اردو میں سناتن دھرم کے مقدس صحائف

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-02-2023
اردو میں سناتن دھرم کے مقدس صحائف
اردو میں سناتن دھرم کے مقدس صحائف

 

 

حقانی القاسمی

اردو ایک تکثیریت پسند اور سیکولر زبان ہے جس میں تمام افکار و اقدار کے جذب و انجذاب کی پوری قوت ہے۔ اس زبان نے ہندوستانی فکر اور فلسفہ کو اپنی جڑوں میں شامل کر رکھا ہے۔ یہاں کی ثقافتی روایات، اساطیر، علامات اور تمثیلات کا بیش بہا ذخیرہ اردو زبان و ادب میں محفوظ ہے۔

پروفیسر شارب ردولوی نے بہت اہم بات لکھی ہے کہ: ’’دوسرے مذاہب کے پیغمبروں، اوتاروں یا مذہبی رہنماؤں کے بارے میں اس عقیدت اور شدت کے جذبات کے ساتھ نکلے ہوئے شہ پارے اردو کے علاوہ کسی زبان میں اس افراط کے ساتھ ملنا بہت مشکل ہیں۔

اس کی تفصیل اگر دیکھنی ہو تو ڈاکٹر سلام سندیلوی کی کتاب ’کعبہ میں صنم خانہ‘ (شائع کردہ ادبی دنیا، امین آباد لکھنؤ) پڑھ لیجئے۔ اس میں بہت سی شعری تخلیقات ہندوؤں کے مذہبی عقائد ، رہنماؤں اور رسم و رواج سے متعلق ہیں۔

اردو زبان کی ایک ایسی جہت ہے جس کی نظیر شاید ہی عالمی ادب میں مل سکے۔ اس زبان کا ارتکاز انسانی افکار و اقدار پر ہے۔ یہ دراصل وحدت اضداد ( یونٹی آف اپوزٹ) کی زبان اور غیر متعصبانہ اور غیر فرقہ وارانہ اندازِ نظر کی ترجمان ہے۔ جس میں تمام تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی تصورات و تخیلات کے لئے گنجائش ہے۔ نظیر اکبرآبادی کی زبان میں کہیں تو اردو زبان کا مزاج کچھ یوں ہے

جھگڑا نہ کرے ملت و مذہب کوئی یاں

جس راہ میں جو آن پڑے خوش رہے ہرآں

زنار گلے یا کہ بغل بیچ ہو قرآں

عاشق تو قلندر ہے نہ ہندو نہ مسلماں

اس عاشق مزاج زبان میں جہاں مسلمانوں کے مذہبی صحیفے موجود ہیں وہیں سناتن دھرم اور دیگر مذاہب کی کتابیں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ آریہ سماج کا زیادہ تر تبلیغی لٹریچر اردو زبان ہی میں ہے اور اسی زبان میں آریہ سماج کے اخبارات و رسائل بھی شائع ہوا کرتے تھے اور یہ بات بھی یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں کے مقابلے میں رامائن اور مہابھارت وغیرہ کے سب سے زیادہ ترجمے اردو زبان ہی میں ہوئے ہیں۔

اس کی تفصیل نندکشور وکرم کے رسالہ ’عالمی ادب‘ کے دھارمک نمبر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جس میں انہوں نے ہندو دھرم سے متعلق بیشتر اردو مطبوعات کا اندراج کیا ہے۔

سناتن دھرم میں رامائن، مہابھارت، بھگود گیتا، اپنشد، پران، منو اسمرتی، مقدس صحیفوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو میں سناتن دھرم کے ان مقدس صحیفوں کے نثری اور منظوم ترجمے کئے گئے ہیں۔ جن میں سے بعض ترجموں کی تعداد سینکڑوں سے زائد ہے۔

٭٭ رامائن ایک عظیم رزمیہ ہے۔ اسے ہندوستان کا مہابیانیہ سمجھا جاتا ہے۔ اردو میں تقریباً ڈیڑھ سو رامائنوں کا ذکر ملتا ہے۔ پہلی رامائن گنگا بشن نے اردو میں لکھی تھی اور اس کے بعد ہندوؤں مسلمانوں میں رامائن نظم کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔

