حضرت معین الدین چشتیؒ کی چوکھٹ،ہر دور میں رہی حکمرانوں کی حاضری کا مرکز

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 13-01-2024
حضرت معین الدین چشتیؒ کی چوکھٹ،ہر دور میں رہی  حکمرانوں کی حاضری کا مرکز
حضرت معین الدین چشتیؒ کی چوکھٹ،ہر دور میں رہی حکمرانوں کی حاضری کا مرکز

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس 

میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک آدمی اپنی قبر میں بھی کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں اور دلوں پر راج کر رہا ہے ۔۔۔۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے بارے میں ان تاثرات کا اظہار ہندوستان میں برطانیہ کے مشہور وائسرائے لارڈ کرزن نے کیا تھا جب وہ اجمیر میں صوفی بزرگ کی درگاہ پر گئے تھے۔ان کا خراج عقیدت کوئی افسانوی نہیں تھا بلکہ اس کی ایک تاریخ ہے۔ضخیم تاریخ ہے ۔بات وائسرائے کی نہیں بلکہ اس ملک پر جس نے بھی حکمرانی کی وہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دینے آیا، دبے پیر سر جھکا کر آیا اور جھکی نظروں کے ساتھ دعا کرکے سر جھکا کر چلا گیا۔ ماضی کا کوئی بادشاہ ہو یا شہنشاہ ۔ سلاطین ہوں یا وزرا ۔اس دور کا جمہوری حکومت کا سربراہ ہو یا صدر۔اسٹار ہو یا سپر اسٹار ۔۔جو بھی آتا ہے مراد لے کر آتا ہے، کچھ مانگ کر جاتا ہے ۔ یہی ہے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی درگاہ کی روایت،جو ان کے اس دنیا سے رخصت ہوئے قریباً آٹھ سوسال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی قائم ہے ۔ان کا آستانہ اور درگاہِ آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔ جہاں دنیا بھر کے امیر و غریب اور سربراہانِ مملکت حاضری دے کر روحانی سکون اور فیض حاصل کرتے ہیں۔ ذیل میں آپ کی بارگاہ میں نے جو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے

 خواجہ معین الدین چشتی کی وفات 1236 میں ہوئی۔ ان کا مقبرہ (درگاہ) خواجہ معین الدین چشتی اجمیر شریف درگاہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ان کے عقیدت مندوں کے لیے انتہائی قابل احترام مقام ہے۔ التمش،شہنشاہ اکبر، رضیہ سلطانہ، جہانگیر، شاہ جہاں، اورنگزیب وغیرہ جیسے مغل بادشاہوں نے درگاہ پر باقاعدگی کے ساتھ حاضری دی تھی۔۔درگاہ اجمیر شریف پر چادر چڑھانے کی روایت گزشتہ آٹھ سو سالوں سے جاری ہے، کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے سلطان التمش نے یہاں چادر چڑھائی، مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے جاہ و جلال کے سامنے پورا ہندوستان سرنگوں تھا لیکن وہ خود خواجہ غریب نواز کے در پرفقیروں کی مانند حاضری دیتاتھا-برصغیر پر جب انگریزقابض ہوئے تووہ بھی خواجہ غریب نواز کے روبرو پیش ہوتے، ملکہ برطانیہ ہر سال باقاعدگی سے درگاہ پر چادر چڑھانے کیلئے بھیجا کرتی تھیں۔جبکہ آزادی کے بعد تو حاضری کی روایت میں مزید مضبوطی آگئی۔awazurdu

درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ


 خواجہ معین الدین چشتی ؒ سے شاہی ملاقاتیں

خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی درگاہ دنیا کے نامی گرامی ہستیوں کی حاضری کی ایک ضخیم تاریخ رکھتی ہے،یہ سلسلہ دراصل سلطان شمس الدین التمش پہلے متلاشی تھے جنہوں نے روحانی طالب علم بن کر 1332 میں مقدس صوفی مزار اجمیر شریف کی مشہور زیارت کی تاکہ مقدس یاد کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمات کا تجربہ بھی کیا جا سکے۔

