کبیر : عظیم صوفی اور شاعر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 06-06-2023
کبیر : عظیم صوفی اور شاعر
کبیر : عظیم صوفی اور شاعر

 

شیخ مجاہد احمد شاستری

کبیر ایسے عظیم صوفی اور شاعر ہیں جو بیک وقت ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات میں تین جگہ کبیرؔ کا ذکر آتا ہے۔ ایک جگہ فرمایا: ’’انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے، اپنے تئیں شامت اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اُس میں آجاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ کبیر نے سچ کہا ہے کہ

بھلا ہوا ہم نیچ بھئے ہر کو کیا سلام

ہوتے گھر اونچ کے ، ملتا کہاں بھگوان

یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے۔ اگر عالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدا نہ ملتا۔ جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی ذات بافندہ پر نظر کرکے شکر کرتا‘‘۔

حضرت مصلح موعودؓ نے بھی آپ کے کلام کو اپنے ارشادات میں استعمال کیا ہے۔

کبیرؔ کی سوانح میں اتنی آمیزش ہوچکی ہے کہ حقیقت پہچاننا مشکل امر ہے۔ تاہم اُن کے کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا عابد کامل تھا جو صاف گو اور بے خوف تھا اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنے والا تھا۔ کبیرؔ کی پیدائش 1398ء میں ہوئی۔ والد کا نام نیرو اور والدہ کا نیما تھا جو ذات کے جولاہے اور مسلمان تھے اور بنارس کے گردونواح میں رہتے تھے۔ کبیرؔ کے والد شریعت کے پابند تھے۔ کبیرؔ کا میلان بھی آغاز سے ہی روحانیت کی طرف تھا۔ گو آپ نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی لیکن نہایت تیزفہم اور غیرمعمولی قابلیت کے حامل تھے۔ اگرچہ کپڑا بننے کے پیشہ سے ہی منسلک ہوئے لیکن روحانیت میں ترقی کرتے چلے گئے۔ کئی فقراء سے بھی اُن کی ملاقات ہوئی۔ اُن کے کلام میں اُن کے مرشد سے متعلق کئی اشارے ملتے ہیں۔ آپ توحید کے قائل اور فنافی اللہ کے مقام تک پہنچے ہوئے تھے۔

کبیرؔ کی اہلیہ کا نام لوئی تھا جس سے آپ کا ایک بیٹا کمال اور بیٹی کمالی ہوئے۔ کبیرؔ نے کئی علاقوں کی سیاحت بھی کی جن میں بہار، اڑیسہ، مدھیہ پردیش، راجھستان اور پنجاب شامل ہیں۔ نیز آپ بلخ، بخارا، بغداد، کربلا اور غالباً مکہ بھی گئے۔ اسی لئے آپ کے کلام میں بھی کئی زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں جس میں کئی مقامی زبانوں کے علاوہ سنسکرت، عربی اور فارسی شامل ہیں۔ آپ نے 120 سال عمر پائی۔ بنارس میں آپ کے نام پر ایک محلہ بھی آباد ہے۔

کبیرا! سیپ سمندر کی۔۔۔ رکھے پیاس پہ آس!

‏صوفی بھگت کبیر سے کسی نے پوچھا، محبت کیا ہے؟ بھگت کبیر نے جواب دیا

"محبت ایسے ہی ہے، جیسے کوئی گونگا گڑ کھائےاور ذائقہ نہ بتا سکے"

بھگت کبیر کی جھونپڑی کے قریب میں جانور ذبح کرنے کی دکان تھی۔ کبیر نے ایک دن بہت دکھ میں آکر ایک شعر لکھا:

کَبِیرا تِیرِی جُھونپڑی گل کٹين کے پاس

جِیسی کرنِی وِیسی بَھرنی، تو کیوں بھيا اُدَاس.

بھگت کبیر جا رہے ہیں چاروں طرف قصائیوں کا محلہ ہے ۔۔۔ جانور ذبح ہو رہے ہیں، کاٹے جا رہے ہیں کبیر خود کو مخاطب کر کے کہتا ہے کبیرا کیا قسمت لے کر آیا ہے۔

کبیرا تیری جھونپڑی گل کٹین (گلے کاٹنے والوں) کے پاس ہے،

تو قصائیوں کے محلہ میں رہتا ہے یہ مناظر دیکھنا اب تیرا مقدر ہے۔

اور پھر کبیر کے اندر سے آواز نکلی ۔۔۔ صوت سرمدی نے جواب دیا

جیسی کرنی ویسی بھرنی تو کیوں بھیا جی رہے اداس۔ ارے کبیر تو کیوں اداس ہو رہا ہے۔ تو کیوں غم لے رہا ہے۔ جو ظلم کرتے ہیں ان کے ساتھ ظلم کیا جائے گا۔ جو مارتے ہیں انہیں مارا جائے گا۔ جو ستاتے ہیں انہیں ستایا جائے گا۔ جو لوگ گلے کاٹ رہے ہیں ان کے گلے کاٹے جائیں گے۔ اور جو ناحق مال کھاتے ہیں انہیں ان کا بدلہ دیا جائے گا۔

