کولکتہ : مذہبی قدروں کے تحفظ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے دوستی کی افطار

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 25-03-2024
کولکتہ : مذہبی قدروں کے تحفظ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے  دوستی کی  افطار
کولکتہ : مذہبی قدروں کے تحفظ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے دوستی کی افطار

 

منصور الدین فریدی :آواز دی وائس 

خوشیوں کا شہر ۔ یعنی کولکتہ سب سے الگ, سب جدا_تہذیب کے معاملے میں ملک کا سب سے مالا مال شہر، اپنی قدروں کے لیے قابل قدر کولکتہ ۔ جس کی سب سے بڑی طاقت شہر کا بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی قدریں رہی ہیں_اپنی تہذیب،روایت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے یہ شہر ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ایسی ہی ایک پہل کا نام ہے' نو یور نیبر 'یعنی 'اپنے پڑوسی کو جانیں'۔ جس کے پرچم تلے اس شہر کی ہندو اور مسلمان نوجوانوں کے ایک گروپ نے مسلم علاقوں کی تہذیب، تاریخ اور دیگر پہلوؤں کو روبرو کرانے کی شروعات کی -

مقصد تھا کہ ملک کےبدلتے ہونے ماحول میں بنگال کی سرزمین کو مذہبی منافرت سے بچانا تھا۔ جس کے لیے ضروری تھا کہ غلط فہمیوں کو دور کیا جائے، فاصلے مٹانے جائیں_ اسی لیے شروع ہوا تھا ہیریٹیج واک کی طرز پر 'پڑوسی کو جانیں' واک ۔اس پہل کے تحت ایک جانب جہاں غیر مسلموں کو مسلم علاقوں کی سیر کرائی جاتی ہے وہیں بین المذاہب تبادلہ خیال کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے_ اس کی ایک کڑی کا نام دوستی کی افطار بھی ہے، جس میں غیر مسلم دانشوروں پروفیسر حضرات، پروفیشنلز اور صحافیوں کے ساتھ اہم شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔

اس بار بھی دوستی کی افطار کا اہتمام ہوا ،محفل صرف افطار کی نہیں تھی بلکہ اس میں ممتاز دانشروں کو مدعو کیا گیا تھا جنہوں نے ملک کے حالات اور سیاست پر اظہار خیال کیا ۔قومی ہم آہنگی کی اہمیت اور مذہبی قدروں پر روشنی ڈالی گئی۔ ساتھ ہی ملک کے سیاسی حالات اور اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ ہر کسی کے لیے یہ ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا ۔ ہر سال کچھ ایسے مہمان ہوتے ہیں جن کے لیے افطار کا تجربہ پہلا ہوتا ہے،وہ اس مذہبی  محفل سے بہت محظوظ ہوتے ہیں اور مسلمانوں  کے معاملہ میں جو بھی غلط فہمیاں ہوتی ہیں انہیں دور کرتے ہیں ۔ بیشتر مہمانوں کا یہی ماننا ہے کہ دوستی کی افطار ایک خوبصورت پہل ہے ۔جو وقت کی ضرورت ہے،سوشل میڈیا پر گمراہ کن پروپگنڈہ  کا سامنا کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ افطار کے لیے  مدعو کیا جانا ہے  انہیں اپنی تہذیب اور مذہبی قدروں سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔

awazurdu

دوستی کی افطار کےمناظر


  افطار میں عام طور پر تقریباً  سو سے زیادہ افراد شرکت کرتے ہیں جن میں بیشتر غیر مسلم ہوتے ہیں۔ وہ مختلف کالجوں اور اداروں سے آتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ محبت کا پیغام لے کر جا تے ہیں ۔جس سے محبت، پرامن بقائے باہمی، باہمی ثقافتی کثیر الثقافتی کے پیغام کو پھیلا نے میں مدد ملتی ہے ۔