شنکر دیال فرحت، دوارکا پرشاد افق، جوالا پرشاد برق، شیو برت لال ورمن جیسے بڑے ترجمہ نگاروں کے علاوہ رامائن کے مسلمان ترجمہ نگاروں میں مہدی نظمی، طالب الہ آبادی، نفیس خلیلی، رند رحمانی، امتیازالدین خان، مولوی عبدالستار اور صفدر آہ کے نام اہم ہیں اور رامائن سے متعلق تقریباً 133 اردو مطبوعات کا ذکر بھی ملتا ہے۔

رامائن رام جی کی زندگی اور ان کے اعمال و کردار کا ایک پُراثر بیانیہ بھی ہے۔ ان کی عظمت کا اعتراف سبھی طبقات کے افراد کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’رام ‘میں لکھا تھاکہ

 ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز

اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
اعجاز اُس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانہ میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا
ساغر نظامی نے بھی رام کی عظمت کا اعتراف یوں کیا:
شمعِ ہندی بجھ کے بھی پیہم درخشاں ہے ہنوز
رام کے نور ہدایت سے فروزاں ہے ہنوز
جس کا دل تھا ایک طاق شمع ایوان حیات
روح جس کی آفتاب صبح عرفان حیات
زندگی کی رفعتوں سے منزلوں اونچا تھا وہ
آسمانِ معرفت کا ایک سیارہ تھا وہ
سامنے جس کے لرز اٹھا شکوہ سروری
وہ بہادر جس نے باطل کو شکست فاش دی
جس کا ہر جلوہ شعاعِ حق کا مظہر ہوگیا
ذرہ ذرہ جس کے پرتو سے منور ہوگیا
ہندیوں کے دل میں باقی ہے محبت رام کی
مٹ نہیں سکتی قیامت تک حکومت رام کی
زندگی کی روح تھا روحانیت کی شان تھا
وہ مجسم روپ میں انسان کے عرفان تھا

رامائن ماورائے زمان و مکان ابدیت کا حامل اور آفاقی انسانیت کا منشور ہے۔یہ کہیں مذہب تو کہیں کلچر کی شکل میں زندہ ہے ۔ اسے یک مذہبی منشور کے بجائے آفاقیت کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی بہت سی طرفیں اور کھلیں گی ۔

یہ مذہبی رزمیہ ہندو تشخص کے ماورا دوسرے کلچر کے روزمرہ اور سماجیات کا بھی حصہ ہے۔ مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا کی ثقافت میں رامائن شامل ہے ۔ سناتن دھرم کے اس پہلے رزمیہ صحیفہ کی معنویت کسی بھی عہد یا کلچر میں مسخ یا مجروح نہیں ہوئی ہے ۔

بلکہ اجتماعی شعور پر اس کے مثبت اثرات ہی نقش ہوئے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ملکوں اور زبانوں میں رامائن کے نہ صرف ترجمے ہوئے بلکہ اس کی تعبیرات بھی تلاش کی گئیں ۔اس کے رجزیاتی آہنگ اور اخلاقی اسلوب سے متاثر ہوکر ہی اردو میں سب سے زیادہ ترجمے رامائن کے کیے گئے ۔

دیکھئے پنڈت برج نارائن چکبست نے اپنی نظم ’رامائن کا ایک سین‘ میں کتنی سلاست ،روانی اور خوبصورتی کے ساتھ رام چندر جی کے رخصت ہونے کا بیان کیا ہے۔ چکبست کہتے ہیں

رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام

راہِ وفا کی منزلِ اوّل ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتطام
دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام
اظہارِ بے کَسی سے ستم  ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی
دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورتِ خیال
دیکھا تو ایک در میں  ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتہ سا ہوگیا ہے یہ ہے شدتِ ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویر سنگ ہے
اردو رامائن میں بال کانڈ، اجودھیا کانڈ، سندر کانڈ، لنکا کانڈ، اتر کانڈ۔ سبھی کو بڑے خوبصورت نثری اور شعری پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔

