ہوڑہ: ایک یہودی خاتون کا سہارا جس نے مامون اختر کو ’’سر سید‘ بنا دیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-03-2023
 ہوڑہ: ایک یہودی خاتون کا سہارا جس نے مامون اختر کو ’’سر سید‘ بنا دیا
ہوڑہ: ایک یہودی خاتون کا سہارا جس نے مامون اختر کو ’’سر سید‘ بنا دیا

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

مدد، عقیدے نہیں ضرورت کی بنیاد پر ۔۔۔۔۔ اس یقین کے ساتھ مامون اختر نے جس تعلیمی مہم کا آغاز کیا تھا ۔اس میں ایک یہودی خاتون کے دس ہزار روپئے کی مدد ،ایک کمرے تک محدود اسکول کے لیے پہلا سہارا بنی۔اس کے بعد ممبئی کے رمیش کچولیا نے انہیں دوسرا بڑا سہارا دیا ۔ جبکہ ایک یہودی خاندان کے ربیکا بیلیئس ٹرسٹ کی زمین نے ان کے خوابوں کو پر لگا دئیے جس کے سبب مامون اختر کا تعلیمی جہاد اب ایسا رنگ لایا ہے کہ بنگال میں ہوڑہ کے ٹکیہ پاڑا میں دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔جسے اب اہل بنگال سامیریٹن ہیلپ مشن کے نام سے جانتے ہیں ۔ جس کی زیر سایہ اب چار اسکول ۔۔۔ سامیریٹن مشن اسکول، ایک اسپتال ،ایک وکیشنل ٹریننگ سیٹراور ایمبولینس سروس رواں دواں ہیں ۔

اہم بات یہ ہے کہ اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے نوے فیصد بچے مسلمان ہیں جو پسماندہ اور ضرورت مند خاندانوں کے مستقبل کی امید ہیں ۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ حال ہی میں ایک برطانوی ادارے نے سو اسکولوں میں ٹاپ 10میں شامل کیا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مامون اختر کے اس تعلیمی مشن کوخود مسلمانوں کی جانب سے کوئی ٹھوس مدد یا سہارا نہیں ملا ۔

جی ہاں ! مامون اختر کے تعلیم سے محروم رہنے کے بعد تعلیمی جنون کی جس نے ہوڑہ کے ایک پست اور جرائم زدہ علاقے میں ٹکیہ پاڑا میں انقلاب پرپا کردیا ۔ تعلیم کے نام پر جو مہم شروع کی اس نے تحریک کی شکل اختیار کی بلکہ اب تعلیم کے ساتھ اب روزگار اور صحت سے بھی جڑ چکی ہے۔ یہ ایک ایسی چھت ہے جس کے نیچے تعلیم پانے والے بچوں کے والدین کے لیے مفت علاج بھی مہیا کیا جاتا ہے اور خاندان کی خواتین کو روزگار سے جوڑنے کے لیے مختلف تربیتی کورسیز کرائے جاتے ہیں،ان بنیادی ضروریات کو بھی پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کے بغیر بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

 

 

مامون اختر کے خوابوں کی تعبیر ۔ ایک کمرے سے چار اسکولوں کا سفر 

وہ ہاتھ جنہوں نے سہارا دیا

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے مامون اختر نے  کہا کہ میں نے اپنی قوم کی تعلیمی پستی کو دور کرنے کےلیے جو تحریک شروع کی تھی اس میں ننانوے فیصد غیر مسلموں بشمول یہودیوں نے مدد کی جبکہ مسلمانوں میں صاحب حیثیت بھی حرکت میں نہیں آئے ۔بلاشبہ اب مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا ہوئی ہے لیکن ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ ہندو یا مسلمان سے نہیں بلکہ انسان سے کام لیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میں نے ٹکیہ پاڑا میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے جو بیڑا اٹھایا تھا اس میں پہلی مدد ایک یہودی خاتون لی ایلیسن سیبلی کے نام رہی جو کے امریکی سفارت کار کی اہلیہ تھیں ،اس کے بعد جو ہاتھ آگے آیا وہ ممبئی کے ایک کاروباری رمیش کچولیا کا تھا۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ مہم کس مذہب کے ماننے والوں کے لیے ہے ۔

