کرشن بھکت مغل شاعرعبدالرحیم خان خاناں

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 02-08-2022
کرشن بھکت مغل شاعرعبدالرحیم خان خاناں
کرشن بھکت مغل شاعرعبدالرحیم خان خاناں

 

 

 

۔۔۔رحیم کے ہندی دوہے مشہور ہیں۔

۔۔رحیم،اکبرکے وزیردفاع تھے۔

۔۔رحیم کئی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔

۔۔رحیم مجددالف ثانی سے رابطے میں تھے۔


غوث سیوانی،نئی دہلی

رحیمن دھاگا پریم کا مت توڑو چٹکا ئے

ٹو ٹے تو نہ جڑے، جوجڑے گانٹھ پڑ جا ئے

یہ دوہا آپ نے بارہا سنا ہوگامگر کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کس کوی کا ہے؟ظاہر ہے کہ پہلے مصرع میں رحیمن کا نام آیا ہے جس سے سمجھ میں آجاتاہے کہ کوی کا یہی نام ہوگا۔ اصل میں یہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھے بلکہ ایک عہدسازعلمی شخصیت کے حامل تھے جن کا پورا نام عبدالرحیم تھااور’خانِ خاناں‘ کا خطاب،مغل شہنشہاہ جلال الدین محمد اکبر نے دیا تھا۔

مقبرہ خانِ خاناں

ان دنوں راجدھانی دلی میں خانِ خاناں کا مقبرہ بھی چرچا کا موضوع بنا ہواہے جو بہت تیزی سے کھنڈر میں تبدیل ہوتا جارہاتھا مگراس وارثت کو بچانے کے لئے آغاخان ٹرسٹ سامنے آیا اور اس مقبرہ کی آب وتاب دوبارہ واپس آئی۔ آغاخان ٹرسٹ کے سی ای او رتیش نندا کے مطابق مقبرے کے اندرونی اور بیرونی حصوں کی مرمت کی گئی ہے نیز اس کی شوکت رفتہ کی بحالی کی کوشش کی گئی ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ رحیم کے ثقافتی ورثہ پر تحقیقاتی کام ،ان کی کتب کی اشاعت وغیرہ پر کام کرنے کے لئےایک ٹیم تشکیل دی گئی۔ رتیش نندا کے مطابق مقبرے کی پرانی شان وشوکت بحال کرنے کے لئے جو کام ہوا اس میں 3،000 سے زیادہ کاریگروں نے حصہ لیا ،ان میں پتھر پر نقش و نگارکرنے والے اورمعماروغیرہ شامل ہیں۔

سنگِ سرخ سے تعمیرشدہ، خانِ خاناں کا مقبرہ متھراروڈ کے پہلو میں نظام الدین ایسٹ(نئی دہلی) میں واقع ہے۔ بھوگل سے نظام الدین کی جانب بڑھتے ہوئےداہنی جانب کونظرآتاہے۔ مقبرہ کی عمارت کبھی شاندار ہوا کرتی تھی مگروقت کے دستبرد سے نہیں بچ پائی تھی۔اب ایک بار پھراس پر تراشیدہ پتھر لگاکر اس کی شوکت رفتہ کو بحال کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ مقبرہ خان خاناں کی فن تعمیرکے لحاظ سے خاص اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اسے باغوں اور سبزہ زاروں کے درمیان بنایاگیا تھا،

مقبرہ ہمایوں کا بھی یہی معاملہ ہے اوریہ دونوں عمارتیں تاج محل سے قبل تعمیر ہوئی تھیں۔واضح ہوکہ تاج محل بھی باغوں اور سبزہ زاروں کے درمیان واقع ہے۔

علم پرورشخصیت

عبدالرحیم خانِ خاناں جن کی پیدائش1556میں ہوئی اور1627 میں انتقال کیا،ایک مشہور ہندوستانی صوفی شاعر تھے ، جو رحیم اور رحیمن کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ مغل شہنشاہ اکبر کے درباری شاعرتھے اور نورتنوں میں شامل تھے۔وہ فارسی، عربی اور ترکی کے ساتھ ساتھ سنسکرت وہندی بھاشائوں پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ ہندوستان کی بیشترزبانوں سے وہ بخوبی واقف تھے اوراچھے انشاپرداز بھی تھے۔ اچھے شاعر اور علم نجوم کے ماہر تھے۔ان کی کم از کم دو کتابیں نجوم کے موضوع پرہیں۔

وہ اکبربادشاہ کےقریبی بیرم خان کے بیٹے تھے۔وہ ادبی اور علمی مزاج رکھتے تھے لہٰذا اکبرجن کتابوں کا ترجمہ کراتایاجن کتب کومصوریامذہّب کراتا،ان کی ایک کاپی رحیم کو بھی بھیجی جاتی تھی۔ انھوں نے خود بابر کی سوانح عمری کا ترکی سے فارسی میں ترجمہ بھی کیاتھا۔

شاعراور شاعرپرور

رحیم، انتہائی آزاد خیال شخص تھےاور غریب ونادار افراد کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ علمائ اور شعراکی بھی سرپرستی کیا کرتے تھے،غریبوں کے لئے لنگرچلایا کرتے تھے۔دادودہش میں پیش پیش رہتے تھے اور شاعروں پر خوب پیسے لٹاتے تھے۔