٭٭ مہا بھارت بھی ایک ثقافتی، مذہبی صحیفہ اور ہندوستانی رزمیہ ہے جس میں بھرت خاندان کے کورؤں اور پانڈؤں کے حالات زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کے بارے میں مولوی محمد اجمل خان نے یہ لکھا ہے کہ جس طرح یورپ والوں کو ایلڈ اور اوڈی سی پر ناز ہے اسی طرح ہندوستانیوں کو بجا طور پر یہ فخر ہے کہ رزم نامہ مہابھارت اور رامائن نہ صرف مشرق کے لئے بلکہ کُل عالم کے لئے ایک لطیف و پاکیزہ سرمایہ، علم و ادب، فلسفۂ و اخلاق، مذہب و تاریخ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ علم کسی خاص قوم کی ملکیت نہیں ہے بلکہ انسانیت کا جائز ورثہ ہے۔

یہ ویدویاس جی کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ اس میں ہزاروں اشلوک ہیں۔ اردو میں بھی مہا بھارت سے متعلق تقریباً 52 تصنیفات ہیں۔ اس کے اردو ترجمے جہاں دوارکار پرشاد افق، طوطا رام وغیرہ نے کئے ہیں۔

اسی طرح مہابھارت کے مسلمان ترجمہ نگاروں میں جلال افسر سنبھلی، عبدالعزیز خالد، قاضی محمد نیر القریشی، منشی ریاض الدین نظیر لدھیانوی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ نظیر لدھیانوی نے بہت ہی خوبصورت ترجمہ کیا ہے۔ کُرک چھیتر کی خونریز لڑائی کا منظر انہوں نے بہت ہی عمدہ انداز میں کھینچا ہے

 پانڈو غریب ہوگئے ایک پھر تباہ
پھر کاخ و قصر چھوڑ کے لی جنگلوں کی راہ
پھرتے رہے بنوں میں گداؤں کے بھیس میں
آخر کو مہماں ہوئے پنچال بھیس میں
سمجھا کے ہر طرح زمانے کا نیک و بد
بہرِ نبرد راجہ دروپد نے دی مدد
پانڈو نے اپنے دل میں لڑائی کی ٹھان لی
کورو کی سلطنت پہ چڑھائی کی ٹھان لی
جنگی رتھوں میں بیٹھ کے فوجیں رواں ہوئیں
یا بحر بیکنار میں موجیں رواں ہوئیں
دہلی کے پاس آن کے خیمے لگا دیے
بھارت کے شیر ایک صدا سے جگا دیے
دریودھن ایک طرف تھا یودھشٹر تھا ایک طرف
دونوں طرف تھے لشکر جرار صف بہ صف
اس جنگ میں تھا ہند کا ہر تاجور شریک
کوئی ادھر شریک تھا کوئی اُدھر شریک
صدہا جواں شکار نہنگ اجل ہوئے
صدہا سمند صید خدنگ اجل ہوئے
خوں پی کے تیر اور بھی خونخوار ہوگئے
لاشوں کے کارزار میں انبار ہوگئے
اک حشر تھا بپا جہان خراب میں
لرزے میں آسماں تھا زمیں اضطراب میں
اٹھارہ روز جنگ کا دریا چڑھا رہا
ہر اِک نشان اپنی جگہ پر گڑھا رہا
خلق خدا اسیر کمند بلا رہی
میداں میں کشت و خون سے قیامت بپا رہی
پانڈو کے ہم رکاب تھے بھگوان کرشن بھی
گو فوج ان کی جنگ میں کورو کے ساتھ تھی
بھگوان کے پیام سے پانڈو کا دم بڑھا
مقتل میں اور آگے اُن کا قدم بڑھا
کورو ہلاک ہوگئے میداں میں سب کے سب
آخر کو کامراں ہوئے پانڈو بفضل رب
پھر اپنا تاج و تخت یدھشٹر کو مل گیا
آرام جاوداں دلِ مضطر کو مل گیا