اگر بات کریں  خواجہ معین الدین چشتی کی زندگی میں کسی بادشاہ کی حاضری اور ملاقات کی تو اس کا اعزاز سلطان شهاب الدين غوری کو حاصل رہا ۔ ۔سلطان غوری 1192 میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دینے کے بعد اجمیر گیا اور خواجہ معین الدین چشتی سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت خواجہ معرین الدین چشتیؒ  کے دست حق پر بیعت بھی کی۔ (افاضات حمید صفحہ 14-13اور  ( آتش کده آزر - صفر 367)۔

محمد حفظ الرحمن نے اپنی کتاب سلطان الہند : خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ اور اجمیر کے آثار قدیمہ میں لکھا ہے کہ ۔۔یہ نیک متقی پرہیز گار سلطان خواجہ غریب نواز سے عقیدت رکھتا تھا ۔ حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر بھی ہوا۔ جب خواجہ غریب نواز اپنے خلیفہ قطب الدین بختیار کا کی سےملنے دہلی آئے تو سلطان دہلی سے باہر پہنچ کر ان کا خیر مقدم کیا اور ان کا استقبال کیا اور دہلی سےلوٹتے وقت ان کے ساتھ پیدل گیا۔ آپ سے تعلیم معرفت بھی حاصل کی۔ اور آپ کی عقیدت میں ڈھائی دن کے جھونپڑے کے نام سے اجمیر میں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی جو آج بھی اپنی صحیح صورت حال پر قائم ہے۔

شاہی حاضریوں کا آغاز 

سلطان ظفر خان سلطان گجرات کی حاضری

تاریخ بتاتی ہے کہ  جب سلطان فیروز شاہ کی وفات کے بعد اس کا فرزند سلطان محمد شاہ تخت نشین ہوا۔ گجرات کے حالات کے مد نظر سلطان نے گجرات کی حکومت اپنے ایک امیر اعظم ۔ ہمایوں ظفر خاں کو عطا کی۔ جس نے  1395 میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دی تھی اور ایک جنگ میں فتح کی دعا کی تھی۔ بعدازاں ظفر خاں نے اپنے نام کا خطبہ و سکہ جاری کر کے اپنے کو مظفر شاہ کے نام سے موسوم کیا اور سلطنت گجرات کا بانی کہلایا۔ معین الارواح - صفحہ 315-316 ۔۔۔ اس کے بعد سلطان محمود خلجی سلطان مانڈونے1464میں اجمیر کی درگاہ پرحاضری دی تھی۔ساتھ ہی مسجد صندل خانہ تعمیر کرائی ۔ مزار مبارک کے خدام اور مجاوروں کو انعام واکرام سے بھی نوازا تھا

شیرشاه سوری کی حاضری

اجمیر ہسٹوریکل اینڈ ڈسکرٹو (بحوالہ تاریخ داودی ۔ صفحہ 316 ) کے مطابق شیر شاہ نے راجہ مالدیو ( حاکم مارواز ) کو شکست دی۔جس کے بعد 1544 میں درگاہ خواجہ معین الدین چشتی کی زیارت کے لیے اجمیر حاضر ہوا ۔ایک بڑی رقم فقراء کو تقسیم کی ۔اس کے بعد وہ تفریح کے لیے تا راہ گڑھ پر گیا۔ چونکہ قلعہ میں پانی کی کمی تھی اس لیے اس نے معمار مقرر کئے اور چشمہ حافظہ جمال سے قلعہ میں پانی پہنچانے کا بندو بست کیا اور اس کا نام شیر چشمہ رکھا۔