 لی ایلیسن اسکول کا دورہ کرتے ہوئے

 مامون اختر کہتے ہیں کہ تین سو اسکوائر فٹ کے کمرے سے جس مہم کا آغاز کیا تھا اب وہ کئی ایکڑ پر واقع سمیریٹن ہیلپ مشن کی شکل میں سامنے ہے اور نہ صرف تعلیم بلکہ خواتین کے روزگار اور صحت سے سول سروسیز کی کوچنگ تک اپنے پر پھیلا چکی ہے۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے مامون اختر  کہتے ہیں کہ  میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ مجھے اس طرح کی مدد ملے گی، کیونکہ ابتدائی طور پر انفرادی مدد ملی لیکن پھر ایک یہودی خاندان کی زمین کو حاصل کرنے میں کامیابی ملی ۔جس میں ہوڑہ پولیس نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ ڈیڑھ سو سالہ پرانے ٹرسٹ کی زمین پر مافیاوں کا قبضہ تھا ،پولیس نے زمین کو خالی کرایا  دراصل جس پولیس کے بارے میں عام رائے کبھی اچھی نہیں رہتی اس نے میرے خواب کو حقیقت میں بد لنے میں اہم کردار ادا کیا ۔

تعلیم سے محرومی سے ماہر تعلیم تک 

مامون اختر ایک ایسے  بچے رہے تھے ،جو تعلیم سے محرومی کا شکار تھا ۔ جس کا سبب غربت بھی تھا اور ماحول بھی،سہولیات کی کمی بھی ۔ لیکن اہم بات یہ تھی کہ اس کے دل میں تعلیم کی کسک  نے  ہزاروں بچوں کے لیے ایسی چھت کا انتظام کردیا جہاں وہ کم سے کم تعلیم سے محروم نہ رہیں ۔ وہ بچہ اب 55 سالہ مامون اختر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔جو مغربی بنگال میں چار اسکولوں  کا بانی ہوگیا ۔جن میں فی الحال 6,000 سے زیادہ طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔جن کی نظر میں سب کا ساتھ سب کا وکاس ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ مامون اختر کا کہنا ہے کہ میرے اسکول میں مذہب کے نام پر کوئی بھید بھاو نہیں۔

مامون اختر کہتے ہیں کہ ہمارا نشانہ آگے سال تک ان بچوں کی تعداد دس ہزار کرنے کی ہے ۔ جن میں اکثریت کا تعلق  ایسے خاندانوں سے ہے جن کے والد رکشہ چلاتے ہیں یا قلی ہیں۔ جیل میں ہیں یا معذ ور ہیں ۔ایسے خاندانوں کے بچوں کو نہ صرف اسکو ل تک لائے بلکہ اس بات کا بھی انتظام کیا کہ  کوئی تعلیم کو مالی پریشانی کے سبب نہ چھوڑے۔

 مامون اختر نے آواز دی وائس کو بتایا کہ ہم اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کسی بچے کے گھر پر اناج اور راشن کی کمی نہ ہو ۔اس لیے ضرورت مندو ں کے گھروں پر اناج پہچانے کی ذمہ داری بھی نبھاتے ہیں ۔ بیماری کی ضرورت میں طبی امداد بھی مہیا کرائی جاتی ہے۔

  پچھلے دنوں بڑی خبر یہ آئی کہ سمیریٹن مشن اسکول کو 2022 میں برطانیہ میں قائم ایک تحقیقی تنظیم نے دنیا کے 10 انوکھے اور متاثر کن اسکولوں میں شامل کیا ۔مامون اختر کی زندگی میں یہ ایک اور سنگ میل تھا ۔ جس کے بعد  مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی ٹویٹ کرکے مامون اختر کو مبارکباد دی تھی۔