٭٭ شری مد بھگود گیتا بھی ہندو دھرم کا ایک عظیم روحانی صحیفہ اور نسخۂ نجات دیدہ و دل ہے۔ مہ رشی ویدیاس کی اس کتاب ’بھگود گیتا‘ میں 18 ادھیائے ہیں جس میں فلسفۂ عمل، عرفانِ حق، عشق خداوندی کا بیان ہے۔ اس میں کرم، گیان، بھگتی، پرماتما، آتما، پرکرتی اور انسانی صفات ستوگُن، رجوگُن، تموگُن کا بیان کیا گیا ہے۔

یہ دراصل شری کرشن جی مہاراج کا پیغام اور اپدیش ہے۔ اس میں حق اور باطل کی لڑائی میں نجی تعلقات، قرابت کو درکنار کرنے ناانصافی اور منفی قو ت کے خلاف تلوار اٹھانے کی بات کی گئی ہے۔ اس میں شری کرشن نے ارجن کو اپنا فرض یاد دلایا ہے کہ تم مخالف صف میں رشتے داروں کو دیکھ کر دھنش نہ پھینکو بلکہ پامردی سے جنگ لڑو۔ دشمنو ںکا مقابلہ کرو۔ بھگود گیتا میں دراصل ہندوستان کی روح زندہ ہے۔

یہ دراصل کرشن اور ارجن کا ایک طویل مکالمہ ہے۔ اردو میں تقریباً اس کے 128 تراجم ہیں۔ اس کے مسلمان مترجمین میں احقر لکھنوی، الم مظفر نگری، انور جلال پوری، حسن الدین احمد، خلیفہ عبدالحکیم، خواجہ دل محمد، خواجہ زکریا فیاضی، رفیع الدین خادم، سید غیاث الدین، سلطان احمد صدیقی، عبدالقادر ندوی، شیخ عبدالغنی، محمد اجمل خان، قاضی محمد نیر صدیقی، عبدالعزیز خالد، مرزا ظفر علی خ، شان الحقی حقی کے نام لئے جا سکتے ہیں۔

عاجز ماتوی نے اپنے مضمون میں بھگود گیتا کے منظوم ترجمہ کرنے والوں میں جو اسمائے گرامی لکھے ہیں ان میں منشی رام سہائے تمنا، لالہ آتما رام، منشی پنا لال بھارگو، دیوکی نندن، سری برج اندر کنورا ، منشی بجرنگ سہائے صنوبر عظیم آبادی، علامہ الم مظفر نگری، منشی بشیشور پرساد منور لکھنوی، رگھونندن سنگھ ساحر دہلوی، مسز برکت رائے، خواجہ دل محمد، ڈاکٹر شان الحق حقی، شمبھو راج کشور احقر جائسی شامل ہیں۔

اتنے تراجم اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھگود گیتا بہت ہی اہم صحیفہ ہے۔ شان الحق حقی کے خیال میں ’’یہ دنیا کا ایک اہم صحیفہ ہے جو نسل در نسل دلوں کو گرماتا رہا ہے اور کروڑوں انسانوں کے لیے روحانی تسکین کا ذریعہ بھی ہے۔‘‘ان کے بقول یہ وہ صحیفہ ہے جو انسان کو پر ماتما اور روح اعلیٰ کا ایک جزو، ہم نفس یا نفسِ ناطق قرار دے کر انسان کا مان بڑھاتا ہے اور خوش اعمالی کے ذریعہ کرم چکر سے نکل کر ابدی مسرت پانے کی ترغیب دیتا ہے۔

اس کتاب کے حرفِ آغاز میں انھوں نے خوب اللہ شاہ قادری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ’’ خق تو یہ ہے کہ ایک ہی حقیقت کی آواز ساری دنیا میں گونج رہی ہے۔ گیتا ہندوستان کا قرآن ہے اور قرآن عرب کی گیتا۔‘‘ انہوںنے یہ بھی لکھا ہے کہ’’ بھگود گیتا اور ہمارے صوفیانہ عقائد میں بڑی مماثلتیں ہیں۔ جس طرح تصوف میں ترک اور تیاگ کا ذکر ملتا ہے اسی طرح بھگوت گیتا میں بھی ہے۔ گیتا میں کرم یوگ،سانکھیہ اور بدھ یوگ کا ذکر ہے اور اسی قسم کی چیزیں ہمارے تصوف میں بھی ہیں۔ ‘