 مغل شہنشاہ جلال الدين محمد اكبر کی حاضری
ہم مغل خاندان کے دور حکومت کو کہیں نہ کہیں شہنشاہ اکبرکے انصاف سے جلال تک جانتے ہیں لیکن اس کے پیچھے ایک اور کہانی پوشیدہ ہے جو شہنشاہ اکبر کے صوفی بزرگ سے لگاو اور عقیدت کی ہے۔ اکبر ایک ایسا مغل تھا جس نے بار بار اجمیر شریش کا رخ کیا۔ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دی ۔یہ سلسلہ اتنا طویل رہا کہ اس کی بھی الگ سے ایک تاریخ رقم کی جاسکتی ہے ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اکبر نے تیرہ بار خواجہ غریب نواز کی درگاہ میں عقیدت کے ساتھ حاضریاں دی۔ اقبال نامہ اکبری کے مطابق اکبر نے پہلی مرتبہ 1561میں اجمیر کا رخ کیا تھا جب اس نے شکار مہم کے دوران صوفی بزرگ کے بارے میں بہت کچھ سنا تو وہ اپنے چند ساتھیوں کو لے کر اجمیر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر اس نے رونہ غریب نواز کی زیارت کی۔ اس کے بعد آگرہ روانہ ہو گیا۔دوسری مرتبہ 1567 میں اکبر نے قلعہ چتوڑ فتح کرنے کا ارادہ کیا اور یہ منت مانی کی اگر قلعہ فتح ہو گیا تو میں پیدل چل کر حضرت خواجہ معین الدین کے روضہ کی زیارت کے لیے اجمیر جاؤں گا۔ چنانچہ فتح کے بعد 1567 میں وہ پیدل اجمیر روانہ ہوا۔ اجمیر پہنچ کر زیارت کی اور دس دن قیام کیا۔ پھر آگرہ روانہ ہو گیا۔ (اقبال نامہ اکبری صفحہ  172اکبرنامه جلد دوم صفی 308-309) تیسری مرتبہ 1568 میں اکبر قلعہ رتھمبوڑ فتح کرنے کے بعد اجمیر شریف حاضر ہوا۔ ۔۔۔ اقبال نام اکبری صفحہ 172-209۔۔۔
چوتھی مرتبہ اکبر نے منت مانی تھی کہ اگر میرالڑکا ہوگا تو حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے آستانہ پر پیدل چل کر حاضر ہوں گا۔ چنانچہ 1569 میں حضرت شیخ سلیم الدین چشتی کے مکان پر فتح پور سیکری میں جہانگیر پیدا ہوا تو اکبر آگرہ سے زیارت کے لئے اجمیر گیا اور وہاں چند روز رہا۔ مجاروں کو بہت رو پے تقسیم کئے۔ پانچویں مرتبہ 1570 میں اکبر کے یہاں دوسرا بیٹا پیدا ہوا۔ بادشاہ نے اس کا نام محمد مراد رکھا،ساتھ ہی اس سال بھی بادشاہ نے اجمیر شریف کا سفر کیا۔ اس کے بعد چھٹی مرتبہ 1571 میں،ساتویں مرتبہ 1572میں،آٹھویں مرتبہ 1573 میں ،نویں مرتبہ 1574 میں،دسویں مرتبہ 1576 میں،گیارہون مرتبہ 1577میں ،بارھویں مرتبہ 1579میں اور تیرھویں مرتبہ 1580 میں اکبر اجمیر میں خواجہ غریب نواز کے مزار پر حاضر ہوا تھا
 دیگر مغل حاضریاں
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شہنشاہ اکبر نے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کی زیارت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا۔ جبکہ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کے بعد یہ سلسلہ بھی جاری رہا۔  تزک جہانگیری کے مطابق نورالدین جہاں گیر تخت نشین ہونے کے آٹھویں سال 1022 میں اجمیر آیا جب شہر اجمیر کے آثار نظر آنے لگے تو وہ پیدل درگاہ شریف تک پہنچا 1025 میں اس نے  چھوٹی دیگ بھی بنوائی جو آج بھی موجود ہے ۔
 شاہِ جہاں نے اپنے 21 سالہ دورِ حکومت میں پانچ بار حاضری دی اور روضۂ مبارک سے لگ کر سنگ مرمر کی عالیشان مسجد تعمیر کروائی۔ مسجد کی تعمیر پر اس زمانے میں دو لاکھ چالیس ہزار روپے خرچ ہوئے۔
شاہِ جہاں کی لاڈلی بیٹی جہاں آرا بیگم کو حضر ت خواجہ سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا وہ رمضان 1053 میں اپنے والد کے ساتھ اجمیر آئی، جہاں آرا نے ایک دالان تعمیر کروایا جو ’’بیگمی دالان ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگوں کے تذکرے پر مبنی ایک کتاب ’’مونس الارواح‘‘ کے نام سے لکھی جس سے جہاں آرا بیگم کے علمی ذوق اور تصوف و معرفت کے علاوہ حضرت خواجہ سے گہری عقیدت و محبت کا پتا چلتا ہے۔
شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر بھی متعدد مرتبہ اجمیر حاضر ہوئے ان کا معمول تھا کہ وہ اپنی قیام گاہ سے پیدل درگاہ تک آتے تھے۔ اورنگ زیب نے سلطان محمود کی بنوائی ہوئی مسجد کی توسیع کی۔
awazurdu

