مالک رام کا اسلامی شعور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-02-2023
مالک رام کا اسلامی شعور
مالک رام کا اسلامی شعور

 

 

نذرانہ شفیع

مالک رام اردو دنیا میں بنیادی طور پر محقق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے بعض پہلوبھی بہت اہم اور قابل ذکر ہیں جن کی حیثیت مسلم ہے۔وہ ایک محقق ہونے کے علاوہ تاریخ کے بھی اسکالرہیں لہٰذا واقعات کی چھان بین اور صحت کا خیال انھوں نے اپنی تحریروں میں حد درجہ پیش نظر رکھا ہے۔ انھوں نے’سبد چین‘ اور ’ذکر غالب‘ میں  غالب کے حالات مستند روایت کے ساتھ قلم بند کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ’تلامذہ غالب‘ میں غالب کے ڈیڑھ سو شاگردوں کے حالات درج کیے ہیں۔حقیقتاً ا س نوع کے تحقیقی کام بے حد دشوار ہوتے ہیں مگر مالک رام اس سے بہتر طور پر عہدہ برآ ہوئے ہیں۔ ’بابلی تہذیب و تمدّن‘ (دو جلدیں)بھی ان کا بہترین تحقیقی کارنامہ ہے۔ تحقیقی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے انھوں نے مولوی مہیش پرشاد کے مرتب کردہ خطوط کی از سر نو تدوین کے ساتھ  غالب کے دور اور ان کے معاصرین پر بے شمار مضامین تحریرکیے اس کے علاوہ ’گل رعنا‘ کے عنوان سے خود غالب کا انتخاب کردہ فارسی کلام بھی شائع کیا۔ فضلی کی ’کربل کتھا‘ جوپروفیسر مختار الدین احمد کی تلاش تھی مالک رام نے مختار الدین احمد کے ساتھ مل کر اس کے حواشی لکھے اوراس کی نئے سرے سے تدوین کی۔ مالک را م کا ایک قابل ذکر تحقیقی کارنامہ ’تذکرہ معاصرین‘کی اشاعت بھی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے تذکرہ، غبار خاطراور خطبات کی بھی تدوین کی۔

مالک رام کی دلچسپی اور شغف کا میدان اسلامیات بھی ہے۔ وہ قرآن اور حدیث میں کافی مہارت رکھتے تھے اس میں ان کا ایمان اور عقیدہ کسی بھی صاحب ایمان سے کم نہیں تھا۔ اسلامی علما کی طرح مالک رام بھی پہلے تونص صریح سے استناد کرتے ہیں اور ثانیاً ان احادیث سے جن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

 انھوں نے بیٹی، بیوی، ماں، مطلقہ اور وارثہ کے عنوان سے اسلام میں عورت کے مقام اور مرتبے کا تعین کیا ہے۔ قرآن اور احادیث کی روشنی میں انھوں نے مختلف انداز سے عورت کے حقوق کی وضاحت کی ہے۔ ان کا انداز بیان استدلالی اور قطعیت سے پر ہے۔ بے جا گفتگو سے پرہیز کرتے ہوئے بے لاگ انداز میں انھوں نے تمام امور کو بیان کیا ہے۔ یہاں ان کا موقف بالکل واضح اور صاف ہے۔ ان کا طریقہ کارایک محقق کا ہے۔ آیات قرآنی کا برمحل استعمال کیا گیا ہے احادیث کی صحت اور ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے تاریخی شواہد سے بہت سے امور کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کسی معاملے پر بحث کے دوران احادیث کی شمولیت بطور دلیل موجود ہے ایسے موقع پر وہ عہد نبوی و عہد خلفائے راشدین میں موجود واقعات کو بھی پیش کرتے ہیں جن میں سے بعض احادیث کی صورت میں بطور متن موجود ہیں اور بعض کی حیثیت مستند واقعات کی ہے جو محققین اور فقہا کی کتب اور مخطوطات میں درج ہیں۔ لہٰذااس اعتبار سے مالک رام کی تصنیف ’عورت اور اسلامی تعلیم‘میں عورت کے نظریہ حیات کے حوالے سے رقم شدہ بحث اور بھی استناد کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔

