کتنا ’اسلامی‘ ہے اسلامی سال؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 30-07-2022
کتنا ’اسلامی‘ ہے اسلامی سال؟
کتنا ’اسلامی‘ ہے اسلامی سال؟

 

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

    کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نئے ’’اسلامی سال‘‘ کی مبارکباد کا پیغام بھیجا تھا؟کیا اس کی فضیلت میں قرآن کریم کی کوئی آیت یا کوئی حدیث ہے؟ کیا آپ نے مسلمانوں کو اس کاحکم دیا تھا کہ نئے اسلامی سال کی مبارکبادیاں بھیجا کرو؟کیا آپ نے اسلامی اور غیر اسلامی سالوں کا فرق بتایا تھا؟ کیا قرآن کریم یا احادیث میں کہیں بتایا گیا ہے کہ قمری سال اسلامی سال ہے یا ہجری سال اسلامی سال ہے اور باقی دوسرے سال غیر اسلامی ہیں؟ اگر قمری سال اسلامی سال ہے تو شمسی سال کیا غیراسلامی سال ہے؟ اور ہندوستان میں صدیوں سے رائج فصلی، بکرمی ، پنجابی، بنگالی سال کیا ہیں،کیا یہ بھی غیر اسلامی سال ہیں؟

میرے ذہن میں اس قسم کے سوالات اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں گزشتہ چند برسوں سے یہ سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ محرم مہینے کی شروعات کے ساتھ ہی مبارکبادیوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے اور مسلمانوں کا ایک طبقہ لوگوں کو موبائل ،انٹرنیٹ، نیٹ ورکنگ سائٹس اور مختلف ذرائع سے مبارکباد ی کے پیغامات بھیجنا شروع کردیتا ہے۔ بعض اوقات اردو کے اخباروں کو بھی دیکھا گیا کہ پورے پورے صفحے پر مبارکبادی کا پیغام شائع کردیتے ہیں۔مبارکبادی کا یہ سلسلہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی چلتا ہے اور کوئی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ یہ کام اسلامی ہے یا غیر اسلامی؟ میں نے اب تک علماء سے بھی اس سلسلے میں کبھی کوئی بیان نہیں سنا۔

ان علماء سے بھی نہیں جو ہرجمعہ کو خطبہ میں یہ کہنا نہیں بھولتے کہ ’’ہربدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے‘‘۔ علماء کرام قوم کو بتائیں گے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص سال کو اسلامی سال کا نام دیا اور قرآن کریم میں کسی خاص سال کو اسلامی سال کہا گیا ہے ؟ اگر سال کے معاملے میں اسلامی اور غیر اسلامی کی تفریق نہیں کی گئی ہے تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ فرق کرے؟ اور جب قرآن و احادیث میں نئے سال کی مبارکباد کا کوئی تصور نہیں ہے تو اسے شروع کرنا بدعت وگمراہی ہے یا نہیں؟

