ہندو-مسلم اتحاد: ملک کی شناخت ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 09-10-2021
ہندو-مسلم اتحاد: ملک کی شناخت ہے
ہندو-مسلم اتحاد: ملک کی شناخت ہے

 

 

سندیش تیواری / کانپور

اگروسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ مذہب آپس میں امتیازی سلوک کا روا نہیں ہے۔ ہندوستان کے اندر ہندو مسلم برادرانہ ثقافت کی مضبوط مثالیں ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں۔

یہ وہ مثالیں ہیں جو ہندو-مسلم اتحاد کی تاریخ قائم کرتی ہیں۔ انہی مثالوں کی وجہ سے ہرجگہ ہندو مسلم اتحاد کی تعریف کی جاتی ہے۔

اگرآنے والی نسلیں ان مثالوں اور بھائی چارہ کے اس روپ کو بھول جائیں تو وہ اپنا خود ہی نقصان کریں گی۔

ہندونصوص لوگوں کو سماجی استحکام کے ذریعے الگ کرتے ہیں جب کہ اسلامی نصوص ایسا نہیں ہے۔

مسلمانوں کے73فرقوں میں تقسیم ہونا جو کہ اسلام کے طریقوں کی بنیاد پرنہیں ہے۔ان کے روایتی طریقوں میں فرق ہے کیونکہ روایت جغرافیہ کے مطابق مختلف ہوتی ہیں لیکن روحانی طور پر تمام مسلمان ایک جیسے ہیں۔

اتحاد کی یہی تصورات ہندوستان کے دیہی علاقوں کے ہندوؤں اور مسلمان دونوں کے دلوں میں جگہ بنائے رکھتے ہیں۔

آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کس طرح گاوں کے معصوم ہندو اور مسلمان اتحاد کے لیے دسہرہ، رام لیلا اور تعزیہ کا اسٹیج شیئر کرتے ہیں۔
یہ کہنا بہت آسان ہے لیکن ہندوؤں اور مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کے لیے ان خوبصورت مثال اور مشترکہ ورثہ کا دوبارہ ملنا تھوڑا مشکل ہے۔

ہندوستانی ثقافت سےمسلم یا اسلام کو ہٹانے کا مطلب ملک کو ثقافتی طور پر تباہ کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید دورمیں، صرف ایک ایسا نظریہ جو ثقافت کو بچانے کے لیے کام کر رہا ہے وہ اسلام ہے۔

اسلام میں بربریت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ 'باہمی تعاون اور مشترکہ ثقافت' کا ایک اہم عنصر ہندو مسلم بھائی چارہ ہے۔

ہندو-مسلم اتحاد دراصل ہندوستانی ثقافت کی روح کے اختلاط اور اس ملاپ کے دوہرے عمل میں تشکیل دی گئی ہے۔ یہ ثقافت کے مفاہمت کے تصور کا مرکزی نقطہ ہے۔

امام حسین پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے۔ انہوں نے اسلام اور انسانیت کی حفاظت کے لیے اپنے خاندان اور دوستوں کو قربان کر دیا۔

اس شہادت کی یاد میں شیعہ مسلمان تعزیہ نکالتے ہیں۔ یہ تعزیعےان شہیدوں کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تعزیہ جلوس میں نکالا جاتا ہے اور پھر اسے علامتی طور پر دفن کیا جاتا ہے۔

امام حسین کا مقبرہ عراق میں ہے۔ محرم دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے دکھ کا مہینہ ہے۔ 10 محرم کو یوم عاشورہ  کہلاتا ہے۔یہ امام حسین کی بہادر قربانی کو یاد کرنے کا دن ہے۔

ایسی مشترکہ ثقافت پر مسلمان بھائیوں کی قربانی کی مثال آپ کو آج بھی ہندوستان کے دیہات میں ملے گی۔

ہم یہاں ریاست اترپردیش کے ضلع کانپور سے متصل کتھارا گاؤں کی بات کر رہے ہیں۔ یہاں تقریبا 1600 ہندو اور ساڑھ پانچ سومسلمان آباد ہیں۔

اس گاوں میں ہر رام لیلا کا تہوار دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ یہاں ایک بارایسا ہواکہ محرم کےیوم عاشورہ کی وجہ سے سیکورٹی کے حوالے سے پولیس کے سامنے کئی سوالات کھڑے ہو گئے تھے۔  

ماتمی جلوس نکالنے والے اور تعزیہ اُٹھانے والے محمد تسلیم اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب کہ ایک ہی زمانے میں یوم عاشورہ اور دسہرہ کا تہوار آیا تھا۔

گاؤں کی مسلم آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس انتظامیہ مختلف خدشات کا شکار تھی۔ گاؤں کی ہندو مسلم آبادی بھی تذبذب میں مبتلا تھی،کیوں کہ سبھی کواپنے اپنے تہوار منانے تھے۔

دسہرہ رام لیلا کمیٹی کے رکن انیرودھ سنگھ کا کہنا ہے کہ محرم اور رام لیلا کا اہتمام ان کے گاؤں میں کیا جانا تھا۔ گاؤں والوں سے ہم آہنگی برقرار رکھنے کی توقع کی جا رہی تھی۔ تاہم یہ کس طرح ممکن ہو، یہ بڑا سوال تھا۔ گاوں کے معصوم افراد اس کو لے کر پریشان ہو گئے تھے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قریبی تھانے میں امن کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس میں محمد تسلیم ، حلیم، دل دار خان، عارف، بلوندرسنگھ راٹھور، کمل سنگھ ، انیرودھ سنگھ اور اجے گپتا وغیرہ شریک ہوئے۔

پولیس نے سیکورٹی کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ رام لیلا اور محرم میں امن برقرار رکھنے کی تجاویز پیش کریں کہ دونوں فرقےکےافراد آسانی سے اپنا اپنا تہوار منا سکیں۔

اس کے بعد گاوں کے لوگوں نے بھائی چارہ کی ایک نئی مثال قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھریہ فیصلہ کیا گیا کہ اس باراسٹیج پرتعزیہ لگانے کے بعد رام لیلا شروع کی جائے گی۔ پولیس اہلکاراس فیصلے سے دنگ رہ گئے، لیکن جب کہ ہندواورمسلمانوں کے نمائندوں نے اس پراتفاق کرلیا تو پولیس نے بھی اس طرح سے تہوار منانے کی اجازت دے دی۔

رام للا کو اسٹیج پر لے جانے سے پہلے گاوں کے مسلمان بھائیوں نے تعزیے کے ساتھ پہنچےاورہندوؤں نےان کا استقبال کیا۔اس کے بعد تعزیہ رام لیلا کے اسٹیج پر رکھا گیا، پھر رام لیلا کو اسٹیج پر رکھا گیا۔

اس کے بعد ہندواورمسلمان دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور اپنے اپنے تہواروں کو تزک و احتشام کے ساتھ منایا۔