ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش پر خاص پیشکش
منصور الدین فریدی
یہ 1960 کی دہائی کی بات ہے ، ہندوستان نے امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے ساتھ مل کر تھمبا کیرالہ میں پہلا ساؤنڈنگ راکٹ اسٹیشن قائم کیا تھا ۔ ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کی نگرانی میں منتخب انجینئروں کا ایک دستہ امریکہ کے گوڈرڈ اسپیس فلائیٹ سینٹر تربیت حاصل کرنے گیا تھا ،ناسا کے والپس آئی لینڈ لانچنگ اسٹیشن میں تربیت کے دوران ان میں سے ایک خاموش طبعیت نوجوان انجینئیر کی نظر استقبالیہ ہال میں لگی ایک تصویر پر پڑ گئی۔ تصویر میں جنگ کا منظر تھا اور جس میں ہر جانب راکٹ برستے نظر آرہے تھے ۔ اس نوجوان کا تجسس بڑھا تو اس کی حقیقت معلوم کی ۔
تقریبا چالیس سال کے بعد اس نوجوان نے جسے ہندوستان اور دنیانے اے پی جے عبدالکلام کے نام سے جانا،جو ملک میں بابائے میزائیل کہلایا ،ملک کے صدر جمہوریہ کی کرسی تک پہنچا اور سب سے اہم عوام کے دلوں میں گھر کر گیا ۔ اپنی خود نوشت ونگز آف فائر میں اس راز سے پردہ کچھ ان الفاظ کے ساتھ اٹھایا کہ ۔
۔۔ ’ایک تصویر میں جنگ کا منظر دکھایا گیا تھا۔ پس منظر میں چند راکٹ اڑتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ایسے موضوع والی تصویر کسی بھی فلائٹ سہولت میں عام بات ہونی چاہئے۔ لیکن اس تصویر نے مجھے اس لئے متوجہ کیا کہ راکٹ داغنے والے سپاہی گورے نہیں تھے بلکہ ان کی جلد گہری تھی اور ان کی شکل و صورت جنوبی ایشیا کے لوگوں سے ملتی تھی۔ ایک دن تجسس نے مجھے تصویر کے قریب جانے پر مجبور کر دیا۔معلوم ہوا کہ یہ ٹیپو سلطان کی فوج تھی جو انگریزوں سے لڑ رہی تھی۔ تصویر ایک ایسی حقیقت دکھا رہی تھی جو ٹیپو کے اپنے ملک میں بھلا دی گئی ہے لیکن یہاں دنیا کے دوسرے حصے میں اسے یاد رکھا گیا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ناسا نے جنگی راکٹ سازی کے ہیرو کے طور پر ایک ہندوستانی کو عزت دی ہے‘۔
.webp)
دو دماغ ۔ ایک فوجی اور ایک سائنسداں
اس پینٹنگ کے راز نے جہاں اے پی جے کلام کو دنگ کیا تو یقینا ان کی خود نوشت ونگز آف فائر پڑھنے والے بھی دنگ رہ گئے ۔ میسوری راکٹوں کی کہانی کو مزید دلچسپ بنا دیا۔ بلکہ دنیا نے ان دونوں ہستیوں کے درمیا ن یکسانیت تلاش کرنا شروع کردیں۔ دو نام ، دو دماغ، ایک فوجی ، ایک سائنسداں ، دو صدیوں کا فرق ... پھر بھی ان دونوں میں یکسانیت کی بات کریں تو،دونوں کے دماغ کی پیداوار راکٹ ٹیکنا لوجی ہے، جس نے تلواروں کے دور میں ٹیپو سلطان کو راکٹ کا موجد بنایا تو دور جدید میں عبدالکلام آزادی کے بعد ترقی کی نئی کہانی میں بابائے میزائیل کہلائے ۔
حب الوطنی کی علامت بنے
