غوث سیوانی، نئی دہلی
رضوان ملک ،بریلی
جب خدا ایک ہے اور ہندو،مسلم، سکھ، عیسائی سب کا خالق ومالک وہی ہے تو پھر سب کی عبادت گاہ ایک کیوں نہیں؟ آخرکیوں الگ الگ جگہوں پر وہ خدا کو یاد کرنے جاتے ہیں؟ ایک معبود کو مسجدوں، مندروں، چرچوں، گردواروں میں کیوں تقسیم کردیا گیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب ہے بریلی کے عالمگیری گنج نیاٹولہ کی ایک مسجد جسے کچھ لوگ پنڈت جی کی مسجد کہتے ہیں تو کچھ بدھ والی مسجد کہتے ہیں۔ یہاں بدھ کے روز زیادہ ہجوم ہوتا ہے اور سبھی مذاہب کے لوگ آتے ہیں۔ یہاں تک کہ خواتین بھی آتی ہیں۔ یہاں مذہب سے اوپراٹھ کرسبھوں کو آنے کی اجازت ہےاور آتے بھی ہیں۔ یہاں سبھی سرجھکاسکتے ہیں اور اپنے خالق کے سامنے اپنی ضرورتیں پیش کرسکتے ہیں۔ یہاں اقبال کے اس شعر کی تشریح واقعی دیکھنے کو ملتی ہے:
بندہ وصاحب ومحتاج غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
عوام میں مشہور ہے کہ بدھ والی مسجد کو عرصہ قبل پنڈت داسی رام نے تعمیر کرایا تھا ،کہاجاتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں سے چندہ جمع کرکے اپنی نگرانی میں مسجد کا کام کرایا۔ تب سے اب تک صرف پنڈت داسی رام کی اولاد ہی اس مسجد کی دیکھ بھال کی ذمہ دار رہی ہے۔ ابتدامیں مسجد کے مقام پر چبوترہ تھا جسے انھوں نے عمارت کی شکل دیا۔ بدھ کے روز ہندو اور مسلمان سمیت تمام مذاہب کے لوگ باہمی بھائی چارے کے فروغ کی غرض سے بڑی تعداد میں اس مسجد میں پہنچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسجد کو بدھ والی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔
پنڈت جی کی مسجد کا اندرونی منظر اور موذن
اس پورے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے مسجد کے امام حافظ جان عالم کہتے ہیں کہ مسجد صدیوں پرانی ہے مگر پنڈت داسی رام نے اس کی تعمیر نو کرائی تھی۔انہیں بتایا گیا تھا کہ مسجد کی تعمیر صرف مسلمانوں کے پیسے سے، مسلمانوں کی زمین پر ہی ہوسکتی ہے تو انہوں نے مسلمانوں کے بیچ گھوم گھوم کر چندہ اکٹھا کیا اور اپنی نگرانی میں اس کی تعمیر کا کام کرایا۔
جب اولاد کی منت پوری ہوئی
بدھ والی مسجد نیا ٹولا محلہ بریلی(اترپردیش) میں واقع ہے اور اس وقت بھی مسجد کی چابی پنڈت داسی رام کی اولاد کے پاس رہتی ہے۔ ان کی اولاد سے پنڈت راجندر کمار تھے جو مسجد کی دیکھ بھال میں سرگرم حصہ لیا کرتے تھے مگر چند مہینے قبل ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد بھی ان کے اہل خانہ مسجد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
گلی میں آمنے سامنے ہیں مسجد اور مندر
پنڈت راجندر کمار کی پرانی ویڈیو موجود ہیں جن میں انہیں کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ان کے جدامجد پنڈت داسی رام کو کوئی اولاد نہیں تھی ، جس کے بعد انہوں نے منت مانی کہ اگر ان کے گھر کوئی بچہ ہوا تو وہ مسجد تعمیر کروائیںگے۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور اللہ نے انھیں بچے کی خوشی عطافرمائی۔ اس کے بعد پنڈت جی نے اس مسجدکی عمارت کو تعمیرکروایا۔ راجندر کمار بتاتے ہیں کہ ان سے پہلے ان کے والد پنڈت دوارکا پرساد، اس مسجد کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اب وہ اسے سنبھال رہے ہیں۔
پنڈت راجندر کمار نے اس ویڈیو میں مزید بتایا تھا کہ پتاجی کے بعد اب ان کا کنبہ اس مسجد کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ مسجد کی کنجی انھیں کے پاس رہتی ہے۔ مسجد کے امام حافظ جان عالم خاں ثقلینی آوازدی وائس سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’آنجہانی پنڈت راجندر کمار صبح کے وقت مسجد کا تالا کھول دیتے تھے اور وہی اس کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مسجدکی ایک چابی اب بھی پنڈت جی کے اہل خانہ کے پاس رہتی ہے اور دوسری میرے پاس ہوتی ہے۔ اگر کسی وقت کوئی شخص مسجد آئے اور دروازہ بند ملے تو وہ پنڈت جی کے گھر سے چابی لے کر مسجد میں آجاتا ہے۔‘