رحیم یوں تو متعددزبانوں میں مہارت رکھتے تھے اور شاعری بھی کرتے تھے مگر انھیں جس فن نے زندہ جاوید کردیا،وہ ان کے دوہے ہیں۔ ان ہندی دوہوں میں انھوں نے عشق وعرفان کے مضامین ہی نہیں بلکہ اخلاقی مضامین بھی بیان کئے ہیں۔ رحیم کی شاعری پرہندوستانی تہذیب کا گہرااثر ہی نہیں بلکہ یہ خالص ہندوستانی ہے مگر انھوں نے فارسی کی تہذیبی روایات سے بھی اکتساب فیض کیاہے۔لطف کی بات تو یہ ہے کہ وہ ترک نسل کے تھے اور مادری زبان ترکی تھی، باوجود اسکے ہندی میں لاجواب دوہے کہتے تھے۔

رول بگاڑے راج نے مول بگاڑے مال

سنے سنے سردار کی چگل بگاڑے چال

بڑے بڑائی نا کریں بڑو نہ بولیں بول

رحیمنؔ ہیرا کب کہئے لاکھ ٹکا مو مول

رحیمنؔ اپنے پیٹ سو بہت کہیو سمجھاے

جو تو انکھائے رہے توسوں کو انکھاے

کرشن بھکت

خانِ خاناں ایک وسیع النظرمسلمان تھے اور شری کرشن جی سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے جس کا اظہار انھوں نےاپنے ہندی دوہوں میں بھی کیاہے۔رحیم نے مہابھارت، رامائن اور دیگرہندومذہبی کتب کامطالعہ کیاتھا۔رحیم کا تعلق بھکتی دور سے تھاجس میں آرٹ پربھی ہندومت اور اسلام کا اثر دکھائی پڑتاہے۔انھوں نے اپنے دوہوں میں تمثیلات اور استعارات کے لئے ہندواساطیریامیتھولوجی سے مددلی ہے۔نیزجگہ جگہ کرشن جی کے تعلق سے بھی اظہارعقیدت کیاہے۔وہ کہتے ہیں:

جوغریب پر ہِت کریں ہے رحیم بڑ لوگ

کہاسداما باپوروکرشن متائی جوگ

(یعنی غریب کی مدد کرتے ہیں وہ بڑے لوگ ہوتے ہیں جیسے سداما کہتے ہیں کہ کرشن کی دوستی بھی ایک سادھناہے۔)

بڑے کام اوچھوکرےتونہ بڑائی ہوئے

جیوں رحیم ہنومنت کو گردھرکہےنہ کوئے

(جب اوچھے مقصد کے لئے لوگ بڑے کام کرتے ہیں تو کوئی بڑائی نہیں ہوتی ہےجب ہنومان جی نے پربت اٹھایاتھا تو ان کا نام گردھر نہیں پڑا کیونکہ انھوں نے پربت راج کو نقصان پہنچایاتھاجب کرشن جی نے پربت اٹھایاتو ان کا نام گردھرپڑاکیونکہ انھوں نے سب کے تحفظ کے لئے پربت اٹھایا۔)

اکبرکےوزیردفاع

ایک علمی اور ادبی شخصیت ہونے کے باوجود خان خاناں ایک نڈرسپاہی اور بہترین جنگجوتھے۔ جنگ میں فنی مہارت کے سبب وہ عہد اکبری میں وزیر دفاع تھے اور اس لحاظ سے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے۔

صوفیہ سے رشتہ

خان خاناں کا اپنے دور کے شعرائ ہی نہیں صوفیہ اور علمائ دین سے بھی اچھا رشتہ تھا۔ آپ کے عہد کے معروف عالم وصوفی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی سے اتنا اچھا رشتہ تھا کہ شیخ انھیں بار بارنصیحت آموز خط لکھتے تھے۔ ’مکتوبات شیخ ربانی‘ میں عبدالرحیم خانخاناں کے نام تیرہ مکتوبات ہیں۔یہ تمام خطوط دعوتی، اصلاحی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے اہم ہیں۔بعض خطوط میں اصلاح حال کے لئے قیمتی مشورے ہیں اور بعض میں ضرورت مندوں کی مددکی سفارش وترغیب دی گئی ہے۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خان خاناں بھی شیخ کے خطوط کے جواب لکھا کرتے تھے۔ خان خاناں کے کلام میں جو دنیا سے بے رغبتی کے مضامین ملتے ہیں، وہ کہاں سے آئے ہیں سمجھاجاسکتا ہے:

مالی آوت دیکھ کے کلیاں کریں پکاری

پھولی پھولی چن لئی کل ہماری باری

(مالی کو آتے دیکھ کلیاں کہتی ہیں کہ اس نے آج تو پھول چن لئے مگر کل ہماری باری آئے گی کیونکہ ہم بھی کھل کر پھول بن جائیں گے۔)

سوانح عمری

خان خاناں اور ان کے والد بیرم خان کی زندگی پر ایک کتاب ہے جس کا نام ’’مآ ثر رحیمی‘‘ ہے۔ کتاب کے مولف عبدالباقی نہاوندی ہیں جو مغل دور کے ایک اہم قلمکارتھے۔ عبدالباقی نہاوندی کو عبدالرحیم نے تاریخ دانی کا فریضہ سونپاتھا۔مآثر رحیمی میں عبدالرحیم کی شخصیت پر ہی زیادہ مواد ہے۔ان کے والد بیرم خان پر نسبتاً کم مواد ہے۔