ہندوستان کی تحریکِ آزادی ایک ایسی عظیم داستان ہے جو الگ الگ محاذوں پر مختلف کرداروں میں مجاہدین کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے۔کسی نے قلم سے جنگ لڑی تو کسی نے بم سے ۔ کسی نے نعروں سے فضا کو لرزا دیا تو کوئی سینہ پر گولی کھانے سے بھی نہیں ڈرا ۔دراصل آزادی کی لڑائی میں جہاں ہتھیاروں کا کردار اہم رہا، وہیں تقریروں، نعروں اور قلم نے بھی اس تحریک کو جلا بخشی۔ جب ہندوستان کی آزادی کی بات آتی ہے تو شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کے چہرے اور نام ذہن میں ابھرتے ہیں۔ ان کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ آزادی کی لڑائی کی زبان بڑی حد تک اردو تھی۔انقلابی اور مجاہدِ آزادی خواہ بھگت سنگھ ہوں یا اشفاق اللہ خان، سب نے عوامی بیداری اور تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے اردو کا استعمال کیا۔
شاعروں کا اثر
تحریکِ آزادی کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں بسمل عظیم آبادی کے شعر نے تاریخ میں ناقابلِ فراموش مقام حاصل کیا۔
"سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے،
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے"
جنگِ آزادی میں بے شمار شاعروں نے اپنے کلام سے تحریک کو توانائی دی، اور کچھ نے اپنی جانیں بھی قربان کیں۔ ان میں شبلی نعمانی، اکبر الہ آبادی، مرزا اسد اللہ خان غالب، میر تقی میر، خواجہ الطاف حسین حالی، حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، پنڈت برج نرائن چکبست، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، مجاز، کیفی اعظمی، اختر الایمان، پنڈت آنند نرائن ملا، حفیظ جالندھری اور مولانا محمد علی جوہر شامل ہیں۔ ان شعرا نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم میں حوصلہ، امید اور قربانی کا جذبہ بیدار کیا۔مولانا حسرت موہانی کا نعرہ "انقلاب زندہ باد" آج بھی عوامی جذبات کو گرمانے اور ظلم کے ایوان ہلانے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ نعرہ محض الفاظ نہیں بلکہ آزادی کی جدوجہد کی علامت بن گیا۔
اردو صحافت اور قربانیاں
اردو اخبارات نے انگریزوں کے مظالم کو بے نقاب کرنے اور عوام میں بیداری پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی جرم میں مولانا محمد باقر نے اپنی جان کی قربانی دی، جو صحافت کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جانے والا باب ہے۔
اردو صحافت میں حب الوطنی کا سب سے شاندار نمونہ ہمیں ملک کی جنگِ آزادی کے دور میں نظر آتا ہے، جب اردو صحافیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کلکتہ، دہلی، لکھنؤ اور لاہور، جنگِ آزادی کے دوران اردو اخبارات نے عوامی شعور بیدار کرنے اور انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ 1822ء میں کلکتہ سے شائع ہونے والا جامِ جہاں نما پہلا اردو اخبار تھا، جس نے ملکی اور سیاسی معاملات کو عوام تک پہنچایا۔
1837 میں دہلی سے مولوی محمد باقر نے دہلی اردو اخبار کا آغاز کیا، جو 1857ء کی جنگِ آزادی میں بغاوت کی تائید پر بند کر دیا گیا اور مدیر کو شہید کر دیا گیا۔ اسی دور میں بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا بیدار بخت نے پیامِ آزادی جاری کیا، جو آزادی کے پیغام کے سبب انگریزوں کی سنسر شپ کی نذر ہوا۔
لکھنؤ سے اودھ اخبار، لاہور سے مولانا ظفر علی خان کا زمیندار، اور کلکتہ سے مولانا ابوالکلام آزاد کا انقلابی پرچہ الہلال عوامی بیداری کی علامت بن گئے۔ 1912ء میں شائع ہونے والا الہلال، سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کے مطابق، ان کی تحریکِ آزادی میں شمولیت کا محرک بنا۔
مولانا محمد علی جوہر کے اخبارات ہمدرد اور کامریڈ نے بھی قوم پرستی اور آزادی کی تحریک کو جلا بخشی۔ انقلاب اور دیگر اخبارات نے جرأت مندانہ صحافت کی مثال قائم کی، یہاں تک کہ انگریزوں کو ان پر بار بار پابندیاں لگانا پڑیں۔
اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ۔۔
"کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو"
یہی وہ سچائی تھی جس نے اردو صحافت کو جنگِ آزادی کا سب سے مؤثر ہتھیار بنا دیا
اردو اور سیاستداں
ہم جانتے ہیں کہ لفظ "اردو" کا مطلب ہی "لشکر" ہے، اور جیسے لشکر میں ہر قوم کے لوگ شامل ہوتے ہیں، ویسے ہی اردو مختلف زبانوں پنجابی، کھڑی بولی، سنسکرت، ہندی، فارسی اور انگریزی کے سنگم سے وجود میں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کسی ایک طبقے کی نہیں بلکہ سب کی مشترکہ وراثت ہے۔آزادی کی تحریک کے دوران وہ مجاہدین جو دوسری زبانوں میں خطاب کرتے تھے، ان کی تقاریر کا ترجمہ اردو میں کیا جاتا تاکہ عام عوام تک پیغام پہنچ سکے۔ اس سلسلے میں موتی لال نہرو، سبھاش چندر بوس، پنڈت جواہر لال نہرو، مہاتما گاندھی، راجندر پرشاد، سروجنی نائیڈو، سردار پٹیل، جے پی کرپلانی، دیش بندھو اور گوپال کرشن گوکھلے جیسے رہنماؤں کے خطابات کو اردو روپ میں شائع کیا گیا۔ گاندھی جی کی تقاریر کا اردو مجموعہ "قوم کی آواز"، گوکھلے کی تحریروں کا مجموعہ "گوکھلے کی تحریریں", نہرو کے خطبات کا مجموعہ "ہندوستان کا اتحاد" اور سبھاش چندر بوس کی تقاریر کا اردو مجموعہ "سبھاش بابو کی تقریریں" اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔
تحریکِ آزادی اور اردو زبان کا رشتہ اٹوٹ ہے۔ اردو نے آزادی کی تحریک کو عوامی زبان دی، شاعری اور صحافت کے ذریعے جذبے کو بیدار رکھا، اور نعروں و تقاریر سے تحریک کو توانائی بخشی۔ یہ زبان مجاہدینِ آزادی کی مشترکہ وراثت اور ہمارے قومی شعور کا لازمی حصہ ہے۔