اسرائیل:سمندرمیں ڈوبے قدیم جہازوں کی باقیات سےقیمتی نوادرات برآمد

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 23-12-2021
اسرائیل:سمندرمیں ڈوبے قدیم جہازوں کی باقیات سےقیمتی نوادرات برآمد
اسرائیل:سمندرمیں ڈوبے قدیم جہازوں کی باقیات سےقیمتی نوادرات برآمد

 

 

تل ابیب: اسرائیل کے ساحل کے قریب سمندر میں ڈوبے ہوئے دو ایسے قدیم بحری جہازوں کی باقیات ملی ہیں جن میں سونے کے زیور، چاندی کے سکے اور دیگر قیمتی نوادرات شامل ہیں۔

آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان نوادرات کا تعلق رومی اور مملوک سلطنتوں سے ہے جو تقریباً 1700 سے 600 سال پہلے تک اپنا وجود رکھتی تھیں۔ دونوں جہازوں کے ملبے, ساحل سے کچھ فاصلے پر لگ بھگ چار میٹر کی گہرائی میں ملے ہیں۔

ماہرین کا قیاس ہے کہ یہ جہاز ساحل پر لنگر انداز تھے جب سمندری طوفان نے انہیں آ لیا۔ یا پھر وہ ساحل کے قریب تھے کہ طوفان میں پھنس کر غرق ہو گئے۔ اس قیاس کو تقویت ایک جہاز کے ٹوٹے ہوئے لنگر سے ملتی ہے۔ لوہے کے لنگر کے ٹکڑے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملاحوں نے طوفان میں گھرنے کے بعد اسے بپھرتی لہروں پر بھٹکنے سے روکنے کے لیے لنگرانداز ہونے کی کوشش کی تھی۔

یہ قدیم جہاز اور ان میں موجود نوادرات اسرائیلی آثار قدیمہ کے ادارے کے ماہرین نے زیر آب ایک سروے کے دوران دریافت کیے ہیں۔

اسرائیلی آثار قدیمہ کے میرین آرکیالوجی یونٹ کے ڈرور پلانر اور ایک ماہر آثار قدیمہ جیکب شرویت کا کہنا ہے کہ جہاز ممکنہ طور پر ساحل کے قریب ہی لنگرانداز تھے اور طوفان میں گھر کر تباہ ہو گئے۔ یا پھر ممکن ہے کہ وہ طوفان کو آتے دیکھ کر اپنے جہاز ساحل سے دور کھلے سمندر میں لے گئے ہوں۔

کیونکہ ملاح اچھی طرح جانتے ہیں کہ طوفان کے وقت ساحل پر ہونا، کھلے سمندر کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ جیکب شرویت جہاز سے ملنے والی ایک نادر چیز دکھا رہے ہیں جس کا تعلق 1700 سو سال قبل سے ہے جہاز سے ملنے والی نوادرات میں چاندی اور کانسے کے ایسے سکے بھی شامل ہیں جن کا تعلق تیسری صدی عیسوی میں قائم رومی سلطنت سے ہے، جب کہ چاندی کے سکوں کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ملا ہے جن کی تعداد 560 ہے۔

ان سکوں کا تعلق چودھویں صدی عیسوی کی مسلم مملوک سلطنت سے ہے۔ مملوک ان جنگجوؤں کو کہا جاتا تھا جنہیں عرب مسلم ریاستیں دوسرے علاقوں سے اپنی فوج کے لیے بھرتی کرتی تھیں۔ یہ غیر عرب فوجی رفتہ رفتہ اتنے طاقت ور ہو گئے کہ ریاست کے معاملات میں دخل اندازی کرنے لگے اور بعد ازاں انہوں نے حکمرانوں کو ہٹا کر اپنی حکومت قائم کر لی۔

غرقاب جہازوں سے ملنے والی دوسری نوادرات میں عقاب کی شکل کا کانسی کا مجسمہ بھی ہے۔ اس طرح کے مجسمے رومن حکمرانی کی علامت کے طور پر استعمال کیے جاتے تھے۔ ان نوادرات میں ایک رومن پینٹومیمس کا مجسمہ بھی ہے جس نے مزاحیہ انداز اپنایا ہوا ہے۔

قدیم یونان اور روم میں پینٹومیمس،تھیٹر میں اداکاری کرنے والے ان فنکاروں کو کہا جاتا تھا جو بولنے کی بجائے اپنی حرکات و سکنات، رقص اور ماسک کے استعمال سے لوگوں کو تفریح فراہم کرتے تھے۔ تباہ شدہ جہاز سے دھات سے بنی ہوئی کئی چیزیں بھی ملی ہیں جن میں بڑے سائز کے پیتل کے درجنوں کیل، سیسے کے پائپ اور لوہے کا ٹوٹا ہوا لنگر بھی شامل ہے۔

غرقاب قدیم جہاز سے کئی ایسی اشیا بھی ملی ہیں جن کا تعلق سفر کرنے والے افراد کی ذاتی ملکیت سے تھا۔ ان میں سے ایک انگوٹھی میں جڑا جانے والا سرخ رنگ کا قیمتی پتھر بھی ہے جسے یہودی روایت کے مطابق کنورڈیوڈ کے انداز میں تراشا گیا تھا۔ جہاز سے ملنے والی ایک اور نادر چیز سونے کی خوبصورت انگوٹھی ہے جس میں سبز رنگ کے قیمتی پتھر کے ساتھ ایک نوجوان چرواہے کی شبہیہ تراشی گئی ہے۔

اس نے ڈھیلا ڈھالا چغہ پہنا ہوا ہے اور کندھے پر ایک بھیٹر اٹھا رکھی ہے۔ یہ شبہیہ عیسائی عقیدے میں یسوع کی علامت کو ظاہر کرتی ہے، جس میں یسوع کو انسانیت کے ہمدرد چرواہے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ انگوٹھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کا مالک مذہبی شخصیت رکھتا تھا۔ یہ انگوٹھی جس جہاز سے ملی ہے وہ قیصریہ کی بندرگاہ کے قریب غرق ہوا تھا۔ قیصریہ کا علاقہ قدیم زمانے میں عیسائی روایات اور ثقافت کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔

قدیم ترین عیسائی آبادیاں اسی علاقے میں قائم ہوئیں۔ ان سے قبل اس علاقے میں یہودی آباد تھے۔ ماہر آثار قدیمہ شرویت کا کہنا ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں کسی پہلے شخص نے عیسایت مذہب قبول کیا اور پھر یہاں سے عیسایت دنیا بھر میں پھیلی۔

اسرائیل کی نوادرات اتھارٹی کے ڈائریکٹر ایلی ایسکوزیڈو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساحل ایسے مقامات سے مالامال ہیں جو قومی اور بین الاقوامی ثقافی ورثے کے لیے انتہائی قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسرائیلی اتھارٹی ان گراں قدر ورثوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھاتی ہے۔

ہم شوقیہ غوطہ خوروں کو بھی یہ ہدایت کرتے ہیں کہ اگر انہیں سمندر کی تہہ میں کوئی قدیم چیز نظر آئے تو وہ اسے اٹھانے کی بجائے آثارقدیمہ کے اہل کاروں کو فوری اطلاع دیں تاکہ وہ انہیں باحفاظت نکال سکیں۔ ایسکوزیڈو کا مزید کہنا تھا کہ بعض دفعہ ایک بہت چھوٹی سی چیز بھی ایک عظیم دریافت کا سبب بن جاتی ہے۔