شری کرشن اور قوم پرستی: خواجہ حسن نظامی کی نظر میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
 خواجہ حسن نظامی کی بھگوان کرشن محبت
خواجہ حسن نظامی کی بھگوان کرشن محبت

 


ثاقب سلیم، نئی دہلی

خواجہ حسن نظامی کہا کرتے تھے کہ شری کرشن کی عظمت میں ہندوستان کی عظمت شامل ہے۔ یہ ہندوستانیوں کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے کہ شری کرشن ایک اوتار اور گیتا کے مصنف تھے، اس لیے ان عظمت کو کبھی نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔

یہ باتیں تقسیم ہند سے قبل کے ہندوستان کے ایک معزز اسلامک اسکالر خواجہ حسن نظامی نے اپنی مشہور اردو کتاب ”کرشنا کتھا“ میں تحریر کی تھیں۔

یہ کتاب اُردو زبان میں ہے، جو کہ شری کرشن کی سوانح حیات ہے۔

آزدی کے 75 برسوں کے بعد ہمارے لیے یہ سوچنا ناقابل فہم بات ہے کہ ایک مسلمان، ایک عالم دین نے ایک ہندو اوتارشری کرشن کے بارے میں اردو زبان میں کتاب تحریر فرمائی تھی۔

برطانوی حکومت کی 'پھوٹ ڈالو اور راج کرو' کی پالیسی سے قبل تک مسلمان اپنی شاعری میں ہندو دیویوں اوردیوتاؤں کی تعریف کرتے تھے۔

 سولہویں صدی کے مسلمان شاعر رسخان کی شری کرشن کی تعریف میں کہی گئی شاعری اب بھی ملک بھر میں پڑھی جاتی ہے۔

ان شا اللہ خان انشا، مسرت موہانی، حافظ جالندھری اورنظیراکبرآبادی ان ممتازمسلم شاعروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی تحریروں میں شری کرشن کی تعریف کی ہے۔

ریحانہ طیب جی جیسی بہت سی مسلم خواتین نے بھی ہندو دیوتاوں کی تعریف میں لکھا ہے۔

مسلمان شری کرشن کو ایک اوتار، فلسفی اور صوفی تسلیم کرتے ہوئے ان کا احترام کرتے ہیں۔

جب ہندوستان آزادی کے لیے جدوجہد کر رہا تھا تو مسلمان مفکرین شری کرشن اور ان کی تعلیمات کو تحریک کا ذریعہ سمجھتے تھے، تاکہ یہاں کے لوگوں کی حب الوطنی کو تقویت پہنچے۔

 اردو کے مقبول شاعر اور بیسویں صدی کے اوائل کے معزز مسلمان مفکر محمد اقبال کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے

یہ آیہ نو جیل سے نازل ہوئی مجھ پر

گیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا

 خواجہ حسن نظامی نے 1917 میں اپنی کتاب کرشن بیتی شائع کی۔ اس کے بعد میں یہ کتاب کرشنا کتھا کے نام سے شائع ہوئی۔

خواجہ حسن نظامی نے شری کرشن کے تعلق سے مختلف قسم کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب کے اولین مخاطب مسلمان تھے۔

 شروع میں ہی انہوں نے شری کرشن کو ایک عظیم انسان قرار دیا جوہندوستانیوں کو روحانی اور مادی دنیا کے راز سکھاتے تھے۔

ان کی رائے میں شری کرشن ایک انسان تھے لیکن وہ اوتار تھے، جن پر مسلمان یقین رکھتے ہیں۔

نظامی کے مطابق مسلمان کا فرض ہے کہ وہ مذہبی تعلیمات کا احترام کریں، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں۔

نظامی نے استدلال کیا کہ شری کرشن کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے شری کرشن پرعریانیت پر الزام لگایا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ برطانوی حکومت یا نوآبادیاتی طاقتیں اس بیانیے سے فائدہ حاصل کرنا چاہتی تھیں۔

اس لیے خواجہ حسن نظامی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عوام کو شری کرشن کے بارے میں پڑھنا چاہئے۔

شری کرشن کی تعلیمات مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کی شائع کردہ کتابوں سے نہیں بلکہ ہندوستان کے ہندوؤں سے سیکھی جانی چاہئیں،کیوں کہ ہندوستانیوں کے دلوں میں یہ تعلیمات آج بھی زندہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں نوآبادیاتی حکمرانوں اور ان کے حواریوں نے یہ الزامات لگائے ہیں کہ ہندوؤں کی کوئی تہذیب نہیں تھی، یہ دراصل غیر سنجیدہ اور جھوٹی باتیں ہیں۔

علامہ اقبال کی طرح نظامی نے بھی ہندوستان کا موازنہ یونانی، رومی اور مصری تہذیبوں سے کیا تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ ہندوستانی تہذیب بالکل بھی کسی تہذیب سے کم نہ تھی۔