مالک رام نے عورت کی سماجی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے الگ الگ مقامات طے کیے ہیں یعنی ایک عورت سماج میں ایک بیٹی ہوتی ہے، بیوی ہوتی ہے، ماں ہوتی ہے اور جب وہ ان تینوں میں سے کسی حیثیت سے سماج میں نہیں رہ پاتی تو اس کی حیثیت ایک مطلقہ یا بیوہ کی ہوتی ہے۔ اسلام نے ان تمام حالتوں یا صورتوں میں باقاعدگی سے عورت کو باوقار زندگی گزارنے کے اختیارات عطا کیے ہیں جن کے حصول کے بعد وہ سماج میں اپنی عزت اور ناموس کے ساتھ پاکیزہ سماج میں اپنے مقام کو قائم رکھتی ہے۔ یہاں پر اسلوب احمد انصاری کا یہ قول درج کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

معاشرتی زندگی میں عورت کے حقوق کے ضمن میں مالک رام نے چار شقیں قائم کی ہیں تعدد ازدواج، طلاق وخلع، نکاح بیوگان اوروراثت، اور ان چاروں کے ضمن میں انھوں نے ہندو دھرم، شریعت موسوی، عیسائیت اور اسلامی قوانین کے باہمی موازنے سے تشفی بخش طریقے پر یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی احکام نہ صرف سب سے زیادہ مبنی بر انصاف ہیں۔

مالک رام نے پہلے باب میں ’بیٹی‘ کا عنوان قائم کرتے ہوئے سماج میں اسلامی قوانین کے اعتبار سے اس کے حقوق کی وضاحت کی ہے یہاں انھوں نے دور اسلام سے قبل ایام جاہلیت میں بیٹیوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا ہے اور مختلف تاریخی حوالوں سے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح بچیّوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا یا قتل کردیا جاتا تھا نہ تو ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست تھا، نہ کھانے پینے کا اور نہ ہی جسمانی اور ذہنی تربیت کا کوئی انتظام تھا۔ اس کے بعض اسباب کی جانب بھی انھوں نے اشارے کیے ہیں جو بے حد مناسب اور درست معلوم ہوتے ہیں۔  

زمانہَ قدیم میں قبائل کی جنگیں کثرت سے ہوتی تھیں لہٰذا ہارنے والے قبیلے یا قوم کی عورتوں کو جیتنے والے ملکیت بنا لیتے تھے۔ یا دوسری صورت یہ کہ خود سسر بننا اور بچیوں کا نکاح کرنا باعث ذلت تصور کیا جاتا تھا۔ مالک رام نے اس کی اور بھی توجیہیں پیش کی ہیں:

اسی طرح ہندوستان کے عہد وسطےٰ کے راجپوتوں کے دل میں بھی یہ جھوٹا خیال بیٹھاہوا تھا کہ ہم اور کسی کو بیٹی دے کر سسر کہلائیں! اس سے مر جانا بہتر ہے۔

کاہنوں اور دینی بزرگوں نے کہہ رکھا تھا کہ لڑکیوں کو زندہ نہ رکھو کیوں کہ یہ ذلّت کاموجب ہیں۔

جزیرۃالعرب جیسا صحرا آج ہے۔ ویسا ہی جب بھی تھا۔ سامان خوراک کے مہیا کرنے کے لیے ان لوگوں کو جیسی کچھ محنت کرنا پڑتی ہوگی،اس کااندازہ ہم موجودہ حالات سے کر سکتے ہیں۔

اس صورت حال کی اسلام نے کھل کر مخالفت کی اور قرآن میں اس کی مخالفت میں باقاعدہ آیتوں کا نزول ہوا۔ ان آیات کو مالک رام نے بڑی ہنر مندی سے پیش کرتے ہوئے بچیوں کے زندہ رکھنے اور ان کے وجود کی بقا کا جواز بھی دیا ہے کہ عورت نسل انسانی کی بقا کے لیے کس حد تک ضروری ہے۔ اور لڑکا یا لڑکی اللہ کے پیدا کردہ ہیں تو ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بھی اسلام نے بچیوں کی تعلیم کو فرض قرار دیا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ لونڈی بھی ہے تو اس کی تربیت کو بھی ضروری خیال کیا گیا ہے۔