اس بارغیر مسلم دانشوروں نے اسلامو فوبیا کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا ۔اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ بات چیت تقریبا دو گھنٹے جاری رہی ۔جس کا اختتام دوستی کی افطار پر ہوا ۔ جس میں پروفیسر امجد حسین، عمران ذکی، پروفیسر قاضی صوفی الرحمان، پروفیسر سیف اللہ، منظر جمیل، نورالحق آئی اے ایس (ریٹائرڈ)، نورالدین صاحب، سیمنتی گھوش، ایشوریہ بسواس، گریما دھابھائی، اپل چکربرتی، سمتا بسواس، پروفیسر ابھیجیت رائے، ایشیتا دے اور کئی دوسرے ماہرین تعلیم، محققین اور سول سوسائٹی کے دیگر کارکن شامل پڑوسی کو جانیں کے محمد ریاض نے تمام شرکاء اور مقررین کا شکریہ ادا کیا ۔ تقریب کو کامیاب بنانے کے لیے ان رضاکاروں کی کاوشوں کو بھی سراہا۔ 

کیوں اور کیسے ہوا آغاز

اس پہل کے ایک اہم کرتا دھرتا صابر احمد کہتے ہیں کہ پچھلی ایک دہائی کے دوران جو مذہبی پولرائزیشن ہوا اس نے ہمیں چوکس کردیا، اس بات کو محسوس کیا گیا کہ اگر اقلیتوں کے خلاف پروپگنڈہ کا مقابلہ نہیں کیا گیا تو دیر ہو جائے گی_ سال2017 میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات مغربی بنگال میں بھی سامنے آئے ۔اسی وقت مسلمانوں اور ہندوؤں کے ایک گروپ نے بنگال میں سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اپنے پڑوسی کو جانیں کی پہل شروع کی

صابر احمد نے آواز کو بتایا کہ ہم نے غور کیا کہ ایک شہر میں رہتے ہونے بھی غیر مسلم ذکریا اسٹریٹ سے واقف نہیں تھے، جب آپ اپنے شہر کے علاقوں میں نہیں جانیں گے تو پھر کسی طبقہ یا فرقہ کے بارے میں کیا جان سکیں گے؟ اس صورت میں کسی بھی پروپگنڈہ کا شکار ہو سکتے ہیں_ دراصل ہیریٹیج واک کوئی نئی چیز نہیں ہےلیکن ہم انہیں پڑوس کی سیر کہتے ہیں، کیونکہ یہ خیال صرف تاریخی اقدار کے مقامات اور یادگاروں کو تلاش کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ان محلوں (پاڑہ) کو جاننے اور سمجھنے کے بارے میں ہے

صابر احمد نے آواز سے بات کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ دراصل جب زکریا اسٹریٹ یا کولو ٹولہ اسٹریٹ کا نام آتا ہے، تو لوگ حلیم یا فالودے کی بات ہی کرتے ہیں۔ ہم سب صرف کھانے پینے تک محدود رہ جاتے ہیں ہم نے اس تصور سے آگے کی بات کی ہم نے چاہا کہ غیر مسلم ان علاقوں میں مسلمانوں کی تہذیب، طرز زندگی اور مزاج کو دیکھیں اور سمجھیں_ یہی وجہ ہے کہ سن 2016 میں وسطی کولکتہ کے زکریا اسٹریٹ کولوٹولا علاقے میں پہلی پڑوس واک کا اہتمام کیا گیا ۔ اس علاقے کی وراثت اور تاریخ سے آگاہ کرایا گیا_ ان میں غیر مسلم خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے پہلی بار ناخدا مسجد کا دورہ کیا

کولکتہ کے مختلف مسلم علاقوں کا دورہ  اسی مہم کا ایک حصہ ہے 


   کولکتہ کی عالیہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور' نو یور نیبر'  کے جوائنٹ کنوینر محمد ریاض نے آواز سے بات کرتے ہوئے کہا  کہ اس پہل کا بنیادی سبب مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا مذہبی پولرائزیشن اور تعصب تھا۔اس بار بھی"دوستی کی افطار" ایک بین المذاہب افطار اجتماع کے طور پر بہت منظم طریقہ سے ہوا۔ نفرت بھرے ماحول کا کس طرح سامنا کرنا ہوگا، اس ماحول کو کیسے ختم کیا جائے یا اسے مزید بڑھنے سے کیسے روکا جائے_ ان اہم سوالوں پر پہلے تبادلہ خیال ہوا،جس میں 150 سے زیادہ اسکالرز، مصنفین، ماہرین تعلیم، ماہرین تعلیم، محققین، سابق بیوروکریٹس، سماجی کارکنان اور سول سوسائٹی کے اراکین نے شرکت کی تھی۔

