی سیاسی جماعت ’خلق‘ کا نام لکھ دیا گیا جبکہ جماعت کے نام کے اردگرد گندم کے خوشے کا گلدستہ بنایا گیا اور اس کے اوپر پشتو زبان میں ’د افغانستان جمہوریت ڈیموکریٹک‘ یعنی ’ڈیموکریٹک ریپبلک آف افغانستان‘ لکھا گیا جبکہ ساتھ میں ’دو سور انقلاب‘ یعنی ’انقلاب سور‘ تاریخ سمیت لکھا گیا۔

افغانستان کا 16واں پرچم (اپریل 1992- دسمبر1992)

سویت یونین کو افغانستان میں شکست کے بعد 1992 میں عارضی طور پر سیاہ، سفید اور سبز رنگ پر مبنی پرچم کا اجرا کیا گیا۔ سیاہ رنگ کے اوپر ’اللہ اکبر‘ جبکہ سفید کے اوپر کلمہ شہادت لکھا گیا۔ سویت یونین کے خلاف لڑنے والے ’مجاہدین‘ اس پرچم کو بطور سرکاری پرچم استعمال کرتے تھے۔

افغانستان کا 17واں پرچم (1996-1992)

سویت یونین کو شکست کے بعد ایک اور پرچم کا اجرا کیا گیا اور افغانستان کو ‘اسلامی ریاست افغانستان‘ کہا گیا۔ یہ پرچم بھی سفید، سیاہ اور سبز رنگ پر مشتمل تھا تاہم پرچم کے اوپر علامات کو تبدیل کیا گیا۔ پرچم کے اوپر مسجد، منبر و مہراب اور اس کے اوپر ’لاالہ اللہ محمد رسول‘ لکھا گیا اور ان تمام علامات کو گندم کے خوشے کے گلدستے میں بند کیا گیا۔

افغانستان کا 18واں پرچم (ستمبر1999- اکتوبر 1997)

افغان طالبان تک اقتدار میں آئے تو کچھ عرصے تک انہوں نے اپنا پرچم کا رنگ بالکل سفید رکھا۔ 

افغانستان کا 19 واں پرچم (2001-1996)

افغانستان پر 1996 میں طالبان نے قبضے کے بعد اپنی حکومت کو ’امارت اسلامی افغانستان‘ کا نام دیا۔ طالبان کے اس وقت کے سربراہ ملا محمد عمر کو حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دور میں طالبان نے افغانستان کا پرچم بھی تبدیل کردیا۔ یہ پرچم مکمل طور سفید تھا اور اس کے اوپر ’لاالہ اللہ محمد رسول اللہ‘ لکھا گیا۔

تاہم اسی دوران ایک اور پرچم بھی افغانستان میں نظر آنا شروع ہوا، جو سفید رنگ کا تھا لیکن اس کے اوپر علامات مختلف تھیں۔ اس پرچم پر گندم کے خوشے کا گلدستہ بنایا گیا تھا اور ساتھ میں کلمہ شہادت لکھا گیا تھا جبکہ کلمے کے ساتھ ’امارت اسلامی افغانستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔ اسی طرح علامات کے اوپر کتاب کی علامت موجود تھی جس پر ‘اللہ‘ اور ’رسول‘ لکھا گیا تھا۔

یہ پرچم اب بھی طالبان کے مختلف اعلامیوں اور ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے، تاہم اس میں اب تھوڑی تبدیلی کی گئی ہے۔ نیا پرچم سفید رنگ کا ہے اور ‘د افغانستان اسلامی امارت‘ یعنی ‘امارت اسلامیہ افغانستان‘ کو نیچے سیاہ رنگ سے لکھا گیا ہے۔

افغانستان کا 20 واں پرچم (2001)

 افغانستان میں جب طالبان حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو اس وقت افغانستان کا سرکاری کوئی پرچم ریکارڈ پر موجود نہیں تاہم تاریخ کی کچھ کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ سیاہ، سرخ اور سبز رنگ کا پرچم دنیا کے مختلف سفارتخانوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ فلیگ آف دی ورلڈ نامی ویب سائٹ کے مطابق 2001 میں برہان الدین ربانی کے دور صدارت میں جرمنی میں ایک پرچم دیکھا گیا تھا، جو سبز، سیفد اور سیاہ رنگ پر مشتمل تھا، جس پر علامات اور کلمہ شہادت لکھا گیا تھا۔

 افغانستان کا 21واں اور موجودہ پرچم (2021-2004)

 طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب حامد کرزئی صدر منتخب ہوئے تو کچھ عرصے بعد سرکاری پرچم 1931 کے آئین میں موجود پرچم کی طرح بحال کیا گیا تاہم اس میں معمولی سی تبدیلی کی گئی۔ پرچم پر موجود علامات کو مکمل طور پر سرخ حصے پر بنائے گئے کلمہ شہادت اور اللہ اکبر کو علامات کے اوپر لکھا گیا۔

حامد کرزئی نے نئے پرچم کو 2004 میں نئے آئین کے مطابق بنا دیا جو تقریباً 1931 میں نادر شاہ کے دور میں بنائے گئے آئین میں پرچم کے ڈیزائن سے ملتا جلتا ہے۔ اس میں یہ تبدیلی کی گئی کہ منبر اور مہراب کی علامات کو وہی پرانا رہنے دیا گیا تاہم اس کی دونوں جانب افغانستان کے چھوٹے سائز کے پرچم لگائے گئے۔ اوپر درمیانی حصے میں کلمہ لکھا گیا اور ساتھ میں سورج کی کرنیں دکھائی گئیں۔

آگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اور وہاں حکومت بنانے کے بعد اب دیکھنا ہوگا کہ وہ افغانستان کے قومی پرچم کو تبدیل کریں گے یا نہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے طالبان کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