مالک رام نے قرآن اور احادیث کی روشنی میں اسلام کے اندر عورت کے لیے تعلیم و تربیت کو لازم جزو قرار دیا۔ وہ ابن ماجہ کی معروف و مقبول حدیث ’طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمہ‘کوبھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ مالک رام نے تربیت کے حوالے سے اندرون خانہ زندگی کے ذیلی عنوان کے تحت ایک اہم بحث کو بھی اٹھایا ہے کہ اسلام نے عورت کے تحفظ اور اس کی ناموس کی بقا کے لیے کیا کیا قدم اٹھائے ہیں انھوں نے سورہ نور کی آیت نمبر 23 اور 24 کے حوالے سے کس طرح اس مسئلے کی وضاحت کی ہے قابل ذکر ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

یہ آئے دن کا تجربہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں معمولی علم حاصل کرکے پندار و عجب کا شکار ہوجاتی ہیں اور نمائش ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ یہ یقینا نا مناسب اور غلط طریقہ ہے اورقرآن اس کا سخت مخالف ہے۔ چنانچہ اس کا حکم ہے کہ جب لڑکی سن بلوغ کو پہنچے تو اپنی آرائش اور خوبصورتی کونمایاں نہ کرے، بلکہ شرم و حیا کو ملحوظ رکھے۔ باہر نکلے تو بھی احتیاط سے، چلے تو ایسی روش اختیار کرے جس سے حیا ٹپکے۔

درحقیقت یہ بندش نہیں بلکہ احتیاط ہے کہ عورتیں اپنی پاکیزگی کو قائم رکھ سکیں۔ ورنہ اسلام میں کسی کے ملنے جلنے والے گھروں میں آنے جا نے کی پابندی نہیں۔ یہ تصور کہ عورتیں قید ہوکر گھٹ کر جیتی ہیں نہایت غلط ہے۔ مالک رام نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

 ”گھر کے مردوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی احتیاط رکھیں کہ جو غیر عورتیں ان کے گھر میں آرہی ہیں، ان کے اخلاق کیسے ہیں اور کیا وہ اس قابل ہیں کہ ان کے گھر کی عورتوں سے ملیں جلیں، اس طرح کیا غلام اور تابعین ایسے ہیں کہ واقعی ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔

مالک رام نے ’استیذان‘ کے ذیلی عنوان کے تحت استیذان کے لغوی اور شرعی معنی کی وضاحت کرتے ہوئے استیذان کے حکم پر قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں بحث کی ہے۔ یہاں مالک رام کی یہ رائے درج کرنا مناسب معلوم ہوتی ہے۔

غرض یہ ہے کہ عموماً آدمی تکلیف سے نہیں بیٹھتا اور غیر محرم کے سامنے آنے میں جس تکلّف کی ضرورت ہے۔ اگر اس کے بغیر پردے کے پیچھے ہی سے کام نکل جائے،تو کیا ضرورت ہے کہ عورت مرد کے سامنے آئے۔ چونکہ بلا ضرورت مرد اور عورت ایک دوسرے کے سامنے آنے جانے سے معاشرتی خرابیوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اس لیے فرمایا کہ جہاں آمنے سامنے ہوئے بغیر مطلب حل ہو سکتا ہے۔ وہاں بے شک پردے کی اوٹ سے بات کر لو۔یہاں پیرایہئ بیان نہایت بلیغ اختیار کیا ہے۔اسے مرد، عورت دونوں کے کیے پاکیزگی کا موجب بتایا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عورت کو غیرمحرم سے بات چیت کرنے کی ممانعت نہیں۔

انھوں نے آگے پردہ پر بھی ذیلی عنوان کے تحت بحث کی ہے اور مختلف واقعات اور قرآن میں درج اس کے لیے مخصوص الفاظ کے مخصوص تصور کو بیان کیاہے۔ مالک رام نے پردہ کی اہمیت اور اس کی پابندی کا مثبت انداز میں تذکرہ کرتے ہوئے مختلف احادیث اور قرآن کی روشنی میں پردہ کے تصور کی وضاحت کی ہے جس میں باہرنکلنے کے وقت، جسم اورچہرے کا ڈھکا ہونا، خوشبووَں کا یابجنے والے زیورات کے استعمال نہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ مالک رام اس حکم کے جواز اور اثبات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