بات ٹیپو سلطان کی کریں یا کلام کی ،یہ دو ہستیاں بے نظیر حب الوطنی کی مثال ہیں ، جس نے انہیں ملک کی طویل تاریخ میں مسلمانوں کی وطن پرستی کا سنہرا باب بنایا ۔ ایک نے 200 سال قبل انگریزوں کے خلاف ایک نہیں بلکہ چار جنگیں لڑیں اور آخری سانسوں تک وطن عزیز کی حفاظت کیلئے تلوار ہاتھ سے نہیں چھوڑی۔ جبکہ اسی طرح 20 ویں صدی میں عبد الکلام ایک ایسے دور میں نہ صرف ملک کے حساس ترین دفاعی نظام کے سربراہ اور وقار کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کی علامت بنے جب جنگ آزادی اور دیگر تعمیری کاموں میں ان کی حصہ داری کو بھلا کر ان کی وفاداری کو شک کے دائرے میں لاکھڑا کیا گیا تھا۔لیکن آج اگر تاریخ میں شیر میسور ٹیپو سلطان کی وطن پرستی کو سلام کیا جاتا ہے تو کلام صاحب کی حب الوطنی کو بھی ایک اچھے مسلمان ہونے کی شرط مانا جاتا ہے ۔
ٹیپو سلطان اور راکٹ کی وراثت
دراصل ٹیپو سلطان کو راکٹ ٹیکنالوجی وراثت میں ملی تھی۔ دفاعی نظام اور فوجی ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کی دلچسپی نے اس دور میں میسور آرمی کو ملٹری سائنس کی درسگاہ بنا دیا تھا۔ راکٹ میں فولادی خول کے استعمال نے اس کو ایک نئی ایجاد کی حیثیت دیدی تھی۔ آج جب دنیا چاند کے بعد مریخ پر جانے کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی تیاری کر رہی ہے، ایسے وقت میں بھی راکٹ ٹیکنالوجی کے ماہرین اور تجزیہ کار حیران ہیں کہ ٹیپو سلطان نے 200 سال قبل راکٹ کے تصور کو کیسے حقیقت میں بدلا ۔ جس نے اس دور میں ہندوستان کو راکٹ ٹیکنالوجی کے میدان میں برطانیہ پر سبقت دلائی ، حقیقت یہ بھی ہے کہ برطانوی ڈک آف ویلنگٹن ، کرنل آرتھر ویلسلی کو 1815 میں واٹر لو جنگ میں نپولین کے خلاف فتح کے سبب ملک کے چند بڑے قومی سور ماؤں میں شمار کرتے ہیں لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کی راکٹ ٹیکنالوجی کے سبب واٹر لو کا ہیرو میسور میں میدان جنگ چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا۔

ٹیپو کے راکٹ پر ریسرچ اور پھر برطانیہ کی فوجی کامیابی
اپریل 1799 میں چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان کی فوج نے انگریزوں کو لوہے کے چنے چبوا دئیے ،اس سے قبل تین جنگوں میں انگریزوں کو شکست دی جاچکی تھی ۔مگر اس بار ایک ماہ تک محاصرے اور جنگ کے بعد قلعہ کے اندر چھپے غداروں نے مرکزی دروازے کھول دئیے تو ٹیپو سلطان نے آخری سانس تک لڑتے ہوئے شہادت پائی ۔ انگریزوں چین کی سانس لی لیکن سب سے پہلے ٹیپو سلطان کے راکٹوں کے خالی خول میدان جنگ سے سمیٹے ،بلکہ ان پر ریسرچ کے لیے برطانیہ روانہ کردئیے ۔جن پر ریسرچ کی بنیاد پر برطانیہ کا راکٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ رائل لیوریٹری دول وچ میں ان پر ریسرچ کے بعد برطانوی راکٹ بنانے کا مشن کرنل ولیم کا نگریو نے مکمل کیا ۔ کرنل ولیم نے 03-1802 میں ان راکٹوں کی جانچ کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ اس وقت برطانیہ میں دستیاب سب سے بڑے راکٹ کی رینج میسور کے راکٹوں کے مقابلے نصف سے بھی کم ہے۔بہرحال لندن میں 7 سال کی ریسرچ کے بعد ولیم کانگریو نے جو راکٹ تیار کیا ان کی مدد سے برطانیہ نے بڑی فوجی کامیابیاں حاصل کیں جن میں سب سے اہم فتح 1804 میں نپولین کے خلاف تھی جب فرانس کی فوج انگلش چینل کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئی تھی لیکن ان راکٹوں کی مدد سے فرانس کی فوج کو تر بتر کر دیا گیا تھا ۔ برطانیہ کی اس بڑی کامیابی کے بعد دنیا کی ہر فوج میں راکٹ بریگیڈ شامل ہوتی تھی ۔