ہجری سال ، اسلامی سال ہے؟

    عرب میں پرانے زمانے سے قمری یعنی چاند کا کلینڈر رائج تھا۔ سیرت نبوی اور تاریخ اسلام پر کتابیں لکھنے والے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا سال قمری مہینے کے لحاظ سے تحریر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ماہ ربیع الاول میں   ۱  ؁ عام الفیل کو آپ کی پیدائش ہوئی۔ بعد کے واقعات بعثت نبوت تک کا ذکر بھی وہ عام الفیل کے حوالے سے کرتے ہیں۔ یوں ہی اس کے بعد کے برسوں کو نبوی سال کہتے ہیں یہاں تک کہ آپ نے ہجرت فرمائی اور پھر ہجری سال کی شروعات ہوتی ہے جو آج تک جاری ہے۔ تاریخ اسلام میں اکثر واقعات کا ذکر اسی ہجری سال کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ہجری سال کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہوا مگر ہجرت نبوی محرم نہیں ربیع الاول کے مہینے میں پیش آئی۔تاریخی روایات کے مطابق ربیع الاول کی پہلی تاریخ کورات کے وقت رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے اور آٹھ دن کے سفر کے بعد ۸ربیع الاول کو دوپہر کے وقت مدینہ منورہ کی قریبی بستی ’قبا‘ میں وارد ہوئے جو کہ مدینہ کا ایک محلہ سمجھا جاتا تھا۔ویسے مدینہ منورہ کے اندرونی حصے میں آپ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو وارد ہوئے۔ اس لحاظ سے ہجرت کی شروعات اور مدینہ منورہ میں داخلہ سب کچھ ربیع الاول کے مہینے میں ہوا۔ گویایہ قمری سال جو کہ محرم سے شروع ہوتا ہے وہ پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی کی کتاب تاریخ اسلام ،جلد اول کے صفحہ ۱۳۶کی ایک عبارت ملاحظہ ہو:

    ’’سنین ہجری: اس وقت تک زمانہ کا اندازہ کرانے کے لئے سنہ نبوی استعمال کئے گئے ہیں،جن سے مدعا یہ ہے کہ آپ کو نبوت ملے ہوئے اتنے سال ہوئے،لیکن یہ بتادینا ضروری ہے کہ قمری سال کے مہینوں کی ترتیب اور نام وہی ہیں جو پہلے عرب میں رائج تھے، اس لئے سنہ نبوی کا پہلا سال صرف چند ہی مہینے کے بعدمیں ختم ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا داخلہ مدینہ کے اندر ماہ ربیع الاول  ۱۴  ؁نبوی میں بیان کیا گیا لیکن آپ کی بعثت اور نبوت کو صرف ساڑھے بارہ سال ہوئے تھے۔ اسی طرح آپ کے مدینہ میں ہجرت فرماکر تشریف لانے سے سنہ ہجری شروع ہوتا ہے۔ چونکہ آپ بارہ ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں تشریف لائے اس لئے پہلا ہجری سال صرف ساڑھے نو مہینے کے بعد ختم ہوگیا اور یکم محرم سے دوسرا سال شروع ہوگیا۔‘‘

      اوپر کی عبارت کو آپ دوبارہ پڑھیں۔ اس میں کہیں بھی نہیں کہا گیا ہے کہ یہ سال اسلامی سال ہے بلکہ ان تاریخوں کو صرف اس لئے بتایا جاتا ہے کہ واقعات کو بیان کرنے میں آسانی ہو۔ ہمیں اپنی علمی کم مائیگی کا اعتراف ہے اور علماء سے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اسلامی سال کا کوئی تصور قرآن و احادیث میں ہے؟

اسلامی اور غیر اسلامی کی تفریق کیوں؟

    عرب میں قمری تاریخوں کا رواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے قبل سے تھا۔ یہاں شمسی سال کا رواج نہیں تھا لہذااسلامی تیوہار وغیرہ کو قمری مہینوں کے مطابق بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً رمضان کا مہینہ اور شب قدر کی تعیین، عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے تیوہار، یوم عاشورہ کا تعین وغیرہ۔ آج تک مسلمان قمری مہینوں کے مطابق ہی ان ایام کی تعیین کرتے ہیں مگر باقی کاموں کے لئے شمسی تاریخوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ اگر وہ اپنے دیگر کاموں کے لئے بھی قمری تاریخوں کا استعمال کرنے لگیں تو اسی طرح کنفیوزن ہوجائے جس طرح عید اوررمضان کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ یعنی تین تین عیدیں اور الگ الگ تاریخوں میں رمضان کا آغاز۔ہندوستان جیسے ملک میں صدیوں سے فصلی تاریخیں رائج ہیں کیونکہ یہاں قدیم ایام سے لوگ فصلوں اور موسموں کے لحاظ سے دنوں اور تاریخوں کا تعین کرتے رہے ہیں۔