کیا ہے مامون اختر کی کہانی

 مامون اختر آج ایک تحریک ہیں ،ایک مثال ہیں ،ہزاروں بچوں کے مستقبل کے نگہبان ہیں ۔ ان کی  پیدائش مغربی بنگال میں ہاوڑہ کے ٹکیاپارہ میں پیدا ہوئی تھی۔انہیں اسکول جانا اچھا لگتا تھا اور وہ اچھے طالب علم بھی تھے۔ مگر حالات کے سامنے مجبور ہوکرتعلیم چھوڑنی پڑی تھی لیکن وہ ہار ماننے والا نہیں تھے۔ انہوں نے ایک ٹیوشن ٹیچر کی مدد سے پڑھنا جاری رکھا اور اپنی کلاس 10 اور 12 کے امتحانات بطور پرائیویٹ امیدوار کے طور پر دیے۔اسکول چھوڑنے کے بعد مامون اختر  نے اسی دن نرسری سے لے کر کلاس ون تک کے طلبا کے لیے ٹیوشن فراہم کرنا شروع کر دیا تھا۔  وہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسے علاقے میں پلا بڑھا جہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ تھی۔ منشیات کی اسمگلنگ اور کاریں اور ان کے پرزے چوری ہونا عام زندگی کا حصہ تھا۔ اان کاموں میں اکثر خواتین اور بچے بھی ملوث پائے جاتے تھے۔

 مامون کی تعلیمی  جدوجہد

 وہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ ایک وقت اسکول  انتظامیہ نے انہیں طلب کیا اور کہا کہ فیس جمع نہ ہونے کے سبب امتحان میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئےمامون اختر کہتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو۔ کسی بھی طالب علم کو اسکول کے امتحانات لکھنے سے روکا نہیں جانا چاہیے یا فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اسکول سے نکالا جانا چاہیے۔ اگر میرے والد فیس نہیں دے سکتے تھے تو مجھے امتحانات لکھنے سے کیوں روکا گیا؟ آخر کار اسی سوچ اور نظریئے کے سبب سمریٹن ہیلپ مشن کی تشکیل کا باعث بنی۔

مامون اختر نے ایک اوپن لرننگ سنٹر سے ہائی اسکول پاس کیا۔ 1999 میں انہیں مقامی لائبریری میں ملازمت کی پیشکش کی گئی۔ یہ کام ان کی پچھلی ملازمتوں کے مقابلے میں بہت آسان تھا اور اس میں صرف چار گھنٹے کا کام تھا۔ اس سے انہیں اپنے پڑوس میں بچوں کو ٹیوشن دینے کے لیے کافی وقت مل گیا۔ انہوں نے اپنی ماں کو گھر کے اخراجات کے لیے لائبریری میں ملازمت کی نصف تنخواہ دی۔

جیب خالی مگر حوصلہ بلند

بچپن میں تعلیم سے محرومی کے بعد جب مامون اختر نے اسکول کا خواب دیکھا تھا تو اس وقت بھی ان کے پاس اس وقت معاش کا کوئی مستحکم ذریعہ نہیں تھا لیکن وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ وہ بچوں کو  تعلیم کے لیے مایوس نہ ہونا پڑے  انہوں نے کلاسز کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے محلے سے اخبارات اور پرانی کتابیں جمع کرنا شروع کر دیں۔

انہوں نے ان بچوں کو پڑھانے کے لیے کالج جانے والی کئی لڑکیوں کو اس مشن سے جوڑا۔انہیں ہر ماہ 100 روپے کی پیشکش کی۔ انہوں نے اپنے طلباء سے بھی درخواست کی کہ وہ اپنی تعلیم کے لیے ماہانہ 5 روپے کا عطیہ دیں۔ انہوں نے ان سے کہا کہ اگر وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو 5 روپے کے بجائے اخبارات اور پرانی کتابیں لا سکتے ہیں۔

میں نہیں چاہتا تھا کہ بچے یقین کریں کہ وہ بے سہارا ہیں، اس لیے انہیں مدد مل رہی ہے۔ انہیں یقین کرنے کی ضرورت تھی کہ ان کی تعلیم حاصل کی گئی تھی اور وہ اس کے مستحق تھے۔ لہذا چاہے یہ 1 روپے ہو یا 5 روپے، میں ان سے التجا کرتا ہوں کہ وہ ادا کریں۔  بقول مامون اختر تعلیم کا یہ انتظام ضرورت مندوں  کے لیےضرورت مندوں  کے ذریعے کیا گیا تھا۔