عورتوں کو باہر نکلنے کی ممانعت نہیں کیوں کہ کام کاج کی ضرورت سے ایسا کرنے کی اجازت ہے، لیکن آنکھ نیچی رکھیں، آرائش اور بناو سنگار کو ظاہر نہ کریں اور حیا سے چلیں۔

یہ احکام ان تمام لڑکیوں کے لیے ہیں جو سنِّ  رُشد کو پہنچ جائیں اور جن پر لڑکی سے زیادہ لفظ عورت کا اطلاق ہوتا ہے اور جب تک وہ خود نکاح کی خواہش مند ہیں، یاان کے نکاح کرلینے کا امکان ہے، ان پر احکام کی پابندی لازم ہے۔

مالک رام نے ’بیوی‘ کے عنوان سے اپنی کتاب میں ایک اہم باب قائم کرتے ہوئے مختلف آیات قرآنی اور احادیث کی روشنی  میں مرد کے مقابلے عورت کی حیثیت اور اہمیت کو واضح کیا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ جوڑے کا لفظ یا حدیث میں عورت کی تخلیق مرد کی پسلی سے بتائی گئی ہے۔ جس کی مالک رام نے بہترین تشریح و توجیہہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ مرد کے وجود کی طرح نسل انسانی کا اہم حصّہ ہے مزید آگے انھوں نے عورت کی سماجی حیثیت بھی متعین کی ہے۔ مالک رام کی یہ وضاحت اور دلیل قابل ذکر ہے وہ رقم طراز ہیں کہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت ہر حیثیت میں باعث سکون ہے۔خواہ اس کی حیثیت ماں کی ہو،خواہ بیٹی کی یا بہن کی، وہ اپنے بیٹے یا باپ یا بھائی کے لیے سامان راحت پیدا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کی سرشت میں نرمی اور ہمدردی بہت زیادہ رکھی ہے۔جس کے سبب وہ دوسروں کی تکلیف زیادہ محسوس کرتی اور ان کے لیے سامان سکون وراحت مہیّا کرتی ہے۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہ سکون و راحت کا مظہر اتم اس وقت بنتی ہے جب اس کی حیثیت بیوی کی ہوتی ہے اس صورت میں جس خلوص و محبت کا اظہار اس کی ذات سے ہوتا ہے وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے  ایک نشان ہے۔

دوسرا مقصدنکاح ’بقائے نسل‘ کے ذیلی عنوان کے تحت بھی انھوں نے بیوی کے وجود کی ضرورت اور اہمیت کا ذکر کیا ہے۔ وہ اس موقع پر بھی قرآن کی آیات اور حدیث کو پیش نظر رکھتے ہیں جس میں درج ’نساؤکم حرث لکم‘ میں لفظ حرث کی بے حد مدلل اور منطقی تعریف و تشریح کی ہے۔ یہاں ان کی یہ عبارت اہم ہوجاتی ہے۔

قرآن پہلی قسم کے تعلق کے خلاف ہے چنانچہ اس نے عورت کو حرث یعنی کھیتی سے تشبیہ دے کر اپنا مقصد واضح کردیا ہے۔ اس کے نزدیک مرد اور عورت کو رشتہئ نکاح سے وابستہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کا یہ تعلق مستقل حیثیت کا ہو۔ کسان یہ نہیں کرتا کہ آج کھیتی لے لی اور کل اسے چھوڑ دیا، بلکہ وہ اس سے نفع کرنے کی خاطر اسے دائمی طور پر اپنے قبضے میں  رکھتا ہے۔ دوسرے وہ اس سے غلّہ اور اناج حاصل کرتا ہے۔ وہ اسے یوں ہی بنجر نہیں چھوڑتا،تیسرے جب وہ اس میں بیج ڈالتا ہے تو جب تک فصل تیار نہیں ہو لیتی۔ وہ ہرطرح اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ گھر آکر ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے۔    

عورت کی سماجی حیثیت متعین کرنے کے لیے اسلام نے باقاعدہ قوانین وضع کیے اور اس کا دائرہ عمل مرد کے دائرہ عمل کی طرح طے کیا۔ اس کے لیے باقاعدہ اور علی الاعلان نکاح کا تصوّر پیش کیا تاکہ عزت و احترام سماج میں قائم ہو سکے اس کے علاوہ کسی بھی صورت کو اسلام نے جرم کے زمرے میں رکھا ہے۔مالک رام نے اس نکتے کی جانب بھی بحث میں اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

