گوپی چند نارنگ:اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-06-2022
گوپی چند نارنگ:اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
گوپی چند نارنگ:اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

 


پروفیسر خالد محمود، نئی دہلی

 کئی برس پہلے میں نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں نارنگ صاحب کی شخصیت کے تعلق سے ایک تاثراتی مضمون تحریر کیا تھا، جس کا عنوان تھا ”صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے“۔ آج جب نارنگ صاحب کے انتقال کی خبر ملی تو اپنا وہ مضمون بھی یاد آگیا۔ تلاش کرکے پڑھا تو محسوس ہوا کہ ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی نارنگ صاحب کے بارے میں میرے جذبات و احساسات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ جی چاہا کہ اپنے تاثرات و مشاہدات کو مرحوم کے چاہنے والوں میں بھی تقسیم کیا جائے۔ اس خیال کے تحت غیرمتعلق باتوں کو حذف کرتے ہوئے اپنے مضمون کا خلاصہ پیش کر رہا ہوں۔

20 فروری2008ء کو پروفیسر گوپی چند نارگ، ساہتیہ اکادمی کے عہدہئ صدارت سے سبکدوش ہوگئے۔ اب اس وقت جب کہ وہ کسی عہدہ پر فائز نہیں ہیں ان پر اپنے تاثرات قلم بند کرنے میں زیادہ لطف آرہا ہے۔ نارنگ صاحب جب الیکشن میں کامیاب ہوکر اس   منصبِ جلیلہ پر فائز ہوئے تھے تو جن عالی مرتبت ہستیوں نے انھیں مبارک باد دی تھی ان میں قرۃ العین حیدر، پروفیسر قمر رئیس اور جناب شمس الرحمٰن فاروقی کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ فاروقی صاحب نے شب خون کے شمارہ نمبر 562 میں نہایت فراخ دلی کے ساتھ تحریر فرمایا تھا:

تمام دنیا کے اردو کے ادبی حلقوں میں یہ خبر انتہائی مسرت سے سنی جائے گی کہ اردو کے معروف دانشور، مفکر،  ماہرِ لسانیات، نقاد اور اردو کی خدمت میں ہمیشہ سینہ سپر رہنے والے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو بھاری اکثریت سے ساہتیہ اکادمی کا صدر منتخب کیا گیا ہے۔ اردو کے کسی ادیب کا ایسے بین اللسانی قومی ادارے کا سربراہ منتخب ہونا اس توقیر کی بھی دلیل ہے جو اردو کو ہمارے معاشرے میں حاصل ہے۔ ہم اپنے دوست کو اس کامیابی پر مبارک باد دیتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ان کے زمانہ انتظام میں ساہتیہ اکادمی کا رشتہ اردو سے اور بھی استوار ہوگا۔

نارنگ صاحب کے صدارتی عہد میں ساہتیہ اکادمی نے فاروقی صاحب کی توقعات کے عین مطابق غیرمعمولی ترقی کی۔ ہم جیسے بہت سے اردو والوں نے پہلی مرتبہ ساہتیہ اکادمی کو اتنے قریب سے دیکھا۔ اس دورانیہ میں ساہتیہ اکادمی نے اردو کے اتنے پروگرام منعقد کیے کہ نارنگ صاحب کے بعض ”خیر خواہوں“ کو ساہتیہ اکادمی پر اردو اکادمی کا گمان گزرنے لگا۔ 2004ء میں ساہتیہ اکادمی کے جشن زریں کے موقع پر ایک دلچسپ منظر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس جشن کا افتتاح وزیر اعظم جناب منموہن سنگھ نے فرمایا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ اردو والوں کی کثیر تعداد ہال میں موجود ہے۔