  برطانیہ کے وائسرائے لارڈ کرزن نے اجمیر کی درگاہ پر حاضری دی تو اس روحانیت کو محسوس کیا جو کروڑوں مرید وں کے لیے مشعل راہ رہی 


 انگریزوں کا دور

برصغیر پر جب انگریزقابض ہوئے تووہ بھی خواجہ غریب نواز کے روبرو پیش ہوتے، ملکہ برطانیہ ہر سال باقاعدگی سے درگاہ پر چادر چڑھانے کیلئے بھیجا کرتی تھیں۔ اس وقت کے وائسرائے لارڈ کرزن یہ ذمہ داری ادا کیا کرتے تھے۔وائسرائے لارڈ کرزن نے 1902 میں اجمیر کی درگاہ پر حاضری دی تھی۔ جس کے بعد انہوں نے لکھا تھا کہ  ۔۔ میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسا بزرگ دیکھا ہے جو اپنی وفات کے بعد بھی ہندوستانیوں کے دِلوں پر راج کرتا ہے ، سابق وائسرائے ہند نے انگریزی دورِ حکومت میں اجمیر آیا تھا اور اپنے تاثرات کا یوں اظہار کیا کہ ۔۔۔میں نے دیکھا کہ ہندوستان میں ایک قبر حکومت کر رہی ہے۔۔۔

یاد رہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعدمقدس درگاہ کو درگاہ خواجہ صاحب ایکٹ 1955 کے تحت راجستھان حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا۔

سال 1912میں 16 اکتوبر کو حیدرآباد دکن  کےمیرعثمان علی خاں اجمیر آئے اور ایک گیٹ تعمیر کرایا جسے ’نظام گیٹ ‘کہا جاتا ہے۔ اس کی بلندی 70 فٹ اور چوڑائی 16 فٹ ہے
خواجہ معین الدین چشتی  کے مریدوں میں ایک نام مہاراج گوبند سنگھ کا بھی ہے۔ جن کو انگریزوں نے اجمیر میں قید کررکھا تھا لیکن مزارشریف پر حاضری کے دوران اپنی ریاست کی بحالی کی دعا کی تھی اور با مراد ہوئے۔انگریزوں نے ان کی ریاست انہیں واپس کردی تھی
آپ کو حیرت ہوگی کہ بابائے قوم مہاتما  گاندھی  نے 1920 میں  دربارِ خواجہ میں حاضری دی تھی اور کہا تھا کہ  یہاں آ کر میری روح کو بڑا چین ملا ہے۔ افسوس خواجہ صاحب کی زندگی کو آدرش نہیں بنایا گیا انھوں نے روح کی روشنی کو باقی رکھنے کے لیے جو پیغام دیا اسے کوئی نہیں سنتا۔ انھوں نے سچائی کے ہتھیاروں سے لوگوں کا دل جیت لیا ان کی زندگی عدم تشدد کا صاف مظہر تھی۔
awazurdu
سابق وزرا اعظم اندرا گاندھی،راہل گاندھی اور تیسری نسل راہل گاندھی اجمیر کی درگاہ پر
 