تو کیوں رہے اداس۔

کبیر صاحب ایک دن اپنا تانا سنوار رہے تھے۔ کسی شخص نے پوچھا کہ ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ کبیر نے جواب دیا، ’’ ادھر سے توڑ رہا ہوں اور اُدھر جوڑ رہا ہوں۔‘‘

پھر پوچھا کہ ’’ آپ کے سر پر کیا ہے؟‘‘ کہا، ’’کُوچ‘‘

سچ یہ ہے کہ جب تک انسان کے سر پر کوچ (دھن، لگن) سوار نہیں ہوتا اِدھر توڑنا اور اُدھر جوڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔

اقتباس ’’ تذکرہ غوثیہ از حضرت غوث علی شاہ قلندر پانی پتیؒ

کلامِ کبیر

پیر کا کلام معرفت کے موتیوں سے بھرا ہوا ہے آپ کا پیغام محبت ہے عدم مساوات کے معاشرے میں پسے ہوئے لوگوں کے لیے زندگی کا پیغام❤❤❤

سانچ کہوں تو مار ہیں ، جھوٹے جگ پتیائے

یہ جگ کالی کو کری ، یو چھیڑے تا کھائے

کبیر داس

ترجمہ: اگر سچ بولتا ہوں تو مارنے کو دوڑتے ھیں

جھوٹ بولتا ہوں تو سراہتے ھیں

یہ دنیا ایک کالی کتیا کی مانند ہے

جو اسے چھیڑتا ہے اسے کاٹ کھاتی ہے۔

دنیا بڑی بانوری پتھر پوجنے جائے،

گھر کی چکی کوئی نہ پوجے،

جس کا پیسا کائے

پتھر پوجنے سے جے رب ملے

تو میں پوجوں پھاڑ،

اس سے تو وہ چکی بھلی،

جس سے پیس کے کھائے سارا سنسار

پریتم ایسی پریت کر

جیسی برچ کر

دھوپ سہے سر اپنے

اوروں چھاوں کرے

پریتم ایسی پریت نہ کریو

جیسی کرے کھجُور

دُھوپ لگے تو سایہ نہ ھی

بھُوک لگے پھل دُور

پریت کبیرا ایسی کریو

جیسی کرے کپاس

جیو تو تن کو ڈھانکے

مرو تو نہ چھوڑے ساتھ

مَاتھے تِلک ہَتھ مَالا بَانا

لَوکَن رَام کِھلونا جَانا

بھگت کبیر

ماتھے پر تلک لگا لیا اور ہاتھ میں مالا پکڑ لی

لوگوں نے سمجھ لیا کہ خُدا ایک بچہ ہے

کہ جسے کھلونا دے کر آسانی سے بہلایا منایا جا سکتا ہے ۔

دیا بھاؤ ہردے نہیں گیان کتھے بے حدّ

وے نر نر کہہ جائیں گے سن سن ساکھی سبد

بھگت کبیر

دل میں رحم نہیں ھے اور علم اور معرفت کی باتیں بے حد ہیں

ایسے لوگ ساکھیاں اور شبد سن کر بھی جہنم میں جائیں گے

کبیرا سوئی پیر ہے جو جانے پر پیر

جو پر پیر نہ جانے سو کا پھر بے پیر

ترجمعہ۔۔۔۔۔

کبیروہی پیر ہےجو دوسروں کی تکلیف کو

جانےجو دوسروں کی تکلیف نہیں جانتا وہ کافر بےپیر ہے

بھگت کبیر صاحب فرماتے ہیں کہ ہم سےتو کوا اچھا ہے جو اندر اور باہر سے ایک جیسا ہوتا ھے۔ ہمارا اندر کچھ اور ہوتا ہے اور باہر کچھ اور ہوتا ھے۔

وہ جو ریت میں بکھری شَکرّ ھاتھی کب چُن پائے

جو چیونٹی بن آئے کبیرا وہ رس میٹھا کھائے

کبیرا دنیا دیہرے سیس نواون جائےہردے ماہیں بسیں تو تاہی لَو لائے

اے کبیر ساری دنیا کے لوگ مندر میں سر جھکائے جاتے ہیں خدا تو دل میں بستا ھے، تو اسی سے لو لگا

 

ایسا کوئی ناملا جاسے رہئے لاگ

سب جگ جلتا دیکھا اپنی اپنی آگ

بھگت کبیر

مجھے ایسا کوئی نہیں ملا جس سے لگ کر ہمیشہ رہ سکوں

میں نے دنیا کے ہر شخص کو اپنی اپنی آگ میں جلتے دیکھا ھے.

کبیرا کنواں ایک ھے اور پانی بھریں انیک

ارے بھانڈے میں ہی بھید ھے پانی سب میں ایک

مورکھ منوا کال کی چنتا کیوں ستاتی ہے

ست گرو ہردم ساتھی ہے

2-اندرمتی پر کال جھپٹیا ست گرو کری سہائی

کمال کمالی جیوت کینے ست کبیر دوہائی

سکندر کی جلن بجھائی وھ تو کہرام آتی ہے