وہ دونوں آزادی سے صرف دو حالتوں میں یکجاہوسکتے ہیں یعنی یا ان دونوں کا نکاح شریعت کی رو سے حرام ہو یا پھر وہ شرعی بیوی ہوں۔ یہ رشتہ قانونی طور پر اختیار کیا جائے۔ سماج اسے منظور کرے اور اسے اس کا علم ہو اور اس میں کوئی بات خفیہ نہ ہو، بلکہ وہ دونوں علی الاعلان میاں بیوی کی طرح رہیں۔

اسی سے متعلق غیر شرعی طور پر عورت اور مرد کے جسمانی رشتے کو قائم کرنے پر جس طرح اسلام نے حد نافذ کرنے کا شرعی حکم صادر کیا ہے اس کے تحت مالک رام نے آگے زنا، سنگساری، چار گواہ، لعان کے عناوین قائم کرتے ہوئے بحث کی ہے اور ان جملہ امور کی وضاحت کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے محرمات نکاح کے تحت اس بحث کو قائم کیا ہے جس میں مخصوص رشتوں کے سبب عورتیں مرد کے نکاح میں جائز نہیں ٹھرتیں۔

تعداد ازدواج پر بھی الگ عنوان کے تحت بحث کی ہے اور اس کی شرائط طے کی ہیں۔ یہاں سارا معاملہ عدل باہم کا ہے جس کا نفاذ ازحد ضروری ہے۔ جس کے تعلق سے وہ سورۃ نساء کی آیات کی توضیح پیش کرتے ہوئے اپنی بحث کو مستند بنا دیتے ہیں۔ وہ رقم طراز ہیں:

 ”بیویوں کے درمیان عدل کرویعنی ان کی ضروریات کے مہیّا کرنے میں، کھا نے کپڑے میں، ان سے تعلقات میں، عدل کرو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک کے گھر میں جشن ہو، تو دوسری کے گھر فاقہ۔ ایک جگہ شب عید ہو، تو دوسری کے دیے میں تیل بھی نہ ہو۔ عورت کی فطرت میں خدا نے رشک و حسد کا مادّہ بہت زیادہ رکھا ہے۔ عام حالات میں وہ دوسری عورت تو درکنار، سیج کی مکھی کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ پس جہاں سوتن کا معاملہ ہو، وہاں مرد کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اپنی تمام بیویوں کو ہر ایک چیز ایک سی دے۔ مکان، سامان، کپڑے،زیورات، خوراک اور دیگر ضروریات کی اشیاء سب ایک سی ہوں۔ان کے یہاں اپنے آنے جانے کا بھی ایک اصول بنالے۔ رسول کریم ؑ کا اسوہئ حسنہ تو اس باب میں اتنا وسیع تھا کہ وہ بیویوں کے جذبات تک کا خیال رکھتے تھے اور حتی الوسع انھیں کسی قسم کی شکایت کاموقع نہیں دیتے تھے۔(بخاری، کتاب المظالم)

یہاں انھوں نے رسولؐ  کے کردار احسن کو پیش کرتے ہوئے مثال دی اور حجت تمام کردی۔ ان کا یہ طریقہ کار ان کے منطقیانہ درک اور استدلالی انداز کی بہترین مثال ہے۔

مالک رام نے الگ الگ ذیلی عنوان کے تحت بیوی کے حقوق بھی بیان کیے ہیں یہاں بھی ان کا طریقہ استدلال قرآن و حدیث کے حوالہ جات پر مشتمل ہے۔ انھوں نے حسن سلوک، نان و نفقہ، اعتماد، حقوق زوجیت اور عدم تشدد کے تحت عورتوں کے اختیارات اور ان کی سماجی حیثیت نیز احترام اور قدر کو واضح کیا ہے یعنی جس طرح مرد کا فرض ہے کہ وہ عورتوں کے لیے اچھا سلوک روا رکھے، ان کے نان و نفقہ کا خیال رکھے اور حق زوجیت ممکنہ حد تک ادا کرے حتی ٰ کہ کثرت سے عبادت بھی نہ کرے کہ اگر اس سے بیوی کے حق میں خلل پڑتاہو اور اس پر ظلم و زیادتی نہ کرے۔ مالک رام نے بڑی ہنر مندی سے ان تمام امور کی وضاحت کی ہے کہ اسلام واحد مذہب ہے جس میں عورت کے لیے اتنے حقوق وضع کیے گئے ہیں۔