ساہتیہ اکادمی کے کسی پروگرام میں بیک وقت اتنے اردو والے اس سے قبل شاید ہی کبھی دیکھے گئے ہوں۔ نارنگ صاحب نے حسب معمول شاندار استقبالیہ تقریر کی اور حسب عادت کئی اردو اشعار پڑھے جن میں اقبال کے شعر بھی شامل تھے۔ اس کے بعد تو اقبال کے شعروں کی جھڑی سی لگ گئی۔ ساہتیہ اکادمی کے سکریٹری صاحب اور وزیر اطلاعات و نشریات جے پال ریڈی صاحب بھی اپنے اپنے لہجے میں اقبال کے اشعار پڑھ رہے تھے۔ ہمارے وزیر اعظم تو اقبال کے شیدائی ہیں اور حافظہ بھی غیرمعمولی پایا ہے۔ چناں چہ انھوں نے اپنی تقریر کو ہمیشہ کی طرح اقبال کے اشعار سے سجایا سنوارا اور معنی خیز بنایا۔ ہمارے پیچھے جو حضرات تشریف فرما تھے، ان میں سے کسی ایک کی آواز آئی ”یہ ساہتیہ اکادمی کا جشن زریں ہے یا اقبال ڈے منایا جارہا ہے۔“ ساہتیہ اکادمی میں اردو کا یہ بول بالا نارنگ صاحب کے دم سے ہی ممکن ہوسکا۔

نارنگ صاحب کے عہد میں مکمل کیے گئے اور آغاز کیے گئے تمام کاموں اور ان کی تحقیقی، تنقیدی اور لسانیاتی فتوحات کا تفصیلی جائزہ اور ان کے انٹرویوز اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں جن کی روشنی میں ان کاموں کی وسعت و اہمیت اور مقدار و معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نارنگ صاحب ساہتیہ اکادمی سے قبل قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ وہ جس ادارے میں رہے ان کی فعال شخصیت نے اس ادارے کو بھی فعال بنا دیا۔

ان کی سلیقہ شعاری، بیدار مغزی اور سخت محنت اور ریاضت نے اردو زبان کو اور اردو کے وسیلے سے خود ان کی ذات کو بہت فائدہ پہنچایا۔ انھیں بھی اس بات کا ادراک و احساس ہے اور وہ کھلے دل سے اس حقیقت کا واشگاف انداز میں اعتراف کرتے ہیں۔ اردو نارنگ صاحب کا عشق ہے۔ یہ عشق انھیں کسی وراثت کے تحت یا ترکے میں نہیں ملا بلکہ اردو کی زلفِ گرہ گیر نے انھیں خود اسیر کیا ہے۔ ان کی تقریر و تحریر کے ایک ایک جملے اور ایک ایک سطر سے ان کے عشق کا اظہار ہوتا ہے اور اسی عشق کی وجہ سے آج وہ اردو دنیا کی مقبول ترین ہستیوں میں شامل ہیں۔

نارنگ صاحب کو کام کرنے اور کام لینے کا جو سلیقہ آتا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔ دوسروں سے کام لینے میں ان کی کامیابی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ جتنا کام دوسروں سے لیتے ہیں اس سے زیادہ خود کرتے ہیں اور کام کرنے والوں کو فراموش بھی نہیں کرتے۔ میں 1967ء میں جامعہ آیا تھا۔ اب اس ادارے میں40سال گزار کر2016ء میں سبکدوش ہوچکا ہوں۔ میری ملازمت کے ابتدائی پندرہ برس جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول میں گزرے اور خوب گزرے۔ یہاں میں اردو پوسٹ گریجویٹ ٹیچر (پی جی ٹی) اور اسلم منزل (ہوسٹل نمبر 2) میں وارڈن تھا۔ جامعہ اس وقت اپنے ٹیچرس کالج، آرٹ انسٹی ٹیوٹ اور اسکولوں کے علاوہ شعبہئ اردو کے حوالے سے پہچانی جاتی تھی۔ یہ مسعود حسین خاں صاحب کی وائس چانسلری کا زمانہ تھا۔ شعبہئ اردو کے سربراہ نارنگ صاحب تھے اور اس کی شہرت نارنگ صاحب کی جہدمسلسل ہی سے  قائم تھی۔

جامعہ اسکول کی ملازمت کے دوران، میں شعبہ اردو برابر آتا جاتا رہا۔ اس طرح نارنگ صاحب کو قریب سے دیکھنے بلکہ ان سے قریب رہنے کا موقع ملا۔ اس وقت تمام لوگ نارنگ صاحب سے قریب رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ نارنگ صاحب جامعہ کی تہذیبی روایت میں پوری طرح رچ بس گئے تھے۔ وہ اس وقت شعبہئ اردو کا سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ وائس چانسلر مسعود حسین خاں صاحب کی آنکھ کا تارا بھی تھے۔