ایک مسیحا نے دیا پہلا سہارا

جب مامون اختر بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے تھے اس وقت ایک واقعہ ہوا جسے وہ حادثاتی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ2003 میں میں نے ایک اخباری تراشہ دیکھا جس میں اس وقت کے امریکی سفارت کار کی  اہلیہ نے شہر میں تنظیموں کو مدد کی پیشکش کی تھی۔ میں نے بھی انہیں  لکھا اور مجھے حیرت  یہ ہوئی کہ  لی ایلیسن سیبلی (امریکی قونصلیٹ کی بیوی) سے 10,000 روپے مل گئے۔ جو میری مہم کے لیے پہلا بڑا سہارا بن گئے تھے۔اس رقم کو بچوں کے لیے  کلاس اور بیت الخلا بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

سمریٹن ہیلپ مشن کا قیام سال 2001 میں سیبلی کے دورے کے فوراً بعد ہوا تھا۔

اس وقت انہوں نے کوئی تنظیم نہیں بنائی تھی اور وہ دوسروں کی طرح خود کو رضاکار سمجھتے تھے۔ انہیں  تنظیم شروع کرنے کے طریقہ کار کا علم نہیں تھا۔  آخر کار ایک وکیل نے جس کا حوالہ ان کے دوستوں نے دیا  تھا تمام ضروری معلومات فراہم کیں۔ رجسٹریشن کے اخراجات کے لیے رقم ادھار لے کر ادا کی اور اس طرح  مامون اختر نے سمریٹن ہیلپ مشن  شروع کیا۔

 سمیریٹن مشن اسکول کے نام سے ایک شریک تعلیمی انگریزی میڈیم ادارہ 2006 میں قائم کیا گیا تھا۔ 2008 میں ریاست مغربی بنگال نے اسے سرٹیفیکیشن دیا۔

ایک مضمون جو بنا دوسرا سہارا

 دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہودی خاتون کولکتہ آئیں تو انہوں ایک صحافی کو بھی طلب کیا تھا جس نے اس تعلیمی مہم پر ایک رپورٹ بنائی جو روزنامہ  ایشین ایج میں شائع ہوئی ، جس کا عنوان تھا ۔عقیدہ نہیں،ضرورت پر مبنی خدمت‘۔۔۔ اس مضمون نے اچانک ان کےمشن کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ  ممبئی میں مقیم رمیش کچولیا نے وہ مضمون پڑھا اور مالی مدد کی پیشکش کی۔

مامون اختر کہتے ہیں کہ اس رقم سے  کلاس رومز کے دروازے اور کھڑکیاں کی مرمت اور کچھ فرنیچر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 2000 ان سے جو رشتہ قائم ہوا تھا وہ اب بھی قائم ہے۔ وہ اب 80 سال سے زیادہ ہیں اور اس مقصد کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ میرے سرپرست ہیں جنہوں نے ہر قدم پر والد کی طرح میری مدد اور رہنمائی کی ہے۔۔

عطیات کی برکت

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مامون اختر کی مہم بہت جلد سرخیوں میں آئی اور ہندوستان بھر سے آنے والے عطیات کے ساتھ مامون زمین کا ایک بڑا پلاٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جہاں انہوں نے پہلا اسکول بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے بچے فرش پر بیٹھ کر پڑھتے تھے پھر ہم انہیں مناسب میزیں اور کرسیاں فراہم کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ہم نے یونیفارم متعارف کرایا اور اس نے ہر بچے میں اعتماد پیدا کیا ۔

مامون اختر کے مطابق 2008 تک اسکول کی عمارت بن کر تیار ہو گئی۔ انہوں نے نرسری کے لیے کلاس 3 تک طلباء کے اندراج کے ساتھ آغاز کیا۔ ہر سال ایک نئی کلاس کا اضافہ ہوتا رہا۔ 2014 میں، مامون نے اسکول کو بڑا اور بہتر بنانے کے لیے ایک اور بڑا قدم اٹھایا ۔ ٹکیاپاڑہ میں زمین کا ایک خالی پلاٹ تھا جو بیلیئس ٹرسٹ اسٹیٹ کا تھا، جو تقریباً 150 سال پرانا تھا لیکن مقامی غنڈوں اور ڈرگ مافیا نے اس پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ پوری کمیونٹی اور ہاوڑہ سٹی پولیس کی مدد سے وہ اپنے استعمال کے لیے وہ دو ایکڑ پلاٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔آٹھ سال بعد، 2016 میں، مغربی بنگال بورڈ نے اسکول کو تسلیم کیا۔