مشہور ریاضی داں خواجہ محمد دل لاہوری نے بھگود گیتا کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ انھوں نے بھگود گیتا کا بہت ہی موزوں و مناسب صحیح ترجمہ کیا ہے۔ ان کے ترجمے میں رومانی، سلاست، لطافت اور نفاست ہے اور انھوں نے متعلقہ ابواب کا خلاصہ اور مفہوم بھی بیان کیا ہے۔ گیتا کا جو پیغام عمل ہے اسے خواجہ دل محمد نے بہت خوبصورت منظوم پیرائے میں بیان کیا ہے

 تجھے کام کرنا ہے او مردِ کار
نہیں اس کے پھل پر تجھے اختیار
کیے جا عمل اور نہ ڈھونڈ اس کا پھل
عمل کر عمل کر، نہ ہو بے عمل
یہی گیتا کا پیغامِ عمل ہے۔ بھگود گیتا مکمل طور پر سہ جہتی پیغامِ عمل پر محیط ہے۔ اس میں انھوں نے اچھی صفات سے متعلق بھی بہت ہی قیمتی باتیں کہی ہیں:
ستوگن سے عرفان کا پیدا ہو نور
رجوگن سے حرص و ہوا کا ظہور
تموگن سے دھوکا بھی غفلت بھی ہو
طبیعت پہ غالب جہالت بھی ہو
ستوگن سے جائیں سوئے آسماں
رجوگن سے لٹکے رہیں درمیاں
تموگن کا گن ہے جو سب سے رذیل
یہ پستی میں ڈالے یہ کر دے ذلیل
خواجہ دل محمد نے میدانِ جنگ کی بہت ہی اچھی منظرکشی کی ہے جب ارجن کو جنگ کے لیے تیار ہونے میں ایک تذبذب سا ہوتا ہے۔ دیکھیے کتنے خوبصورت منظوم پیرائے میں انھوں نے اس منظر کا عکس کھینچا ہے:
تب ارجن نے دیکھا کھڑے ہیں تمام
چچے دادے استاد ذی احترام
کہیں بیٹے پوتے، کہیں یار ہیں
برادر ہیں، ماموں ہیں، غمخوار ہیں
خسر ہے کوئی، کوئی دلبند ہے
کہ اک سے لگا اک کا پیوند ہے
جگر کی جگر سے لڑائی ہے آج
کہ لڑنے کو بھائی سے بھائی ہے آج
ہوا دل کو ارجن کے رنج و ملال
کہا رحم و رقت سے ہوکر نڈھال
مہاراج! یہ کیا ہے درپیش آج
کہ لڑنے کو ہے خویش سے خویش آج
بدن میں نہیں میرے تاب و تواں
دہن خشک ہے سوکھتی ہے زباں
لگی ہے مجھے کپکپی تھرتھری
مرے رونگٹے بھی کھڑے ہیں سب
چلی ہاتھ سے میرے گاندیو اب
بدن جل رہا ہے مرا سب کا سب
یہ لو پاؤں بھی لڑکھڑانے لگے
مرے سر کو چکر سے آنے لگے
آگے ارجن کہتے ہیں:
صد افسوس ہم کھوکے عقل سلیم
یہ کرنے لگے ہیں گناہِ عظیم
بہائیں گے افسوس اپنوں کا خوں
کہ ہے بادشاہی کا سر میں جنوں
یہ بہتر ہے دھرت راشٹر کے پسر
اڑا دیں جو تلوار سے میرا سر
نہ ہتھیار لے کر لڑوں ان کے ساتھ
بچانے کو اپنے اٹھاؤں نہ ہاتھ
تو ارجن کی یہ حالت دیکھ کر شری بھگوان کہتے ہیں:
سن ارجن! یہ کیسی روش ہے رذیل
جو دوزخ میں ڈالے، جو کردے ذلیل
کٹھن وقت میںایسی کیوں بے دلی
نہ ہو آریاؤں میں یوں بے دلی
تو ارجن نہ بن حیز نامرد و زار
نہیں تیرے شایانِ شاں جی کی ہار
یہ کم ہمتی چھوڑ، جی کڑا
عدو سوز ارجن کھڑا ہو کھڑا
 