نارنگ صاحب آج بھی عابد صاحب، مجیب صاحب اور مسعود صاحب وغیرہ کا ذکر بڑی محبت اور احسان شناسی کے جذبے سے کرتے ہیں۔ شعبہئ اردو میں آمد و رفت کے دوران میں نے دیکھا کہ نارنگ صاحب بے حد محنت کرتے ہیں۔ وقت کے پابند، صفائی پسند اور دھن کے پکّے ہیں۔ ہر وقت کام میں مصروف رہتے ہیں اور کسی قسم کی بدنظمی، بد سلیقگی اور گندگی برداشت نہیں کرتے۔ میزیں، کرسیاں، کتابیں، فائلیں، کاغذات ساری چیزیں صاف شفاف ہوکر سلیقے سے جمی ہوئی نظر آتیں۔ کوئی چیز ذرا بے قاعدہ ہوئی اور انھیں اختلاج ہوا۔ سلیقہ اور صفائی ان کی فطرت ثانیہ تھی۔

نارنگ صاحب کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کاموں کو صرف دوسروں پر نہیں چھوڑتے، کام بڑا ہو یا چھوٹا ہر کام میں خود بھی شامل رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ شعبے میں کلینڈر لٹکانے کے لیے کیل ٹھونکی جانی تھی۔ یہ میرے سامنے کا واقعہ ہے۔ نارنگ صاحب نے شعبہئ تعمیرات سے ایک شخص کو فون کرکے بلایا۔ پھر پورے کمرے کا جائزہ لینے کے بعد مناسب جگہ کا انتخاب کیا، پھر وہ جگہ کمرے کے عین وسط میں لانے کے لیے فیتے سے بار بار ناپی گئی۔ اس ناپ تول میں نارنگ صاحب خود بھی شریک رہے۔ کبھی فیتے کا سرا پکڑتے، کبھی ہدایتیں دیتے۔ پھر جب کیل ٹھونکی جانے لگی تو ان کے چہرے پر کرب کے آثار پیدا ہوگئے، جیسے کیل شعبہئ اردو کی دیوار پر نہیں ان کے جسم میں ٹھونکی جارہی ہو۔ شعبہئ اردو کو نارنگ صاحب نے اسی طرح پیار سے رکھا جیسے اپنے گھر کو رکھتے ہیں۔

وہ جامعہ میں ڈین بھی رہے اور  قائم مقام وائس چانسلر بھی مگر جہاں بھی رہے اردو کے ہوکر رہے۔ طلبا کی تربیت میں نارنگ صاحب کا طریقہ یہ تھا کہ شعبہ کے ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں انھیں نہ صرف شریک رکھتے بلکہ یہ باور کرا دیتے کہ یہ پروگرام جو انھیں کے لیے ہے صرف انھیں کے دم سے کامیاب ہوسکتا ہے۔ پروگرام کے دوران ان کا خیال رکھتے اور اختتام پر ان کی خدمات کا ذکر کرکے حوصلہ افزائی کرتے۔ چوں کہ میری تعلیم و تربیت بھی کچھ اسی انداز میں ہوئی تھی اس لیے یہ باتیں مجھے اپنی لگیں۔ نارنگ صاحب نے اپنے صدارتی عہد میں جو انٹرنیشنل سیمینار جامعہ میں کرائے تھے، کتابی شکل میں ان کے مضامین محفوظ ہیں اور ان سیمیناروں میں شرکت کرنے والے جامعہ میں موجود ہیں۔

ایسے یادگار اور لاجواب سیمینار کرانے کا اس کے بعد تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ تقریر کرنے اور سیمینار کرانے کا جو سلیقہ قدرت نے نارنگ صاحب کو عطا کیا ہے وہ کسی اور میں نظر نہیں آتا۔ مختلف تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں میرا مجموعی تاثر یہ ہے کہ نارنگ صاحب میں جو انسانی خامیاں اور خرابیاں بیان کی جاتی ہیں وہ کم و بیش تمام اردو والوں کا مقدر ہیں، مگر ان میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں، بیشتر اردو والے ان سے محروم ہیں۔