اسی طرح انھوں نے بیوی کی ذمہ داریوں کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ عورتوں میں اپنے شوہر کے لیے اطاعت شعاری ہونی چاہیے اور شوہر کی غیر حاضری میں اس کے حقوق کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اولاد کی ترتیب میں بھی اس کابے حد اہم رول ہے اور شوہر اگر نیکی کرے تو وہ اس کو نہ روکے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرے۔

مالک رام نے ’ماں‘ کے عنوان سے عورت کی تیسری بے حد اہم سماجی حیثیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یعنی جب عورت ماں ہوتی ہے تو وہ دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہوتی ہے۔ ماں کا اسلام میں بے حد بلند درجہ ہے حتیٰ کہ اسے باپ سے بھی زیادہ احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ انھوں نے سورہئ بقرہ آیت 215، سورہئ بنی اسرائیل آیت 23 تا 25، سورہء لقمان آیت 14، 15اور مختلف احادیث کی روشنی میں والدین اور بالخصوص ماں کی اہمیت اور اس کے مرتبہ پر روشنی ڈالی ہے جس کے نتیجے میں وہ کہتے ہیں:

 ”والدین کی خدمت کا حکم اور نصیحت تمام مذہبوں میں ہے لیکن قرآن نے حسب معمول اس مسئلے پر بھی تفصیل سے بحث کی ہے اور اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔حکم دیا کہ والدین سے نیکی اور احسان سے پیش آؤ اور ان پر اپنے اموال خرچ کرو،گویا صرف ماں باپ کی ضروریات کی کفالت ہی کا نہیں، بلکہ ہر حال میں ان پر خرچ کرنے کا حکم دیا۔

اسلام میں والدین کے حقوق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے مشرک ہونے کے باوجود ان سے رفاقت قائم کرنے اور حسن سلوک قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی خدمت کو جہاد سے بھی افضل ترین عمل قرار دیا گیا ہے۔ مالک رام نے اپنی بحث میں ان جملہ امور کی بہتر طور پر وضاحت کی۔ مالک رام نے خلع کی تعریف اور تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن اور احادیث نبوی کا حوالہ دیا ہے کہ جس طرح قرآن نے طلاق سے اجتناب برتا ہے اسی طرح خلع کے سلسلے میں بھی حتیٰ الامکان پرہیز کرنے پر زور دیا ہے۔

مالک رام نے ثابت اور ان کی بیوی جمیلہ اور حبیبہ کے دو واقعات کو اس ضمن میں بطور دلیل بیان کیا ہے جہاں مہر کی واپسی کے بعد نبیؐ نے دونوں کی علاحدگی کی اجازت مرحمت فرمائی اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اسی طرح علیٰحدگی کے لیے عورت کو بھی بعینہ خلع کے ذریعے علیٰحدگی کا اختیار حاصل ہے۔اسلام نے یہ خصوصی حق عورت کو عطاکیا ہے۔ مالک رام نے اس امر کی طرف نشاندہی کی ہے وہ لکھتے ہیں:

 اسلام نے عورت کو خلع کا حق دے کر اس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کر دی ہے۔اس لیے چاہیے کہ وہ اس کے استعمال میں نہایت درجہ احتیاط سے کام لے۔

عدّت کے اغراض‘ کے تحت انھوں نے استدلالی اور منطقی انداز میں ان مصلحتوں کی جانب توجہ دلانی چاہی ہے جس کی وجہ سے اسلام نے باقاعدگی سے عدّت کو لے کر مختلف قوانین یا اصول شریعت میں وضع کیے اور ان کو عورت کے لیے لازم قرار دیا۔ وہ ان مصلحتوں کی نشاندہی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔

