ہماری آزادی: ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-08-2021
ہماری آزادی
ہماری آزادی

 

 

awazurdu

پروفیسر اخترالواسع

تمام اہل وطن کو یومِ آزادی مبارک۔ یہ ہماری آزادی کا وہ پڑاؤ ہے جب ہم آزادی کے 74 جشن مناکر 75 ویں سال میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ آزادی ہمیں بیٹھے بٹھائے مفت میں نہیں حاصل ہوئی بلکہ اس کے لئے 1757 میں سراج الدولہ نے پلاسی میں اپنی جان نچھاور کی۔ 1799 میں سرنگا پٹم میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اعلان کر دیا تھا کہ اب ہندوستان ہمارا ہے۔ 1857 میں بہادر شاہ ظفر، مرزا بخت خاں، رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، نانا جی پیشوا، تانتیا ٹوپے، منگل پانڈے، مولانا احمد اللہ اور فضل حق خیرآبادی کی قربانیوں کے نتیجے میں تحریک آزادی کی بنیاد پڑی۔

 سن 1857 میں جو پہلی جنگ آزادی لڑی گئی اس کی ناکامی کے بعد 90 سال تک ہمارے پُرکھوں نے انگریزوں سے جنگ کی اور وہ راجہ مہیندر پرتاپ ہوں یا برکت اللہ بھوپالی، شیخ الہند مولانا محمود حسن ہوں یا مولانا عبیداللہ سندھی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ہوں یا سیف الدین کچلو، جلیاں والا باغ ہو یا چوری چورا، شہید بھگت سنگھ ہوں یا رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خاں ہوں یا چندر شیکھر آزاد، ان سب نے اپنا خون پسینہ دے کر ہماری جدو جہد آزادی کی کہانی کو سرخی عطا کی۔

مہاتما گاندھی ہوں یا ان سے پہلے تلک اور گوکھلے، لالا لاجپت رائے ہوں یا سردار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر راجیندر پرساد ہوں یا سی راج گوپال آچاریہ، ڈاکٹر امبیڈکر ہوں یا اینی بیسنٹ اور سروجنی نائیڈو، سب نے اپنے گھروں کو چھوڑا، اپنی آرام و آسائش کو تج کر ہرتکلیف اٹھائی،جیلوں کی کال کوٹھریوں میں رہنا منظور کیا، مگر غیرملکی انگریزی سامراجیت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ کون سا ایسا ستم تھا جو انگریزوں نے نہ ڈھایا ہو اور صبر و تحمل کا وہ کون سا نمونہ تھا جسے آزادی کے متوالوں نے اپنے کردار سے پیش نہ کیا ہو۔

- 15 اگست 1947 کو جو آزادی ملی وہ تقسیم وطن کے خون سے نہا کے آئی تھی۔ دیارِ غیر سے جو بیگانے آئے تھے، جاتے جاتے وہ اپنوں کو اپنوں سے جدا کر گئے اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد ادھر سے ادھر ہو گئی لیکن خدا بھلا کرے اس وقت ہمارے پاس گاندھی تھے جنہوں نے اپنے خون سے نفرت کی آگ بجھائی۔

 نہرو تھے جنہوں نے کار کے بونٹ پر کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ کی چھڑی سے فرقے وارانہ جنون کو قابو میں کیا۔ سردار پٹیل تھے جنہوں نے عزم اور حوصلے کے ساتھ ہندوستان کو ایک جُٹ کرنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوئے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے ہمیں حُریت، اخوت اور مساوات پر مبنی وہ دستور دیا جس نے ایک بار پھر ہندوستانی سماج میں بسنے والے تمام لوگوں کو شیر و شکر کرنے کی کوشش کی۔

 ہمارے پاس اس وقت خیر سے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد تھے جو دہلی کی تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر ہمت شکن ماحول میں حوصلے کی جوت جگا سکتے تھے اور ہجرت پر آمادہ لوگوں کو ایک بار پھر اس ملک سے اپنی قسمت وابستہ کر لینے کے لئے آمادہ کر سکتے تھے۔

 جب نفرت، وحشت اور دہشت کا کاروبار تھما تو پھر نئے ہندوستان کی تعمیر کے لئے منصوبہ بندی کی گئی، ادارہ سازی ہوئی، تعلیم کو ترجیحات میں شامل کیا گیا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے نئے ادارے بنائے گئے۔ ملک میں اناج کی قلت نہ ہو اور دوسروں پر غذائی مدد کے لئے انحصار نہ ہو اس کے لئے زرعی اصلاحات کا آغاز ہوا۔ ہل اور بیل کی جگہ ٹریکٹر کو دی گئی۔

