اسلام نوسنتارا: کیا ہے خاص اور کیوں ہے توجہ کا مرکز

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-07-2023
اسلام نوسنتارا: کیا ہے خاص اور کیوں ہے توجہ کا مرکز
اسلام نوسنتارا: کیا ہے خاص اور کیوں ہے توجہ کا مرکز

 

 منصور الدین فریدی ۔ آواز دی وائس

دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک انڈونیشیا اب دنیا میں مسلم آبادی یا تاریخ کے بجائے نئی مذہبی اصلاحات کے لیے سرخیوں میں ہے۔مشرق وسطی سے اٹھے شدت پسندی کےہر طوفان نے دنیا کے تمام ممالک کو متاثر کیا خواہ وہ اسلامی ہویا نہیں۔ نئی نسل شدت پسندی اور دہشت گردی کی زد میں آئی۔ کسی ملک میں قانون کو سخت کیا گیا تو کہیں سزاوں کو ۔ مگرانڈونیشیا نے اس مسئلہ کی جڑ کو تلاش کیا اور مذہبی اصلاحات کے دروازے کھولے اور نئے تجربے شروع کئے جن میں ایک تھا اسلام نوسنتارا۔۔۔۔۔

در اصل بنیادی طور پراسلام نوشنترا اسلام کا ایک فعال طور پرمنتخب کردہ 'متبادل' ورژن ہے جسے 2015 میں انڈونیشیا میں اسلامی اسکالرز کے ایک گروپ نے تشکیل دیا ہے۔ یہ داعش  کی بنیاد پرستی کے خطرے کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ اسلام کے اس ورژن کا بنیادی ایجنڈا قومی ریاست کے تصور کی حفاظت کرنا اور اسلامی تعلیمات کی اعتدال پسند اقدار کی وکالت کرنا ہے جو کسی قوم کے ثقافتی اور سیاسی پہلوؤں میں مداخلت نہ کریں۔ یہ ’جہاد‘ کے تصور کو قدیم اسلام کی انتہائی تعلیم کے طور پر رد کرتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسلام کے اس 'اصلاح شدہ' ورژن کی نگرانی نہضہ العلماء نامی علماء کے ایک گروپ کے ذریعے کی جاتی ہے جو انڈونیشیا کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

 ملک کے علما اس پر متفق ہیں کہ اسلام نوسنتارا ایک ایسا نظریہ ہے جو دہشت گردی اور انتہاپسندی کا شکار دیگر ممالک کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ملک میں انتہاپسندی کو روکنے کے لیے گزشتہ چند دہائیوں سے اسلام نوسنتارا کے نظریے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کا مقصد اسلام کو مقامی رسم و رواج کے مطابق ڈھالنا ہےیا دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اس پر سے عرب مزاج کو ختم کرنا ہے

بلاشبہ اس خطے میں اسلام  عرب سے ہی آیا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ خطہ کے  مسلمان معاشرتی اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں سے مختلف رہے ہیں۔آپ کو اصطلاح کے بارے میں بتا ئیں کہ اسلام نوسنتارا دراصل وہابی اورسلفی اسلام کے برعکس مقامی رسم ورواج کو مسترد نہیں کرتا ہے۔نوسنتارا اس خطے کو کہا جاتا ہے اور اسلام نوسنتارا سے مراد اس خطے میں اسلام کا خاص مزاج ہے جس سے مقامی معاشرت جھلکتی ہے۔ انڈونیشیا میں اسلام پھلینے کی ایک بڑی وجہ یہاں آنے والے صوفی مسلمانوں کا معتدل رویہ تھا۔

ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دراصل اسلام نوسنتارا بنیادی طور پر انڈونیشیا میں اسلام کی مخصوص شکل ہے، جس کا مقصد خطے کے مسلمانوں میں مقامی شناخت کو مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ یہاں بسنے والے مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگوں سے اختلاف کے باوجود رواداری، برداشت کا مظاہرہ کریں۔

مشرق وسطی میں شدت پسندی کے کئی اسباب ہیں سیاسی بھی اور مذہبی بھی۔ جن کے اثرات دنیا بھر پر پڑتے ہیں۔ افغانستان سےپاکستان اور یورپ سے امریکہ تک  دہشت گردی سر اٹھاتی رہی ہے۔ جبکہ ایسا پچھلی دہائی میں انڈونیشیا میں بھی ہوا تھا۔ شدت پسندی کے نمونے سامنے آئے تھے جس کے بعد ملک کی مذہبی قیادت نے حکومت کی خواہش پر نئی نسل کو انڈونیشیا کی  سماجی اور ثقافتی جڑوں سے مضبوطی کے ساتھ جوڑنے کی پہل کی شروع کی تھی۔

کیا ہے پیغام

 انڈونیشیا اسلام نوشنترا نے ہمیں سکھایا ہے کہ عقیدے کی لوکلائزیشن انتہا پسندانہ نظریات کے امکانات کو بہت حد تک کم کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہندوستان میں بھی گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا جارہا ہے اپنی اس تہذیب کو زندہ یا مقبول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جو ملک کو ہمیشہ پر سکون رکھنے کی ضامن بن سکتی ہے۔