 یہ سب نوآبادیاتی تہذیبوں کا ایک جھوٹا پروپگینڈہ تھا تاکہ ہندوں میں احساسِ کمتری پیدا ہو۔

نظامی نے مزید دلیل دی کہ انہوں نے یہ کتاب بطور ہندو نہیں بلکہ ایک ہندوستانی کے طور پر لکھی ہے۔ انھوں نے اپنی شناخت ایک دیندار مسلمان کے طور پر کی ہے۔

جس سرزمین پر ان کے آباؤ اجداد دفن ہوئے وہ ان کا مادر وطن ہے اور اسی طرح انھوں نے ملک کے بڑے بڑے لوگوں کی تعلیمات کے بارے میں لکھنا فرض کے درجہ میں ضروری سمجھا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ہندوستان ہندو ملک نہیں ہے لیکن ہندووں کی آبادی یہاں زیادہ ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ تمام حصوں کو ایک ساتھ ملا کر ایک اکائی تشکیل دی جاتی ہے۔ میں نے 20 سالوں تک ہندو مذہب کی تعلیمات کا مطالعہ کیا ہے، کیونکہ وہ بھی میری طرح اس عظیم قوم کا حصہ ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نظامی ہندو مت کے مطالعے اور احترام، اس کی ثقافت اور تہذیب کو قوم کی تعمیر میں ایک مشق قرار دیتے ہیں۔

شری کرشن کی پیدائش سے متعلق باب کا عنوان ہے”سچائی کا سویرا“۔ اس کے تحت انھوں نے لکھا ہے کہ طویل تاریک رات کے بعد شری کرشن کی یوم پیدائش کو نور کے طور پر پیش کیا ہے۔

اپنے ہم عصراردو شاعر حافظ جالندھری کی طرح اُنھوں نے شری کرشن کو ہندوستان کا نور کہا تھا۔

نظامی نے لکھا کہ شری کرشن کی پیدائش کے وقت اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس کے تحت نظامی نے لکھا کہ آج ہندوستان کا وہ فوجی جرنیل اور کمانڈر جس کی فوجیں اپنے فاتح پرچم کے ساتھ برصغیر میں گھوم رہی ہیں۔ برصغیر کے تمام فوجی سربراہوں میں سے سب سے زیادہ با اخلاق فرد نے آج دنیا میں آنکھیں کھولی ہیں۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ پوری کائنات اس کی آمد کا خیرمقدم کرتی ہے، جس نے زمین اور آسمان کے رازوں کو سمجھا، ہندوستانیوں کو خوشی اور غم، خلوت اور جلوت، زندگی اور موت کے ذریعے زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا۔

آج غریبوں کا محبوب اور امیروں کا مالک پیدا ہوا ہے۔ توجہ سے سنو، ان کی آمد کا خیرمقدم کرو، شری کرشن نے جنم لیا ہے۔

نظامی نے لکھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی اور جین ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کریں۔

یہاں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ منقسم ہندوستان آزادی کا خواب نہیں دیکھ سکتا تھا؟

مذاہب اور زبانوں کے ساتھ منقسم لوگ قوم ہونے کا دعوی نہیں کر سکتے تھے۔

نظامی نے اپنی کتاب لکھتے وقت ان تمام مقاصد کو اپنے ذہن میں رکھا تھا کہ دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم ہندوستانی کون لوگ ہیں۔ یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کے مذہبی سربراہوں اور بزرگوں کا احترام کرنا شروع کریں، ان کے بارے میں علم حاصل کریں اور غیر ہندوستانی عوام کے سامنے فخر کے ساتھ ان کے بارے میں بات کریں۔

ہمیں غیر ہندوستانیوں کو خوش گوار انداز میں بتانا چاہئے کہ ہمارے شری کرشن ایسے  تھے، شری رام ایسے تھے، اکبر ایسے تھے یا شاہ جہاں ایسے  تھے۔

 مزید برآں نظامی نے لالہ لاجپت رائے جیسے آریہ سماج کے مصنفین کے اس دعوے کی تردید کی کہ شری کرشن گیتا کے اوتار اور مصنف نہیں ہیں۔

  نظامی نے لکھا کہ اے ہندوستانی غیر ملکیوں کو خوش کرنے کے لیے اپنی قوم کی بے عزتی مت کرو، اپنے بزرگوں کو ان کا جائز مقام دو۔

موجودہ دور میں جب تفرقہ ڈالنے والی سیاست نے ہر دوسرے نظریاتی مباحث کو پیچھے چھوڑ دیے ہیں، ایک ایسے اسلامک عالم کو یاد کرنا ضروری ہے جس نے شری کرشن کو ہندوستانیت کا ایک اہم حصہ قرار دیا تھا۔

شری کرشن کو ایک اوتار تسلیم کرنے کا خیال ان کے ایک پرہیزگار مسلمان ہونے کے خیال سے نہیں ٹکراتا تھا بلکہ یہ ان کی حب الوطنی کا ایک اہم پہلو تھا جسے وہ مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