اسکول کے بچوں کے والدین کے ساتھ مامون اختر 

اب ماہر تعلیم ہیں

مامون اختر نے آواز دی وائس کو بتایا کہ انہوں نے آہستہ آہستہ اس مہم کا دائرہ وسیع کیا ۔ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کے خاندانوں پر بھی نظر رکھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بیشتر طلبا گھریلو حالات کے سبب ہی تعلیم کو چھوڑ دیتے ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم ایک بچے کو اسکول میں داخل کرتے ہیں تو ایک طرح سے  اس کے خاندان کی ذمہ داری بھی لیتے ہیں ۔ ان کے گھروں کی خواتین کو مختلف تربیتی کورس کے ساتھ روزگار سے جوڑتے ہیں ،بزرگوں کا مفت علاج کراتے ہیں تاکہ ان سب پریشانیوں کا بچوں کی تعلیم پر اثر نہیں پڑے ۔

 ان کی تعلیمی ادارے چلانے کی صلاحیت کے سبب ہوڑہ میونسپل کارپوریشن  نے اپنے تالا بندی کا شکار ایک اسکول کو ان کے حوالے کیا تھا۔ اس اسکول کو ان کی تنظیم نے دوبارہ زندہ کیا اور اب بھی اس کا انتظامیہ سنبھال رہی ہے۔

بیلیئس کی پرانی شان کی بحال  کا مشن 

یہ تعلیمی ادارہ بھی کوڑے کا ڈھیر بن گیا تھا جسے خود مامون اختر  نے بچپن سے دیکھا تھا،اس اسکول کے لیے زمین  آئزک رافیل بیلیئس (1846-1910) اور ریبیکا بیلیئس، ایک یہودی جوڑے نے عطیہ کی تھی جن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ بیلیلیس ٹرسٹ اسٹیٹ کے نام سے ایک ٹرسٹ تشکیل دیا گی تھاا، جس نے علاقہ کے ضرورت مند  بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے آئی آر بیلیئس انسٹی ٹیوشن قائم کیا تھا  مگر مامون اختر نے کہا کہ بچپن میں، اکثر وہ اور دوست بیلیئس انسٹی ٹیوشن کیمپس کے اندر تالاب میں تیراکی کے لیے جاتے تھے۔ اسے محلے کے اکثر بچے سوئمنگ پول کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اسے اپنے والد کی طرف سے ڈانٹا جانا یاد آیا جو تالاب میں ڈوبنے کے خوف کا شکار رہتے تھے۔ تالاب میں کھیلنا ان کے بچپن کی یادوں میں سے ایک تھی۔ تاہم بعد میں میونسپل کارپوریشن کی گاڑیوں کو اسی تالاب میں کچرا ڈالنے کا منظر چونکا دینے والا تھا۔

مامون اختر کی جدوجہد ، جس میں پولیس نے دیا بھرپور ساتھ

یہ ابتدائی واقعات میں سے ایک تھا جس نے ان میں اسکول کو بحال کرنے کی خواہش کو جنم دیا۔ اسکول کو بحال کرنے کا ارادہ غالباً مامون اختر کی ایک خواہش تھی-