بجلی اور توانائی میں خود کفیل ہونے کے لئے بھاکڑا ننگل ڈیم تیار کرنے پر زور دیا گیا۔ ملک میں تعلیم اور خواندگی کو بہتر بنانے کے لئے اسکولوں کے جال پھیلائے گئے، کالج قائم کیے گئے اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں، جس کے نتیجے میں وہ شرح خواندگی جو 1947 کے آس پاس تقریبا 18 فیصد تھی وہ آج تقریباً 72 فیصد سے زائد ہو چلی ہے۔

 صحت کے میدان میں بھی ہم نے پاس پڑوس کے ملکوں میں ہی نہیں دور دور تک اپنی ساکھ قائم کی ہے۔اسی طرح کمپیوٹر کی دنیا میں سافٹ ویئر میں ہمارا آسانی سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسی لیے امریکہ میں بھی سلی کون ویلی میں کمپیوٹر سافٹ ویئر کی دنیا میں ہندوستانیوں ہی کا دبدبا ہے۔

اسی طرح نئی اور ترقی یافتہ شکل والی سڑکوں کے جال نے زمیں کی طنابیں کھینچ لی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں اب بہت کم وقت لگتا ہے۔اسی طرح آئی ٹی میں غیرمعمولی ترقی نے فصل وفراق کے تمام تصورات کو بے معنی بنا دیا ہے اورموبائل نے ساری دنیا کو آج ہندوستان میں بھی ہر ہندوستانی کی مٹھی میں سمیٹ دیا ہے۔

 یہ سب بھی اس کے باوجود ہوا کہ ہمارے دفاعی اخراجات غیرمعمولی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اپنی سماجی سروکاروں کی اہمیت کو ہم نے کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ ہم نے اگر ایک طرف سی ایس آئی آر، آئی سی اے آر جیسے ادارے بنائے تو دوسری طرف ہم نے آئی سی سی آر، آئی سی ایس ایس آر، آئی سی ایچ آر جیسے اداروں کے قیام میں بھی کوئی تکلف نہیں کیا۔

اپنی ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کو جلا بخشنے کے لئے ساہتیہ اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی، فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا جیسے ادارے قائم کئے اور انہوں نے ساری دنیا میں ہماری حیثیت اور مرتبے کو دوبالا کیا۔

 ہندوستان اور اس کی قیادت نے ہمیشہ امن و خیرسگالی، پنچ شیل نان الائنڈ پالیسیوں کو اپنایا، لیکن ایک دفعہ چین اور تین دفعہ پاکستان نے ہم پر زبردستی جنگوں کو تھوپ دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں اپنی قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ دفاعی تیاریوں اور اخراجات پر لگانا پڑا۔لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ ڈی آر ڈی او، ایٹامک ریسرچ سینٹر اور اِسرو جیسے اداروں کے قیام نے نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ دنیا میں ہماری دفاعی حیثیت کو سب سے تسلیم کرا لیا۔

 آج ہندوستان نہ صرف اپنے ریجن بلکہ دنیا میں ایک الگ حیثیت کا مالک ہے۔ وہ حیثیت جس میں نہ خود غرور کا مظاہرہ کرنا ہے اور نہ کسی کو بلاوجہ خوفزدہ کرنا،ہماری خارجہ پالیسی الطاف حسین حالیؔ کے لفظوں میں صرف اتنی سی ہے کہ ”خاکساروں سے خاکساری ہے، سربلندوں سے انکسار نہیں۔“

 آج ہندوستان قدامت کے دور سے نکل کر جدیدیت کے لئے جانا جاتا ہے۔ آج ہمارا ملک خود کفیل بھی ہے۔ ہماری جمہوریت مضبوط اور مثالی بھی ہے، ہمارا سیکولرزم آج بھی ایک نمونہ ہے جس کی بنیاد مغرب کی محض مادہ پرستی پر نہیں بلکہ خدا پرستی اور انسان دوستی پر ہے۔ آج اگر ہندوستان میں کہیں کوئی بھید بھاؤ نظر آتا ہے تو اس کے خلاف فکرمندی کا اظہار کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی کھل کر سامنے آتی ہے اور یہی ہندوستان کی طاقت بھی ہے۔

 ہندوستان کثرت میں وحدت کا مظہر والا ملک ہے۔ یہاں کا ہندو ساری وسودھا کو کٹمب مانتا ہے اور مسلمان ساری مخلوق کو اللہ کا کنبہ سمجھتا ہے، اور یہی معاملہ دیگر مذاہب کی روایتوں کا بھی ہے۔ اور جو ایسا نہیں سمجھتا وہ بھارت ماں کا سگا نہیں ہے۔ آئیے مرزا غالبؔ کے الفاظ میں اس یومِ آزادی کے موقعے پر ہم سب مل کر اس کی تمنا کریں کہ:

 ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا

 ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

 (مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)