مدارس اسلامیہ ہر دور میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہے:غلام یحیٰ انجم

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 07-02-2023
مدارس اسلامیہ ہر دور میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہے:غلام یحیٰ انجم
مدارس اسلامیہ ہر دور میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہے:غلام یحیٰ انجم

 

 

پروفیسرغلام یحییٰ انجم، جامعہ ہمدرد، نئی دہلی کے پروفیسر ہیں۔ وہ شعبہ دینیات کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے دودرجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں اور علمی خدمات کے لئے صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز کئے گئے ہیں۔ پروفیسرغلام یحیٰ انجم نے اترپردیش کے سرکاری مدارس کا نصاب تعلیم بھی ترتیب دیا ہے، جس میں عصری علوم کو شامل کیا گیا ہے۔ آوازدی وائس کے لئے غوث سیوانی نے ان سے مدارس اسلامیہ کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش ہے۔ 

سوال:مدرسوں کے ماڈرنائزیشن کے ایشو پر کیا سوچتے ہیں؟

جواب:اسکول، کالج کے اپنے مقاصد ہیں، یونیورسٹیوں کے الگ مقاصد ہیں اور مدرسوں کے الگ مقاصد ہیں۔ مدارس کی تعلیم یونیورسٹی کی تعلیم سے مختلف ہے اور اسکول کی تعلیم مدارس کی تعلیم سے مختلف ہے۔ میرا ماننا ہے کہ سماج کو ہر قسم کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالم کی ضرورت ہے،مفتی کی ضرورت ہے، امام کی ضرورت ہے، ڈاکٹر کی ضرورت ہے، انجینئر کی ضرورت ہے۔سماج کو بہتر بنانے کے لئے مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد کی ضرورت ہے۔ انہیں چیزوں کی تعلیم یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہے، اسکولوں میں دی جاتی ہے اور مدرسوں میں دی جاتی ہے۔

مدرسوں میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ مذہب کیا سکھاتا ہے؟ مذہب کے مطابق کیسے زندگی بسر کرنی چاہئے۔ رہی یہ بات کہ مدرسوں میں پڑھنے والے طلبہ عصری تقاضوں سے کتنا واقف ہوتے ہیں؟ اپنے عہد سے ہم آہنگ ہوتے ہیں یا نہیں؟ عصری تعلیم انہیں دینا ضروری ہے اور عصری تقاضوں سے واقف کرانا ضروری ہے۔ البتہ مدارس کے ذمہ داران نے کبھی اس کی مخالفت نہیں کی ہے۔ کسی دور میں عصری علوم کی مخالفت نہیں ہوئی۔

awaz

جس دور میں علم نجوم کا رواج تھا ، علوم نجوم کی تعلیم مدرسوں میں دی جاتی تھی۔ جس زمانے میں ہیئت کا رواج ،اس زمانے میں ہیئت کی تعلیم دی جاتی تھی، جس میں دور میں منطق وفلسفہ کا رواج تھا، اس دور میں منطق وفلسفہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ طب کا رواج تھا تو طب بھی مدرسوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ الگ سے کوئی میڈیکل کالج نہیں تھا، مدرسوں میں ہی اس کی تعلیم ہوتی تھی۔آج کل کمپیوٹرسائنس کا دور ہے تو مدرسہ والے کمپیوٹر سائنس بھی سکھاتے ہیں، پڑھاتے ہیں۔ خود میرا بھی مختلف مدرسوں میں جانا ہوا۔جب میں سن2000 میں راجناتھ سنگھ کے دور حکومت میں یوپی کے سرکاری مدرسوں کا نصاب تعلیم ترتیب دے رہا تھا تو میں نے مدرسوں کے دورے کئے اور تب کئی مدرسوں میں کمپیوٹر دیکھا۔ کمپیوٹر ٹیچر بھی مدرسوں میں پائے جاتے تھے۔تب بھی انگریزی کی تعلیم مدرسوں میں دی جاتی تھی۔