خلیفہ عبدالحکیم لاہوری نے بھی بھگود گیتا کا بہت ہی عمدہ ترجمہ کیا ہے اور اس کا وقیع پیش لفظ انتظار حسین نے لکھا ہے۔ دیکھیے آغاز جنگ سے قبل ارجن کے جذبات کی ترجمانی کتنے خوبصورت انداز میں انھوں نے کی ہے
 
 ذرا رتھ کو اب جانِ جاں روک لے
دو افواج کے درمیاں روک لے
کہ اعدا کو دیکھوں ذرا غور سے
ہیں آمادہ جنگ کس طور سے
میں ا ن کو ذرا اک نظر دیکھ لوں
نگاہوں سے اڑتے شرر دیکھ لوں
جو دیکھا تھا نظارہ تھا اک عجیب
کہ دشمن تھے سارے عزیز و قریب
وہاں پر تھے اپنے ہی سب روبرو
کوئی تھا بزرگ اور کوئی روبرو
طبیعت پہ طاری ہوا رنج و غم
بہادر کھڑا تھا سراپا الم
شجاعت وہاں کالعدم ہوگئی
زباں خشک اور آنکھ نم ہوگئی
مشہور شاعر انور جلالپوری نے بھی نغمۂ علم و عمل کے عنوان سے بھگود گیتا کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ بھی بہت مقبول ہے۔ ترجمہ کے اندر سلاست اور روانی ہے۔ ایک شلوک کا منظوم ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ جس میں جنگ کے نقصانات اور مضرات کو بہی ہی عمدہ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔
 خوشی موت سے مل ہی سکتی نہیں
کلی پیار کی کھل ہی سکتی نہیں
سبھی لوگ اپنے بھی ہیں رشتے دار
سبھی کے لئے اپنے دل میں ہے پیار
انہیں مارکر خود کو ماریں گے ہم
کسے کہہ کے اپنا پکاریں گے ہم
اگرچہ یہ لالچ کے بندے ہیں سب
لہو پینے کو جیسے پیاسے ہیں سب
یہ کیا جانیں جنگو ںکی بربادیاں
گھرانوں کی نسلوں کی بربادیاں
وفا اور جفا سے یہ واقف نہیں
چراغ اور ہوا سے یہ واقف نہیں
ہمیں اب گناہوں سے ہو جائیں دور
ہمیں توڑ دیں اپنا سارا غرور
ہمیں ہے خبر یُدھ ہوتا ہے کیا
یہ نفرت کے کھیتوں میں بوتا ہے ایسا
یہ نسلوں کی بربادیوں کا سبب
عداوت حقارت ، ندامت غضب
مٹاہے یہ خاندانوں کا نام
کہ بعد اس کے لگتی ہیں صبحیں بھی شام
 

انور جلالپوری نے نہ صرف منظوم ترجمہ کیا ہے بلکہ بھگود گیتا کی کہانی مرکزی خیال، اس کے مخصوص پہلو (کرم یوگ، راج یوگ، بھکتی یوگ، گیان یوگ ، ستوگُ، رجوگُرن)کے علاوہ شریمد بھگود گیتا کے کرداروں (سنجے گرودروناچاریہ دھرشٹ وراٹ راجہ دروپد، دھرشٹ کیٹو کاشی راج، کُنتی بھوج، ابھی مینو، دروپدی مہارتی، دھنجے ، شکھنڈی، بھیشم پتامہ، کیشو، جناردر کام دھینو، ارجن، پانڈو، پرتھا، کرشٹ، کرن ، گرو،نکل، یودھیشٹر)کا تعارف بھی کرایا ہے اور تمام ابواب کے خلاصے بھی تحریر کئے ہیں۔ان کے منظوم ترجمہ کے حوالہ سے عاجز ماتوی لکھتے ہیںکہ: ’’موصوف نے نہایت سادہ سلیس، رواں اور عام فہم زبان میں منظوم ترجمہ کرکے اپنی دوراندیشی اور باریک نظری کا ثبوت پیش کیا ہے۔