یہاں کی مختلف ریاستوں میں موسموں اور فصلوں میں فرق ہوتا ہے لہٰذا الگ الگ ریاستوں میں لوگوں نے الگ الگ سنہ اپنی سہولت کے مطابق بنا رکھے ہیں۔ مثلاً مغربی بنگال میں بنگلہ سال کا رواج ہے تو پنجاب میں الگ سال اور تاریخ ہے۔ گجراتی سال الگ ہے تو جنوبی ہند کا سال الگ چلتا ہے۔ ایسا صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہے بلکہ ایران سے چین تک ہرجگہ لوگوں نے اپنی سہولت کے مطابق سنہ اور تاریخیں طے کر رکھی ہیں۔ اب ان سنوں اور تاریخوں کو اگر ہم اسلامی اور غیر اسلامی کے خانوں میں بانٹنا شروع کردیںگے تو مصیبت ہوجائے گی۔ویسے بھی جب اللہ اور رسول نے اس کی تقسیم نہیں کی ہے تو دوسرے کیوں کریں؟ اس بارے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسرمفتی محمد مشتاق تجاروی (قاسمی)سے ہم نے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ قرآن میں بارہ مہینوں کا ذکر ہے مگر کسی سال کو اسلامی سال نہیں قرار دیا گیا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ہجری سال کی ابتدا ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہجری سال کو اسلامی سال کہنا شرعی احکام کا حصہ نہیں بلکہ یہ مسلم کلچر کا حصہ ہے۔ یونہی نئے سال کی مبارکباد کا رواج بھی دورحاضر کی پیداوار ہے۔  

اس کے پیچھے کا مقصد کیا ہے؟

    عرب ملکوں میں رہنے والے بیشتر لوگ مسلمان ہیں جو سنّی اور شیعہ میں منقسم ہیں۔ اندازہ ہے کہ ان ممالک میں چالیس فیصد کے آس پاس شیعوں کی آبادی ہوگی۔ سنٹرل ایشیا،افغانستان ،پاکستان اور ہندوستان میں بھی شیعوں کی خاصی آبادی ہے۔عام طور پر شیعہ حضرات محرم کے مہینے کو غم کے مہینے کے طور پر مناتے ہیں اور سنیوں کا ایک طبقہ بھی ان کے جذبات کا احترم کرتا ہے۔ اہل بیت اطہار کے احترام کے سلسلے میں شیعہ اور سنی کا کوئی فرق نہیں ہے۔ یونہی اگر بعض معاملات میں اختلافات ہیں بھی تو دونوں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کا ذکر ایک دوسرے کے سامنے کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ دونوں فرقوں میں ایک شدت پسند طبقہ بھی ہے ،جو ایک دوسرے پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا۔

ایسا لگتا ہے کہ محرم میں مبارکبادیوں کا سلسلہ سنیوں کے شدت پسند طبقے کی شروعات ہے۔ یہ درست ہے کہ اس مہینے میں کچھ اچھے واقعات بھی ہوئے ہیں مگر محرم کی دسویں تاریخ کو نواسۂ رسول اور ان کے رفقاء کی شہادت کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا تھا جس کی یادآج تک دلوں سے محو نہیں ہوئی ہے۔ برصغیر ہندوپاک میں پرانے زمانے سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ محرم کے مہینے میں عموماً تقریبات نہیں ہوتی ہیں ،حالانکہ اہل سنت کے علماء نے ایسی کوئی ممانعت نہیں کی ہے مگر غم حسین کا اثر ہوتا ہے یا شیعہ بھائیوں کے جذبات کا احترام کہ لوگ احتراز کرتے ہیں۔ اب جو اس مہینے میں مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ اچھے مقاصد نہیں ہیں۔ ویسے بھی اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں ہے اور اسلام نے کسی بھی سال کو غیر اسلامی سال نہیں کہا ہے۔