دراصل تین ماہ کی عدّت کا اوّلین مقصد ہی یہی ہے کہ میاں بیوی میں صلح ہو جائے۔چوں کہ عورت، مرد کے ساتھ ایک ہی مکان میں رہتی ہے، اس لیے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اس کے دل میں خیال نہ آئے۔ نیز اگر طلاق کسی فوری اشتعال یا ہنگامے کے دوران میں دی گئی ہے تو بھی مرد کو حالات پر ٹھنڈے دل سے سوچنے کا کافی موقع مل جاتا ہے۔ عدّت کا دوسرا مقصد نسب کی حفاظت ہے ممکن ہے کہ طلاق کے وقت عورت کو صرف چند دن کا حمل ہو۔ تیسری مصلحت جو دراصل مندرجہئ صدر وجہ ہی سے پیدا ہوتی ہے، ورثہ کی صحیح تقسیم ہے یعنی یہ معلوم ہوجائے کہ بچّہ کون سے خاوند کا وارث ہوگا۔عدّت کی ایک اور غرض یہ بھی ہے کہ مطلّقہ عورت کوبیجا تکلیف نہ ہو۔اگر طلاق کے ساتھ ہی خاوند اس کو گھر سے نکال دینے کا مجاز ہوتا تو وہ بیچاری ایک مصیبت میں مبتلا ہوجاتی۔ نہ صرف وہ بے گھر ہوتی بلکہ اسے دوسری جگہ نکاح کرنے میں بھی دقّت پیش آتی کیوں کہ اس طرح اس کے اخلاق سے متعلق شبہات پیدا ہو سکتے تھے۔

مالک رام نے ’وارثہ‘ کے عنوان کے تحت ایک باب قائم کیا ہے۔ یہ ایک اہم باب ہے جس کا تعلق خالصتاً معاش کے لیے اور سماجی حیثیت کا تعین کرنے میں اہم ثابت ہوتا ہے۔ دنیا میں مال واسباب انسان کی اہم ضرورت، جینے کا ذریعہ اور سماجی مقام اور وقار کے حصول میں اہم سبب خیال کیا جاتا ہے۔ اسلام نے اسی وجہ سے دولت کی تقسیم میں اعتدال اور توازن برقرار رکھنے کے لیے بنیادی اصول اور قوانین بنائے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں زکوٰۃ اور صدقہ کا باقاعدہ ایک نظام موجود ہے۔ جس کے لیے بیت المال کا تصوّر بھی موجود ہے۔

سود کی حرمت بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس کے بہت سے نقصانات ہیں۔ اسی طرح وصیت اور میّت کے ترکے کی تقسیم کے بھی خاص اصول و قوانین ہیں۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ نساء میں باقاعدگی سے ان اصولوں کو ربّ کائنات نے بیان کر دیاہے۔ مالک رام نے الگ الگ عناوین کے تحت قرآن اور احادیث کی روشنی میں وصیت کے اصول،وصیت کی مستقل اہمیت، وصیت کو معتبر اور مضبوط بنانے کے لیے شہادت کے طریقوں اور قرائن سے شہادت مرتب کرنے کا جواز، میت کے قرض کی اس کے مال سے ادائیگی، وراثت کی تقسیم اور اس کے اصول پر ٹھہر کر گفتگو کی ہے۔ جس سے ان کی محققانہ دقت نظری کا ثبوت ملتا ہے۔

 مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مالک رام کا محبوب میدان اسلامیات ہے۔ وہ قرآن اور حدیث کی بہترین فہم رکھتے ہیں۔ ان کا انداز بے حد دو ٹوک، بے لاگ اور منصفانہ ہے۔ وہ دلیلوں کی روشنی میں گفتگو کرتے اور بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔ انھوں نے محقق اور معروضیت کے ساتھ مواد کی چھان پھٹک کی ہے۔اسلامی قوانین کی روشنی میں عورت کا مقام طے کیا ہے اور اس کے حقوق کی وضاحت کی ہے۔ ان کے نزدیک متن بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ تاریخی شواہد کو بھی وہ پیش نظر رکھتے ہیں۔

انھوں نے تنگ نظری سے کہیں بھی کام نہیں لیا ہے اور نہ ہی غیر معتبر حوالوں کو شامل کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ماخذ کے حصول میں حد درجہ احتیاط برتا ہے اور اس مواد کو ترتیب اور سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ان کی زبان سنجیدہ اور متین ہے اور طرز استدلالی اور منطقیانہ ہے۔ ایک محقق کی زبان اور ظرز جس طرح کا ہونا چاہیے مالک رام اس کسوٹی پر کھرے اترتے ہیں۔