اس تقریب کا اہتمام اقلیتی کونسل آف بنگال اور ' نو یور نیبر' نے مشترکہ طور پر کیا تھا ۔مقصد بین المذاہب مکالمے اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے جو سال بھر میں کئی تقریبات کا اہتمام کرتا ہے۔ اس میں محلے کی سیر، گفتگو اور اس طرح کی دوسری سرگرمیاں شامل ہیں۔یہ واک آپ کو کولکتہ کی بھرپور اور متنوع تاریخ اور ثقافت کا تجربہ کراتی ہے جس سے بہت سے لوگوں کو آگاہ کرنے وقت کی ضرورت ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ اپنے آغاز سے ہی اس مہم نے بہت سے سول سوسائٹی کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ان میں نوبل انعام یافتہ اور ماہر اقتصادیات امرتیا سین، شاعر شنکھا گھوش، مصنفہ اور سماجی کارکن جویا مترا اور پروفیسر سوگتا بوس شامل ہیں

دوستی کی افطار کا ایک منظر


مسلم علاقوں کی سیر اور افطار

 پڑوسی کو جانیں کے تحت ہی اسی ماہ  ایک گروپ  شیب پور تھانے کے قریب ہوڑہ میں پی ایم بستی کا دورہ کیا تھا۔  جب یہ گروپ  شیب پور کی گلیوں میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میزیں اور کرسیاں لگی تھیں جن پر افطار رکھا گیا تھا۔ جن میں کھجور، تربوز، حلیم وغیرہ پیش کی گئی تھیں ۔ اہم بات یہ تھی کہ چھوٹے لڑکوں سے لے کر بزرگ مردوں اور عورتوں  نے شرکت کی۔ 

 ایسا ہی ایک گروپ زکریا اسٹریٹ کے ساتھ ساتھ ناخدامسجد پہنچا۔ گروپ لیڈر جنید نے طلباء کو مسجد کی تاریخ، فن تعمیر اور  دیگر خصوصیات کے بارے میں بتایا۔ اس کے ساتھ افطار کا اہتمام کیا گیا تھا۔اس کے بعد یہ گروپ کولوٹولہ کے مشہور آدم کے کباب اور حاجی علاؤالدین کا  حلوے کا ذائقہ لیا ۔ اسلامیہ ہوٹل میں  حلیم، بریانی اور فرنی سے لطف لیا ۔ یہ گروپ زکریا اسٹریٹ کے قریب کنائی شیل سٹریٹ میں تحریک خلافت کے قائد مولانا محمد علی جوہر کے نام پر محمد علی لائبریری کا بھی دورہ کیا جہاں کتابوں کا انمول خزانہ ہے۔ اردو کتابوں، دستاویزات اور اخبارات کے ساتھ رامائن اور مہابھارت کے اردو ترجمے اس لائبریری کو توجہ کا مرکز بناتے ہیں ۔

اپنے پڑوسی کو جانیں کے تحت غیر مسلم دانشوروں اور طلبا کے گروپ  مختلگ علاقوں کا دورہ کرتے ہیں 


محمد ریاض کہتے ہیں کہ یہ ایک مشترکہ پہل ہے جس میں ہم سب دل و جان سے جٹے ہوئے ہیں ،اس کا بہت مثبت اثر ہورہا ہے۔ جو لوگ دوستی کی افطار اور اپنے پڑوسی کو جانیں میں شرکت کررہے ہیں انہیں  بہت خوشی ہوتی ہے ۔ وہ  مسلمانوں کے رہن سہن اور تہذیب کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ کوئی پہلی مرتبہ افطار کا تجربہ کرتا ہے تو کسی نے پہلی بار کسی مسجد میں قدم رکھا ہوتا ہے ۔اس پہل سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیا ں دور ہوتی ہیں ۔ فاصلے مٹتے ہیں  اور ایک رابطہ قائم ہوتا ہے جو اس وقت سب سے اہم ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم اس کا بہتر سے بہتر طریقہ سے  اہتمام کرنے کی کوشش کرتے ہیں