برہما پران، پدم پران، وشنو پران پر بھی اردو میں 44 مطبوعات کا ذکر ملتا ہے۔ منو سمرتی جسے ایک دھرم شاستر کی حیثیت حاصل ہے اس میں حیات و کائنات کے مسائل اور فلسفوں کا ذکر ہے۔ یوگ واشسٹھ جسے ایک عظیم صحیفہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اردو میں بھی اس کے ترجمے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک ترجمہ ابوالحسن فرید آبادی نے منہاج السالکین کے نام سے کیا تھا۔ دوسرا ترجمہ سید ابوظفر ندوی نے کیا جو خدا بخش لائبریری پٹنہ سے 1994ء میں شائع ہوا۔

یہاں یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اردو زبان کا دامن تمام مذاہب کے مقدس صحائف کے تصورات اور تجلیات سے مزین اور مالا مال ہے۔ اردو سے تعلق رکھنے والوں نے مقدس ہندو نصوص کے تراجم میں نہ صرف دلچسپی لی بلکہ اس کی تشریحات اور تعبیرات بھی پیش کی ہیں۔ ہندو مت پر اردو میں علمی مواد کا بہت اہم ذخیرہ ہے۔ ڈاکٹر محمد اکرم نے ہندومت پر اردو میں علمی مواد ایک موضوعاتی کتابیات کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے۔ جس میں انہوں نے تقریباً 1112 کتابوں اور مقالات کا ذکر کیا ہے۔ اس کتابیات سے یہ اندازہ لگانابہت آسان ہے کہ اردو زبان میں ہندوؤں کے کلاسیکی لٹریچر اور نصوص پر اچھا خاصہ سرمایہ موجود ہے اور ان کتابوں کا مقصد دونوں طبقے کے مذہبی تصورات اور عقائد میں تلفیق اور تطبیق کی صورت تلاش کرنا ہے۔

ہندو مت پر مسلم مطالعات کا بھی ایک وقیع سرمایہ موجود ہے اور یقینی طور پر یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اردو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے ہمیشہ احترام مذہب، مذہبی ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے تصور کو فروغ دیا ہے اور ہندوستان کی مذہبی لسانی اور ثقافتی تکثیریت پر اِن کا ایمان و ایقان رہا ہے۔

مذہب کی طرف منسوب یہ کتابیں کسی خاص عقیدے کے پیروکاروں کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ یہ کتابیں ضابطۂ حیات اور آئینِ زندگی ہیں۔ یہ آداب ِ زندگی سکھاتی ہیں، طرزِ معاشرت کے بارے میں بتاتی ہیں، حیات و کائنات کے تعلق سے جو نظریے اور فلسفے ہیں ان سے آگاہ کرتی ہیں۔ ان میں اخلاقی، تعلیمات اور ہدایات ہیں۔

یہ مکمل طور پر اخلاقی افکار و اقدار پر مبنی ہیں۔ الگ الگ مذاہب کی کتابوں میں فروعی اختلاف ہوسکتے ہیں مگر بنیادی طور پر یہ تمام کتابیں ایک ہی منزل تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ راستے الگ الگ سہی مگر منزلِ مقصود ایک ہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہندومت اور اسلام کے مابین مشترکہ عناصر موجود ہیں۔ ہندو مسلم تصورات اور روحانی روایات میں ہم آہنگی ہے۔ اس کا ثبوت بہت ساری کتابوں میں ملتا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین صحیح معنوں میں مرج البحرین یعنی دو سمندروں کا سنگم ہے۔ یہ دونوں وشال اور عظیم سمندر ہیں جو ہندومت اور اسلام سے منسوب ہیں۔ مغل شہزادہ داراشکوہ نے اسی سنگم کا خواب دیکھا تھا جو سیاسی چقپلش اور مذہب شدت پسندی اور غیرمفاہمانہ اور غیرروادارانہ رویے کی وجہ سے شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