کچھ مدرسوں کے پاس وسائل نہیں ہونگے، وہ جدید تعلیم نہ دیتے ہوں مگر جن مدرسوں کے پاس وسائل ہیں، وہ جدید تعلیم بھی دیتے ہیں۔ چاہے وہ کمپیوٹر ہو، چاہے وہ سائنس ہو، چاہے وہ ہندی اور انگلش ہو چاہے وہ میتھ ہو۔سن2000 میں جب ہم نے یوپی کے مدرسوں کا نصاب تعلیم ترتیب دیا ، تو ان مضامین  کو بھی رکھا۔ انگریزی، میتھ، سماجی علوم کو لازمی قرار دیا۔تاکہ فارغین مدارس عصری علوم سے بے خبر نہ رہیں۔ یہ سب مضامین آج بھی پڑھائے جارہے ہیں۔

میرا کہنا یہ ہے کہ مدرسے کو مدرسہ رہنے دیا جائے اور مزید جن مضامین کی ضرورت ہے، انہیں بھی داخل نصاب کیا جائے۔بعض مدرسہ والے ایسا کر رہے ہیں اور بعض ایسا کرنے والے ہیں۔ ہاں کچھ مدرسوں کے پاس وسائل نہیں ہیں تو ان کی مجبوری ہے۔ اہل مدارس خود حالات کے تقاضے کو سمجھ رہے ہیں، دنیا دیکھ رہے ہیں، وہ خود حالات کے مطابق تبدیلیوں میں مصروف ہیں۔

awaz

سوال:مدرسوں کے طلبہ فراغت کے بعد یونیورسٹیوں، کالجوں میں داخلہ لے سکیں،اس کے لئے کیا کیا جانا چاہئے؟

جواب: ہم نے جو نصاب ترتیب دیا ہے،اسی مسئلے کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیا ہے۔منشی ہائی اسکول کے مساوی ہوگیا ہے،عالم ،انٹرمیڈیٹ کے برابر ہوگیا ہے،کامل، بی اے کے مساوی اور تین سال کردیا ہے۔ فاضل ، ایم اے کے برابر ہوگیا ہے۔ آج سے پندرہ، بیس سال پہلے کا جائزہ لیجئے تو یونیورسٹیوں میں مدارس کے طلبہ نہیں پائے جاتے تھے مگر آج ہر جگہ موجود ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہو،جامعہ ملیہ اسلامیہ ہو، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی ہویا جامعہ ہمدرد ہویا مولانا آزاد اوپن یونیورسٹی ہو۔۔۔ ہر جگہ مدارس کے طلبہ موجود ہیں۔

یہ اس لئے ممکن ہوا کہ مدرسوں کے نصاب میں جو کمی تھی، اسے پورا کیا گیا ہے۔ مدارس کے طلبہ تعلیم لے کر یونیورسٹیوں میں پہنچ رہے ہیں۔ اب یونیورسٹیاں خالی نہیں مدارس کے طلبہ سے۔ مدرسے کی تعلیم کو بنیاد بناکر وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ بی اے کر رہے ہیں، ایم اے کر رہے ہیں۔ وہ ڈاکٹر، انجینئر بھی بن رہے ہیں اور اب تو بہت سے بچے یوپی ایس سی کی تیاریاں بھی کر رہے ہیں۔

سوال:اترپردیش مدرسہ بورڈ کے نصاب کو آپ نے کب اور کیسے ترتیب دیا تھا؟

جواب:1924 میں پہلے پہل یوپی مدرسہ بورڈ کا نصاب بنا تھا، مولانا آزاد کی کوششوں سے بنا تھا جس کے رجسٹرار مولانا شبیراحمد خان غوری تھے۔ اس وقت کا اپنا الگ نصاب تھا۔ تقریباً اسی ، نوے سال تک وہ نصاب چلتا رہا۔ پھر جب راجناتھ سنگھ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ تھے تو مدرسوں کے نصاب تعلیم کی فکر ہوئی۔ تب سراج حسین صاحب جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر بن کر آئے جو پہلے یوپی میں محکمہ بہبود اقلیتی امور کے سکریٹری تھے۔ انہوں نے یوپی مدرسہ بورڈ کے نصاب تعلیم کے ترتیب کی ذمہ داری مجھے دی۔ چونکہ میں مدرسہ سے فاضل تھا اور یونیورسٹی سے بی اے ، ایم اے کئے ہوئے تھا لہٰذا مجھے اس کام کے لئے منتخب کیا گیا۔علما کی دوکمیٹیاں بنائی گئیں ایک ہمدردیونیورسٹی کے اندر اور ایک اترپردیش مدرسہ بورڈ کے اندر۔ 