اگرچہ مسجد میں روزانہ نمازہوتی ہے ، لیکن بدھ کے روز نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں دوسرے لوگ بھی مسجد آتے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو،سکھ وغیرہ بھی ہوتے ہیں اور اپنی منتیں، مرادیں اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔
مسجد میں دعا کے لیے آتے ہیں ہر مذہب کے لوگ
مسجد کے موجودہ منتظم سنجے کمار شرما بتاتے ہیں کہ مسجد میں بدھ کے روز زیادہ ہجوم ہوتاہے۔ لوگ یہاں پرارتھنا اور منتوں کے لئے آتے ہیں۔ یہاں آنے والوں میں سبھی فرقوں سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں مسجد کے قریب ہی مندر بھی ہے اور مندر آنے والے ،بھی مسجدآکر نمن کرتے ہیں۔یہی ہماری گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے۔
پنڈت راجندرکمارکو پرانی ویڈیو میں کہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہےکہ ان کے جدامجدنے مسجدبنوائی تھی۔ تب ہندو،مسلمان میں تفریق نہیں تھی۔ انھوں نے مدرسے سے تعلیم پائی تھی اور ہندی کے بجائے اردولکھتے،پڑھتے اور بولتے تھے۔
خواتین بھی آتی ہیں مسجد
ہندوستان کی بہت کم مسجدوں میں خواتین آتی ہیں مگربدھ والی مسجد میں خواتین کی آمد کا سلسلہ بلاروک ٹوک جاری ہے۔ وہ یہاں نمازپڑھتی ہیں،دعائیں مانگتی ہیں۔ یہاں آنے والی خواتین میں ایک نسیمہ بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ ڈیڑھ مہینہ سے یہاں آتی ہیں۔ انھوں نے اللہ سے جو بھی مانگاہے،دعاقبول ہوئی ہے۔ وہ مانتی ہیں کہ یہاں مانگی جانے والی منتیں اللہ کی جانب سے پوری ہوتی ہیں۔
پنڈت جی کی مسجد میں خواتین کے لیے بھی نماز اور عبادت کا انتظام ہے
اصل میں پنڈت جی کی جب بیٹا پانے کی مراد پوری ہوئی،اس کے بعد سے لوگوں کو لگنے لگا کہ یہاں مانی گئی منتیں پوری ہوتی ہیں لہذا ہندو،مسلمان سب یہاں منتیں ماننے آنے لگے۔ ایسے ہی لوگوں میں عبد اللہ بھی شامل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں تقریباً ڈیڑھ سال سے یہاں آتا ہوں مگر میرے والد اور دادا بہت پہلے سے یہاں آتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے سفر پر جانا ہے اور میں نے یہاں دعا کی ہے کہ اللہ میرا سفر کامیاب فرمائے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ دوسال بعد میری واپسی ہوگی تب میں پھر یہاں حاضری دینے آئونگا۔
امام مسجدکیاکہتے ہیں؟
مسجدکے امام ہیں،حافظ جان عالم خاں ثقلینی جو بتاتے ہیں کہ وہ تقریباً بیس برسوں سے یہاں امامت کرتے ہیں۔ یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں سبھی مذاہب کے لوگ آتے ہیں جن میں ہندواور سکھ بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجدکے برابر میں مندر بھی ہے،مگر سب کچھ خوشگوار طریقے سے چل رہا ہے۔یہاں کے معاملات قومی ایکتا کی مثال ہیں۔
سرداراندرجیت سنگھ بتاتے ہیں کہ وہ گردوارے کے گرنتھی ہیں،ان کا سکھ مت سے تعلق ہے مگر پھر بھی وہ مسجد میں آتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں۔
مسجد کی تعمیر کرنے والے پنڈت داسی رام کی اولاد سے ہیں پنڈت راجندر کمار شرما تھے جو اس کی دیکھ بھال کرتے تھے لیکن وہ گزشتہ سال اکتوبر میں انتقال کر گئے۔اس کے بعد ان کے بیٹے سنجے کمار شرما مسجد کے ذمہ دار ہیں۔ سنجے شرما نے بتایا کہ ان کےجدامجد پنڈت داسی رام کی کوئی اولاد نہیں تھی جس کے بعد انہوں نے دعا کی تھی کہ بچہ پیدا ہونے پر مسجد تعمیر کروائیں گے۔ جب دعا قبول ہوئی اور انہیں بیٹے کی خوشی ملی تو انہوں نے یہ مسجد بنوائی۔
مسجد کی چھت سے مندر کا نظارہ
داسی رام کے بعد پنڈت دواریکا پرساد اور پھر پنڈت راجندر پرساد نے مسجد کی دیکھ بھال کی۔ اب سنجے کمار شرما، خاندان کی چوتھی نسل ہیں جو اس مسجد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ شرما آوازدی وائس سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ میرے جدامجد نے مسجد بنوائی تھی۔ میں نے اپنے والد کو مسجد کی دیکھ بھال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب میں مسجد کا ذمہ دار ہوں مگر میں کاروباری ہوں اور ٹائم نہیں ملتا ہے کہ مسجد کی خدمت کروں۔ البتہ یہاں کچھ بھی نیا کام ہوتا ہے یا تعمیری کام ہوتا ہے تو مجھ سے پوچھا جاتاہے اور میری اجازت سے انجام پاتاہے۔