انڈونیشیا : یحییٰ ’جوکر‘ کے لباس میں پڑھاتے ہیں بچوں کو قرآن پاک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-05-2021
ایک مدرسہ ایسا بھی۔۔۔۔۔
ایک مدرسہ ایسا بھی۔۔۔۔۔

 

 

منصور الدین فریدی ۔نئی دہلی

یہ کہانی انڈونیشیا کی ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی والا ملک۔،ایک پرسکون سرزمین۔جہاں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کے ایک انوکھے انداز کو دنیا بھر میں پسند کیا جارہا ہے۔کوئی حیران ہے اور کوئی پریشان ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ انوکھا انداز کا تجربہ کامیاب ہے۔ بات ہے ایک ’یتیم خانہ کی اور ایک استاد محترم کی ۔یہ یتیم خانہ اور مدرسہ ذرا نہیں بلکہ بہت انوکھاہے۔اس میں استاد محترم یعنی ’مولانا‘ صاحب بھی ہیں اور بچے بھی ہیں۔مگر قرآن پاک کی تعلیم دینے کا اندازاتنا مختلف ہے کہ دنیا چونک گئی۔کیونکہ جو’مولوی صاحب‘بچوں کےساتھ سخت گیری کےلئے مشہور رہتے ہیں،وہ اس کلاس روم میں کرتا پائجامہ یا چوغہ، داڑھی اور ٹوپی کے ساتھ، ہاتھ میں جھڑی لے کر نظر نہیں آتے ہیں بلکہ ان کے جسم پرہوتا ہے ۔جوکر‘ کا لباس ۔رنگ برنگا لباس۔ چہرے پرسرخ ناک ۔ گالوں پر پاوڈر۔مگر یہ ’جوکر‘بچوں کو ہنستے ہنساتے پڑھا رہا ہے قرآن پاک۔ جن بچوں کا پہلےاسلامی کلاس میں دل نہیں لگتا تھا،جو قرآن پاک کا سبق یاد نہیں کر پاتے تھے۔ اب ہر روزہنستے کھیلتےقرآن پاک کے سبق یاد کررہے ہیں بلکہ حفظ بھی کررہے ہیں۔مطلب تجربہ کامیاب ہے۔اب سنئیے آگےکی کہانی۔اس کے مرکزی کردار کی زبانی ۔جو کہتا ہے کہ بچوں میں قرآن پاک پڑھنے کی دلچسپی پیدا کرنے میںکامیاب ہوگیا ہے۔ 

بلا شبہ یہ دنیا کا سب سے انوکھا یتیم خانہ اور مدرسہ ہے،جہاں سب کچھ انوکھےاندازمیں ہورہا ہے۔ یہ’جوکر کے حلیے میں جو’مولوی صاحب‘ ہیں،وہ انڈونیشیا کے یحیی ایڈورڈ ہنڈروان ہیں ۔جواپنے یتیم خانہ میں بچوں کو ایک انوکھے اندازمیں قرآن پاک کی تعلیم دیتے ہیں۔

 ہر کلاس سے قبل ’’میک اپ

دلچسپ بات یہی ہے کہ ہر کلاس سے قبل انہیں آئینہ کے سامنے بیٹھ کر اپنا میک اپ کرنا پڑتا ہے۔کوئی دیکھے تو اس کو لگے گا کہ وہ کسی پارٹی میں جانے کےلئے تیار ہورہے ہیں ۔ مگر ایسا نہیں ہے۔جکارتہ میٹروپولیٹن علاقہ میں تیسرا سب سے بڑا شہر تنگیرنگ میں واقع اپنے یتیم خانے میں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینےکے انوکھے بھیس کےلئے تیاری اورمحنت کرنی پڑتی ہے۔سفید ٹوپی اور نیلے اور پیلے رنگ کے کرتے میں 38 سالہ یحییٰ نے کہا مجھے 11 سال ہوچکے ہیں جب میں نے مسخرے کی طرح ڈریسنگ کرنا اور تفریحی انداز میں قرآن کی تعلیم دینا شروع کی۔میک اپ اور جوکر لباس پہننے میں صرف 10 منٹ لگتے ہیں۔ ان کا پانچ سالہ بیٹا مرزا بھی اپنے والد کوجوکرکالباس پہنانے میں مدد کرتا ہے۔

awazurdu

یحییٰ مدرسہ میں بچوں کو تعلیم دیتے ہوئے 

روزگار نہیں شوق بن گیا

 انہوں نے کہا ، "میں یتیم خانے میں پڑھانے کے لئے رقم وصول نہیں کرتا ہوں۔ تاہم ، خاص پارٹی اور محفلوں میں بہروپیہ یا جوکر کی حیثیت سے کام کرکے اپنی آمدنی کو پورا کرتاہوں۔وہ کہتے ہیں کہ مسخر کے طور پر پیسہ کمانا اب ممکن نہیں ہے ،کیونکہ اب ایسے کام بہت کم مل رہے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ ایک چھوٹا اسٹال کھولنے اور اپنی اہلیہ کے ذریعہ تیار کردہ ناشتے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