awazurdu

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور پاکستان کی سابق وزیر اعظمم مرحومہ بے نظیر بھٹو اجمیر کی درگاہ پر حاضری دیتے ہوئے


awazurdu

ہندوستانی سیاستداں اجمیر میں عرس کے موقع پرعقیدت کی چادر بھیجتے ہیں ۔ تصویر میں کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی اور وزیر اعظمم نریندر مودی چادروں کے ساتھ


آزادی کے بعد

ملک کی تقسیم اور آزادی کے بعد بھی اجمیر شریف کی اہمیت برقرار رہی بلکہ اس میں اضافہ ہوا کیونکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد ان کے عقیدت مند کبھی کبھی سرحدوں کے بند ہونے کے باوجود حاضری کا شرف حاصل کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کسی بھی ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات جیسے بھی ہوں لیکن جب بات اجمیر شریف کی زیارت کی ہوتی ہے تو پھر ہر رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے یا ختم کردی جاتی ہے۔ عقیدت مندوں کے لیے برے سے برے سفارتی یا سیاسی ماحول میں بھی سرحد بند نہیں کی جاتی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں یوں تو مختلف سیاسی جماعتوں کے متعدد سیاستدانوں نے حاضری دی ہے یہی نہیں بڑی سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس اور بی جے پی کے مابین تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود درگاہ اجمیر شریف پر چادر چڑھانےپر مکمل اتفاق رہا ہے۔ساتھ ہی سابق صدور ہوں یا وزرا اعظم یا غیر ملکی مہمان سب کا اجمیر شریف میں حاضر ہونے کا سلسلہ جاری ہے

ڈاکٹر راجندر پرشاد سابق صدر جمہوریۂ ہند نے1951میں زیارت کی تھی اور کہا تھا کہ خواجہ کی زندگی روشنی کا مینارہ  تھی جس نے دور دور تک اجالا پھیلا دیا یہ روشنی دلوں میں اس طرح اتر گئی اور پوری دنیا کو جگمگا دیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔جواہر لعل نہرو ،اندرا گاندھی، ڈاکٹر ذاکر حسین، چندر شیکھر، گیانی ذیل سنگھ، واجپائی، وی پی سنگھ، بنگلہ دیش کے جنرل ارشاد، پاکستان کی نظیر بھٹو، فوجی حکمراں جنرل ضیا الحق اور  جنرل پرویز مشرف،سابق وزیر اعظم آصف زرداری، سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی ماضی میں درگاہ اجمیر شریف کا دورہ کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے بارے میں مشہور ہے کہ جب آصف زرداری جیل میں قید تھے تو انہوں نے اجمیر شریف آکر رہائی کی منت مانی تھی اور جب زرداری صاحب کو رہائی نصیب ہوئی تو محترمہ انہیں لیکر یہاں آئیں۔ راجیو گاندھی نے 2؍ مئی 1991 کو اجمیر میں حاضری کے وقت کہا کہ اجمیر میں درگاہِ غریب نواز پر آ کر میں نے قلبی سکون محسوس کیا ہے۔

پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے حکمرانوں کی جانب سے بھی مقدس درگاہ کیلئے چادر بھیجی جاتی ہے، امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دور اقتدار میں خواجہ معین الدین چشتی کے عرس کے موقع پر خصوصی طور پر درگاہ کیلئے چادر بھیجی، یہ کسی بھی جنوبی ایشیا سے باہر کے سربراہ حکومت کی طرف سے پہلا نذرانہ عقیدت تھا