ترتیب شدہ نصاب کو اہل علم کے سامنے پیش کیا گیا اور ان سے منظوری لی گئی۔ کچھ چیزوں کو بحث ومباحثہ کے بعد اور کچھ چیزوں کو بغیر بحث کے منظور کیا گیا۔  اس طرح2006 میں وہ نصاب منظور ہوا اور پھر نافذ بھی ہوگیا۔ اس میں جزوی ترمیم بھی ہوئی مگر وہی نصاب، یوپی مدرسہ بورڈ میں چل رہا ہے۔ اسی نصاب کی بنیاد پر طلبہ کامل، عالم اور فاضل کر رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ نصاب جامع اور مانع ہے۔ اسے پڑھ کر جو طالب علم امتحان دیتا ہے، وہ اپنے آپ میں کسی قسم کی کمی نہیں محسوس کرتا ہے۔ اس میں عصری علوم سائنس، کمپیوٹر، ہندی، میتھ اور سوشل سائنس شامل ہیں۔ ذمہ داران مدارس کو چاہئے کہ اس نصاب کے مطابق ہی تعلیم دیں تاکہ بہتر طریقے سے طلبہ آگے بڑھ سکیں۔

   سوال:تعلیم کو روزگار سے جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے ،اس پر کیا کہیں گے؟

جواب: ہاں ! اس قسم کی کوششیں ہورہی ہیں۔ مدرسوں کے فارغین تدریس کا کام کرتے ہیں، امام اور موذن بن جاتے ہیں، افتا کا کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ روزگار دینے والا ہے۔  ایسا کوئی مدرسہ نہیں ہے جہاں کے علما اور فضلا سڑکوں پر گھوم رہے ہوں۔ جن کے اندر صلاحیتیں ہوتی ہیں وہ بھوکا نہیں مرتا ہے۔ جہاں تک یہ خیال ہے کہ انہیں بھی انجینئر اور ڈاکٹر کی طرح روزگار ملے تو یہاں بھی درجات ہیں۔ بی اے والوں کو کم ملتے ہیں، ایم اے والوں کو زیادہ ملتے ہیں اور پی ایچ ڈی والوں کو ان سے زیادہ ملتے ہیں۔

یہ کہنا بھی درست نہیں کہ یونیورسٹی کا ہر فارغ روزی روٹی سے جڑا ہوا ہے۔ اسکول کا پڑھا ہوا ہر آدمی کامیاب ہے، تنخواہ دار ہے، ایسا بھی نہیں ہوتا ہے۔ یہی حالت مدرسے والوں کی بھی ہے۔ یہاں کا ہر آدمی بھوکا بھی نہیں ہے۔ روزی اللہ کی جانب سے ملتی ہے۔ جن کی تقدیر اور صلاحیت اچھی ہوتی ہے، انہیں روزی یہاں بھی ملتی ہے وہاں بھی ملتی ہے۔ایسا نہیں ہے مدرسہ والے تمام سڑک پر ہوں اور یونیورسٹی والے اعلیٰ منصب پر ہوں۔ یہاں بھی کچھ صاحب منصب ہیں اور کامیاب ہیں اور وہاں بھی کچھ کامیاب ہیں۔

awaz

میں بھی مدرسہ کا فارغ ہوں۔  یونیورسٹی میں پروفیسر ہوں، ڈین ہوں۔ آج کل بڑی تعداد میں مدرسہ کے فارغین، اعلیٰ تعلیم پاکر یونیورسٹیوں میں استاد بنے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے اپنا رخ بدلا وہ جرنلزم میں چلے گئے ہیں۔ آئی اے ایس کی کوچنگ لےکر آئی اے ایس بن گئے ہیں۔ تو یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اہل مدارس عصری تقاضوں سے بے خبر ہیں۔