یہاں تک کہ کورونا  وبائی امراض کے دوران ، یحییٰ بچوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ ہیلتھ پروٹوکول کی پیروی کرتے ہوئے ، اپنے آپ کا دفاع کرنے اور دوسروں کو کورونا وائرس سے بچانے کے لئے چہرے پرماسک کے ساتھ شیلڈ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔

اہل خاندان اور پڑوسی ہوگئے ناراض

 یحییٰ کا کہنا ہے کہ جوکر کے حلیے میں مجھے بچوں کی توجہ اپنی طرف راغب کرنا میرے لئے آسانی ہوتی ہے۔مگر یہ ضرور تھا کہ لوگوں نے اس انداز کو پسند نہیں کیا ۔جب اس نے سب سے پہلے مسخرے کے لباس پہنے ہوئے قرآن کی تعلیم شروع کی تو اسے اپنے کنبہ اور پڑوسیوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد نے کہا کہ وہ مجھے ایک جوکرکے حلیےمیں دیکھ کر شرمندہ ہیں، اور میری اہلیہ نے مجھے ایک اور نوکری تلاش کرنے کا مشورہ دیا ، مگر اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ اب اس نے یہ ذمہ داری قبول کرلی ہے اس لئے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔

لباس اور حلیہ مددگار ثابت ہوا

یحییٰ کے مطابق، جوکر کے لباس میں تعلیم دینا زیادہ کامیاب ثابت ہوا ہے ، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بچے سبق کو تیزی سے سیکھتے ہیں اور حفظ کرنے کے خواہشمند ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے میں نے لباس پہننا شروع کیا تھاتو یہ بات ذرا مختلف تھی۔ بچے قرآن سیکھنے کے بارے میں غیر سنجیدہ نظرآتے تھے،اب تو بچے میرے سبق کو بڑی تیزی کے ساتھ یاد کر لیتے ہیں اورحفظ کرنے میں جٹ جاتے ہیں۔

وہ کلاس کو مزید دلچسپ بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ،جس کےلئے وہ بچوں کو کچھ میجک دکھاتے ہیں ،ہاتھ کی صفائی کا نمونہ پیش کرتے ہیں بعض اوقات اسلام کے بارے میں سوالات کے جوابات دینے پر بچوں کو انعام دیتے ہیں۔یحییٰ کہتے ہیں کہ میں عام طور پر یہ چھوٹے چھوٹے تحائف تقسیم کرنے کے بعد اپنی کلاس شروع کرتا ہوں ،جس کےلئےوہ اپنی جیب سے پنسل باکس اور نوٹ بکس رکھتے ہیں۔

awazurdu

یحییٰ ایک بچے کو قرآن پاک کا سبق یاد کراتے ہوئے 

شفقت سے تعلیم دینا

یحییٰ نے یتیم بچوں کی تفریح کو قرآن کے مطالعہ کی ترغیب بنا دیا۔ان کا کہنا ہے کہ اگر بچے ان کی ایک کوشش سے پل بھر کےلئے خوش ہوجاتے ہیں توان کامقصد پورا ہوجاتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ ایسے بچوں کو خوش رکھا جائے جو اپنے والدین کو گنوانے کے غم اور دکھ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

بچوں کو پڑھنے کی ترغیب

ایسا نہیں ہے کہ یتیم خانہ کے بچوں کو صرف قرآن پاک کی تعلیم کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہو۔ اپنی کلاس ختم کرنے کے بعد ، یحییٰ عام طور پر اپنے پڑوس میں گھومتے ہیں اور بچوں کو پڑھنے کی ترغیب دینے کے لئے مختلف کتابیں لاتے ہیں۔ وہ نہ صرف کتابیں بانٹتے ہیں ، بلکہ ان کے حوصلہ افزائی کے لئے بچوں کو اسلامی موضوعات کی کہانیاں بھی پڑھاتے ہیں۔انہوں نے کہا میں بچوں کو زیادہ کتابیں پڑھنے اور گیجٹ پر کم کھیلنے کی ترغیب دینا چاہتا ہوں۔ وہ ابتک کے سفر سے مطمین ہیں ،کہتے ہیں کہ وہ تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور دوسروں کی مدد کےلئے ہر پل تیار رہیں گے۔