نومبر 2014 میں، سمیریٹن ہیلپ مشن میں مامون کی ٹیم  نے ٹکیاپارہ کے ہر گھر کا دورہ کیا ،مقامی لوگوں کو  ملاقات کے لیے   بلیلیئس انسٹی ٹیوشن کے گراؤنڈ میں بلایا تاکہ اسکول اور اس کے احاطے میں موجود پانی کو کیسے  نکالاجائے۔ نومبر 2014 میں، اسکول میں 14 طلباء اور 16 اساتذہ تھے۔ مقررہ دن پر، ٹکیاپارہ اور اس کے محلوں سے ہر عمر کے 1,000 سے زیادہ مرد اور خواتین میٹنگ کے لیے آئے۔ مدعو کیے جانے والوں میں بیلیئس انسٹی ٹیوشن کے ٹرسٹی، ہاوڑہ سٹی پولس کمشنر اجے مکند راناڈے اور ٹکیاپارہ حلقہ کے ممبر قانون ساز اسمبلی (ایم ایل اے) شامل تھے۔ یہ میٹنگ جان بوجھ کر 14 نومبر کو رکھی گئی تھی، جسے بچوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ اسکول کی بحالی کی ضرورت کو اجاگر کیا جا سکے۔ کہ بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے ایک اضافی اسکول ہوسکتا ہے۔ کافی بحث و مباحثے کے بعد، تقریباً معدو  ہو چکے ادارے کی جگہ انگلش میڈیم اسکول شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگرچہ یہ فیصلہ متفقہ نظر آیاتھا لیکن چند ایک ایسے بھی تھے جنہوں نے اس تجویز کی مخالفت کی اور  سوال کیا تھا کہ مدرسہ کیوں نہیں؟ مگر مامون اختر نے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے اس ادارے کو انگلش اسکول کی شکل دینے کا بیڑا اٹھایا وہ بھی اس کی یہودی شناخت کو بر قرار رکھتے  ہوئے

ہم سب ساتھ ساتھ ہیں

 مامون اختر نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ  ہم نے ایک ایسا نظام بنایا ہے جس میں صرف ضرورت مندوں کی نشاندہی کی جاتی ہے ۔اس کا مذہب یا ذات نہیں دیکھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے خاندانوں کو ہر ماہ راشن مہیا کراتے ہیں جن کے سامنے معاشی پریشانیاں ہیں۔ایسے خاندانوں کی تعداد 750ہیں ۔ ایسے والدین بھی ہماری ذمہ داری بنے ہیں جنہیں ان کے بچوں نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ایسے خاندانوں اور والدین کو ہم 2008 سے راشن سپلائی کررہے ہیں ۔

ضرورت مندوں کے گھروں کے لیے اناج اور راشن کی سپلائی 

 وہ کہتے ہیں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب عید کا موقع ہوتا ہے تو صرف مسلمان خاندانوں کو نہیں بلکہ غیر مسلم خاندانوں کو بھی تہوار کا ضروری سامان سپلائی کیا جاتا ہے جبکہ دیوالی اور ہولی میں ہندووں کے ساتھ مسلمان خاندانوں کو سوغات بھیجی جاتی ہے ۔

خواتین کے لیے روز گار اسپورٹس اکیڈمی اورایمبولینس سروس،

اسکول کے ساتھ ساتھ، مامون نے ایک پرائمری ہیلتھ سنٹر اور ایک ووکیشنل سنٹر قائم کرنے  میں بھی کامیابی حاصل کی ہے، جہاں 400 سے زیادہ خواتین کام سیکھتی ہیں۔ خواتین کو روزی روٹی کمانے میں مدد کرنے کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سنٹر شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے  برانڈز ہمیں باقاعدہ آرڈر دیتے ہیں۔جسے یہ خواتین پورا کرتی ہیں اور کماتی ہیں۔ اس سے کمیونٹی میں جرائم کی شرح اور گھریلو زیادتی کے واقعات کو کم کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ مامون کا سمیریٹن ہیلپ مشن اب ایمبولینس سروس اور اسپورٹس اکیڈمی بھی چلاتا ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ہم کو یہودی ٹرسٹ کی زمین ملی تو جس مشن کو ایک کمرے سے شروع کیا تھا ۔ اس کے نام پر اب چار اسکول ہیں ۔ ان میں 6426 طلباء زیر تعلیم ہیں ۔اس کے ساتھ 2 ہیلتھ سینٹرقائم کئے ہیں جن کی او پی ڈی میں 93689 (سالانہ) مریضوں کا علاج ہوتا ہے جبکہ 2 موبائل کلینک ہیں ۔جن میں 28825 مریضوں کا علاج ہوا ہے ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اب ان کے ساتھ 347 اسٹاف ممبران ہیں اور 35 رضاکار ہیں ۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ تحریک کے روح رواں مامون اختر کے جذبے اور حوصلہ کا نتیجہ ہے جن کا یقین بے لوث خدمت پر ہے ،جس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ۔