انڈونیشیا نے اس حکمت کا استعمال کرکے شدت پسندی کو قابو میں کیا ہے۔ اسی کے سبب انڈونیشیا کے مدارس اپنی فقہ کی تعلیم میں بحت المسائل ماڈل کے معتدل کردار کے مرہون منت ہیں۔ جس کی قیادت ایک عالم دین کرتے ہیں اور اس میں مرد اور خواتین دونوں ہی شرکت کرتے ہیں۔ یہ سیکھنے کا ماڈل انڈونیشیائی مسلمانوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے مقامی تناظر میں فقہ کی تشریح کر سکیں۔

اب مذہبی اور سماجی سطح پر سمجھا جارہا ہے کہ ایسی تشریح ہندوستان میں بھی ضروری ہے تاکہ اسلام کو مقامی تناظر میں سمجھا جا سکے۔ صوفی روایت نے بھکتی روایت کے بہت سے اجزاء کو اپنایا جس نے آخر کار ہم آہنگی کی ثقافت کی ترقی میں مدد کی۔ انڈونیشیا کے ماہرین بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ اسلام نوشنترا کے ذریعے ایک غیر ضروری خوف کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے جس کا اسلام کے ساتھ تعلق ہے۔

انڈونیشیا کے ممتاز اسکالر پروفیسر ڈاکٹر فرید اطلس نے بی بی سی کو ایک انٹر ویو میں بتایا تھا کہ ۔۔۔ 'اسلام نوسنتارا دراصل وہابی اور سلفی اسلام کے برعکس مقامی رسم ورواج کو مسترد نہیں کرتا۔ انڈونیشیا میں اسلام پھلینے کی ایک بڑی وجہ یہاں آنے والے صوفی مسلمانوں کا معتدل رویہ تھا۔

محقق اور اسلامی سکالر ڈاکٹر احمد نجیب برھانی نے بھی بی بی سی کو بتایا تھا کہ  ملک میں انتہاپسندی کو روکنے کے لیے گزشتہ چند دہائیوں سے اسلام نوسنتارا کے نظریے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کا مقصد اسلام کو مقامی رسم و رواج کے مطابق ڈھالنا ہے۔

اسلام نوسنتارا بنیادی طور پر انڈونیشیا میں اسلام کی مخصوص شکل ہے، جس کا مقصد خطے کے مسلمانوں میں مقامی شناخت کو مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ یہاں بسنے والے مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگوں سے اختلاف کے باوجود رواداری، برداشت کا مظاہرہ کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام نوسنتارا ایک ایسا نظریہ ہے جو دہشت گردی اور انتہاپسندی کا شکار دیگر ممالک کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے قابل غور بات یہ بھی ہے کہ انڈونیشیا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جو کسی بھی تبدیلی کے باوجود اب بھی بڑے پیمانے پر اسلام کے زیر اثر کام کرتا ہے ۔

ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب

 ہندوستان سمیت کئی ممالک اب اسی انڈونیشیائی ورژن کو پسند کررہے ہیں ۔ماہرین مان رہے ہیں کہ  جو لوگ ذاتی فائدے یا دیگر ایجنڈوں کے لیے اسلامی تعلیمات کا غلط استعمال، توڑ پھوڑ اور توڑ مروڑ کر رہے ہیں انہیں الگ تھلگ کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ صوفی روایت نے ہمیں سکھایا ہے، نفرت کا مقابلہ صرف محبت سے کیا جا سکتا ہے اور یہ محبت آسانی سے اسلام کے پسند کرنے والے فراہم کر سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں ممتاز سیاسی تجزیہ کار گوتم چودھری لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ ہندوستان ایک کثیر العقیدہ ملک ہونے کے ناطے انڈونیشیا کے اسلام نوشنترا کے ماڈل کی پیروی کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ تاہم ماڈل کو ہندوستانی ورژن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اسلامی انتہا پسندی کا مسئلہ دونوں ممالک کے لیے یکساں ہے۔

ہندوستان میں اودے پور کے  قتل کی طرح انڈونیشیا کو بھی 90 کی دہائی کے آخر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ تھا۔ بین المذاہب تنظیموں کی تشکیل اور تعمیری مکالمے کے ذریعے اس کا حل نکالا گیا جس کے نتیجے میں بالآخر اسلام نصرت کی تخلیق ہوئی۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ  انڈونیشیا سے سیکھتے ہوئے ہندوستان مقامی ثقافت کو اسلام کے ساتھ شامل کرتے ہوئے اور مذہب کو محبت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کا ذریعہ بنا کر اسلام نوشنترا کا اپنا ورژن تیار کر سکتا ہے۔ جس میں صوفی امم کو فروغ دینے کی مہم چھیڑی جاسکتی ہے